وہی جواں ہے قبیلےکی آنکھ کا تارا

0

کوئی انسانی گروہ جب ایک طریقِ فکر اور نظریہ حیات کی بنیاد پر اپنے معیارِ امتیاز و انتخاب کو متعین کرتا ہے، تو ایک تہذیب وجود میں آتی ہے۔ تہذیب کی کوکھ سے تمدن نہ صرف جنم لیتا ہے، بلکہ وہیں سے اپنی غذا بھی حاصل کرتا ہے اور ترقی کے راستے بھی تلاش کرتا ہے، اور تمدن کی تعبیر اس طرز زندگی سے ہوتی ہے، جو اس تہذیب کے زیر اثر اختیار کی جائے، جس کے مظاہر اس گروہ کے آداب و اطوار، طرز معاشرت، لٹریچر، فنون لطیفہ وغیرہ ہو تے ہیں۔ اس تہذیب کی بقا اس بات سے وابستہ ہے کہ، اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا تمدن اُن متعینہ افکار، نظریات اور معیارات کے دائرے میں رہے۔

اسلامی تہذیب و تمدن کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے، اہل اسلام کے طرز زندگی، میں تغیرات ہزار ہو جائیں، مگر جب تک وہ تہذیبِ اسلامی کے اصول و قواعدکی حدودمیں ہوں، اسلامی تمدن کو جلا بخشتے رہیں گے۔ طرزِ زندگی کو تہذیبی دائرہ سے ہم آہنگ کرنے کا جذبہ اگرقوم کا نوجوان طبقہ، اپنے اندر پیدا کرلے، تو کیا مجال کہ تہذیب اسلامی پر انگشت نمائی ہو۔ اور نوجوان ہی کیوں؟ اس لئےکہ شباب کی عمر ہی تو وہ عمر ہے جب معیارات کا انتخاب ہوتا ہے، یہی حصول علم کا مرحلہ ہوتا ہے، انہی مراحل میں صلاحیتیں پروان چڑھائی جاتی ہیں، خوابوں کے حصول کی جدوجہد کی جاتی ہے، محاذ آرائی کا جوش ہوتا ہے۔ خود رسالت مآب ؐ نے بڑھاپے سے قبل شباب کو غنیمت کہہ کر اس کی اہمیت پر مہرِتصدیق ثبت کر دی، اور ربّ کائنات نے اہل ِشبابِ خیر کے لئے سایہ عرش کا وعدہ کیا۔

شباب خیر کی مثال اس نوجوان’’مصعبؓ‘‘ کی زندگی میں ہے، جس کا شیوہ تھا اعلیٰ لباس زیب تن کرنا، آرائش و زیبائش کا لحاظ رکھنا، رہائش و سواری کاعمدہ مذاق رکھنا، خوراک کے معاملے میں حساس اور بہترین خوشبو استعمال کرنا،حتیٰ گلی سےگزر جائے تو جھروکوں سے حسرت بھری نگاہیں تکتی رہ جائیں۔ پھر لوگوں نے اس امیر زادے کو پیوند لگی چادر اور دنبے کی کھال اوڑھے دیکھا، صبیح رنگت کو مشقتوںکے باعث گہرا ہوتےپایا اور نرم و نازک جلدکو سوکھتے اور پھٹتے دیکھا، اعلیٰ حضرمی جوتوں سے محروم و بے نیاز ننگے اور سخت پاوں دیکھے۔ الغرض ؂سب کچھ لٹا کے راہِ محبت میں اہلِ دل، کے مصداق۔

اسی طرح شبابِ خیر کی مثالیں اسامہؓکی قیادت، خالدؓکی شجاعت اور عبداللہ ابن مسعودؓکی عزیمت میں ہے۔ ابن تیمیہؒ، شاہ ولی اللہؒ اور امام غزالیؒ جیسے مجدد دین شباب خیر کا نمونہ ہیں۔ابن خلدون، ابن سینا، جابر بن حیان جیسے محققین بہترین جوانیوں کی مثالیں ہیں۔ شباب خیر کا نمونہ سید مودودیؒ کا وہ جذبہ ہے جو جامع مسجد سے اٹھنے والی دردمند صداوں پر الجہاد فی الاسلام جیسی تصنیف کو عالم وجود میں لاتا ہے۔

ملّت اسلامیہ ہند کے حوالے سے اہلیان شباب کا جائزہ لیا جائے توایک طرف اصول تہذیب اور معاصر حالات سے نا آشنا اور ظواہر تمدن کے معاملےمیںشدت پسندیا کوتاہ نظر نوجوان نظر آتے ہیں جن کے قوائے شباب مسالک، مظاہر یا مراسم کی تبلیغ میں صرف ہو رہے ہیں۔ دوسری طرف مذہب بیزارنوجوان، جن کی اس مذہب بیزاری کے مختلف درجات بھی ہیں۔

امیری کا شکار بہیترے اخلاقی لحاظ سے انتہائی پست ہیں، غریب و متوسط طبقوں میں بیشتر کیرئیرزم کا شکار ہیں اور معاشی ترقی میں اندھا دھند منہمک، جو بذات خود کوئی برائی نہیں، مگر دین سے بڑھتی دوری کی بناء پر فکر مند کرنے کے لئے کافی ہے۔ عملی زندگی میں شاید برائیوں سے دور ہوں، مگر معاشرے میں بڑھتی حیا سوز اور باطل اقدار سے پریشان بھی نہیں ہوتے۔ جو اپنے قوائے شباب، جائز مال واسباب کی حصول میں لگائے ہوئے ہیں، مگر دنیا و انسانیت کے تئیں اپنا حق ادا کرنے کے جذبے سے عاری ہیں۔الا ماشااللہ،کچھ ہیں جو دین کی خدمت اور معاشرے کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس رکھتے ہیں۔ مگر افکار و نظریات کے انتشار سے بھرے پُرے اس معاشرے میں، ملت کی ضرورتیں ایک بڑی ٹیم کا تقاضا کرتی ہیں۔

اور اس ذمہ داری کے اولین مکلف بالعموم تمام والدین اور بالخصوص تحریک اسلامی سے وابستہ ایسے سرپرست و اساتذہ ہیں ، جن میں سے بیشتر اپنی ذریّت و طلبا کی تربیت کے تئیں ایک ’’مزاج ِاکتفا‘‘ کا شکار ہیں۔ جو اپنی نسل کی، محض اسلامی مراسم و مظاہر کی پابندی پر اکتفا کر لیتے ہیںاور اسلامی نظریہ کی خاطر انہیں جینا نہیں سکھاتے۔

دوسرے خود نوجوانان تحریک ہیںجنہیں جنگی پیمانے پر اپنے ساتھیوں میں مقصد زندگی کےشعورکے حوالے سے بیداری لانا ہے۔ تیسرے خود وہ مسلم نوجوان ہیں، جنہیں اپنے مقصد زندگی کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنےکی ضرورت ہے اور اپنے معیارات زندگی کا تعین کرنا ہے، اور زندگی کے معیارات کے حوالے سے صحیح رول ماڈلز کو پہچاننا ہے۔

خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کردے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights