والدہ مرحومہ کی یاد میں

0

گئی ہو کیا کہ زمانے کی سب خوشی بھی گئی
خدا شناس نگاہوں کی برہمی بھی گئی
بجھا بجھا سا دیا ہے ہماری دنیا کا
شریر بچوں کی شیطانیاں، ہنسی بھی گئی
تلاش کرتی ہے آنگن میں ہر نظر تجھ کو
جوان وطفل کی آنکھوں کی روشنی بھی گئی
بہت حسین سا لگتا تھا جس سے گھر اپنا
وہ نظم وضبط کا رشتہ وہ سادگی بھی گئی
لئے ہوئے تھی جو دامن میں حاصل دنیا
وہ رسم وراہ وہ چاہت وہ زندگی بھی گئی
ترا وجود بہانہ تھا ربط باہم کا
وہ خوشگوار فضا، صلح وآشتی بھی گئی
ضیوف اہل محبت کا اژدحام نہیں
نفوس پاک کا ایثار دلبری بھی گئی
عروس شب نے مقاییس سب بدل ڈالے
صبا کی چھیڑ، نظاروں کی دلکشی بھی گئی
اجالے دل سے محبت، اندھیری رات کا ڈر
نسیم صبح کے جھونکوں کی تازگی بھی گئی
شکیب وصبر کی جلوہ نمائیاں بے جان
ادائے شکر کی وہ موج سرخوشی بھی گئی
بہت اداس سے بیٹھے ہیں کارواں والے
غبار راہ کا منظر جواں حدی بھی گئی
عجیب شکل بنی ہے کہ کیا کہا جائے
خطا معاف حسینوں کی دل دہی بھی گئی
برہنہ پاؤں بھٹکتی ہے آبرو در در
گلوں کا حسن، عنادل کی عاشقی بھی گئی
بہت قریب سے دیکھا ہے آنکھ نے منظر
غزال ساکن صحرا کی رہبری بھی گئی
کرے ہے فہم تعاون نہ ساتھ دے ادراک
خیال وخامہ کی بے لوث دوستی بھی گئی
بس اتنی بات کہ سب کچھ ہے پر نہیں کچھ بھی
وہ طرز خاص عنایت وہ بندگی بھی گئی
وہ حسن وعشق کی دنیا، فضائے رامش ورنگ
سلوک ساقی ومیخوار رندگی بھی گئی
بدل گیا ہے زمانہ بدل گئیں اقدار
بنائے فقر کی شان سکندری بھی گئی
خدا گواہ ہے سب کچھ گنوادیا میں نے
شعوروعقل کی میراث، آگہی بھی گئی
کبھی نہ جس نے زمانے سے ہار مانی تھی
وہ بانکپن وہ ارادہ، وہ سروری بھی گئی
کہوں میں کیا کہ حقیقت ہوئی ہے افسانہ
نگاہ شاہد رعنا کی برتری بھی گئی
شمیم گل نے گزرتے ہوئے کہا مجھ سے
جو اپنی ذات میں عالم تھی وہ سکھی بھی گئی
امین تیری وصیت کا پاس رکھ نہ سکا
وہ ابتسام، وہ فرحت، وہ خوش دلی بھی گئی

محمد امین احسن،
بلریاگنج۔ اعظم گڑھ

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights