نومنتخب صدر تنظیم ایس آئی او آف انڈیا سے خصوصی ملاقات

1

ضروری ہے کہ طلبہ ونوجوانوں میں اس شعور کو عام کیا جائے کہ ہم کون ہیں ا ور اس امت سے ہماری نسبت کے تقاضے کیا ہیں: صدرتنظیم
میقات ۲۰۱۵ ؁ء تا ۲۰۱۶ ؁ء کے لیے منتخب ایس آئی او آف انڈیا کے کل ہند صدر برادر اقبال حسین صاحب سے میقات نو کی پالیسی وپروگرام کے تناظر میں ایڈیٹر رفیق منزل ابوالاعلی سید سبحانی نے ایک تفصیلی انٹرویو لیا، جس کے اہم گوشے افادہ عام کے لیے نذرقارئین ہیں۔ (ادارہ)

t سب سے پہلے میری خواہش ہے کہ آپ اپنے تنظیمی اور تعلیمی سفر کی کچھ تفصیلات قارئین رفیق کے ساتھ شیئر کریں؟
انٹرمیڈیٹ کے دوران ایس آئی او سے متعارف ہوا۔ باقاعدہ ایس آئی او میں شمولیت ۲۰۰۴ ؁ء کے بعد ہوئی۔ وہ اس طرح کہ ہمارے ایک استاذ تھے مولانا عظیم الدین ندوی، ان کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا۔ مولانا سے کافی قربت رہی، تصحیح تلاوتِ قرآن کے سلسلے میں دوسال تک اُن سے استفادے کا بھی موقع ملا۔ اُس دوران جماعت اسلامی سے تعارف ہوا، اورجماعت بالخصوص مولانا مودودی کے لٹریچر کا مطالعہ کیا۔ اسی وقت سے جماعت اسلامی سے انسیت، لگاؤ اور تعلق بڑھتا چلا گیا۔ مقام پر ہی ایس آئی او کے ساتھیوں سے بھی ملاقات ہوتی رہی، اور ایس آئی او چونکہ جماعت کی طلبہ تنظیم ہے، چنانچہ عمر کا تقاضا ہوا کہ ایس آئی او میں پہلے سرگرمی کے ساتھ حصہ لیا جائے۔ اس طرح ۲۰۰۵ ؁ء میں بھینسہ عادل آباد تلنگانہ سے ممبر ہوا۔ اس کے بعد ۲۰۰۶ ؁ء سے مقامی یونٹ کے سکریٹری کی ذمہ داری، اس کے بعد ڈسٹرکٹ آرگنائزر اور مختلف تنظیمی ذمہ داریاں رہیں، پچھلی میقات میں آندھراپردیش کا صدرحلقہ اور اس سے پچھلی میقات میں سکریٹری حلقہ رہا۔ جہاں تک تعلیم کا سوال ہے، میں نے ۲۰۰۵ ؁ء میں ڈی ایڈ کیا تھا، میری خاص دلچسپی شروع سے ایجوکیشن فیلڈ میں تھی۔ ڈی ایڈ کے بعد بی ایس سی، اس کے بعد بی ایڈ۔ اور ساتھ ہی ژولوجی سے ماسٹرس کیا۔ ۲۰۱۲ ؁ء سے گورنمنٹ سروس میں ہوں۔

 صدارت کی ذمہ داری قبول کرنے کے بعد آپ کے کیا احساسات ہیں؟
ایس آئی او ہندوستانی طلبہ ونوجوانوں کی نمائندہ تنظیم ہے اور اس کے ساتھ ہی اسے ہندوستان میں اسلام کی دعوت اور نمائندگی کا کام بھی کرنا ہے۔ اس حیثیت میں اس کی ذمہ داری اپنے آپ میں ایک بڑی ذمہ داری ہے، جو اللہ کی مددونصرت کے یقین کے ساتھ جہدمسلسل کا تقاضا کرتی ہے۔ کوشش اس بات کی رہے گی کہ اس دوسالہ میقات کے اندر وہ سفر جو تنظیم نے بتیس سال میں طے کیا ہے، اس کی روح اور اس کی پاکیزہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے تنظیمی کارواں کو تیزی کے ساتھ آگے بڑھایا جائے۔ ساتھ ہی ملک کے طلبہ ونوجوانوں کو ایک رُخ دینے کی کوشش کی جائے گی۔

t نئی مرکزی حکومت کی تشکیل کے بعد ملک کے حالات بہت ہی تیزی کے ساتھ تبدیل ہورہے ہیں، اس وقت ملک کی طلبہ برادری کو کیا اہم چیلنجز در پیش ہیں؟
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ موجودہ حکومت کا قیام ہندوستان کی سیاسی تاریخ کا ایک اہم موڑ ہے۔ ایک طویل عرصے سے یہاں اشتراک کے ساتھ حکومت تشکیل پاتی آرہی تھی،جس میں اس بات کا امکان کم تھا کہ کوئی ایک پارٹی اپنے ایجنڈے کو پوری طرح سے نافذ کرسکے۔ لیکن موجودہ این ڈی اے حکومت جس میں ایک بہت بڑی اکثریت کے ساتھ بی جے پی اقتدار میں آئی ہے، اس سے اس سیاست میں کافی فرق آیا ہے۔ لیکن ایک بات یہ بھی سوچنے کی ہے کہ اس حکومت کے آنے میں اس کے اپنے ہندتوا ایجنڈے کا کوئی بڑا رول نہیں ہے، بلکہ اس کے اقتدار میں آنے میں بڑا رول ڈیولپمنٹ کے نعرے اور سابقہ حکومت کی ناکامی کا ہے۔ بہرحال اس حکومت کی کوشش رہے گی کہ وہ اپنے پس پردہ ایجنڈے کو نافذ کرنے کی کوشش کرے، اور یقیناًاس کے نفاذ کا ایک بہت بڑا میدان ایجوکیشن سیکٹر بھی ہے، جس میں اس حکومت کی تشکیل سے قبل ہی مختلف سطحوں پر مخصوص ذہنیت کے افراد نے کافی کام کیا ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو آئندہ دنوں ایک بڑا نشانہ ملک کا نظام تعلیم رہے گا، اورصحیح بات یہ ہے کہ اس کا آغاز ہوچکا ہے، اورملک کے اہم پالیسی ساز اداروں میں بڑی حد تک ان کی مداخلت بھی شروع ہوچکی ہے۔ اس وقت ضروری ہے کہ ایجوکیشن سیکٹر سے متعلق حکومت کی جو نئی پالیسیاں ہیں ان کا گہرائی کے ساتھ جائزہ لیا جائے، امن پسند اداروں اور تنظیموں کو ساتھ لے کر اس کے خلاف آواز اٹھائی جائے۔ہمیں اس سلسلے میں عوام کے درمیان بیداری لانی ہے اور ملک گیر سطح پر ایک آندولن شروع کرنا ہے کہ تعلیم کا بھگواکرن اور کمیونلائزیشن ملک کے سیکولر مزاج، جمہوری اقدار اور تمام مذاہب اور طبقات کے لیے یکساں حقوق اور یکساں مواقع سے متعلق دستوری روح کے خلاف ہے۔

t موجودہ حالات کے تناظر میں وطن عزیز کے عام طلبہ ونوجوانوں سے آپ کس رول کی توقع کرتے ہیں؟
اس موقع پر ہندوستانی سماج کو یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ یہ ایک ایسا ملک ہے جہاں مختلف زبانوں کے بولنے والے ، اور مختلف مذاہب اور کلچر کے ماننے والے لوگ سالوں سے اپنے اس تنوع کے باوجود اتحاد اور یکجہتی کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں، اور یہ ہندوستان کی ایک بڑی حقیقت ہے۔ یہاں سبھی کے لیے یکساں مواقع موجود ہیں اور رہے ہیں۔ اس ملک کی سیکولر امیج اور یہاں کی جمہوری اقدار اور جمہوری فضا کو برقرار رکھنا بہت ضروری ہے۔ اور اس میں ایک بڑا رول یہاں کے طلبہ ونوجوانوں کو ادا کرنا ہے، کیونکہ وہی ہندوستان کا مستقبل ہیں۔ اس رول کے لیے انہیں آمادہ کرناوقت کی بڑی ضرورت ہے اور ایس آئی او کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج بھی ہے کہ کس طرح ہم طلبہ ونوجوانوں کی اس پوری قوت کو اس کام کے لیے تیار کرسکیں۔ یہ ایک بڑا چیلنج ہے، لیکن وقت کی ضرورت بھی ہے۔

t ایس آئی او آف انڈیا کے قیام کے بتیس سال پورے ہوچکے ہیں،تنظیم کی رفتار ترقی کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
الحمدللہ ہندوستان کے اندر ایس آئی او نے اپنا بتیس سالہ سفر مکمل کرلیا ہے، اس دوران تنظیم نے مختلف بڑے کارنامے انجام دیئے ہیں، لیکن اس میں ایک بڑی چیز جو محسوس ہوتی ہے وہ یہ کہ ملک کے تمام حصوں میں ہماری یکساں موجودگی نہیں ہے۔ ساؤتھ انڈیا میں تنظیم جس انداز سے موجود ہے، نارتھ انڈیا اور نارتھ ایسٹ میں ایسا نہیں ہے۔ ضرورت ہے کہ ایک ملک گیر طلبہ تنظیم ہونے کی حیثیت سے ہم اپنے وجود کو پورے ملک میں منوائیں۔ یہاں کی تمام ہی ریاستوں ، بڑی یونیورسٹیز،اور اعلی تعلیم کے اداروں کے اندر تنظیم اور اس کے پیغام کو پہچانا اور اس کے لیے ماحول تیار کرنا ہمارا اہم ٹاسک رہے گا۔ دوسری جانب ایس آئی او کے قیام سے تحریک اسلامی نے جو توقعات وابستہ کی ہیں کہ یہاں سے بڑی تعداد میں انٹلکچولس اور مختلف میدانوں کے ماہرین اور قائدین تحریک کو ملیں، یہ ایک بڑا ٹاسک ہے، جو صرف بتیس سال نہیں چاہتا بلکہ اس کے لیے ایک طویل المیعادوژن درکار ہے، جس کے لیے تنظیم شروع ہی سے متفکر رہی ہے اور اس میقات میں بھی ان شاء اللہ اس پر خصوصی توجہ رہے گی۔

tتنظیم نے پچھلی کئی میقاتوں سے طلبائی رخ اختیار کیا ہے، اس نے تنظیم پر کیا اثرات مرتب کیے ہیں؟ کیا اس میقات میں ملک کے عام نوجوانوں کے تعلق سے بھی کوئی خاص پروگرام طے کیا گیا ہے؟
جب تنظیم کا قیام ہوا تھا اس وقت ہمارے یہاں بڑی تعداد میں نوجوان موجود تھے، اسی وقت سے یہ کوششیں جاری تھیں کہ ایس آئی او ایک طلبہ تنظیم ہے ، اس لیے اس میں بڑی تعداد میں طلبہ کو شامل ہونا چاہئے۔ اس کے لیے مستقل کوششیں ہوتی رہیں۔ آج ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ الحمدللہ ایک بڑی طلبہ برادری ایس آئی او کے پلیٹ فارم پر موجود ہے، اور بحیثیت طلبہ تنظیم جس انداز سے اس کو کام کرنا چاہئے تھا، اس ضمن میں بھی تنظیم نے اپنی ایک اچھی امیج بنائی ہے۔ آپ کے سوال کا دوسرا حصہ نوجوانوں سے متعلق ہے ، میں سمجھتا ہوں کہ تنظیم میں نوجوانوں کے لیے ویسے ہی آج بھی جگہ موجود ہے جیسا کہ ابتدائی زمانے میں تھی۔ طلبہ پر خاص زور دیا گیا ہے، لیکن نوجوانوں کو کبھی نظرانداز نہیں کیا گیا۔ ہماری پالیسیز میں اتنی گنجائش موجود ہے کہ ملک کے نوجوانوں کو بھی ساتھ لے کر چل سکتے ہیں۔ اور یونٹ وحلقہ کی سطح پر جو پروگرام بنتے ہیں ان میں بھی اس بات کی گنجائش رہتی ہے کہ نوجوانوں کو ساتھ لے کر چل سکیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ صرف کیرلا میں، جہاں باقاعدہ ایک یوتھ موومنٹ موجود ہے، وہاں کے پروگرامس میں مکمل طور سے طلبائی رخ نظر آتا ہے، لیکن اس کے علاوہ دیگر صوبوں میں جہاں جماعت کی مضبوط یوتھ ونگ ابھی موجود نہیں ہے ، وہاں پر ایس آئی او کو چاہئے کہ وہاں کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے نوجوانوں کے لیے بھی اپنے پروگرامس میں اسپیس بنائے۔

t شمالی ہندوستان میں تنظیم کے توسیع و استحکام کے لیے گزشتہ میقات میں ایجوکیشن موومنٹ کا آغاز کیا گیا تھا، اس میقات میں اس پہلو سے کیا اقدامات پیش نظر ہیں؟
ابتدا ہی سے نارتھ انڈیا میں تنظیم کے توسیع واستحکام کی کوشش رہی ہے،تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ نارتھ انڈیا کا ایک بہت بڑا علاقہ ہے جو تنظیم کے اثرات سے باہر رہا ہے،اور بہت بڑی تعداد میں وہاں سے تنظیم کو افراد نہیں مل سکے ۔ اس مناسبت سے یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ نارتھ انڈیا میں گراؤنڈ کے جو مسائل ہیں ان مسائل کو ایڈریس کرتے ہوئے تنظیم کے لیے مواقع نکالنے کی کوشش کی جائے گی۔ اور اس سلسلے میں وقتی سرگرمی کے بجائے ’نارتھ انڈیا ایجوکیشن موومنٹ‘کے نام سے ایک مستقل تحریک چلانے کی بات طے ہوئی تھی۔ اس تحریک میں ابتدائی نوعیت کے تو کچھ کام ہوئے ہیں، جس میں اشوز بالخصوص تعلیمی اشوز کوایڈریس کرنا، اور ان کے سلسلے میں سوسائٹی میں بیداری لاناہے۔ لیکن اس کو مزید آگے بڑھانا ہے، چنانچہ اس کے دوسرے مرحلے کو اس میقات کے پروگرامس میں شامل کیا گیا ہے۔ دوسرے مرحلے میں ہم کوشش کریں گے کہ بیداری لانے کا کام بھی آگے بڑھایا جائے اور حکومت پر اثرانداز ہونے کی بھی کوشش کی جائے۔ اشوز کو ایڈریس کیا جائے اور ان کو حل کی جانب لے جانے کی کوشش کی جائے۔ بہرحال نارتھ انڈیا ایجوکیشن موومنٹ کو آگے بڑھایا جائے گا، اور کوشش کی جائے گی کہ جن مسائل کو بھی ہم ایڈریس کریں ان کو حل تک پہنچائیں اور طلبہ ونوجوانوں کی بڑی تعداد کو اس کے ذریعے ایس آئی او سے متعارف کراسکیں۔

t اس میقات کی پالیسی کے اہم نکات کیا ہیں؟
اس میقات کی پالیسی میں سب سے اہم نکتہ جو ہم نے شامل کیا ہے وہ یہ کہ ملک کے عام طلبہ، بالخصوص وابستگان کے درمیان داعیانہ کردار کو فروغ دیا جائے گا۔ وطن عزیز میں ایک بہت بڑی تعداد میں غیرمسلم آبادی رہتی ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سیکڑوں سال ساتھ رہتے ہوئے بھی ہم ان کے سامنے اسلام کی صحیح تصویر نہیں پیش کرسکے۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی رہی ہے کہ امت مسلمہ کے اجتماعی شعور کے اندر یہ بات نہیں آسکی ہے کہ وہ ایک داعی امت ہے اور قرآن پاک کی شکل میں جس عظیم پیغام کا اسے امین بنایا گیاہے، اس کی جانب تمام انسانیت کو بلانے پر اسے مأمور کیا گیا ہے۔ اس اجتماعی شعور کی کمی کا نتیجہ ہے کہ ملت اسلامیہ اور برادران وطن کے درمیان خطرناک قسم کی خلیج پائی جاتی ہے، اسلام کے متعلق خطرناک قسم کی غلط فہمیاں عام ہیں اور اسی کا نتیجہ ہے کہ بردران وطن اسلام کو محض ایک عام مذہب کی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔ چنانچہ ضروری ہے کہ طلبہ ونوجوانوں میں اس شعور کو عام کیا جائے کہ ہم کون ہیں ا ور اس امت سے ہماری نسبت کے تقاضے کیا ہیں۔
دوسری اہم چیز یہ کہ جو عالمی صورتحال ہمارے سامنے ہے کہ چاروں طرف سے اسلام اور اہل اسلام پر باطل قوتوں کی یلغار ہے، اور خو دہمارے ملک میں جس طرح سے فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرنے کی کوشش ہورہی ہے،اس سے ہمارے طلبہ ونوجوانوں کے اندر شدت پسندانہ یا مایوسی کے جذبات فروغ پارہے ہیں، اور دونوں ہی اسلامی روح کے خلاف ہیں اور اسلام کی کسی بھی صورت نمائندگی نہیں کرتے۔ ایس آئی او کی کوشش رہے گی کہ مایوسی اور شدت پسندی کے منجدھار سے انہیں نکال کر تعمیری کام پر لگائے، ان کی صلاحیتوں ، ان کی جوانیوں، اوران کی زندگیوں کو اسلام کی آبیاری اور اس کی نشوونما کے لیے تیار کرے۔ یہ ایک اہم ٹاسک ہے کہ ہم ملک کے طلبہ ونوجوانوں کی صلاحیتوں کو تعمیری رُخ پر لگانے کی کوشش کریں گے۔
اس کے علاوہ نارتھ انڈیا کے تعلق سے ابھی تفصیل سے بات آئی ، وہ بھی ہماری پالیسی کا ایک اہم نکتہ ہے۔
اور چوتھی اور بہت ہی اہم چیز طلبائی ایکٹوزم سے متعلق ہے۔ گزشتہ دنوں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے یونین الیکشن میں ایس آئی او کی کامیابی ایک بہت بڑی کامیابی تھی، اس تناظر میں ہم نے اپنی پالیسی کے اندر غالب ڈسکورس کا تذکرہ کیا ہے، ہر کیمپس میں ایک غالب ڈسکورس ہوتا ہے، اس غالب ڈسکورس کا ادراک کرتے ہوئے کیمپس میں کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہماری جدوجہد نتیجہ خیز بھی ہو اور مؤثر بھی۔ ایسی یونیورسٹیز اور کیمپسس جہاں کی سیاست میں ہم خود شریک ہوسکتے ہیں، ہم کوشش کریں گے کہ ہم ا س کے اندر شریک ہوں اور ایسے مقامات جہاں ایسا کوئی اسپیس ہمارے لیے موجود نہیں ہے، تو وہاں ہم اپنی سرگرمیوں کے ذریعہ اثرانداز ہونے کی کوشش کریں گے۔
ملک کے موجودہ حالات کے تناظر میں یہ بھی طے کیا گیا ہے کہ فرقہ واریت اور اس کی منظم کوششوں کے خلاف مشترکہ جدوجہد اور ایک ہم آہنگ اور جمہوری سماج کی تعمیر کی کوشش کی جائے گی۔اس کے علاوہ ہماری پالیسی کے تمام ہی نکات اہم ہیں، البتہ ان چندکا تذکرہ یہاں کیا جاسکتا ہے۔ 
t طلبہ بالخصوص وابستگان کے درمیان داعیانہ کردار کے فروغ پر اس میقات کی پالیسی میں خاص زور دیا گیا ہے، کیا آپ اس کی کچھ وضاحت فرمائیں گے؟
جیسا کہ اس سے پہلے بھی میں نے کہا کہ وطن عزیز کے اندر ہماری جو حیثیت ہے اس سے واقف ہونے کی ضرورت ہے۔ ہم ایک ایسے ملک کے اندر رہتے ہیں جہاں مختلف ادیان، مختلف زبانوں اور مختلف کلچرس اور مختلف رنگ ونسل کے لوگ رہتے ہیں اور یہاں امت مسلمہ کی حیثیت ایک داعی گروہ کی ہے۔ جہاں امت کی حیثیت ایک داعی امت کی ہے وہیں فرد کی حیثیت بھی داعی کی ہے، لیکن سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اِس کا ہمیں شعور نہیں ہے، اور ہم مختلف مسائل اور مختلف افکار میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ امت مسلمہ اور افراد امت کو ان کے منصب سے واقف کرانا وقت کی بڑی ضرورت ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ جب وہ اپنے اس منصب سے واقف ہوجائے گی تو اپنے اندر ایک حوصلہ پائے گی دنیا کو روشنی سے ہمکنار کرنے، یہاں کے مسائل کو حل کرنے، مساوات اور انصاف کو قائم کرنے کی جدوجہد کرنے، اور اس دنیا کی قیادت کرنے کا۔ یہ ایک عظیم کام ہے جس کے لیے امت مسلمہ بالخصوص طلبہ اور وابستگان تنظیم کو تیار کرنا ہے۔
ایس آئی او نے ابتدا ہی سے کو شش کی ہے کہ ہم اپنے وابستگان کو اس کام کے لیے تیار کریں گے، الحمدللہ مختلف مقامات اور مختلف کالجز اور کیمپسس میں ہماری مختلف انداز میں دعوتی ایکٹوٹیز ہوتی ہیں، اس میقات میں ہماری کوشش رہے گی کہ ہم اپنی تمام تنظیمی وغیرتنظیمی سرگرمیوں کو جو صبح سے شام تک انجام دیتے ہیں، اس میں مکمل طور سے ایک داعیانہ اپروچ کو اختیار کرنے کی کوشش کریں۔ اس طرح ہم تنظیم کو ایک رُخ دیں گے کہ انفرادی سطح پر بھی داعیانہ اوصاف اور داعیانہ مزاج فروغ پائے اور اجتماعی سطح پر بھی طلبہ ونوجوانوں کے درمیان بھی اور پوری امت مسلمہ کے اندر بھی داعیانہ اوصاف اور داعیانہ مزاج فروغ پائے۔ یہ ایک اہم نکتہ ہے جو ہماری پالیسی کے اندر شامل ہے اور ان شاء اللہ یہ امت کے اندر تبدیلی کی جانب ایک بڑا قدم ہوگا۔

tدعوت دین کے محاذ پر بالخصوص ملک کے مخصوص سماجی ومذہبی تناظر میں ایس آئی او کی کیا پالیسی ہے؟
جب ہم اس ملککے عوام کو ایڈریس کرتے ہیں تو ہمارا اپروچ سب کے ساتھ یکساں ہوتا ہے۔ اس موقع پر ضرورت اس بات کی ہے کہ یہاں کے سماج میں پائے جانے والے تنوع اور رنگارنگی کو سمجھیں۔ مختلف مذاہب، ان کے عقائد، ان کے رسم ورواج اور ان کے کلچر سے واقف ہوں۔ ان تمام کا ایک اچھا مطالعہ دعوت کی راہ میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ ہم نے طے کیا ہے کہ اس پر علمی وتحقیقی سطح پر توجہ دیں گے۔ اس ضمن میں ملک میں جو مختلف روحانی اور نو روحانی تحریکات ہیں ان کی اسٹڈی کریں گے، ان شاء اللہ اس کے ذریعے ہندوستان میں دعوت دین کی نئی راہیں کھلیں گی۔

tاس کے تحت حلقوں کی کیا خاص ایکٹوٹیز ہوسکتی ہیں؟
حلقے اپنی ریاستوں میں موجود اس سماجی تنوع اوررنگارنگی کو سمجھیں، و ہاں کی تحریکات کی فلاسفی کو سمجھیں، وہاں موجود قبائل اور کلچر کا مطالعہ اور ان کی تحقیق کریں۔ اور اس بات کی سمجھ حاصل کرنے کی کوشش کریں کہ ان کے سامنے کس طرح دعوت کا کام کیا جاسکتا ہے۔ یہ دعوت کی راہ میں ایک اہم پیش رفت ہوسکتی ہے۔
tنئی مرکزی حکومت نے تعلیم کے محاذ پر کئی ایک بڑے اقدامات کئے ہیں، اور یہ سلسلہ جاری ہے، اس میقات کی پالیسی میں قومی تعلیمی ایجنڈے کے سلسلہ میں کیا خاص نکات ہیں؟
یہ وقت کی بڑی ضرورت ہوگی کہ ہم قومی تعلیمی ایجنڈے پر اثرانداز ہونے کی کوشش کریں۔ موجودہ سیاسی حالات میں اس بات کا پورا اندیشہ ہے کہ ملک کی تعلیمی پالیسیز پر ایک مخصوص ذہنیت کے اثرات مرتب ہوں گے اور یہ چیز بہت تیزی کے ساتھ سامنے آرہی ہے۔اس کے بہت ہی خطرناک اور دیرپا اثرات سماج پر مرتب ہوسکتے ہیں، نصاب تعلیم کو تبدیل کرنے کا کام شروع ہوگیا ہے۔ ملک کی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ مخصوص افراد کی جانب سے بار بار کہا جارہا ہے کہ یہاں کی نمائندگی کرنے والی تاریخ کو نصاب کا حصہ بنایا جائے گا۔ گویا یہ اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ اُن تمام حصوں کو نکال دیا جائے گا جو اسلام اور مسلم دور حکومت سے متعلق ہیں۔بحیثیت طلبہ تنظیم ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان تبدیلیوں پر نظر رکھیں کہ کہاں پر کس قسم کی تبدیلیاں ہورہی ہیں اور ان تبدیلیوں سے سماج کو واقف کرائیں۔ اور ملک کی یونیورسٹیز ، تعلیمی اداروں اور سوچنے سمجھنے والے افراد کے درمیان اس کو اس طور پر موضوع گفتگو بنائیں کی یہ انسانیت اور انسانی اقدار کے خلاف ہے، اور ملک کی ترقی اور اس کی سالمیت، نیزیہاں کی جمہوریت اور سیکولر امیج کے لیے نقصاندہ ہے۔
دوسرا اہم اقدام ایس آئی اوکو اس موقع پر یہ کرنا ہے کہ اس میدان میں ایس آئی او کے علاوہ اور بہت سی تنظیمیں پہلے ہی سے سرگرم رہی ہیں، خصوصاََ ایجوکیشن کی فیلڈ میں، جو پالیسیز پر اچھی نظر بھی رکھتی ہیں، اور حکومتی پالیسیز پر تنقیدیں بھی کرتی ہیں اور کسی نہ کسی حیثیت میں سماج کے سامنے اپنی رپورٹس کو لے کر آتی ہیں۔ ان کی مجبوری یہ ہے کہ ان کے پاس ملک گیر سطح کا کوئی نیٹ ورک موجود نہیں ہے، لہذا وہ بہت زیادہ عوام تک پہنچ نہیں پاتیں۔ ہم ان تنظیموں کے ساتھ وفاق بنانے کی کوشش کریں گے۔ انہیں ا پنے ساتھ لیتے ہوئے یا ان کے ساتھ چلتے ہوئے مشترکہ جدوجہد کا آغازکریں گے۔ اس کلچر کو مرکز اور حلقوں کی سطح پر اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ مختلف سطحوں پر ہم ایک پریشر گروپ بناسکیں اور پالیسی کی سطح پر جو بڑی بڑی تبدیلیاں ہورہی ہیں ان کو روکنے کی کوشش کریں۔

tعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ایس آئی او کی تاریخی کامیابی کے بعد ہمارے وابستگان میں کافی حوصلہ دیکھا گیا، اس میقات میں کیمپس ایکٹوزم کے سلسلے میں کیا کوئی خاص پالیسی اختیار کی گئی ہے؟
اے ایم یو کی کامیابی یقیناًایس آئی او کی تاریخ کی ایک بڑی کامیابی ہے، اور اسٹوڈنٹس پالیٹکس کو ایس آئی او جو رُخ دینا چاہتی ہے اس ضمن میں ایک بڑی پیش رفت ہے۔ ایس آئی او چاہتی ہے کہ طلبہ کے اندر سیاسی وسماجی حساسیت پیدا کی جائے، اور کیمپسس میں جمہوری ماحول کو پروان چڑھایا جائے، نیز طلبہ کے جو حقیقی مسائل ہیں ان کو حل کرنے کے لیے طلبہ کو خود آگے بڑھنے پر آمادہ کیا جائے۔اے ایم یو کی کامیابی سے جہاں ہمارے کیڈر کو حوصلہ ملا ہے وہیں اس بات کے امکانات بھی سامنے آئے ہیں کہ ملک کے جو دیگر بڑے تعلیمی ادارے ہیں وہاں ہم طلبائی سیاست میں حصہ لے سکتے ہیں یا وہاں اچھا رول ادا کرسکتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ تما م ہی بڑی یونیورسٹیز اور کیمپسس کے اندر اپنی طاقت اور استطاعت کے اعتبار سے رول ادا کرنے کی کوشش کی جائے، خواہ وہاں الیکشن میں شرکت کے ذریعہ یا وہاں غالب ڈسکورس میں شرکت کے ذریعہ۔
t بدلتے حالات میں جبکہ طلبہ ونوجوانوں کے درمیان اخلاقی بحران، فکری انتشار اور بے راہ روی عام ہورہی ہے، اور اس کا اثر کہیں نہ کہیں ہمارے وابستگان پر بھی محسوس کیا جارہا ہے، تنظیم میں داخلی سطح پر وابستگان کے تزکیہ اور ان کے فکری استحکام کے سلسلے میں آپ کیا پروگرام رکھتے ہیں؟
جدید ٹکنالوجی نے جہاں ہمیں مادی اعتبار سے ترقی سے متعارف کرایا ہے، وہیں روحانی اعتبار سے کافی پستی بھی آئی ہے۔ اس موقع پر جبکہ سماج خطرناک اخلاقی بحران کا شکار ہے، اورکسی حد تک اس کا شکار مسلم طلبہ بھی ہورہے ہیں۔ ایس آئی او نے اپنی پالیسی میں اس بات کو شامل کیا ہے کہ ہم اپنے وابستگان اور طلبہ کی فکر کو مضبوط کرنے کی کوشش کریں گے اور انہیں اس اخلاقی بحران سے بچانے کے لیے ان کے اندر تزکیہ کے ماحول کو پروان چڑھانے کی کوشش کریں گے۔ تزکیہ کے تعلق سے ایک بات تو یہ ہے کہ تزکیہ فرد کی انفرادی ضرورت ہے، اور اس ضرورت سے اس کو واقف ہونا چاہئے، اور دوسری بات یہ کہ اجتماعیت کا کام ہے کہ وہ تزکیہ کے لیے ماحول فراہم کرے۔ ان دونوں پہلوؤں پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔ تزکیہ کے ضمن میں ایک اہم چیز وابستگان اور عام طلبہ ونوجوانوں کو قرآن مجید اور نبی اکرمؐ کی تعلیمات سے جوڑنے کا کام بھی ہے۔ موجودہ حالات میں ضرورت ہے کہ دینی جذبہ کو پروان چڑھانے کی کوشش کی جائے۔ اس جذبہ کو پروان چڑھانے کے لیے ہمارے پا س جو ذرائع موجود ہیں، وہ قرآن مجید اور رسول پاکؐ کا اسوہ ہے۔ قرآن اور اسوہ رسول سے جوڑنے کی کوشش نہ صرف وابستگان کے لیے ہوگی، بلکہ پوری ملت اسلامیہ ہند کو اس سے جو ڑنے کی کوشش کریں گے۔ فکری استحکام کے لیے یہ ضروری محسوس ہوا کہ بہت سے ذرائع میں ایک آسان ذریعہ یہ ہے کہ مطالعہ کے کلچر کو پروان چڑھایا جائے اور مطالعہ کے ذریعہ غوروفکر کا ماحول بنایا جائے۔ اس کے ذریعے وابستگان کی فکر خالص بھی ہوگی اور دوسرے افکار سے ممتاز بھی ہوگی۔

tملک کی موجودہ صورتحال میں جبکہ مسلم نوجوانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے، ان کے اندر مایوسی اور خاص قسم کی انتہاپسندی یا مایوسی فروغ حاصل کررہی ہے، ایس آئی او اس کے سد باب کے لیے کیا کرنا چاہتی ہے؟
ہندوستان کے اندر ٹیرر پالیٹکس کا ایک سلسلہ ہے جو عالمی صورتحال سے ہی ماخوذ ہے۔ جھوٹے مقدمات کے تحت بے قصور مسلم طلبہ ونوجوانوں کو گرفتار کیا جارہا ہے اور پچھلے آٹھ دس سال سے اس کا سلسلہ چلا آرہا ہے۔ گرچہ ان نوجوانوں کو یکے بعد دیگرے عدالت کے ذریعے بری قرار دیا جارہا ہے، تاہم اس کے نتیجے میں امت مسلمہ کے اندر عدم تحفظ اور مایوسی کی کیفیت پیدا ہوئی ہے۔ ہمیں اس مسئلے کو اس طور پر ایڈریس کرنا ہے کہ یہ اس ملک کا ایک جمہوری مسئلہ ہے کہ یہاں اگر کسی بے گناہ کو گرفتار کیا جاتا ہے، اس کو ہراساں کیا جاتا ہے اور اس کی بنیاد پر پوری ملت کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو یہ کسی ایک قوم یا ملت کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ یہاں کی جمہوریت اور سیکولر امیج کا مسئلہ ہے۔ اس ضمن میں ملت کے نوجوانوں کو حوصلہ دینا، ان کو ایک تعمیری رُخ پر لگادینا، مایوسی اور شدت پسندی سے ان کو بچاتے ہوئے اس ملک کی تعمیر کے لیے ان کو تیار کرنا ایک اہم کام ہوگا۔ وہیں دوسری جانب اس مسئلے کو ایڈریس کرنے کے لیے اس فیلڈ میں کام کرنے والی دیگر تنظیموں اور اداروں کو ساتھ لے کر بڑے پیمانے پر قانونی بیداری،اور بڑے پیمانے پرمورل سپورٹ کے لیے کام کیا جائے گا۔

tجونیئر اسوسی ایٹ سرکل کے تعلق سے گزشتہ میقاتوں میں کافی کمی نظر آئی ہے، اس میقات کی کیا پالیسی ہے؟
ایس آئی او کی ابتدا ہی سے اس پر توجہ رہی ہے۔ یہ تنظیم کا مستقبل ہے اس پر ہماری خصوصی توجہ رہنی چاہئے۔ یہ فیصلہ سازی کی عمر ہے، اگر اس عمر میں صحیح تربیت اور صحیح رہنمائی فراہم کی جائے، اوران کو تنظیم کی فکر اور اس کے مشن سے اچھی طرح واقف کرادیا جائے تو وہ مستقبل میں تنظیم کے لیے ایک قیمتی اثاثہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ اس میقات میں ان پر بھی خصوصی توجہ دی جائے گی۔ ان کی علمی وفکری ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے مختلف ذرائع کا استعمال کیا جائے گا۔ صرف کتابوں اور پڑھنے والی چیزوں کے بجائے وہ تمام کلچرل وسائل جو اس جدید دنیا میں ہمارے سامنے موجود ہیں سب کو استعمال میں لایا جائے گا، یہ ان کی نفسیات کا تقاضا بھی ہے۔ اس عمر کے اندر ہی اگر ان کے اندر اسلام کی محبت، دین سے الفت، اور جذبہ قربانی پیدا کردیا جائے تو مستقبل میں وہ اسلام کے بہترین سپاہی ثابت ہوسکتے ہیں۔ طلبہ کے اندر بے شمار صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں، ان صلاحیتوں کو رخ دینے کا کام بھی تنظیم کا ہے، مختلف سرگرمیوں میں ان کو شریک کرکے ان کی صلاحیتیں صحیح رخ پر لگانے کی کوشش کی جائے گی تاکہ ان کا صحیح ارتقاء ہو۔

t اس میقات کے لیے آپ کیا وژن رکھتے ہیں؟
ایس آئی او ایک موومنٹ بھی ہے اور ایک موومنٹ کا حصہ بھی ہے۔ ایس آئی او موومنٹ اس طرح ہے کہ یہ ایک تعلیمی موومنٹ ہے اوریہ چاہتی ہے کہ ہندوستان کے تعلیمی نظام کے اندر ایک بڑی تبدیلی آئے۔ یہ طلبہ ونوجوانوں کی ایک اصلاحی موومنٹ بھی ہے کہ یہ تحریک ہے بھلائی کو پروان چڑھانے اوربرائیوں کے ازالے کی، نیز بااخلاق افراد کی تیاری کی۔ یہ حقوق انسانی کی بھی موومنٹ ہے ان معنوں میں کہ جہاں کہیں ا نسانی حقوق پر دست درازی ہوگی اس کے خلاف یہ آواز اٹھائے گی، اور طلبہ ونوجوانوں کو اس کے خلاف منظم کرے گی۔ ان تمام حیثیتوں میں یہ ایک موومنٹ ہے۔
ایس آئی او ایک موومنٹ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک موومنٹ کا حصہ بھی ہے اس طرح کہ یہ اقامت دین کی عالمگیرجدوجہد کا ایک بڑا حصہ بھی ہے۔
ان دونوں باتوں کا احساس ایس آئی او کے وابستگان کو رہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ایک بہت بڑی ملت، اور ایک بہت بڑی تعداد ہمارے اسٹیج پر جمع ہو۔ ہم بہت ہی مختصر افراد پر مبنی اجتماعیت ہیں، ہمیں اپنے اسٹیج کو وسیع سے وسیع تر کرنا ہوگا۔ اس کی کیا حکمت عملی ہوسکتی ہے، کس طرح ہم مختلف الخیال لوگوں کو اپنے پلیٹ فارم پر جمع کرسکتے ہیں، اور کس طرح ان سب کو اپنے مقصد اور نصب العین کا حصہ بناسکتے ہیں۔ اس کے لیے ایک خواب ہونا ضروری ہے۔ دوسری جانب جیسا کہ میں نے کہا ہم ایک موومنٹ کا حصہ بھی ہیں اس تناظر میں ہمیں ماہرین اور انٹلکچولس کی تیاری بھی پیش نظر رکھنی ہوگی۔ یہ دو محاذ ہیں، ان دونوں ہی محاذوں کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔

t ملک کی طلبہ برادری کو رفیق منزل کے توسط سے آپ کیا پیغام دینا پسند کریں گے؟
موجودہ حالات میں جو اہم کام ایس آئی او کو کرنا ہے وہ ملت اسلامیہ کو حوصلہ دینے ، انہیں مقصد وجود کی یاددلانے، اور اس تاریک دور کے اندر امید جگانے کا کام ہے۔ یہ وقت کی اہم ضرورت ہے اور یہ کام ملک کے اندر ایس آئی او کے علاوہ کوئی اور تنظیم نہیں کرسکتی ۔ دوسری بات یہ کہ جس مقصد کے تحت ہم سرگرم عمل ہیں، اس کا گہرا شعور بہت ہی اہم ہے۔ اس شعور کو حاصل کرنے کے لیے ہم خود اولین ذرائع سے وابستگی پیدا کریں۔ تنظیم کا ہر فرد قرآن مجید کو راست سمجھنے کے لیے اپنے آپ کو آمادہ کرے۔ اس کو سمجھنے کے لیے اگر عربی سیکھ سکتے ہوں تو عربی زبان سیکھنے کی بھی کوشش کریں۔ تیسری اہم بات یہ کہ ہم جس ملک کے اندر کام کررہے ہیں، یہاں اقامت دین اور دعوت الی اللہ کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کرنی چاہئے اس پر ایک بڑی رہنمائی نبی کریم ؐ کی سیرت میں ملتی ہے، ہمارے وابستگان کو چاہئے کہ سیرت کا مطالعہ نہ کریں بلکہ اس پر تحقیق کریں کہ موجودہ حالات میں سیرت رسولؐ سے کس طرح خود دعوت کے لیے رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں اور کس طرح سے ملت اسلامیہ کی رہنمائی کرسکتے ہیں۔ چوتھی اہم بات ہمارے کردار سے متعلق ہے، دنیا کے اندر جو بڑی بڑی تبدیلیاں آئی ہیں، ان میں کردار کی قوت کا بڑا اثر رہا، نبی کریمؐ کا کردار بھی آپ کی دعوت کا بڑا ہتھیار تھا، کوئی آپؐ کے کردار پر انگلی نہیں اٹھا سکتا تھا۔ کردار کا پہلو ہماری دعوت کا ایک بہت اہم اور مؤثر ہتھیار ہے، ہمارے وابستگان جہاں ہوں وہاں کے لوگ ان کی سیرت اور ان کے کردارکی گواہی دیں، ان کی زندگی دعوت دین کا جیتا جاگتا نمونہ بن جائے۔ آخری بات یہ کہ ہم اپنی صلاحیتوں کو سامنے رکھتے ہوئے کسی ایک میدان کا انتخاب کریں، اور پھر اس میدان میں اپنے آپ کو اسلام کا نمائندہ بنائیں، یہ انسانیت کی ایک بڑی خدمت ہوگی، اس سے ہم سماج اور ملک کو بہت کچھ دینے کی پوزیشن میں ہوں گے۔

1 تبصرہ
  1. Saleem mansur khalid نے کہا

    so rich interview, shows the real situation on students islamic movement in India

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights