نقدی نظام، بٹ کوائن اور اسلام

2

سید احمد مذکر، چنئی

اب کچھ عرصے سے خاص طور سے بار بار ہونے والے معاشی بحرانوں کے پس منظر میں، مسئلہ زر(Issue of Currency)، ماہرین معاشیات کے نزدیک بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔ بعض کے نزدیک معاشی بحرانوں کا اصل سبب نقدی کا عدم استحکام( (Currency Instability ہے۔ جس کی وجہ سے اشیا اور خدمات (Goods and Services) کی قیمتیں مسلسل اتار چڑھاو کا شکار رہتی ہیں۔ ان کے نزدیک آج کل رائج الوقت کاغذی نقد(Paper Currency) کے بدلے میں زرِ ذھبی (Gold Currency) کو لایا جائے تو یہ نقدی کی افراتفری Currency Volatility) (کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ زر ذھبی، زر کاغذی کے بہ نسبت زیادہ مستحکم ہوتا ہے۔ اس بحث سے متاثر بعض مسلم ماہرین معاشیات اور علماء نے گولڈ دینار کی بحالی کی مانگ کی، جو ان کے نزدیک صحیح اسلامی نقد ہے۔ چونکہ رسول پاکؐ کے زمانے میں یہی رائج تھا، ان کا ماننا ہے کہ سونے کے دینار کی بحالی سے آج کل کے بیشتر معاشی مسائل حل ہو جائینگے۔ اس بحث سے مسلم عوام کافی متاثر ہوئیں اور یہ نکتہ نظر مسلم ممالک میں سرعت سے عام ہونے لگا ہے۔لیکن مسئلہ زر پر مسلمانوں میں صرف یہی ایک نقطہ نظر نہیں ہے، کئی ماہرین نے اس نقطہ نظر سے اختلاف بھی کیا ہے (مثال کے طور پر عمر چھاپڑا)۔ اسلامی زر کی بحث اس وجہ سے اہمیت کی حامل ہو جاتی ہے کہ آج کل زر( نقد) کی اقسام میں اضافے ہو رہے ہیں ۔ مثال کے طور پر بٹ کوائنBitcoin) (وغیرہ ۔
بٹ کوائن پر گفتگو سے پہلے نقد کے بارے میں کچھ بنیادی معلومات سے تعارف ضروری ہے۔ تاریخی طور پر اب تک نقد کے مندرجہ ذیل اقسام انسانی معاشروں میں مستعمل رہے ہیں۔

۱۔ زرِ اشیائی (Commodity Currency): اس میں کسی شئے کو براہ راست بطور نقد استعمال کیا جاتا ہے، مثلاََ نمک ، سونا، چاندی وغیرہ۔

۲۔ زر ِمبدّل) (Representative Currency : اس میں ایک شئے کو کسی دوسری شئے کے بدلے میںاستعمال کیاجاتا ہے اورپہلی شئے علامت یا مبدل Representative) ( اور دوسری شئے بنیادی اثاثہ (Underlying Asset) کے طور پر استعمال ہوتی ہے، مثلاََ ماضی قریب تک جب تک کاغذی کرنسی کو سونے کی طئے شدہ مقدار سے بدلا جا سکتا تھا، اس قسم کا زر ۱۹۷۱؁ تک رائج تھا۔

۳۔ زر ِمحض (Fiat Currency): وہ زر جس کی بنیاد پر کوئی اثاثہ نہیں ہوتا اور وہ محض حکومتی اعلان پر بحیثیت نقد قانونی جواز پاتا ہے اور استعمال ہوتا ہے، ورنہ اس کی اپنی کوئی قابل قدر قیمت نہیں ہوتی۔ جب کبھی حکومت قانونی جواز ختم کر دے تو اس نقد کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔ اس لئے اس قسم کے نقد یا زر کو زر ِمحض کہا جاتا ہے۔ مثلاََ آج کل رائج کاغذی نقد اور بالخصوص 500 اور 1000 کا جو حشر نوٹ بندی کے بعد ہوا۔

۴۔ ڈیجیٹل کرنسی (Digital Currency): وہ نقد جس کا وجود صرف کمپیوٹر پر کوڈ کی شکل میں ہوتا ہے، جس کی زر محض کی طرح کوئی اپنی قابل قدر قیمت نہیں ہوتی۔ اس نقد کا استعمال صرف کمپیوٹر یا موبائل وغیرہ پر ہوسکتا ہے۔ چونکہ اس نقد کو اب تک کوئی قانونی قبولیت حاصل نہیں ہوئی اس لئے یہ صرف فریقین کی باہمی رضا مندی پر استعمال ہوتا ہے۔ بٹ کوائن وغیرہ اس قسم کے زر ہیں۔

ان میں سے ہر قسم کے اپنے فوائد اور خامیاں ہیں، جسے سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ نقدی کی عاملیت (Functioning) کو سمجھا جائے، جو مندرجہ ذیل ہیں۔
۱۔ زر، وسیلہ مبادلہ ہے۔
۲۔ زر پیمائش قیمت کی اکائی یا قیمت پیما ہے۔
۳۔ زر مخزنِ قیمت ہے۔ (Storage of Value)

مختصراََ یہ کہا جا سکتا ہے کہ زر معاشی تبادلہ کو آسان بنانے والا ایک نقدی وسیلہ ہے۔

۱۹۷۱؁ کے بعد جب امریکی صدر نکسن نے برٹن ووڈ (Bretton Wood) سسٹم ختم کر دیا، نقد کی تیسری عملیت ختم ہو چکی ہے اور اب نقد کی قیمت مختلف عناصر کو ملحوظ رکھتے ہوئی طئے کی جاتی ہے۔ جیسے نقد کی مانگ اور رسد، درآمد اور بر آمد ، شرح سود، تخمینہ، قرضِ عامہ، سیاسی استحکام وغیرہ۔زر پر بحث کا اکثر حصہ مخزن قیمت کے عمل سے متعلق ہے۔ جہاں تک اسلامی نقطہ نظر کا تعلق ہے سونے کے دینار کی بحث بھی اسی عملیت سے متعلق ہے۔ اس نقطہ نظر کے حامیوں کا کہنا ہے کہ زر ( نقد) وسیلہ مبادلہ اور پیمائشِ قیمت کے معاملے میں اس وقت فعال ہو سکے گا جب وہ مخزن ِقیمت بھی ہو، اور مخزنِ قیمت کا عمل اسی وقت ممکن ہے جب زر کسی شئے (Commodity) پر مبنی ہو، جس کی اپنی طبعی یا ملزومی قیمت Intrinsic Value) (ہو۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ طرز ِبحث اسلامی اور اقتصادی زاویوں سے منطقی، حقیقی اور عملی طور پر صحیح ہے؟

جہاں تک ملزومی قیمت کی بحث ہے، یہ منطقی اور عملی طور پر ناقابل قبول ہے، وجہ یہ ہے کہ جب کسی زر کی بنیاد ایسی شئے پر ہوگی جس کی اپنی ملزومی قیمت ہو جیسے سونا یا چاندی تو خود اس شئے کا اپنا مصرف ماسوائے زر اشیاء بازاری قوتوں(Market Forces) کا شکار رہیں گے اور ان کا استحکام ہمیشہ ایک سوال رہے گا۔اسی وجہ سے زرِاشیائی ، زر ِکاغذی سے بدل دیئے گئے، مستزاد زر ِاشیائی کی حمل و نقل مشکل بھی تھی، اسی طرح اب کاغذی زر کو استعمال کی آسانی کی غرض سے ڈیجیٹل کرنسی سے بدلے جانے پر سوچا جا رہا ہے۔ دوسری طرف جو بھی شئے زر کے طور پر استعمال ہو گی ایسی اشیا کی دستیابی محدوداور عالمی معیشت کی مجموعی قیمت کی بہ نسبت کئی گنا کم ہوتی ہے۔ مزید براں سونا، چاندی جیسے اشیاہر جگہ یا ہر ملک میں یکساں طور پر دستیاب نہیں ہیں، اور بعض ممالک میں ان کی فراوانی بھی ہو سکتی ہے جس سے ان ممالک کو بے جا اور غیر مناسب فائدہ ہو گا اس لئے یہ بحث غیر معقول اور ناقابل عمل ہے۔

جہاں تک اس بحث کے اسلامی زاویہ کا تعلق ہے، امرِ واقعہ یہ ہے کہ جسے دینار کہا جاتا تھا وہ رومی سلطنت کا ضرب کردہ سکہ تھا جو کہ ساسانیوں کے ضرب کردہ درہم کے ساتھ ساتھ اہل عرب اسعمال کرتے تھے۔ چونکہ سنتِ رسولؐ یہ بھی تھی کہ ہر وہ ادارہ یاعمل جو اسلامی اصولوں سے نہ ٹکرائے اس کو آپ باقی رکھتے تھے، لہٰذا دینا اور درہم بھی اسی قبیل کی چیزیں بن گئیں۔ چنانچہ توجہ طلب بات سنت کا ظاہری عمل نہیں بلکہ اس کے پس ِپشت کار فرما اصول ہیں جسے اخذ کر کے اس کا کسی بھی قسم کے زر پر اطلاق کیا جا سکتا ہے۔ ایسے تمام اقسامِ زر اسلامی اصولوں کے مطابق قرار پائیں گے۔ رسالت مآبؐ کا دینار و درہم کو باقی رکھنااور سود محذر اور جوئے کو حرام ٹھہرانا، ان تمام باتوں سے یہ اصول اخذ کئے جا سکتے ہیں کہ اسلام میں زر چاہے کسی شئے کا ہو، اس کی قیمت معیشت ِحقیقی کی قیمت سے موافق ہو۔ جس سے اشیا اور خدمات کی عمومی اور حقیقی قیمتوں میں تفاوت پیدا نہ ہو۔ چونکہ مذکورہ بالا حرام کردہ اشیا اور خدمات کی، قیمتوں کو مصنوعی طور پر ان کی حقیقی قیمتوں سے بڑھا دیتے ہیں، جس سے معیشت افراط ِزر (Inflation) کا شکار ہوتی ہے اور معیشت کے حقیقی اور عمومی قیمتوں کے درمیان فرق واقع ہونے لگتا ہے، نتیجتاََ معیشت اور زر مسلسل تغیر کا شکار ہو جاتے ہیں جس سے قیمتیں غیر مستحکم اور تجارت متاثر ہوتی ہے اور اس سے مزید یہ کہ قیمت زر کی تبدل سازی (Manipulation)کا دروازہ کھل جاتا ہے جس سے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔اس کو ایک مثال سے اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ جیسے فرض کریں دال کی قیمت ۵۰ روپئے فی کلو ہے اور تخمین کے باعث اس کی قیمت مصنوعی طور پر ۶۰ روپئے ہو گئی تو یہ ۱۰ روپئے کا مصنوعی اضافہ حقیقی (Real Value) اور مجموعی قیمت (Nominal Value) کے درمیان مصنوعی فاصلہ پیدا کر دیتا ہے، اور ان کے بیچ افراط زر اشیا اور خدمتوں کی قیمتوں میں اضافہ کی شکل میں رونما ہوتا ہے۔ چنانچہ قیمت زر عدم استحکام اور اشیا اور خدمات کی قیمتیں مسلسل تغیر کا شکار ہو جاتی ہیں۔

جہاں تک بٹ کوائن کا معاملہ ہے ، بٹ کوائن ایک قسم کی ڈیجیٹل زر ہے جس کا وجود کمپیوٹر پر الگورتھم بارکوڈ(Algorithm Bar Code) کی شکل میں ہوتا ہے۔ یہ کوڈ غیر مرکزی نیٹورک (Decentralised Network) پر بنایا جاتا ہے اور یہ نیٹورک عوام کے لئے کھلا ہوتا ہے۔ جس پر ہونے والا ہر ایک تبادلہ دنیا کے کسی کونے سے بھی تصدیق کیا جا سکتا ہے، اس سے بٹ کوائن جعلی Counterfeit) (ہونے یا دوہرا صرف (Double Spend) ہونے سے محفوظ رہتا ہے۔ اس لحاظ سے بٹ کوائن کسی فریق ثالث کی تصدیق کا محتاج نہیں رہتا۔ جس طرح سے رائج نظام زر میں مرکزی بینک کے وعدے پر ہی گردش زر ممکن ہے اور تجارتی مبادلہ (خصوصاََ بڑے پیمانے پر) بینکاری نظام کے تصدیق کا محتاج ہوتا ہے۔ اس سے فریقین کو دو فوائد ملتے ہیں، ایک یہ کہ وہ مخفی Anonymous) (رہ سکتے ہیں (صرف رقم نیٹورک پر ظاہر ہوتی ہے فریقین کی شناخت اور مبادلہ کی کی تفصیلات ظاہر نہیں ہوتی) ، اور دوسرا ثالثی مداخلت سے محفوظ رہ سکتے ہیں، جس سے مبادلہ سریع، آسان اور محفوظ ہو جاتا ہے۔ عام تصور کے بر عکس بٹ کوائن لا محدود تعداد میں نہیں بن سکتا کیونکہ نیٹ ورک کی استعداد محدود ہوتی ہے۔ بٹ کوائن غیر مرکزیی نیٹورک پر کوڈ کی شکل میں بنتا ہے، یہ کوڈ مخفی شدہ (Encrypted) کنجیوں کے جوڑے کی شکل میں ہوتا ہے، جس میں ایک عام کنجی (Public Key) اور ایک نجی کنجی (Private Key) ہوتی ہے۔ یہ کنجیاں دراصل ایک خاص قسم کا کوڈ ہوتی ہیں جو رمز نگاری (Cryptography) کے ذریعے بنائی جاتی ہیں۔ عام کنجی غیر مرکزی نیٹ ورک پر ہوتی ہیں جو اس مخصوص بٹ کوائن کے وجود اور اس کی شناخت کو منظر عام پر ظاہر کرتی ہے، نجی کنجی بٹ کوائن کے مالک کے پاس ہوتی ہے، جب کسی تبادلہ کی ادائیگی (Payment) بٹ کوائن کے ذریعے ہوتی ہے ، تو بٹ کوائن کا مالک اپنی نجی کنجی فریق ثانی کے سپرد کرتا ہے اور وہ نیٹ ورک پر دائر کرا کے، تصدیق کے بعداس بٹ کوائن کا نیا مالک قرار پاتا ہے۔چونکہ یہ تبادلہ کمپیوٹر پر ہوتا ہے، تو اس میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔ اس تبادلہ میں فریقین کی شناخت یا تبادلہ کی تفصیلات مخفی رہتی ہیں اور صرف اس مخصوص بٹ کوائن کی تصدیق ہوتی ہے، تا کہ وہ جعلی ہونے یا دوہرا صرف ہونے سے محفوظ رہ سکے۔ جس طرح کہ نوٹ کو دیکھ کر اس کے اصلی یا جعلی ہونے کا اندازہ تو ہو سکتا ہے لیکن اس کی ملکیت کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے اور جس کے ہاتھ میں نوٹ ہو اس کومالک تصور کیا جائے گا، اسی طرح بٹ کوائن کا بھی معاملہ ہے۔

بٹ کوائن کا اصل مسئلہ اس کی سلامتی کا ہے، چونکہ اس کا وجود ڈیجیٹل ہوتا ہے نہ کہ مادی اس لئے اس زر میں داخلی اور دائمی خطرہ رہتا ہے۔ لیکن دوسری طرف ڈیجیٹل دور میں بیشتر چیزیں ڈیجیٹل وجود رکھتی ہی۔ مثلاََ مالیاتی نظام، دفاعی نظام، مراسلاتی نظام وغیرہ ڈیجیٹل تکنالوجی کے مرہونِ منت ہیں، چنانچی بٹ کوائن کے قضیہ کا اسلامی اصولوںکی مطابقت سے زیادہ عملی امکانات رکھتا ہے۔
اخیراََ کوئی بھی زر کی قسم ہو، چاہے زرِ اشیائی یا زرِ مبدل یا زرِ محض یا ڈیجیٹل زر ہوجب تک قیمت ِزر حقیقی معیشت کی قیمت سے موافقت رکھتی ہو، وہ قسمِ زر بنیادی طور پر اسلامی اصولوں سے متصادم نہیں۔ اب دیکھنا یہ ہو گا کہ ہر قسم کے زر کے فوائد اور خامیوں کا مکمل جائزہ لینے کے بعد ماہرینِ معاشیات، علماء اور قانون داں فیصلہ کریں کہ کونسی قسم ِزر حالات اور ظروف کے پیشِ نظر قابلِ ترجیح ہوگی۔ احتیاطاََ اس بات کا خیال رکھنا بے جا نہ ہوگا کہ کوئی بھی قسمِ زر کو منضبظ (Regulate) کرتے ہوئے تبدل سازی اور تخمین سے محفوظ رکھ جائے۔

2 تبصرے
  1. rizwan نے کہا

    Urdu alfaz ko sahi nhi likha gaya hai

  2. rizwan نے کہا

    articles bahut achche hain.

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights