معاشی استحکام: ضرورت و تقاضے

0

اسلام ہر فر د کو شریعت کے حدود میں رہ کر اپنی روزی کمانے کا حق دیتا ہے، تاہم اس آزادی کا تصور ذمہ داری کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔ ہر شخص اپنے پیشے میں حلال و حرام کے مابین فرق کرسکتاہے۔اسلام نہ ذاتی ملکیت کے خلاف ہے نہ ہی نفع کمانے سے منع کرتاہے۔ اسلام کا فوکس معاشی عدل ہے۔ اسلام کی تعلیم ہے کہ سب انسان صلاحیت ،توانائی ،مہارت اور معلومات میں برابر نہیں ہیں ، کچھ دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ کمالیتے اور زیادہ خرچ کرتے ہیں ۔لیکن کمائی حلا ل اور خرچ منصفانہ ہوناچاہیے۔مومن ہر حال میںداعی ہوتاہے۔معاشی جدو جہد کے خالص دنیوی میدان میں بھی بندۂ مومن اپنے طرزعمل کی وجہ سے شہادت حق کا فریضہ انجام دیتاہے۔
’’حضرت جمیح اپنے ماموں سے روایت کرتے ہیں کہ ان کے ماموں نے بتایا کہ کسی نے رسولﷺ سے دریافت کیا کہ سب سے افضل اوربہتر کمائی کون سی ہے؟ آپ نے فرمایا : تجارت جس میں نا فرمانی رب کے طریقے نہ اختیا ر کیے جائیں اوراپنے ہاتھ سے کام کر نا ۔ ‘‘(مسند احمد)
اللہ اپنے بندوں میں سے جس کا رزق چاہتاہے کشادہ کر تاہے اور جسے چاہتاہے نپا تُلا دیتا ہے۔ (قصص:۲۸:۸۲)
مادّی ضرورتو ں کے لئے تگ و دو مومن کو دوہر ے اجر کا مستحق بنادیتی ہے،ایک اجر اس بات کا کہ وہ اللہ سبحانہ ‘ تعالیٰ کی عطا کر دہ نعمتوں کی جستجو کرتا ہے۔ اور اسی طرح وہ اپنی اور اپنے اہل وعیا ل کو محتاجی سے نجا ت دلاتا ہے اور دوسرا اجر اس بات پر کہ وہ اس جد وجہد میںاپنے پروردگار کی مرضی کا لحاظ کرتا ہے۔اور اس کی ناراضی کے کامو ں سے احتراز کرتا ہے یہ وہ بے مثا ل امتزاج ہے جو خالص مادی ودنیاوی جد وجہد کو تقرب الٰہی کا ذریعہ بنادیتی ہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ کعب بن عجرہؓ روایت کرتے ہیں کہ بنی ﷺ کے پاس سے ایک آدمی گزرا۔ صحابہ ؓ نے دیکھا کہ وہ رزق کے حصول میں بہت متحرک ہے اورپوری دلچسپی لے رہا ہے توانھوںؓ حضور اکرم ؐ سے عرض کیا :اے اللہ کے رسولؐ اگراس کی دوڑ دھوپ اور دلچسپی اللہ کی راہ میں ہوتی تو کتنا اچھاہوتا؟‘‘اس پرحضور ؐ نے فرمایا : اگر وہ اپنے چھوٹے بچوں کی پرورش کے لئے دوڑدھوپ کررہا ہے تو یہ اللہ کی راہ میں ہی شمار ہوگی ۔ اوراگر بوڑھے ماںباپ کی پرورش کے لئے کوشش کررہا ہے تو یہ بھی فی سبیل اللہ شمار ہوگی۔اور اگر اپنی ذات کے لیے کوشش کررہا ہے اور مقصد یہ ہے کہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بچارہے تویہ کوشش بھی فی سبیل اللہ شمار ہوگی ۔ البتہ اگر اس کی یہ محنت زیادہ مال حاصل کرکے لوگوں پربرتری جتانے اور لوگوں کودکھانے کے لئے ہے تویہ ساری محنت شیطان کی راہ میں شمار ہوگی۔‘‘(ترغیب وترہیب)
اسی طرح مسلمان سرمایہ کاراورصنعت کاراگر اپنے حسابات میں ذاتی نفع پراللہ کی خلقت کی منفعت کو ترجیح دیتا ہے، جب وہ ذاتی لاگت کے ساتھ ساتھ سماجی مضرتوں کو مدنظر رکھتا ہے تو وہی حق کا ایسا شاہد بنتا ہے جو ہزارہا وعظوں اورتقریروں پر فوقیت رکھتاہے ۔جب وہ اپنی آمدنی اورمصارف میں سے غریب اعزّاء اورفقراء و مساکین کا لازمی حق اداکرتا ہے تووہ شہادت حق کا فریضہ انجام دے رہا ہوتاہے۔
جب سوسائیٹی عیش وعشرت میں مبتلا ہوکر فضول خرچیاں نہ کریں بلکہ اپنی اضافی دولت کو غریبوں اور محروموں کے تعاون میں لٹائیں گے توایک محنتی ،بے غرض اورایماندار معاشرہ میں ہمیشہ دولت میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ اسلامی تاریخ بشمول ہندوستان کا مسلم دور ِحکومت ،ایسی مثالوں سے مزین ہے کہ وقف کردہ جائیدادوں کے ذریعے اسکول ،ہسپتال،دوسرے سماجی اور رفائے عام کے ادارے بنائے گئے۔ہمارا مذہب دوقسم کے انسانوں پر رشک کر نے کا حکم دیتا ہے۔ایک وہ جس کو اللہ قرآن و دین کا علم عطاکیا ہو اوروہ اسے دوسروں تک پہنچاتا ہواور دوسراوہ جس کواللہ نے دنیا میں بے انتہا دولت سے نوازا ہو اوروہ اسے اللہ کی راہ میں تقسیم کرتاہو۔اسلامی معاشر ے میں نیک مالدار لوگوں کا وجودباعث رحمت ہوتاہے۔ ماہرِمعاشیات فضل الرحمٰن فرید ی صاحب اپنی کتاب ’اقامتِ دین کاسفر‘میںلکھتے ہیں کہ ’’ مسلمان پیشہ و اموالِ تجارت کے انتخاب میںاسلام کے ابدی اصولوں کو برتیں تو وہ ملک میں ایک ایساگروہ بن کرابھر سکتے ہیں جوعمومی خیر و فلاح کا حامل ہوگا ۔ اور ساتھ ہی ملک وملت دونوں کی معاشی ترقی اوراستحکام میں وہ ایسا رول اداکرسکیں گے جو خیر ِامّت کے شایانِ شان ہوگا۔‘‘
اس راہ پر چلنا آسان نہیں ہے۔لیکن اس راہ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس پر چلنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی نصرت حاصل ہوگی۔رسول اکرم ؐ کے ارشاد کے بموجب صادق اورامین تاجر، یوم قیامت اسی طرح سرخرو ہوگاجس طرح کہ شہدا اورانبیاء (ترمذی) سچائی کے ساتھ معاملہ کرنے والا ،امانت دار تاجر (یوم قیامت )نبیوں ،صدیقوں اور شہیدوںکے ساتھ ہوگا۔اور اللہ کا وعدہ ہے کہ : والذین جاہد فینا لنھدینھم سبلنا (العنکبوت:۶۹) ’’جو لوگ ہماری خاطر مجاہد کریں گے انھیں ہم اپنے راستے دکھائے گے۔‘‘
محنت و تدبیر
کتنے ہی افراد آپ کو اس سماج میں ایسے مل جا ئیں گے جنہوں نے حقیر سرمایہ کو اپنی راہ کا روڑا نہیں بننے دیا اوراپنی ذہانت ، تدبیر اورحوصلہ سے معاشی ترقی کے مراحل طے کرلیے ۔ اس کے برخلاف کتنے ایسے ملیں گے جنہوں نے اپنی حماقت آمیز تعیش پسندی اور اسراف بے جا سے وراثت میں پائے ہوئے سرمایہ کو ضائع کردیا ۔زمین داری ختم ہونے کے بعد جاگیر دار وں کی ناخلف اولادنے پراپرٹی بیچ بیچ کر ایک مختصر عرصے میں ہی غربت اور افلاس کے کھنڈروں میں پنا ہ لے لی ، ان میں کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے انہی پراپرٹیوں کی قیمت سے زراعتی صنعتیں قائم کرلیں، ٹرانسپورٹ کمپنیا ں بنالیں اوراوسط درجے کے مصنوعات کے کارخانے قائم کیے اور اب وہ اپنے آباء و اجداد سے بہتر حال میں ہیں ۔
معاشی بہتری اور استحکام کے لئے بڑے بڑے کارخانے ، قیمتی مشینیں اوربڑاکاروبار،بڑی بڑی خدمات فراہم کرنا ضروری ہیں ۔ جن کے لئے بہت انویسٹمنٹ کرنا ہوتا ہے، مگریہ ناگزیر شرائط نہیں ہیں کہ ان کے لئے بہت انویسٹمنٹ کرنا ہی لازم قرار پائے ۔ ایسی سیکڑوں مصنوعات ہیں جن میںنسبتاً نہایت قلیل سرمایہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ بلکہ ان مصنوعات کو بہتر طریقے سے چھوٹے چھوٹے کارخانوں میں بنا یا جاتا ہے ۔ بعض ضمنی مصنوعات ایسی بھی ہوتی ہیں جو بڑی بڑی کمپنیاں دوسروںسے خرید نا بہتر سمجھتی ہیں۔ بعض اس مقصد کے تئیں کار خانے بھی قائم کرتے ہیں۔ امریکہ جیسے ترقی یا فتہ ملک میں بھی قومی آمدنی کا ایک تہائی حصہ چھوٹے چھوٹے کارخانوں میں پیدا کیا جاتاہے۔
اس ملک میں بعض بزنس ایسے ہیں جن میں سرمایہ یا تو بہت کم درکا ر ہوتاہے یا ان میں پہلے سے موجود سرمایہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔کتنے ہی ہنر اور کتنی ہی مہارتیں (Skills)ہی ایسی ہیں جن میں سرمایہ کی ضرورت بہت کم ہوتی ہے۔ان کی ایک طویل فہرست بنائی جاسکتی ہیںاس کے علاوہ حکومت کے مختلف انسداد غربت پروگرام کی اسکیمیں بھی ہیں۔جن سے مسلمان اپنی معاشی حالت مستحکم کرسکتے ہیں اور دوران جدوجہد ضروری سرمایہ بھی پیدا کرسکتے ہیں ۔
جوکوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا اللہ اس کے لئے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیداکردے گااوراسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اُس کا گمان بھی نہ جاتا۔جواللہ پر بھروسہ کرے اس کے لئے وہ کافی ہے۔ اللہ اپنا کا م پوراکرکے رہتاہے۔ اللہ نے ہرچیز کے لئے ایک تقدیر مقرر کررکھی ہے۔(الطلاق:۲،۳)
حسنِ انتظام اور تدابیر کو معاشی ترقی میں بھی وہی اہمیت حاصل ہے جو سیاسی اورعسکری بر تری کے لیے لازم سمجھی جاتی ہے ۔ معاشی بہتری کے لئے حسنِ انتظام اور تدبر کو جدید اصطلاح میں Business Managementکہتے ہیں جو صنعت اورتجارت اورفرد کی معاشی بہتری میںسرمایہ سے کمتر اہمیت کے حامل نہیں ہیں۔سرمایہ اہم ضرور ہے لیکن وہ اقدم نہیں ہے بلکہ انسانی کاوش اور اس کا حسن ِانتظام اور اس کی تدابیر اقدم ہیں۔
تمھارا (حقیقی)رب تو وہ ہے جو سمندر میں تمھاری کشتی چلاتاہے تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو۔ حقیقت یہ کہ وہ تمھارے حال پرنہایت مہربان ہے۔(بنی اسرائیل :۶۶)
معاشی جد وجہد کی مثالیں
یہاں ہم کامیاب معاشی جد وجہد کی چند مثالیں پیش کررہے ہیں۔
مسڑہونڈاٹویوٹا موٹر کمپنی میں انجن کے لئے ایک نیاپسٹن ڈیزائن کرنے پر مامور تھا۔سب سے پہلاپسٹن جو اُس نے ڈیزائن کیا،کمپنی نے اُس کے منہ پر دے مارا۔ ’’یہ وہ نہیں ہے،جس کے ہم متلاشی ہیں ۔ ‘‘اُس نے چیلنج دوبارہ قبول کیا۔ میں اسے بناکر دوںگا۔‘‘اس نے تحقیق کے لئے درکار سرمائے کے حصول کی خاطراپنی بیوی کے زیور بیچ دیئے اوردوبارہ اپنی محنت کا آغاز کیا اور کئی ابتدائی ناکامیوں کے بعد و ہ ایک ایسا پسٹن بنانے میں کامیاب ہوگیاجو ٹویوٹا موٹر کمپنی کے مطلوبہ معیار کاتھا۔
اُس دن اُس نے تہیہ کرلیاکہ و ہ اپنی ٹیکنالوجی ٹویوٹا کوبیچنے کی بجائے اپنی ذاتی کمپنی کی بنیادرکھے گااور اُس نے ایساکردکھایا۔اس کے فوراًبعد ہی جنگِ عظیم دوم کا آغاز ہوگیا۔اس کی فیکٹری تباو بر باد ہوگئی اورپھر جنگ کے بعد تیل کابحران پیداہوگیا ۔تیل کے بحران سے نبٹنے کے لیے اس نے اپنے ذاتی سائیکل میں گھاس کاٹنے والی مشین کاانجن لگالیا۔یہ تجربہ بے حد کامیاب ہو ا وراس کے دوستوں نے بھی اپنے لئے اس طرح کی سائیکل کا تقاضاشروع کر دیا ۔ چنانچہ اُس نے اپنے ذاتی ورکشاپ میں ایسی بہت سی سائیکلیں تیار کیں، یہاں تک کہ ملک کی پندرہ ہزار سائیکلوں کی دُکانوں سے بہت بڑی تعداد میںتقاضاہونے لگا۔اس کے پاس فیکٹری لگانے کے لیے سرمایہ نہیں تھا۔اس نے پانچ ہزار دکانوں کے مالکان کو اپنی فیکٹری کے لیے سرمائے کی فراہمی پر قائل کیا ۔ وہ مان گئے اورا س نے موٹرسائیکلیں بنانا شروع کردیں۔وہ امیر ہوگیالیکن اس کا مقصد پیسہ بنانا نہیں تھا ۔اگرچہ وہ اپنی موٹرسائیکل کی کمپنی سے اچھاخاصاروپیہ کمارہاتھا لیکن اس کا خواب ٹویوٹا جیسی کاریں تیار کرنے والی فیکٹری قائم کرناتھا۔کئی ابتدائی ناکامیوں کے بعد آخر اس نے ویسی کار بناڈالی ۔ ساٹھ کی دہائی میں اس نے ہونڈا مو ٹرکمپنی کا پلانٹ لگایا ۔ اپنی نئی کارکمپنی کی ابتداء میں بھی وہ بے شمار ناکامیوں سے دوچار ہو ا لیکن ان میں سے کوئی بھی ناکامی حتمی نہ تھی ، بالآخر اس نے کامیابی پالی۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ جب مہاجرین کے ساتھ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تھے ، وہاں نہ ان کاکاروبار تھااورنہ زمین جائیدادتھی ، نبی پاک ؐ نے ان کوانصاری صحابی حضرت سعد بن ربیع ؓکا بھائی بنایا ۔حضرت سعد بن ربیع ؓ حضرت عبدالرحمن بن عوف کواپنے گھر لائے اور دو نہایت عظیم پیش کش کی ۔ انہوں نے کہا کہ میںانصاری مسلمانوں میں زیادہ مال دار ہوں۔میں اپنی دولت دوحصوں میں تقسیم کر تاہو ںاور ایک حصہ آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں ۔اسی طرح میرے پاس دو بیویاںہیں۔ آپ دیکھ لیں ان میں سے جو آپ کو پسند ہومیںاسے طلاق دے دیتا ہو ںاور جب اس کی عدت پوری ہوجائے تو آپ اسے نکاح کر لیں !
حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے جب ان صحابی ؓ کی دونوںعظیم پیش کش دیکھی تو ان کاشکریہ اداکیا،ان کے مال اوراہل و عیال میں برکت کی دعائیںدیں اورفرمایا:آپ کی بیویاں اورمال و دولت آپ کو مبارک ،مجھے توصر ف بازار کا راستہ دکھادیجئے ، چنانچہ انہوںنے قبیلہ بنی قنیقاع کابازار دکھادیا ۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے گھی اورپنیر خریدا اور بازار میںبیچنے لگے ۔بازار جانااورگھی اور پنیر کا کاروبار کر ناان کا مشغلہ بن گیا، پھر انہوں نے شادی بھی کر لی۔چنانچہ وہ مدینہ کے مال دار ترین تاجر بن گئے ۔و ہ ایسے تاجر تھے کہ خداکی راہ میں بے حساب دولت خرچ کرتے تھے ۔ایک ہی دن میںانہوں نے ۸۰ غلاموں کوخرید کرآزاد کیااور اللہ کی راہ میں ایک ہزارگھوڑے اورپچاس ہزار دیناروقف کئے۔ انتقال کے وقت حضرت عبدالرحمن بن عوفؓنے جودولت چھوڑی تھی اسکی مالیت تقریباً دوملین تھی ۔جوکہ انکی وصیت کے مطابق ان کے وارثوںاور بدری صحابہ ؓ میں تقسیم کردی گئی۔
حضور ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو انہوں نے دیکھاکہ پورے بازار پر یہودیوں اور مشرکین کاغلبہ ہے۔آپ نے محسوس کیاکہ سیاسی خودمختاری اور ریاست کے استحکام کے لئے معاشی طورپر مضبوطی اورآزادی کس قد ر اہم ہے اس لئے ہجرت کے فوراً بعد آپ نے ایک خود مختار اور آزاد مارکیٹ اسی بازار کے قریب قائم کیا جہاں اہل ایمان اپنے اصولوں کے مطابق کاروبار کر سکیں اوران اصولوں پر عمل درآمد کرکے باہمی اعتماد کی فضابھی پیداکر یں تاکہ اسکے ذریعے سے اسلامی احکامات و نظریات کی ترویج و تبلیغ ہوسکے۔
چند دنوں کے بعدآپ ؐ نے مرکزی علاقہ میں ایک نئے مارکیٹ کی بنیاد ڈالی جو مسجد نبوی سے قریب اوریہودیوں کے مارکیٹ سے فاصلہ پرتھی جگہ کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ آپؐ ایسے حالات پیداکیے جو تاجروں اورگاہکوں کے لئے بڑے سازگار ہوں اوروہ اپنے پرانے مارکیٹ کوچھوڑ کر خرید وفروخت کیلئے اس نئے مدنی مارکیٹ کی طر ف آئیں ۔اسکے لئے آپؐ نے یہ اصول بنایاکہ مدینہ مارکیٹ میںخرید وفروخت کرنے والوں پر کوئی ٹیکس عائد نہیں کیا جائے گااوردوسرایہ کہ اس مارکیٹ کے احاطہ میں کسی بھی تاجر کو آنے اوراپنا خیمہ لگانے کی اجازت دی۔جو کہ یہودیوں کے مارکیٹ میں نہ تھی ۔آپ کا معمول تھاکہ وہ مدینہ کے اس مارکیٹ کا جائز ہ لینے خود تشر یف لے جاتے ،دھوکہ بازی اورناپ تول پر نظر رکھتے۔اس طرح مدینہ مارکیٹ خرید وفروخت کا اچھا مر کز بنا۔
معاشی استحکام کی تعلیم و تربیت
یہ دو ر مسابقت کا ہے ۔یہاںجوتیزدوڑ سکتا ہے، وہ کامیاب ہوتا ہے۔ جو وسائل کواستعمال کرنے میں سب سے زیادہ زیر ک ہوتاہے، وہ دولت بھی زیادہ کماسکتاہے، اس لئے ملّت اسلامیہ کوصرف دنیوی تعلیم حاصل نہیں کرناہے بلکہ اس کو تعلیم اور فنی مہارت کی اس دوڑ میں مسابقت بھی کرناہے تاکہ و ہ اپنے سے زیادہ توانا اورصحت مند گروہ کو اس اکھاڑے سے پچھاڑسکے ۔
اسی مقصد کے لئے انٹرپرینرشپ کی تعلیم بزنس کی معلومات ، مہارت اور تحریک پیداکرنے کیلئے مہیا کر ائی جاتی ہے۔ انٹرپرینرشپ کے کو رسیس کے بارے میں بیداری بہت کم ہے۔ لیکن ملک کے کئی اداروں میں یہ کورسیس کرائے جارہے ہیں۔لوگ اب نئے بزنس کیلئے انٹرپرینرشپ کی ٹریننگ حاصل کرنے کے مواقع ڈھونڈ رہے ہے۔ہندوستان میں ان کورسیس کی مقبولیت دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے۔ امریکہ میں پچھلے ۲۰ سالوں سے انٹرپرینرشپ کی تعلیم با قائدہ نصاب کا حصہ بن چکی ہے۔ جو کہ بز نس اسکول، انجنیرنگ کالج اور آرٹس و سائنس کالج میں پڑھائی جارہی ہے۔
اس سلسلہ میں حکومت ِہند بھی تعاون اور تربیت فراہم کر رہی ہے۔ وزارت ِ مائیکرو ، اسمال اور میڈیم انٹرپر ائز(MSME)جوکہ مرکزی حکومت کے تحت چلتاہے۔آپ اس کے تعاون سے بزنس شرو ع کر سکتے ہیں ۔ ،یہ وزارت انٹرپرینر کو مائیکرو ، اسمال اور میڈیم صنعت وتجارت شرو ع کر نے میں مد د کر تا ہے۔ یہ وزارت مختلف ضلعی اور ریاستی سطح پر منافع بخش بزنس کی شناخت کر واکر انٹرپرینر کو اس کی جانب متوجہ اور راغب کرتی ہے۔آپکے بزنس کی پروجیکٹ رپورٹ تیار کرنے میں مدد کرتا ،بز نس کو ڈیولپ کر نے میں مدد کر تا،مفت مشاوتی خدمات فراہم کرتاہے اورآپکے تیا ر شدہ مال کو بازار میںفروخت کر نے میں مدد کرتاہے۔
ہم کیا رول ادا کرسکتے
ایک اندازے مطابق ہندوستان میں ۳۰ بلین امریکی ڈالرسے زیادہ وقف جائیدادپائی جاتی ہے۔اگر ان کا نظم و انصرام قابلیت اور ایمانداری سے کیا جائے تو ان سے مستقل طور پر اتنا پیسہ حاصل ہوسکتاہے جو سماج کی بہت سی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے کافی ہے۔اس کے علاوہ پورے ملک میں تقریباً دس ہزارکڑور سے زیادہ سالانہ زکوۃٰ نکالی جاتی ہے لیکن اسکو اجتماعی پلیٹ فارم پر جمع کر نے اورخرچ کر نے کا منصوبہ موجود نہیں ہے۔ ہمیں Wealth Generationکے ڈائنامک ماڈل کی ضرورت ہے جب قرآن ہمیں زکوٰ ۃکاحکم دیتا ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ اس سے غربت اور مفلسی کا مکمل خاتمہ ہو اور امت کا معاشی استحکا م ہو ۔
اسلام کے نز دیک غریبی محض ایک سماجی روگ ہے، لیکن ایساروگ بھی نہیں ، جس سے پیچھاچھڑانا سخت دشوا ر ہو، بلکہ جس طر ح عام جسمانی امراض کا علاج مناسب تدابیر سے ہوجاتاہے۔ اگرملت کے صنعت کار اور سرمایہ کا ر اور دوسرے با صلاحیت تاجر اپنی جد وجہد میں ملت کے پچھڑے ہوئے افر اد اور وسائل سے محروم نوجوانوں کو اپنے ساتھ ساتھ اونچا اٹھانے کا منصوبہ بنائیں اورساتھ ہی عد ل احسان کی روش اختیار کریں ،تو یہ طرز عمل ملت کے متعدد مسائل کا حل بھی فراہم کرے گا۔ اور ایک ایسا سماج بھی وجود پذید ہوگا ، جو انسانی اور اخلاقی قدروں پر استوار کیاجائے گا۔ اس کے اثرات ملک کے عام سماج پر بھی پڑیں گے ۔ہم اپنے ار ب پتیوں اورکھرب پتیوں کو سیرت رسولﷺ اوراقوالِ رسول ﷺ کی روشنی میں اس کے لئے تیار کریں کہ وہ دنیا کو خیر با دکہنے سے پہلے زیادہ سے زیادہ دولت راہِ خدا میں دے جائیں ۔یہ احسان اورعد ل کی ایسی پکار ہے جو عام افراد کی مادی ضرورتوں کے ساتھ ساتھ ان کو روحانی اوراخلاقی سکون سے بھی ہمکنار کرسکتی ہے۔مسلمان نوجوان اس کشمکش میں فرنٹ لائن کاکردار اداکریں ۔جوبھی ہنر،کام یاپیشہ اختیارکرے اس میں اچھی طرح مہارت حاصل کرے تاکہ اپنے کام،پیشے اورمنصب کے ساتھ ساتھ پوراپوراانصاف کرسکے اور جوبھی ذمہ داری سونپی جائے اسے اچھی طرح نبھا سکے۔اور سا تھ ہی ساتھ حسن البنا ء شہید ؒ کی نصیحت کو بھی دھیان میں رکھے، ’’مستقل طورپر کوئی معاشی جدوجہد جاری رکھو،اگر تم غنی اوربے احتیاج ہو ، تب بھی اس معاملہ میں کوتاہی نہ کرواورحتی المقدور آزاد پیشہ اختیار کرو، چاہے وہ کتنا ہی بے حقیر و بے وقعت ہو ، اس میں ذرا بھی ننگ و عار کی بات نہیں ،خواہ علمی حیثیت سے تمہار ا پایہ کتنا ہی بلند ہو۔‘‘
غلبہ دین کی جد وجہدکرنے والی تحریک ِ اسلامی کے ذریعے ملکی سطح پر مسلم چیمبر س آف کا مرس اینڈ انڈسٹریزکاقیام کیا جاسکتا ۔ایمپلائزاسوسی ایشن ،سیلف ہیلپ گروپس کی تشکیل ،مزدوروںکی تنظیمیں بنائی جاسکتی ہیں۔انٹرپرینر شپ کی تربیت اور گائیڈنس کے ادارے کاقیام ،جوکہ بزنس کی پروجیکٹ رپورٹ تیار کرنے میں ،بز نس کو ڈیولپ کر نے میں ،مفت مشاوتی خدمات فراہم کریں اورتیا ر شدہ مال کو بازار میںفروخت کر نے میں مدد کریں ۔مختلف کو رسیس ، سیمینا رس ،ورکشاپ ، مخصوص طویل مدتی اور مختصر مدتی بزنس ڈیولپمنٹ تربیتی پروگرام کا انعقاد کریں ۔قرضہ حسنہ یا بلاسودی قرض سے غریب مسکین عوام کی مدد کریں تاکہ ان کو بینک سے یاکسی اورذریعے سے بھاری سود پر قرضے لینے کی ضرورت نہ پڑے بلکہ صنعت و تجارت اورتعلیم کے لئے قرضہ حسنہ دے ۔
اسلام ہی وہ دین ہے جو معاشی جہدوجہدکا ایک ایسا نظام قائم کر سکتاہے جو مادّی ترقی اور روحانی ترقی میں ایسی ہم آہنگی پیداکردے گا جس کی مثال ساری تاریخ انسانی میں سوائے نظام اسلامی کے کہیں نہیں مل سکتی ۔ معاشی استحکام غلبہ ٔ دین کی جدوجہدکے لئے ایندھن کا کام کرتاہے۔اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ اس دین کوغالب کر کے رہے گا بس دیکھنا یہ کہ کون اس میں خلوصِ نیت سے حصہ لیتا ہے۔
وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اوردین ِحق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اُس کو پوری جنس دین پرغالب کردے اور اس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے۔(الفتح :۲۸)

 

از: توقیر اسلم انعامدار

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights