فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور تعمیروطن

0

ذیل میں معروف اسلامی دانشور ومفسر قرآن ڈاکٹر محمدعنایت اللہ اسد سبحانی کا وہ معرکۃ الآراء مقالہ شامل اشاعت کیا جارہا ہے جو ایس آئی او آف انڈیا اور بنارس ہندویونیورسٹی کے اشتراک سے بنارس ہندو یونیورسٹی میں منعقد ہونے والی انٹرنیشنل کانفرنس بعنوان ’’فرقہ وارانہ ہم آھنگی اور تعمیر وطن‘‘ (۱۵؍۱۶؍جون) کی مناسبت سے لکھا گیا۔ ادارہ

فرقہ وارانہ ہم آہنگی ہرملک اور ہر قوم، بلکہ ہرانسان کی بنیادی ضرورت ہے، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے بغیر کوئی ملک پرامن، اور پرسکون نہیں ہوسکتا، وہ خوش حال اور فارغ البال نہیں ہوسکتا، وہ صحیح معنوں میں ترقی وتمدن کی بلندیاں نہیں چھوسکتا۔
اور جوملک کی حالت ہوگی،وہی اس ملک کے باشندوں کی حالت ہوگی، اس لیے کہ ملک نام ہی ہے اس ملک میں رہنے والے افراد کا۔
یہ اک حقیقت ہے ،سورج کی طرح روشن حقیقت!، مگر افسوس ہے اس حقیقت کو سمجھنے والے کم ہیں!
فرقہ وارانہ ہم آہنگی نہ ہو تو ترقی کے تمام امکانات، اور تمدن کے تمام وسائل کے ہوتے ہوئے بھی ترقی کی رفتار سست ہوتی ہے، اور سست رفتاری کے ساتھ جوترقی ہوتی بھی ہے،اس میں پائیداری نہیں ہوتی۔اس لیے کہ اس ترقی میں پورے ملک کے ہاتھ، اور ان کے مشورے شامل نہیں ہوتے،اس ترقی سے تمام اہل ملک کی دلچسپیاں وابستہ نہیں ہوتیں!
ایسی صورت میں نہ صرف ترقی کی رفتار سست ہوتی ہے،بلکہ جو کچھ ترقی ہوئی ہوتی ہے،اس ترقی کے اونچے اونچے محل کب ڈھے جائیں،اور کب زمیں بوس ہوجائیں ، یہ کسی کو پتہ نہیں ہوتا !
فرقہ وارانہ ہم آہنگی نہ ہو توخوش حالی کا دائرہ انتہائی تنگ ہوتا ہے، سارے ملک کی دولت ، اور دولت کے تمام سرچشمے بس حکمراں قوم، یاحکمراں پارٹی کے ہاتھوں میں سمٹ کر رہ جاتے ہیں، ملک کی بھاری تعداد ، بلکہ عظیم اکثریت اِک اِک نوالے کو ترستی ہے!
خوش حالی کی گنگا سے بس کچھ ہی لوگوں کے حوض بھرپاتے، اور کچھ ہی لوگوں کے کھیت سیراب ہوپاتے ہیں، عام لوگوں کو اس سے سیراب ہونا نصیب نہیں ہوتا !
فرقہ وارانہ ہم آہنگی نہ ہو، توبڑی بڑی انسانی آبادیاں امن وسکون کی دولت سے محروم رہتی ہیں، ملک کے اندر بھی خطرات کا ماحول بنارہتا ہے،اور بیرونی خطرات کے بادل بھی ہمیشہ سروں پر منڈلاتے رہتے ہیں!
فرقہ وارانہ ہم آہنگی نہ ہونے کے نتیجے میںآج دنیا کاکوئی ملک بھی ایسا نہیں ہے جسے پرامن، اور پرسکون کہا جاسکے،جسے متمدن اور ترقی یافتہ کہا جاسکے، جسے خوش حال اورفارغ البال کہا جاسکے،جسے اندرونی اور بیرونی خطرات سے محفوظ کہا جاسکے!
آج اس صورت حال سے کوئی بھی محفوظ نہیں، چاہے وہ ایشیائی ، یا افریقی ممالک ہوں، یاامریکن یا یورپین ممالک ، ان تمام ممالک میں آئے دن ایسے ایسے حادثات ہوتے رہتے ہیں، جن کے ہوتے ہوئے کوئی ملک نہ پرامن کہا جاسکتا ہے، نہ خوش حال اور فارغ البال کہا جاسکتا ہے،نہ متمدن اور ترقی یافتہ کہا جاسکتا ہے۔ع
روشنی کی دھوم ہے لیکن اندھیرا عام ہے
صبح بھی ایسی نظر آتی ہے گویا شام ہے
ہمارے محبوب اور خوبصورت ملک ہندوستان کا معاملہ بھی دوسرے ملکوں سے مختلف نہیں،امن وسکون، اور خوش حالی وفارغ البالی کا لفظ یہاں کے شہریوں کے لیے بالکل اجنبی بن کر رہ گیا ہے!
ملک کی بھاری اکثریت حالات سے پریشان اور زندگی سے بیزار نظر آتی ہے!
آئے دن خودکشی اور خود سوزی کے واقعات ہوتے رہتے ہیں! خود کشی اور خودسوزی ہی پر بس نہیں،یہاں تو اس سے بھی زیادہ دل دہلادینے والے واقعات آئے دن ہوتے رہتے ہیں!
یہ مسلم نوجوانوں کا شرمناک فرضی انکاؤنٹر ! اور یہ ہولناک فرقہ وارانہ فسادات کی بڑھتی ہوئی آگ،جو بستیاں کی بستیاں جلاکرخاکستر کردیتی ہے ! یہ ساری چیزیں اس ملک کی عزت و نیک نامی کے لیے زبردست چیلنج ہیں!
حیرت تو اس پر ہوتی ہے، کہ بنانے والے نے تو انسان کو مٹی اور پانی سے بنایا تھا، پھر اس کے اندر یہ آگ کہاں سے بھرگئی ؟!
اٹھا توآب وگل سے تھا انسان کا خمیر
پروردگار! اس میں کہاں کی بھری ہے آگ!
یہ تو عام لوگوں کا حال ہے،جہاں تک پونجی پتی،یا ارباب اقتدارحضرات کا تعلق ہے،تو ان کا حال بھی عام لوگوں سے بہتر نہیں،وہ اگرچہ دولت کے خزانوں،اور اقتدار کی کرسیوں پرقابض ہوتے ہیں، اور اپنے عیش وعشرت، اور شان وشوکت پرنازاں ہوتے ہیں،مگر امن وسکون کی دولت سے وہ بھی محروم ہوتے ہیں،وہ بھی انہی خطرات سے دوچار ہوتے ہیں، جن خطرات سے عام لوگ دوچار ہوتے ہیں۔
یہ بات دو دو چار کی طرح نظروں کے سامنے ہے، حالات بگڑتے ہیں، توچھوٹے اور بڑے، کمزور اور طاقتور،پولیس اور آرمی ، وزیر اور رئیس ،سب مارے جاتے ہیں، اور سب کو دن میں تارے نظر آنے لگتے ہیں!
قصہ مختصر، امن وسکون سے آج سب محروم ہیں، اور اگر انسان امن وسکون کی دولت سے محروم ہو، اور ہرآن خطرات کے نرغے میں ہو،تو پھر رسی بھی اسے سانپ نظرآتی ہے،اورزندگی کی ساری لذتیں اور تمام آسائشیں بے مزہ ہوکر رہ جاتی ہیں۔
چنانچہ اس وقت انسداد دہشت گردی کے نام پر دنیا بھرمیں جتنی بھی لرزہ خیز ظالمانہ کارروائیاں ہورہی ہیں،اورجتنے بھی ملکوں، اور جتنی بھی حکومتوں کو زیر وزبرکیا جارہا ہے۔
اسی طرح ہمارے ملک ہندوستان میں جس طرح اندھا دھندمسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں ہورہی ہیں، جس طرح بے گناہ مسلم نوجوانوں کے فرضی انکاؤنٹر ہورہے ہیں،اور جس طرح پورے ملک میں خطرناک فرقہ وارانہ رجحانات کی بھٹیاں دہکائی جارہی ہیں، یہ سب اسی بوکھلاہٹ اور اسی بے سکونی کا نتیجہ ہیں!
دنیا کی ، اور خود ہمارے بھارت کی یہ دردناک صورت حال کیوں ہے؟اس کے متعدد اسباب گنائے جاسکتے ہیں، مگر اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ، کہ ان متعدد اسباب میں سے ایک اہم سبب فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی غیر موجودگی ہے۔
فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے نہ ہونے نے پوری دنیا کوتباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے!
ہمارا پیارا ہندوستان بھی آج اسی فرقہ واریت کی آگ میں جل رہا ہے!
فرقہ واریت کی اس آگ سے کسی کا بھی خیمہ، یا کسی کا بھی خرمن محفوظ رہنے والا نہیں ہے،اس لیے اس دیش کے تمام سوچنے سمجھنے والوں کو سنجیدگی سے اس مسئلے پر غور کرنا چاہیے،اور اس آگ کو بجھانے کی تدبیر سوچنی چاہیے۔
کسی کو یہ غلط فہمی ہرگز نہیں ہونی چاہیے، کہ اس آگ میں اگر کسی دوسرے کا خیمہ جل رہا ہے، تو خوداس کا خیمہ محفوظ رہ جائے گا! یا اگر کسی دوسرے کے خرمن تک اس کی چنگاریاں پہنچ گئی ہیں،تو خود اس کے خرمن تک اس کی چنگاریاں نہیں پہنچ سکیں گی !
جولوگ بھی فرقہ واریت کی یہ آگ بھڑکاتے ہیں، وہ صرف اس وجہ سے بھڑکاتے ہیں،کہ انہوں نے اپنے آپ کو پہچانا نہیں ہے!
انہوں نے نہ اپنے آپ کو پہچاناہے ،نہ دوسروں کو پہچاننے کی کوشش کی ہے! بلکہ صحیح بات یہ ہے،کہ انہوں نے اپنے مالک اور خالق کوبھی نہیں پہچانا!
ہمیں یہ بات کبھی نہیں بھولنی چاہیے،کہ اس زمین پر ہم خود سے نہیں آگئے ہیں، بلکہ لائے گئے ہیں !
جس نے یہ دھرتی بنائی ہے،اسی نے ہمیں اس دھرتی پر بسایا ہے، ہمیشہ کے لیے نہیں بسایا ہے،بلکہ کچھ دنوں کے لیے بسایا ہے،اور یونہی نہیں بسایا ہے، بلکہ اس لیے بسایا ہے، کہ ہم اس دھرتی پر رہتے ہوئے ا س کی اطاعت اور بندگی کریں،اوراسے بھول کر اپنی من مانی نہ کرنے لگیں۔
اس نے ہمیں اس لیے پیدا کیا ہے،کہ ہم اس زمین پر اس کے اچھے بندے بن کر رہیں،اورہرکام اس کی مرضی کے مطابق کریں،کبھی اس کی نافرمانی نہ کریں۔ کبھی کوئی ایسا کام نہ کریں، جو اس کی خدائی کو چیلنج کرنے والا، اور اسے غصہ دلانے والا ہو۔
دوسروں پر ظلم کرنے والا،اور دوسروں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگنے والا انسان اپنے خالق اور مالک کے غضب کو للکارتا ہے!ایساانسان کبھی اپنے مالک کی پکڑ سے بچ نہیں سکتا!
اسے کچھ دن کے لیے چاہے چھوٹ مل جائے، مگر ایک نہ ایک دن اسے اپنے ظلم کا خمیازہ بھگتنا ہوگا!
اگر اس دنیامیں اس کی پکڑ نہیں ہوئی،تو موت کے بعد آنے والی زندگی میں اس کی پکڑ یقینی ہے۔اس دن کی پکڑ سے کوئی بھی طاقت اسے بچا نہیں سکتی۔
اگر انسان اس بات کو سمجھ لے،تو وہ کبھی دوسروں پر ظلم نہ کرے ، کبھی کسی کا خون نہ بہا ئے،خون بہانا تو درکنار،اگر کبھی غلطی سے کسی کو اس سے کوئی تکلیف پہنچ جائے،تو جب تک وہ اس سے معافی نہ مانگ لے، اور اس کے دل کو خوش نہ کرلے،اسے کسی کل چین نہ ملے۔
معاملے کی نزاکت کا اندازہ لگانے کے لیے یہ بات جان لینی کافی ہے،کہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، جو اللہ کے آخری نبی تھے، اورجن کوآپ کے رب نے سارے سنسار کے لیے رحمت بناکر بھیجا تھا، اور آپ جب تک اس زمین پررہے ،سب کے لیے رحمت ہی بن کر رہے،آپ کے اس دنیا سے جانے کا وقت آیا،تو آپ نے سب کو جمع کرکے فرمایا:
(میرے بھائیو! اب میرے اس دنیا سے جانے کا وقت آگیا ہے،تو اگرمیں نے کسی کا کچھ لیا ہو،تو یہ میرا مال حاضرہے،اس میں سے وہ اپنا حق وصول کرلے،اور اگر میں نے کبھی کسی کو کوڑا لگایا ہو،تو آج یہ میری پیٹھ حاضر ہے،وہ مجھے بھی کوڑے لگالے، اوریہ بالکل نہ سوچے،کہ اس سے اس کی طرف سے میرا دل میلا ہوجائے گا !
نہیں، ہرگز نہیں! نبی کی یہ شان نہیں ہوتی کہ وہ اپنے دل میں کسی کے لیے کدورت رکھے!
میں چاہتا ہوں کہ اپنے رب کے ہاں اس حال میں جاؤں، کہ میری گردن پر کسی کا کوئی بوجھ نہ ہو!)
آپ نے یہ اعلان کیا،پر کوئی شخص اپنا حق وصول کرنے کے لیے سامنے نہیں آیا۔
آپ نے پھرکئی نمازوں کے بعد اسی طرح کا اعلان فرمایا!
مگرکوئی سامنے نہیں آیا، اور سامنے آتا بھی کون؟
اس لیے کہ آپ تو شفقت ومحبت کا پیکر تھے، آپ تو سارے سنسار کے لیے رحمت بن کر آئے تھے،آپ نے ہمیشہ دوسروں کے آنسو پونچھے تھے،ہمیشہ دوسروں کا بوجھ اٹھایا تھا،نہ کبھی کسی کو مارا، نہ کسی کا حق دبایا ، نہ کسی کا دل دکھایا!
حقیقت یہ ہے کہ انسان کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ آخرت کی کامیابی یا ناکامی،اور آخرت کی عزت یا رسوائی کا ہے،نادان ہے وہ شخص جو چار دن کی چاندنی سے دھوکہ کھاجائے،اور انجام سے غافل ہوکر طاقت اور حکومت کے گھمنڈ میں دوسروں کا گلا کاٹنے لگے !
اس دنیامیں اپنے آپ کو پہچاننے، اپنے غصہ کو کنٹرول کرنے ، انسانوں کے ساتھ انسان بن کر رہنے، اور زندگی کے تمام معاملات میں اپنے خالق ومالک کی نافرمانی سے بچنے کے لیے عقیدۂ آخرت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔
اس عقیدے کی تعلیم ہرمذہبی کتاب میں موجود ہے،مگر یہ مادہ پرست انسان اس دنیا سے آگے کچھ سوچنے کے لیے تیار نہیں ، اس کے جی میں جو آجائے، اسے کر گذرتا ہے،اور یہ نہیں سوچتا کہ اس کا انجام کیا ہوگا؟ مرنے کے بعد وہ اپنے مالک کو کیا منہ دکھائے گا؟
یہاں بات چل رہی ہے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی،اس موقع پر اس بات کی وضاحت ضروری ہے،کہ اللہ کے بھیجے ہوئے دین اسلام میں فر قہ واریت کی کوئی گنجایش نہیں،اس لیے کہ اسلام کسی فرقہ، کسی خاندان،کسی برادری ، کسی نسل ،یاکسی قوم کا دین نہیں۔
یہ دین اسلام اس زمین پربسنے والے تمام انسانوں کا دین ہے،اور وہ تمام انسانوں کو مخاطب کرتا ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
(یَا أَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَاء کُم بُرْہَانٌ مِّن رَّبِّکُمْ وَأَنزَلْنَا إِلَیْْکُمْ نُوراً مُّبِیْناً۔ فَأَمَّا الَّذِیْنَ آمَنُواْ بِاللّہِ وَاعْتَصَمُواْ بِہِ فَسَیُدْخِلُہُمْ فِیْ رَحْمَۃٍ مِّنْہُ وَفَضْلٍ وَیَہْدِیْہِمْ إِلَیْْہِ صِرَاطاً مُّسْتَقِیْماً۔۔سورۃ النساء: ۱۷۴۔۱۷۵)
(اے انسانو !تمہارے رب کے ہاں سے واضح احکام آگئے، اور ہم نے تمہاری طرف اتارا ہے چمکتا دمکتا نور،تو جولوگ اللہ پر ایمان لائے، اور اس کی رسی مضبوطی سے پکڑلی، وہ انہیں یقیناًداخل کرے گا اپنی رحمتوں اور نعمتوں میں،اورانہیں اپنے راستے پر لگادے گا، جو بالکل سیدھا راستہ ہے۔)
اسی طرح اللہ تعالی ایک دوسری جگہ تمام انسانوں کو آواز دیتا ہے:
(یَا أَیُّہَا النَّاسُ اعْبُدُواْ رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَالَّذِیْنَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون۔سورۃ البقرۃ: ۲۱)
(اے انسانو! اپنے رب کی بندگی کرو،جس نے تمہیں پیدا کیاہے، اور تم سے پہلے کے لوگوں کو بھی پیدا کیا ہے،امید ہے تم اس کی نافرمانی سے بچوگے۔)
اسی طرح اللہ تعالی ایک تیسری جگہ اپنے تمام بندوں کو آواز دیتا ہے:
(یَا أَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالاً کَثِیْراً وَنِسَاء وَاتَّقُواْ اللّہَ الَّذِیْ تَسَاء لُونَ بِہِ وَالأَرْحَامَ إِنَّ اللّہَ کَانَ عَلَیْْکُمْ رَقِیْباً۔۔سورۃ النساء : ۱)
( اے انسانو! ڈرو اپنے رب سے،جس نے تمہیں پیدا کیا ایک ہی جان سے، اور اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا،اور انہی دونوں سے بہت سے مرد عورت دنیا میں پھیلا دیے،اور ڈرو اللہ سے جس کا حوالہ دے کرتم ایک دوسرے سے اپنے حقوق مانگتے ہو، اور رشتوں کا خیال رکھو، اللہ تعالی برابر تمہاری نگرانی کر رہا ہے۔)
اس طرح کی آیات قرآن پاک میں بہت ہیں،جن سے صاف واضح ہے، کہ یہ دین کسی ایک قوم، کسی ایک گروہ، یا کسی ایک نسل کا نہیں ، بلکہ اس زمین پربسنے والے تمام انسانوں کا دین ہے۔ اسی لیے وہ خالی مسلمانوں کونہیں پکارتا،بلکہ تمام انسانوں کوآواز دیتا ہے۔
اللہ کے بھیجے ہوئے اس دین رحمت پر یہ بہت بڑا ظلم ہے، کہ اسے خالی مسلمان قوم کا دین سمجھ لیا گیا،اور اسے بھی اسی نظر سے دیکھا جانے لگا، جس نظر سے مسلمان قوم کو دیکھا جاتا ہے،اور اس سے بھی وہی خطرہ محسوس کیا جانے لگا،جو مسلمان قوم سے محسوس کیا جاتا ہے۔
اللہ تعالی کے بھیجے ہوئے اس دین پر یہ بھی بہت بڑا ظلم ہے، کہ اس نے یہ دین بھیجا تھا تمام بندوں کی بھلائی اور کامرانی کے لیے،ان کو اندھیرے سے نکال کر روشنی میں لانے کے لیے، انہیں پستیوں سے اٹھاکر بلندیوں تک پہنچانے کے لیے، مگر انسانوں کی اکثریت نے اس دین کی ناقدری کی،اور اس کا چراغ بجھانے کے لیے ایڑی چوٹی کی طاقت لگادی!
ہمارے دیش ہندوستان کے تمام معزز شہریوں کو یہ جاننا چاہیے ، کہ اس دین کی بالکل وہی نوعیت ہے،جوہوا ،پانی کی ہے،جو سورج چاند کی ہے،جو زمین اور زمین کی ساری نعمتوں کی ہے۔
جس طرح قدرت کی بنائی ہوئی یہ ساری نعمتیں کسی ایک قوم، یاکسی ایک نسل کے لیے نہیں ہیں،بلکہ اس دیش کے سارے شہریوں کے لیے ہیں، بالکل اسی طرح یہ دین اسلام بھی اس دیش کے سارے شہریوں کے لیے ہے، بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کراس زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کے لیے ہے۔
میرے وطن عزیزکے معزز شہریو! یہ ہمارے رب کی بڑی مہربانی ہے،کہ اس نے دنیا کی بے شمار نعمتوں کے ساتھ ساتھ ہمیں صحیح راستے کی ہدایت دی،اس نے ہمیں اس دنیا میں ایک اچھی زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھایا،اس نے ہمیں بتایا کہ اس زمین پر کیسے چلیں پھریں؟کیسے بات چیت کریں؟ لوگوں سے کس طرح پیش آئیں؟ فرمایا:
۱) وَلاَ تَمْشِ فِیْ الأَرْضِ مَرَحاً إِنَّکَ لَن تَخْرِقَ الأَرْضَ وَلَن تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُولاً۔۔(سورۃالاسراء: ۳۷)
(اور زمین پر اکڑ کر نہ چلو،تم کسی بھی صورت میں زمین کو پھاڑ نہیں سکتے،نہ پہاڑوں کی بلندی کو پاسکتے ہو)
۲) وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِیْ الْأَرْضِ مَرَحاً إِنَّ اللَّہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ۔ وَاقْصِدْ فِیْ مَشْیِکَ وَاغْضُضْ مِن صَوْتِکَ إِنَّ أَنکَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیْر۔۔ (سورۃ لقمان:۱۸۔۱۹)
( لوگوں کے لیے اپنا گال نہ پھلاؤ،اور زمین پر اکڑکرنہ چلو، بے شک اللہ تعالی اٹھلانے والے گھمنڈی کو پسند نہیں کرتا،اور بھلی چال چلو،اور آواز ضرورت سے زیادہ اونچی نہ کرو،بلاشبہہ سب سے ناگوار آواز گدہوں کی آوازہوتی ہے۔)
۳) یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاکُم مِّن ذَکَرٍ وَأُنثَی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوباً وَقَبَاءِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِندَ اللَّہِ أَتْقَاکُمْ إِنَّ اللَّہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ۔۔(سورۃالحجرات:۱۳)
(اے انسانو! ہم نے تم سب کو ایک ہی ماں باپ سے پیدا کیا،اوربنادیا تمہیں خاندانوں اور قبیلوں کی شکل میں، تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو،بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت اور رتبے والا وہ ہے، جو تم میں سب سے زیادہ اللہ کا فرماں بردار ہو،بیشک اللہ تعالی سب کچھ جاننے والااور خبر رکھنے والا ہے۔)
میرے پیارے بھائیو! اور وطن عزیز کے معزز شہریو! یہ چند مثالیں ہیں یہ اندازہ کرنے کے لیے، کہ یہ دین اسلام خالص محبت اور پریم کا دین ہے،یہ تمام انسانوں کو عزت دینا، اوران سے محبت کرناسکھاتا ہے،یہ تمام انسانوں کو ایک دوسرے کا بھائی،اور ایک ہی ماں باپ کی اولاد بتاتا ہے، لہذا یہاں فرقہ واریت کا کیا سوال ؟
فرقہ وارانہ رجحانات کی اسلام کبھی حوصلہ افزائی نہیں کرتا،وہ ظلم وزیادتی،ایک دوسرے کی دلآزاری، ایک دوسرے کی حق تلفی، اورآپس کی خوں ریزی کی مذمت کرتا،اور اسے سخت جرم قراردیتا ہے!
وہ ہر انسانی جان کو محترم قرار دیتا ہے،چاہے وہ کسی بھی ذات برادری کا ہو، کسی بھی نسل اور کسی بھی قوم کا ہو، اور ہر قتل ناحق کو وہ سنگین جرم قراردیتا ہے !
یہاں کوئی سوال کرسکتاہے،کہ اگر اسلام محبت اورپریم کا دین ہے،تو پھر ان جنگوں کا کیا جواب ہوگا،جو اسلامی تاریخ میں لڑی گئیں،حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی لڑی گئیں،اور آپ کے بعد خلفائے راشدین کے زمانے میں بھی لڑی گئیں؟
پھر یہ جنگیں اچانک نہیں لڑی گئیں،بلکہ ایک لمبے منصوبے کے تحت لڑی گئیں،اور خود نہیں لڑی گئیں، بلکہ قرآن پاک کے للکارنے پر لڑی گئیں!
یہ سوال عام طور سے الجھن کا باعث ہوتا ہے،اس لیے کہ معاملے کی اصل حقیقت لوگوں کے سامنے نہیں رہتی۔
ان جنگوں کے سلسلے میں پہلی بات تو یہ ذہن میں رہنی چاہیے، کہ یہ ساری جنگیں لوگوں پر زبردستی دین اسلام کو مسلط کرنے کے لیے نہیں لڑی گئیں تھیں، جیساکہ ساری دنیا میں اس کا پروپیگنڈہ کیا گیا ہے ، اس لیے کہ دین دھرم کسی پر مسلط کرنے کی چیز نہیں۔
دین دھرم کا تعلق ہمیشہ دل سے ہوتا ہے،اوراگر دل اسے خوشی خوشی قبول نہ کرے،تو اللہ کی نگاہ میں اس دین کی کوئی قیمت نہیں ہوتی!
صحیح بات یہ ہے کہ یہ ساری جنگیں ظالموں کے ظلم کے خلاف لڑی گئی تھیں۔ یہ جنگیں آبادیوں اور بستیوں میں نہیں لڑی گئی تھیں،بلکہ میدانوں میں لڑی گئی تھیں،عام لوگوں سے نہیں لڑی گئی تھیں، بلکہ صرف اور صرف ظالموں سے لڑی گئی تھیں۔
ان جنگوں میں کسی بچے پر، کسی بوڑھے پر،کسی عورت پر ، کسی بیمار پر، یا کسی ایسے شخص پرہاتھ نہیں اٹھایا گیا، جوخود آمادۂ جنگ نہ ہو۔
ان جنگوں میں بستیوں کو لوٹا نہیں گیا،عورتوں کی آبرو ریزی نہیں کی گئی،ان کے جانوروں کوذبح نہیں کیا گیا،ان کے درختوں کو کاٹا نہیں گیا،میدان جنگ سے ہٹ کر انہیں کسی طرح کا کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا!
کیا جنگوں کی پوری تاریخ میں اس طرح کی کسی جنگ کی کوئی مثال پیش کی جاسکتی ہے ؟
یقیناًاسلامی تاریخ میں جنگیں ہوئیں،مگر رحمت وشفقت کا رنگ لیے ہوئے!
جنگیں ہوئیں،مگراخلاقی حدود، اور اخلاقی قدروں کا پاس ولحاظ کرتے ہوئے!
جنگیں ہوئیں مگر عدل وانصاف کے تمام تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے !
پوری انسانی تاریخ کی تمام وحشیانہ جنگیں ہمارے سامنے ہیں،دور قدیم کی خوں ریزجنگیں بھی ہمارے سامنے ہیں،اور اس دورتہذیب وتمدن کی لرزہ خیز جنگیں بھی ہمارے سامنے ہیں!
کیا ان قیامت خیز جنگوں کو کوئی مناسبت ہے ان جنگوں سے،جوخالص انسانی محبت اور انسانیت کی خیرخواہی کے جذبے سے لڑی گئیں ؟
جس وقت اسلام آیا ہے اس وقت ساری دنیا ظالموں کے شکنجوں میں جکڑی ہوئی تھی، چند فیملیاں تھیں،جو اقتدار کی مالک تھیں،بقیہ لوگ ان کے غلام تھے،جو ان ظالم بادشاہوں کے رحم وکرم پر جی رہے تھے،ہر طرح کی آزادی سے محروم! ہرطرح کی عزت سے محروم!
اسلام نے ان بے رحم اور خود غرض ظالموں سے جہادکرکے ساری انسانیت کو آزادی دلائی،اور ہر ایک کو عزت کی قبا پہنائی!
آج دنیا کے ہر ملک، اور ہر ملک کے ہر شہری کے اندر اپنی آزادی اور عزت کا جواحساس پایا جاتا ہے،یہ انہی اسلامی جنگوں کی دین ہے!
یہاں ایک چیز اورسمجھنے اور غور کرنے کی ہے،دنیا کی جتنی بھی فاتح قومیں ہیں،وہ جب ملکوں کو فتح کرتی ہیں،تو وہاں کی ساری دولت لوٹ کر اپنے ملکوں میں پہنچادیتی ہیں،اور اس ہارے ہوئے ملک کو بالکل کنگال بناکر چھوڑدیتی ہیں!
ایسا پچھلے زمانوں میں بھی ہوتا رہا ہے،اور آج کے دور تہذیب و تمدن میں بھی ہورہا ہے !
آج عراق اور افغانستان کی ساری دولت کہاں گئی ؟
مگر دین اسلام کے قائد ورہبر صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جاں نثاروں کا معاملہ اس سے بالکل مختلف رہا ہے،انہوں نے انسانیت کی عزت وآزادی کے لیے جانیں لڑائیں،اور ہرطرح کی قربانیاں دیں، ہرطرح کی تکلیفیں سہیں،اورہر طرح کی مصیبتیں برداشت کیں، اور جب وہ اس ملک کے لوگوں کو ظالم و جابر فرماں رواؤں کے چنگل سے آزاد کرا نے میں کامیاب ہوگئے ،اور انہیں عزت کی قبا پہنادی،تو وہاں سے بالکل خالی ہاتھ واپس ہوگئے! اور اگر وہاں کچھ دنوں کے لیے ٹھہرے،توصرف اس لیے ٹھہرے کہ اس ملک کو کچھ بنائیں سنواریں، اور وہاں علم وتمدن کے چراغ روشن کریں۔
تاریخ اس بات پر گواہ ہے،کہ پورے جزیرۂ عرب کو فتح کرلینے کے بعدجب اللہ کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی، تو اس رات چراغ جلانے کے لیے آپ کے گھر میں مٹی کا تیل نہیں تھا!
تاریخ اس بات کی بھی شاہد ہے، کہ خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ کا جب انتقال ہوا،تودوپرانی چادروں کا انہیں کفن پہنایا گیا !جبکہ رومی سلطنت کا بیشتر حصہ فتح ہوچکا تھا،اور وہ چاہتے تو مدینے میں سیم وزر کے انبار لگ جاتے!
تاریخ اس بات کی بھی شاہد ہے،کہ خلیفۂ دوم حضرت عمربن خطابؓ نے جب یروشلم کا سفر کیا،تو اس وقت جو لباس ان کے جسم پر تھا، اس میں بہت سے پیوند لگے ہوئے تھے! حالانکہ اس وقت روم وایران دونوں فتح ہوچکے تھے،اور دونوں سلطنتوں پر اسلام کا پرچم لہرارہاتھا !اور قیصر وکسری ان کے نام سے تھراتے تھے !
یہ چیزرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفائے راشدین کے ساتھ خاص نہیں تھی،تمام صحابۂ کرام کی یہی حالت تھی۔ان لوگوں کی ساری قربانیاں اور تمام سرفروشیاں صرف اپنے رب کے لیے تھیں، اس دنیا میں انہوں نے اپنی قربانیوں کا کوئی صلہ نہیں لیا!
یہ بات جہاں غیر مسلموں کے سمجھنے کی ہے، وہیں خود مسلمانوں کے سمجھنے کی ہے،مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے بزرگ اسلاف کے اچھے جانشین بنیں، اپنی عادات واطوار، اپنے چال چلن،اور اپنے رہن سہن سے اس زمین پردین رحمت کے سچے نمایندے بنیں، وہ ہر طرف الفت ومحبت کا پیغام عام کریں،اور کبھی جذبات کی رو میں بہہ کر کوئی غلط قدم نہ اٹھائیں۔
ہم اس دیش میں کبھی ہندؤوں کے حریف بن کر نہ رہیں،نہ کبھی ان سے حقوق کی جنگ لڑیں،اس کے برعکس ہم ان کے ہمدرد وغم خوار بنیں،اور محبت کے ساتھ انہیں راہ راست پر لانے کی کوشش کریں، اس لیے کہ ہمارا کام دینا ہے، لینا نہیں!
اگروہ ہمارے راستے میں کانٹے بچھائیں،تو ہم ان پر پھولوں کی بارش کریں۔ہم قرآن پاک کا بتایا ہوا یہ زریں اصول کبھی نہ بھولیں:
(وَلَا تَسْتَوِیْ الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّءَۃُ ادْفَعْ بِالَّتِیْ ہِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِیْ بَیْْنَکَ وَبَیْْنَہُ عَدَاوَۃٌ کَأَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ۔ وَمَا یُلَقَّاہَا إِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوا وَمَا یُلَقَّاہَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِیْمٍ۔۔ سورۃ فصلت : ۳۴۔۳۵)
(نہ اچھائی برابر ہوسکتی ہے، نہ برائی۔تم علاج کرو برائی کا اچھے سے اچھے سلوک سے،یکایک تم دیکھو گے کہ جس کی تم سے دشمنی تھی، وہ ایسا ہوگیا، گویا وہ تمہارا جگری دوست ہو!یہ نعمت انہی کو ملتی ہے جو صبر کرتے ہیں! یہ نعمت انہی کو ملتی ہے جو نہایت اونچی قسمت والے ہوتے ہیں!)
اس سلسلے میں ہمارے ہادی ورہنما حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ مبارک ہمارے سامنے ہے۔ ع
طائف میں مقدس خوں ٹپکا، مکے میں کبھی پتھر کھائے
بس ایک تڑپ تھی، کیسی تڑپ؟ انسان ہدایت پا جائے!
غیرمسلم بھائیوں کو بھی یہ سمجھناچاہیے،کہ اگر مسلمان کوئی غلطی کرتے ہیں،تو اس کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ دین اسلام نے انہیں یہی سکھایا ہے، بلکہ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ انہوں نے اپنے دین اسلام کو سمجھنے، اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنے میں غلطی کی۔
انہوں نے دانستہ یا نادانستہ اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی کرکے خود نقصان اٹھایا، دین اسلام کو نقصان پہنچایا،اس کی غلط تصویر پیش کرکے ساری انسانیت کو نقصان پہنچایا ۔
مسلمانوں کی غلطیوں کا بوجھ کبھی اسلام کے سر نہیں ڈالنا چاہیے،اس لیے کہ یہ چیزخلاف حقیقت ہے، اور جو ایسا کرتا ہے،وہ خود اپنے آپ کو نقصان پہنچاتا ہے،وہ اپنے آپ کو اپنے رب کریم کی عظیم ترین نعمت سے محرو م کرلیتا ہے۔
اس محرومی کا اندازہ چاہے آج نہ ہو، لیکن مرنے کے بعد ضرور ہوگا ! اس وقت ہوگا، جس وقت موقع ہاتھ سے نکل چکا ہوگا، اور اپنی محرومی پر ہاتھ ملنے کے علاوہ انسان کے بس میں کچھ نہ ہوگا۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے، کہ ایک زمانے میں دین اسلام نے پوری دنیا پر حکومت کی تھی، اور سیکڑوں سال تک حکومت کی تھی،مگر اس حکومت میں فرقہ واریت نام کی کوئی چیز نہ تھی،اس لیے کہ اسلام میں فرقہ واریت ، اور دوسروں پر ظلم وزیادتی کی کوئی گنجایش نہیں۔
اس حکومت میں دنیا بھر کی تمام قومیں شریک تھیں،اور وہ خالص اخوت ومحبت کے ماحول میں وطن کی تعمیرو ترقی میں مصروف تھیں، اس وقت سلطنت کی ساری دولت اسلحہ سازی میں صرف نہیں ہوتی تھی، بلکہ ان اسکیموں میں صرف ہوتی تھی ، جو عام وخاص ، سب کے لیے راحت بخش اور فائدہ مند ہوں، جس کے نتیجہ میں ایسی خوبصورت اور شاندار تہذیب وجودمیں آئی، جس کی نظیر پیش کرنے سے پوری انسانی تاریخ عاجز ہے!
اس وقت کوئی دہشت گردی نہیں تھی،نہ انسداد دہشت گردی کے نام پردہشت گردوں کی کوئی فوج تھی! اس وقت ہرطرف عد ل و انصاف کا دور دورہ تھا، اور حاکم ہو یا محکوم،ہر ایک قانون کی نگاہ میں برابر تھا!
اس کا نتیجہ یہ تھا کہ اس سلطنت میں ہر طرف دودھ اور شہد کی نہریں رواں تھیں، جن سے ہرایک اپنی اپنی ضرورت کے مطابق اپنے کوزے بھرتا تھا،اور سارے لوگ امن ومحبت کی ٹھنڈی چھاؤں میں زندگی کی پرلطف بہاریں گزار تے تھے۔
وہ دور الفت و محبت، اور وہ دورامن وسکون کیا دوبارہ آسکتا ہے؟ اور اگر آسکتا ہے، تو کس طرح آسکتا ہے؟ یہ ایک بہت اہم سوال ہے، جس پر ہم سب کو غور کرنا چاہیے۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights