عصری درسگاہوں میں امکانات

0

کلیم احمد اصلاحی، جامعہ ملیہ اسلامیہ
فارغین مدارس جہاں ایک طرف اشاعت اسلام اور تبلیغ دین کے میدان میں سرگرم عمل ہیں اور سرخروئی قوم وملت کی خاطر مصروف جہدوعمل ہیں، وہیں دوسری جانب پروفیشنل میدان میں بھی وہ کسی سے کم نہیں۔ اگر اطراف میں نظر دوڑائیں تو ہمیں ہزاروں ایسی مثالیں ملیں گی کہ مدارس کے فارغین بالخصوص ان مدارس کے فارغین جن کی سندیں یوجی سی یا حکومت ہند کے دوسرے اداروں سے منظور شدہ ہیں انھوں نے عصری علوم میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے، بلکہ وہ کالجوں اور ماڈرن اسکولوں کے طلبہ سے کسی طور پر بھی پیچھے نہیں رہے، ساتھ ہی یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ فارغین مدارس ہمیشہ سے اساتذہ و ذمہ دارنِ ادارہ کا اپنی محنت وکاوش اور ان کے احترام ووقار کے ذریعہ دل جیتنے میں کامیاب رہے ہیں۔
طلبہ مدارس فراغت کے بعد مزید تعلیم کے لیے اگر یونیورسٹیوں کا رخ کرتے ہیں تو ان کے راستے محدود نہیں ہے۔ بلکہ ان کے سامنے بہت سارے ایسے عمدہ عمدہ کورسیز موجود ہیں۔ جن کو کرنے کے بعد وہ عملی دنیا میں بطور پروفیشن اچھا کریئر بنا سکتے ہیں۔ چنانچہ وہ بغیر روک ٹوک کے ہندوستان کی تقریباً تمام ہی بڑی اور مشہور یونیورسٹیز مثلا جواہر لال نہرویونیورسٹی، دہلی یونیورسٹی، علیگڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، بنارس ہندو یونیورسٹی وغیرہ میں وہ آسانی سے بی اے یا مختلف دوسرے کورسیز میں داخلہ لے سکتے ہیں۔
بی اے کے بعد ان کے سامنے کئی راہیں کھل جاتی ہیں مثلابی ایڈ، ایم اے، ماس کام، ایم بے اے، ایم ایس ڈبلیو، ایل ایل بی،اورٹریول اینڈٹورزم۔ یہ سب ایسے کورسیز ہیں جن میں آسانی سے داخلہ لے کر مزید پڑھائی کی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ بی اے کے بعد سول سروسیزکے امتحانات میں بھی حصہ لیا جاسکتا ہے، اور اس کے تحتIFS. IASجیسے اعلیٰ مسابقہ جات میں شرکت کی جاسکتی ہے، اسی کے ساتھ ایم اے کرنے کے بعدUGC کے ذریعہ NET کا امتحان بھی پاس کیا جاسکتا ہے جو کہ لیکچر رشپ اور ریسرچ کے غرض سے حکومت ہند منعقد کرتی ہے۔ ان تمام راہوں کے کھل جانے کے بعد اب فارغین مدارس کے پاس بہت سارے اختیارات ہوتے ہیں، اور وہ من چاہا کورس جس میں انہیں دلچسپی ہے، اپنے مستقبل کے لیے چن کر آگے ایک اچھاکریئر بناسکتے ہیں۔
شاید آپ لوگوں کے ذہن میں یہ سوال اٹھ رہا ہوگا کہ ان تمام کورسیز میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ کون سے ہوسکتے ہیں جن کو بطور پروفیشن اختیار کیا جاسکتا ہے، تو میں بطور مثال چند فروفیشن کا ذکر کرتا ہوں جس میں طلبہ مدارس بڑی تعداد میں سرگرم عمل ہیں، اور وہ ان فیلڈ میں جانا زیادہ پسند کرتے ہیں۔
لیکچر شپ:
لیکچر شپ ایک ایسا پروفیشن ہے جس کو دنیائے علم وادب سے تعلق رکھنے والا کون ہوگا جو پسند نہ کرتا ہو۔ یہ اب تک سب سے قابل احترام وباعزت میدان سمجھا گیا ہے اور ہرطالب علم کو اسے پانے کی تمنا ہوتی ہے۔ جہاں عزت واحترام کے ساتھ ساتھ خوب دولت کمانے کے بھی مواقع ہیں۔
ہائرایجوکیشن یعنی بی اے، ایم اے، بی ایڈ، ایم ایڈ، ایم فل، پی ایچ ڈی، یا نیٹ اور جے آرایف کے امتحانات پاس کرنے کے بعد کوئی بھی طالب علم ہندوستان کی کسی بھی یونیورسٹی میں لیکچرر اورپروفیسر بننے کا اہل ہوجاتا ہے۔ چنانچہ مدارس اسلامیہ نے نہ جانے کتنے پروفیسرس پیدا کیے ہیں جو مختلف تعلیمی میدان میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ بلکہ یونیورسٹیوں میں بعض شعبے ایسے ہوتے ہیں جو صرف فارغین مدارس کے ذریعے ہی چلتے ہیں مثلاً شعبہ عربی، شعبہ فارسی، شعبہ اردو، شعبہ اسلامیات و شعبہ دینیات، یہ تمام شعبہ جات مدارس کے طلبہ ہی کے ذریعے چل رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بی ایڈ یا ای ٹی ای کرنے کے بعد وہ سکینڈری یا سینئر سکینڈری میں ٹیچر مقرر ہو سکتے ہیں، اور نہ معلوم کتنے اس فریضے کو انجام دے رہے ہیں۔ جس میں وہ خدمت خلق اور انسانیت کا درس دینے جیسا کار ثواب کے ساتھ ساتھ عمدہ قسم کی تنخواہ کا بھی لطف لیتے ہیں۔
ترجمہ(Translation)
ترجمہ ایک وسیع میدان ہے جس کی اہمیت مسلم ہے، چنانچہ فارغین مدارس کو گریجویشن خاص طور پر عربی زبان میں گریجویشن کرنے کے بعد یہ میدان کافی راس آتاہے۔ اس میں علم کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں دولت کمانے کے مواقع ہیں۔ چونکہ ہندو عرب تعلقات زمانہ قدیم سے مستحکم رہے ہیں اور آج تک برقرار ہیں اور ان کے درمیان ایک بڑی تجارت ہوتی رہی ہے، خاص طور پر اب جبکہ عرب ممالک تیل کی وجہ سے کافی اہمیت اختیار کرگئے ہیں، اور ہندوستان اپنی ضروریات کا نصف سے زائد تیل ان ہی سے حاصل کرتاہے، اس طرح کی تجارت اور باہمی لین دین کے لیے ایسے افراد کی ضرورت ہوتی ہے جو دونوں فریق کی زبانوں پر قادر ہو، اور ساتھ ہی ان کے تجارتی معاملات بخوبی انجام دے سکے۔ اسی تناظر میں ہندو عرب کے درمیان وفود کاآنا جاناہوتا رہتا ہے، باہمی لین دین میں بھی اضافہ نظرآتا ہے،اسی طرح ان کے دستاویزات وکاغذات مثلا ویزے وغیرہ کا ترجمہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سے قبل بھی ماہرین عربی زبان درکار تھے اور آج بھی، اوریہ حقیقت ہے کہ عربی زبان مدرسے ہی کے طلبہ پڑھتے ہیں،اس طرح دیکھیں تو فارغین مدارس کی بڑی تعداد اس کے لیے درکار ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ ان کی بات چیت اور گفت وشنید سے ایک دوسرے کو واقف کرانے کے لیے انٹرپریٹر کی ضرورت بھی ہوتی ہے، اس کے لیے بھی روزانہ سیکڑوں عربی جاننے والوں کی ضرورت ہے جس میں مترجم کو خاطر خواہ معاوضہ ملتا ہے۔
ترجمے کا یہ کام دو طریقوں سے انجام پاتا ہے: ایک تو مترجم ترجمہ کر کے لفظ کی تعداد کے اعتبار سے پیسے لیتا ہے۔ اور دوسری صورت یہ ہے کہ کمپنیاں ان کو ماہانہ تنخواہ پر ملازمت دیتی ہیں۔ دونوں صورتوں میں اس میں مترجم اپنے روزگار کا اچھا انتظام کرلیتاہے۔
خدمت خلق (سوشل ورک)
خدمت خلق ایک ایسا شعبہ ہے جو کہ ہر شخص کی ذمہ داری ہے مگر آج خدمت خلق ایک پروفیشن کی شکل اختیار کرچکا ہے جہاں ہزاروں ملازمت کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں کہ جس سے تعلیم، صحت، غذا اور اسی طرح دیگر اموراور ضروریات زندگی میں عوام الناس کو خاطرخواہ فائدہ پہنچایا جاسکے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہندوستان میں تقریباً ساڑھے چار لاکھ غیر سرکاری تنظیمیں ہیں جوکہ ان شعبوں میں خدمت خلق کا کام کررہی ہیں۔ اور لاکھوں کروڑوں لوگوں کا روزگار ان سے وابستہ ہے۔ فارغین مدارس فراغت کے بعد بی ایس ڈبلیواس کے بعد ایم ایس ڈبلیویا ڈپلومہ ان سوشل ورک کرنے کے بعد ان سے یا توخود منسلک ہوجائیں یا وہ اپنی تنظیم تشکیل دے کر اس میدان میں کام کریں۔
کارپوریٹ سیکٹر(M.N.C)
گر یجویشن مکمل کرنے کے بعد فارغین ملٹی نیشنل کمپنیوں میں ملازمت اختیار کر سکتے ہیں جہاں پر وہ ایک کلرک یا ڈیٹا انٹری کرنے والے سے لیکر ڈائریکٹر ومنیجر تک کی پوسٹ پر کام کرتے ہیں، اور یہ ایسی فیلڈ ہے جہاں پر ہر سال لاکھوں ملازمت کے آفرس نکلتے ہیں، اور بڑی تعداد میں طلبہ مدارس اس کا رخ کرتے ہیں، اس میں بڑے آرام سے ۲۰؍ سے ۴۰؍ ہزار ہر ماہ ان کو تنخواہ ملتی ہے۔ وہ کمپنیاں ملک کی بھی ہوسکتی ہیں اور بیرون ممالک کی بھی۔
سیروسیاحت:(Tourism)
ہندوستان ایک ایسا خوبصورت ملک ہے جہاں خوبصورت وقدیم عمارتوں کا ایک ذخیرہ ہے، تو وہیں دوسری طرف کشمیر سے لے کر کنیا کماری تک ایک خوبصورت مناظر کا سلسلہ ہے،چنانچہ یہاں پوری دنیا سے لوگ ان کے مشاہدے کے لیے آتے ہیں، خاص طورپر تاج محل، قطب مینار، ہمایوں کا مقبرہ وغیرہ۔ اس میں عرب پیش پیش ہیں، اس لیے ان کو گائڈ کی حیثیت سے ایسے لوگ درکار ہیں جو عربی زبان اور سیاحت کے بنیادی اصول جانتے ہیں،اس کے لیے تقریبا ہربڑی یونیورسٹی سیروسیاحت کا ڈپلومہ کورس کراتی ہے جس کے بعد وہ اس کام کو انجام دے سکتا ہے۔
ہاسپیٹل یعنی ہسپتال:
عربی جاننے والوں کی ایک بڑی تعداد ہسپتالوں میں بھی درکار ہے، خاص طور سے وہ ہسپتال جوکہ پوری دنیا میں جانے جاتے ہیں، کیونکہ ہندوستان اپنی طبی خدمات کے لیے بھی پوری دنیا میں مشہور ہے اور پوری دنیا سے لوگ علاج کے لیے یہاں آتے ہیں جس میں عربوں کا تناسب سب سے زیادہ ہے، کیونکہ عرب ممالک طب کی دنیا میں کافی پیچھے ہیں۔ اس میں سب سے زیادہ مریض عراق، شام، فلسطین اور تیونس وغیرہ سے آتے ہیں جو کہ خانہ جنگی، یا طوائف الملوکی سے دو چار ہیں۔ اب ان کی رہنمائی، ان کے لیے ڈاکٹر فراہم کرنا، ہسپتال لے جانا، کھانے پینے کا انتظام کرنا،ساتھ ہی ان کی بیماری کو جان کر ڈاکٹر کو اطلاع کرنا، یہ ایسا کام ہے جس میں کافی لوگوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ چنانچہ ہزاروں طلبہ گریجویشن کے بعد اس میدان میں جاتے ہیں۔
طب
طلبہ مدارس فراغت کے بعد B.U.M.S بھی کرسکتے ہیں اس کے علاوہ آیورویدک ہومیوپیتھک یا پھر یونانی ادویات کی تعلیم حاصل کر کے وہ ڈاکٹری کے میدان میں جاسکتے ہیں اور اب تک ہزاروں اس خدمت کو انجام دے رہیں، خاص طور پر جنہوں نے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی یا پھر جامعہ ہمدرد دہلی سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد طب کو بطور پروفیشن اختیار کیا۔
اسلامک بینکنگ
ابھی گزشتہ چند سالوں سے دنیا جس طرح کے مالی بحران سے دوچار ہے اس کا اثر ہر آدمی پر پڑا، اور ماہرین اقتصادیات اس کی وجہ تلاش کرنے میں مشغول ہیں۔ اس میں سے بعض ماہرین اس نتیجہ تک پہنچے ہیں کہ اس کا حل صرف اور صرف غیر سودی نظام میں ہے، چنانچہ ادھر چند سالوں سے اسلامک بینکنگ کا رجحان بڑی تیزی سے سامنے آیا، ان تمام ممالک میں آسٹریلیا سب سے پیش پیش ہے، وہاں پر اس نے اس کا آغاز کردیا ہے، اور وہاں پر بڑی تعداد میں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو علوم شرعیہ خاص طور سے بیع وغیرہ کے مسائل سے بخوبی واقف ہوں، اسی طرح خود ہندوستان میں بھی اس کا آغاز ہونے کے آثار نمایاں ہیں۔ چنانچہ اس کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے علیگڑھ نے اسلامک بینکنگ کو داخل نصاب کیا ہے۔ اور جامعہ اسلامیہ شانتا پورم میں بھی مستقل کئی سالوں سے اس کی تعلیم ہورہی ہے۔
منیجمنٹ:
منیجمنٹ ایک ایسی ضرورت ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا، اس کی ضرورت گھر کی چھوٹی اکائی سے لے کر حکومت جیسے بڑے ادارے تک رہتی ہے، اس لیے ہر سال لاکھوں کی تعداد میں طلبہ اس کو بطور پروفیشن اختیار کرتے ہیں۔ گریجویشن کے بعدM.B.AیاHotel Managementکے لیے راستہ ہموار ہوجاتا ہے، چنانچہ وہ اس قسم کا کوئی کورس کرلینے کے بعد کمپنیوں اور ہوٹلوں میں منیجر کی حیثیت سے منسلک ہوجاتے ہیں۔ فارغین مدارس کو یہ کمپنیاں عام طور سے ترجیح دیتی ہیں کیونکہ وہ دیکھتی ہیں کہ مدارس کے طلبہ کے اندر سنجیدگی اورکام سے لگاؤ کے علاوہ امن وشانتی اور دیانت داری میں کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔
خفیہ ایجنسیاں
حکومتوں کو داخلی وبیرونی دونوں شکل میں خفیہ ایجنسیاں ہی مضبوط بناتی ہیں جیسے RAW، I.Bوغیرہ ہندوستان میں جو کہ مختلف فیلڈ میں کام کرتی ہیں۔ ہر سال لاکھوں لوگ اس سے منسلک ہوتے ہیں، جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ دنیا میں ۲۲؍ عرب ملک اور ۵۳؍ ایسے ممالک ہیں جہاں پر کم وبیش عربی بولی جاتی ہے۔
وہاں کے حالات پر نظر رکھنے کے لیے خاص طور پر حکومت ہند سے متعلق امور پر نظر رکھنے کے لیے افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔ میڈل ایسٹ ( مشرق وسطیٰ) میں تو اس کے لیے حکومت ہندایسے ہی لوگوں کو متعین کرتی ہے جو عربی زبان یا ان ممالک کی لوکل زبانوں سے واقفیت رکھتے ہوں۔
صحافت
اور ایک اہم چیز جس کا ذکر ضروری ہے، وہ یہ کہ فارغین مدارس بڑی تعداد میں میڈیا سے منسلک ہیں اور آگے مزید اس میں لوگوں کی ضرورت رہے گی، کیونکہ طلبہ مدارس کی اس طرح سے تربیت ہوتی ہے کہ صحافت کا مادہ ان کے اندر خود بخود پیدا ہوجاتا ہے۔ اور مطالعہ کے سبب ان کی قلم میں اتنا اثر پیدا ہوجاتاہے کہ ان کی تحریر اور زبان دل کو موہ لیتی ہے۔ یہ پیشہ کافی اچھا، باعزت اورساتھ ہی ساتھ مالا مال بھی ہے۔
یہ وہ چند خاص میدان ہیں جہاں پر فارغین مدارس ایک بہت بڑی تعداد میں ملازمت کررہے ہیں، ان کے علاوہ بھی وہ بہت ساری فیلڈ میں جاسکتے ہیں جن کا ذکر یہاں ممکن نہیں، فارغین مدارس کے لیے موجود مواقع کی دنیااتنی وسیع ہے کہ ایک مقالے میں اس کا احاطہ مشکل ہے۔
کہاں سے لاؤں میں شیر وشہد واعظ! تری خاطر
مرے پیالے میں تو مئے ہے تجھے پینا ہے توپی لے

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights