عبداللہ کی اُڑان

1

عبدالحفیظ، تلنگانہ

جہاز کا سفر بڑی اچھی چیز ہے ۔ہرشخص کو زندگی میں کم از کم ایک بار ضرور کرنا چاہئے۔ اگر میرابس چلے تو ملک کے ہر شہری کے لئے لازمی قرار دے دوں۔ ٹکٹ کائونٹر سے اڑنے اور لینڈنگ تک،ہرلمحہ آدمی سیکھتا ہی رہتاہے۔ عبداللہ بھی لائن میں لگا تلاشی کے عمل سے گذررہاتھا۔ دھات کی ہر چیز باہر رکھنی پڑرہی تھی۔ وہ سوچنے لگا کہ شاید جنت میں بھی کوئی میٹل ڈیٹکٹر قسم کا گیٹ ہو۔ اگر آپ کے دل میں حسد، کینہ، ظلم، بغض وغیرہ ہوتووہ ٹوں ٹوںکرتارہے اور جب تک جہنم کی آگ ان تمام ملاوٹوں کو پگھلاکر راکھ نہ کردے،آپ کو آگے جانے کی اجازت نہ ملے۔

مگر خیر یہ تو دنیا ہے ۔جلدہی تلاشی سے جان چھوٹی۔آگے بورڈنگ کائونٹرتھا۔ہرشخص ہاتھ میں اپنابورڈنگ پاس پکڑے جلدی میں تھا، سامان کائونٹر پرچھوڑکر آگے بڑھتا جارہاتھا۔ اصل زندگی میں بھی ایسا ہی ہوتاہے۔ ہر شخص اپنی واپسی کا بورڈنگ کارڈ لے کر ہی دنیا میں آتاہے اور یہ بھول جاتاہے کہ سامان توکائونٹر پر جمع کرانا ہوتاہے اور وہ بھی ایسا جو منزل پر کام آئے۔ مگر وہ زندگی بھر اپنی ہی جھولی بھرتارہتاہے۔

ڈیپارچرلائونج سے آگے بس میں بیٹھے اور جہاز کی طرف چلے،آسمانوں میں اڑنے والے جہاز توچھوٹے چھوٹے دکھتے تھے مگر یہاں تو ایک بہت بڑا جہاز تھا۔ جیسے جیسے بس قریب ہوتی گئی ،جہاز بڑا ہوتاچلاگیا۔عبداللہ کا قد،جہاز کے پہیے کے نچلے حصے تک بھی نہیں پہنچ رہاتھا۔ عبداللہ سوچنے لگا کہ بندے اور اللہ کی رحمت میں تعلق بھی کچھ ایسا ہی ہے بندہ رب سے جتنا قریب ہوتاہے، اس کی رحمت اتنی ہی بڑی نظر آتی ہے۔

کچھ دیر میں جہاز نے اُڑان بھری، عبداللہ کھڑکی سے نیچے جھانکنے لگا۔ لوگ چھوٹے ہوتے چلے گئے۔ پھر گاڑیاں،عمارتیں، سب بونی ہوگئیں۔ پھر بادل اور پھرکھلاآسمان۔ عبداللہ سوچنے لگا کہ اللہ جوسب سے بڑا ہے، جو ساری کائنات سے بھی اوپر ہے، اسے کیسا لگتا ہوگاجب کوئی چھوٹاساآدمی،کسی چھوٹے سے ملک کے چھوٹے سے شہر میں، اس چھوٹی سی دنیا میں رہتے ہوئے خدا کو چلینج کرتاہوگایاسمجھتاہوگاکہ دنیا اس کے دم سے ہے۔ غرور کے ماروں کوسزا کے طورپر ٹیک آف اور لینڈنگ دکھانی چاہئے۔ اب وہ جہاز جوکسی بڑی وہیل سے بھی بڑا تھا بالکل چھوٹا لگ رہاتھا۔اور کمزور اتنا کہ ایک پرندہ ٹکراجائے تو بھک سے غبارے کی طرح پھٹ جائے۔

ہمارے اندر پلتاہوا فوعونیت اور انا کا جن بھی صرف مخصوص لوگوں، حالات ومعاشرے میں ہی چڑھ دوڑتاہے۔ ذہن کاکینواس وسیع ہوتوانا وغرور کے بت خود بخود راکھ ہوجاتے ہیں۔

تھوڑی دیر میں کھانا سَرو کردیاگیا۔ کھانے میں مچھلی تھی۔ عبداللہ پھر سوچ میں پڑگیاکہ اس غریب مچھلی کے وہم وگمان میں بھی نہ ہوگا کہ میں جو سمندر کی تہہ میں رہتی ہوں۔مجھے آسمانوں میں بادلوں سے اوپر کھایاجائے گا۔ وہ اللہ جو سمندر کی تہہ سے رزق نکال کر آسمانوں پر کھلانے پرقادر ہے کیا وہ زمین کا رزق زمین پر رہتے ہوئے نہیں پہنچاسکتا؟

جہاز سکون سے لگے بندھے راستے پر اڑاچلاجارہاتھا۔ کاک پٹ میں لگا کمپاس اس کی ہدایت کے لئے کافی تھاجو اسے بھٹکنے نہیں دیتاتھا ہماری زندگیوں کابھی کمپاس شریعت کے طورپر آیا ہے مگر ہم اسے دیکھتے ہی نہیں اور بھٹکتے چلے جاتے ہیں۔ مشرکوں کی دعائوں کی طرح جس سے مانگیں اسے بھی نہیں پتاکہ اس سے مانگاجارہاہے۔

مسلمانوں کی دعائیں تو نہیں بھٹکتیں۔ اللہ پاک سب سنتاہے سب جانتاہے۔جہاز نے اچانک ایک جھٹکاکھایا۔ شاید کسی طوفان سے گذررہاتھا۔لوگوںنے پرواہ نہ کی۔ پھر ایک اورجھٹکا۔پھر کوئی خاص توجہ نہ دی گئی۔ اب لگاتار جھٹکے اور زور زور سے۔ اب لوگ سیدھے ہوکر بیٹھ گئے۔ سیٹ بیلٹس باندھ لیں اور دعائیں مانگنے لگ گئے۔ پھر کچھ ہی دیر میں اڑان ہموار ہوگئی۔ ہم اپنی زندگی میں بھی یونہی کرتے ہیں۔سپردگی نہیں کرتے۔ ایک کے بعد ایک چیلنج لینے کوتیار رہتے ہیں۔ آخر پہلے جھٹکے میں ہی اللہ سے رجوع کرلیں تو کیا ہی اچھی بات ہوتی ۔اللہ کے سامنے بہادری تو کوئی کافر ہی دکھاسکتاہے۔

جہاز نے لینڈنگ شروع کی۔ عمارتیں، گاڑیاں اور لوگ بڑے ہوتے چلے گئے۔یہ دنیا ہے ایسی، جتنا اس کے پاس جائو یہ اتنی ہی بڑی لگتی ہے۔ اور پھر لوگ بڑھ چڑھ کر سامان حاصل کررہے تھے۔سب کو جلدی تھی اور ایسی جلدی میں سب بھول گئے کہ جہاز کسی اور کا ہے ۔پائلٹ کوئی اور ہے ۔حکم کسی اور کا چلتاہے۔ہم تو بس مسافر ہیں۔

1 تبصرہ
  1. […] تحریر نگار کے قلم سے: عبداللہ کی اُڑان […]

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights