عالم اسلام: دوستوں کی دشمنی اور دشمنوں سے دوستی

0

ڈاکٹر سلیم خان
اکتوبر۱۹۷۳ ؁ء کی عرب اسرائیل جنگ مسلم دنیا کی سیاست کا ایک ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ چالیس سال بعد اس جنگ کی برسی کے موقع پر رونما ہونے والے حالات اور بیانات اس بات کے شاہد ہیں کہ اس عرصے میں وہ سب ہوگیا جس کا تصورکرنا کسی بھی دانشوریا سیاستداں کے لیے ناممکن تھا۔ اس جنگ میں دونوں ہی فریقین نے اپنی کامیابی کا دعویٰ کیا تھا لیکن اسرائیلی بریگیڈیرجورم ڈوری نے الجزیرہ چینل پرکہاکہ’’میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہے۔ کسی نے کم کھویا تو کسی کو زیادہ کھونا پڑا لیکن کامیابی کسی کے حصے میں نہیں آئی ۔ اس سال ۶؍ اکتوبر کو جنگ میں شہید ہونے والوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کی خاطر مصر کے اسلام پسندوں نے مظاہرے کا اعلان کیا جس میں مجموعی طور پر ایک کروڑ سے زیادہ لوگ شریک ہوئے۔ فوجی حکمرانوں نے بوکھلاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے۵۰؍پرامن مظاہرین کو شہید کردیا۔ یہ اندوہناک واقعہ اگر تل ابیب کی سڑکوں پر رونما ہوتا تو کوئی حیرت کی بات نہ تھی لیکن سرزمین مصر پر اس کارونما ہونا یقیناالم ناک ہے۔
سوال یہ ہے کہ مصری فوج کی بندوقوں کا رخ اسرائیل سے ہٹ کر خود اپنی عوام کی جانب کیوں ہو گیا؟ اس کا جواب بشارالاسد نے نہایت صاف گوئی کے ساتھ اپنے قومی چینل تشرین پر جنگ کی برسی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے دیا۔اس نے نام نہاد دہشت گردی کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے جنرل السیسی کی تعریف کی اورکہا فی الحال شام و مصر کومشترک دشمن سے سابقہ ہے اور اس دشمن پر کامیابی ناگزیر ہے۔ لوگ سوچ رہے ہوں گے کہ اسرائیل کا ذکر ہورہا ہے، جی نہیں! بشار نے ازخود اس غلط فہمی کا ازالہ کردیا اور کہا۱۹۷۳ ؁ء میں شام و مصر کی فوجیں ایک دشمن اسرائیل کے خلاف متحد ہوئی تھیں۔آج بھی دونوں فوجیں ایک ہی دشمن سے برسرِ پیکار ہیں لیکن اب وہ دشمن اسرائیل نہیں ہے۔ اب ہماری فوجوں سے لڑنے والے عرب اور مسلمان ہیں۔ اپنی بات کو واضح کرنے کے لیے اسد نے مزید کہاگزشتہ چالیس سالوں میں نسلوں کے گزر جانے سے اور حالات کے تبدیل ہوجانے سے بہت کچھ بدل گیا ہے۔
بشار کا بیان صد فیصد درست ہے، نسلیں اورحالات دونوں بدل چکے ہیں۔۱۹۷۳ ؁ء میں ایک جانب اشتراکی افکار کے حامل سوویت یونین،مصر ، شام اورپی ایل او تھے تو دوسری جانب سرمایہ دارانہ استبداد کے علمبردار امریکہ ،یوروپ اور اسرائیل۔ اسلام پسندوں کو بشار کے والدحافظ اسداور اس کے رفیق کارجمال عبدالناصرنے اپنے قدموں تلے روند کر یہ سوچ لیا تھا کہ اب یہ پودا کبھی برگ و بار نہیں لا سکتا۔ آج اسلام کی کھیتی کااس طرح لہلہاناحالات کے بدل جانے کا بین ثبوت ہے۔ بہار اسلام سے باطل اس قدر خوفزدہ ہو گیا ہے کہ مصری حکمراں اسرائیل کو گلے لگا رہے ہیں اور اپنے بھائیوں کا گلا کاٹ رہے ہیں۔ شامی فوج نے ابھی اسرائیل سے معانقہ تو نہیں کیا لیکن اس بیان سے اشارہ ضرورکر دیا ہے۔ اب وقت ہی بتائے گا کہ اسرائیل اس دعوت پر کب لبیک کہتا ہے، ممکن ہے کل کو یہ اعلان ہوجائے کہ شام کو کیمیائی اسلحہ سے پاک کردیا گیا ہے اس لئے اب سارے گلے شکوے دور ہوگئے۔ بشار الاسد کے مطابق چالیس سال قبل عرب ممالک زندگی کے تمام شعبوں مثلاً ذرائع ابلاغ،تہذیب و تمدن،اخلاق وسیاست اور فوجی اعتبار سے ایک دشمن اسرائیل کے خلاف متحد تھے لیکن آج ہم یہ دیکھتے ہیں کہ عرب ممالک شام کے خلاف اتحاد قائم کئے ہوئے ہیں، حقیقت وہ نہیں ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اسلام پسندوں کے خلاف قائم ہونے والے اتحاد میں روس ،امریکہ ،اسرائیل، شام ،مصر اور دیگر خلیجی ممالک ایک دوسرے کے ہم نوا بنے ہوئے ہیں۔
بشارالاسد امریکی ایجنڈے پر کام کرنے والے ممالک مثلاً سعودی اور ترکی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے یہ بھول گیا کہ جس سعودی عرب کو وہ اپنا دشمن سمجھتا ہے وہ بھی جنرل السیسی کا اسی کی مانندحامی و مددگارہے۔ جس روز بشارالاسد یہ بیان دے رہا تھا مصر کا کٹھ پتلی صدر عدلی منصورسعودی عرب کے سرکاری دورے پر تھا۔ سعودی حکمراں اس بات کی خوشی منا رہے تھے کہ مصر ایک سرنگ سے باہر آگیا ہے۔ اس لحاظ سے مصری ،شامی، سعودی اور دیگر خلیجی ممالک کے درمیان فکرونظر کی ہم آہنگی تو آج بھی پائی جاتی ہے، اس لئے کہ سب کے دوست اور دشمن یکساں ہیں۔ گارجین کے ڈیوڈ ہرسٹ نے مصر و سعودی عرب کے اتحاد پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ گھڑی کے کانٹوں الٹی جانب گھمانا نہ صرف افسوسناک ہے بلکہ شام کی خانہ جنگی اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ ناممکن بھی ہے۔
اس صورتحال کاخوش آئندپہلو یہ ہے کہ مسلم عوام اور ان کے حکمرانوں کے نزدیک دوستی و دشمنی کا معیاریکسر مختلف ہے۔آج اسلام پسندوں کے خلاف قائم ہونے والے اس اتحاد اور ان پر توڑے جانے والے مظالم سے جولوگ حواس باختہ ہیں انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ سیاست کی دنیا میں کمزوروں کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں اسلام کی دعوت جیسے جیسے زور پکڑتی گئی اس کی مخالفت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ پہلے مرحلے میں اسے نظر انداز کیا گیا۔ پھر تضحیک و تمسخر، افواہ و بہتان،اور بالآخر تشدد اور فوج کشی تک بات جاپہنچی اس کے باوجود اسلام کی روشنی پھیلتی ہی چلی گئی یہاں تک کے باطل سرنگوں اور اسلام کو غالب ہو گیا۔
اکتوبر۱۹۷۳ ؁ء کی جنگ کے تین مراحل ہیں۔ اول تو اسرائیلی فوج پوری طرح پسپا ہوگئی لیکن دوسرے مرحلے میں اس کو کامیابی حاصل ہوئی اور وہ نہ صرف دمشق سے بہت قریب پہنچ گئی بلکہ صحرائے سینا کو عبورکرکے مصری علاقوں میں داخل ہوگئی۔ اس طرح دنیا جوہری جنگ کے دہانے پر پہنچ گئی اور امریکہ و سوویت یونین آمنے سامنے آگئے لیکن تیسرے مرحلے میں تیل کا استعمال اسلحہ کے طور پر ہوا۔ ایندھن فراہمی پر جب روک لگی تو مغربی ممالک کے ہوش ٹھکانے آگئے اوراسرائیل کو بیشتر علاقوں سے پیچھے ہٹنا پڑا۔ بندوق کے بجائے تیل کی ڈپلومیسی نے مصر کو عرب سربراہی کے مقام سے معزول کرکے وہاں سعودی عرب کو براجمان کردیا۔ جمال عبدالناصرکی اسلام دشمنی نے اسے دشمن اوردوست دونوں کے سامنے رسوا کیا۔ ناصر کے بعد زمامِ کار سنبھالنے والے انور سادات نے اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کرکے اعلان کردیا کہ اکتوبر۱۹۷۳ ؁ء کی جنگ آخری تھی۔ یہ گویا اعتراف تھا کہ اب ہم اسرائیل کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھائیں گے۔
انور سادات نے تو ہتھیار ڈال دئیے لیکن اسرائیل اسلحہ سے لیس ہوتا چلا گیا اور اس کے خلاف اسلام پسند حماس نے ہتھیار اٹھالئے۔اب چالیس سال بعدمصری فوجوں نے ہتھیار اٹھائے بھی تو اسرائیل کے بجائے ان اسلام پسندوں کے خلاف جن کواسرائیل اپنے لئے سب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے۔ اس قدر مشترک نے اسرائیل کو مصری حکومت کا بہت بڑا ہم نوا بنا دیا۔ یہ ایک حیرت انگیز حقیقت ہے کہ مصری حکومت کے ساتھ فی الحال نہ صرف شام ہے جس کی پشت پناہی ایران اور روس کررہا ہے بلکہ سعودی عرب بھی ہے جس کے سرپر امریکہ کا ہاتھ ہے اس کے علاوہ اسرائیل بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں ہے۔ اسرائیلی موقف کا اظہار مختلف مواقع پرکھلے عام ہوتا رہا ہے۔ گزشتہ پیر کواسرائیل کے نائب وزیر خارجہ زیف الکین نے مغربی مملک کے سامنے دہائی دیتے ہوئے کہاکہ وہ فوراً مصری فوجی حکمرانوں کو معاشی امداد دیں تاکہ اخوان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے مواقع کو پوری طرح ختم کیا جاسکے۔زیف کے مطابق اگر مصر کی امداد نہیں کی گئی تو پھر سے انتہا پسند اسلامی قوتیں برسراقتدار آجائیں گی۔ ایسے میں جبکہ اسلام پسندوں پر گولیاں برسائی جارہی ہیں۔ اخوان پر پابندی لگادی گئی۔ ان کے دفاتر کو لوٹا اور تباہ کیا جارہا ہے۔ صدرمرسی اور ان کے ساتھیوں پر مقدمہ کی تاریخ کا اعلان ہورہاہے، اسرائیلی وزیرخارجہ کا اسلام پسندوں کے دوبارہ اقتدار میں آجانے کا خوف اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ تحریک کے دفتر پر تو تالہ لگایا جاسکتا ہے لیکن عوام کے دلوں کومقفل نہیں کیا جاسکتا۔
ارالان یونیورسٹی میں زیف الکین نے مغرب پرتنقید کرتے ہوئے کہاکہ مغرب نے جب اسلامی دنیا کو اچھے سیکولرسٹ اور برے اسلام پسندوں میں تقسیم کرہی دیا ہے تو اسے چاہئے کہ ان کے درمیان مفاہمت کرانے کے بجائے اپنے ہم نواؤں کی پشت پناہی کرے۔ اسرائیلی حکمرانوں کی پریشانی سے وہ تمام لوگ واقف ہیں جنہیں گزشتہ نومبر میں غزہ پراسرائیلی جارحیت کے دوران صدر مرسی کی کاکردگی یادہے۔ اس وقت چھے انقلابی اقدامات کرکے مرسی نے ساری دنیا کو چونکا دیا۔ تل ابیب سے مصری سفارتکار کو واپس بلایاجانا۔اسرائیلی سفیر کا قاہرہ سے واپس ہوجانا۔رفاہ سرحد کوتمام چوبیس گھنٹوں کے لئے کھول دیاجانا۔ وزیراعظم ہشام قندیل کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطحی وفدکا غزہ روانہ ہونا۔عرب لیگ کا اجلاس فوراً طلب کیاجانا اور اقوام متحدہ کا اجلاس بلانے کی درخواست۔ ان تمام چیزوں کے علاوہ جس خفیہ حکمت عملی نے اسرائیل کو زمینی فوج کشی سے باز رکھا وہ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کو منسوخ کرنے کی دھمکی تھی۔ اس حقیقت کا اعتراف حال میں اسرائیل ٹوڈے نامی اخبار نے کیا۔
اس موقع پر اسرائیل کے سابق سفیر نے زفی مازیل نے اعتراف کیا تھاکہ صدر مرسی کے انداز سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اسرائیل کے ایک مشکل دشمن ہیں۔ مشہور اسرائیلی صحافی رون بن یشائی نے لکھا کہ مرسی نے کھیل کا پانسہ ایسے پلٹا کہ امریکہ کو اقدام کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ اس بات کی بلاواسطہ تصدیق ماہر تجزیہ نگارنوم چومسکی نے گارجین کے ایک مضمون میں اس طرح کی کہ صدر مرسی اور صدر اوبامہ کے اختلاف اس قدر بڑھ گئے تھے کہ مصر پرامریکہ کا وہ تسلط ختم ہو گیا، جس میں مغرب اپنے سارے مطالبات (بشمول مصری قومی سلامتی مخالف مطالبے)حسنی مبارک سے بآسانی منوا لیتا تھا۔ اسرائیل کے سب بڑے اخبار ’حارث‘ نے یہ انکشاف بھی کیا کہ اسرائیل نے السیسی کو یقین دلایا تھا کہ بغاوت کے باوجودامریکی امداد بند نہیں ہوگی حالانکہ اب اس میں کٹوتی ہونے جارہی ہے۔اسرائیل کے وزارتِ خارجہ نے فوجی حکومت کے حق میں امریکہ اور یوروپی یونین کی رائے ہموار کرنے کی بڑی کوشش کی جس کوئی خاص ضرورت نہیں تھی۔
اسرائیل کے ٹی وی چینل ۱۰؍نے مصر کے اندر فوجی بغاوت میں موساد کی ساز باز کا اعتراف کیا ہے بلکہ ترکی کے اناضول خبررساں ایجنسی کے مطابق میدان رابعۃالعدویہ اور النہضۃ چوک سے مظاہرین کو ہٹانے سے قبل اسرائیل کا جہاز مہلک ہتھیاروں کو لے کر قاہرہ کے ہوائی اڈے پر اترا تھا۔ اسرائیل ٹوڈے میں ایک نہایت دلچسپ تجزیہ شائع ہواجس میں کہا گیا کہ اگر ہم نے اس فوجی بغاوت کی ناکامی کے بعد اخوان کو دوبارہ اقتدار میں آنے کا موقع دیا توہماری نسلیں خون کے آنسو روئیں گی۔اسرائیل کو چاہئے کو وہ اس ناممکن کو یقینی بنائے اور اخوان کو اقتدار میں آنے سے روکے۔ اس لئے کہ وہ واپس آکر انتقام لیں گے۔ مبصر لکھتا ہے السیسی نے قتل و غارتگری اس لئے کی کہ اسے اپنی ناکامی کی اہمیت کا احساس ہے۔ ہمیں (اسرائیل کو)اس کی مدد کرنی چاہئے اس لئے کہ یہ ہم دونوں کے لئے موت و حیات کا مسئلہ ہے۔سابق سفیرزفی ماذیل نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر مغرب نے السیسی کو پورا تعاون نہیں دیا تو وہ صدیوں تک افسوس کرے گا۔یہی وجہ ہے کہ بغاوت کے بعد نئی عبوری حکومت کا پہلا غیر ملکی دورہ اسرائیل کے لئے تھا اور اس وفد میں ڈاکٹر برادعی کے ساتھ صدر بننے کے خواہشمند حمیدین صباحی بھی شامل تھے۔ قدرت کا کرنا ایسا ہوا کہ دونوں حضرات کے دل کے ارماں آنسووں میں بہہ گئے اور وہ لوگ السیسی کے ساتھ وفا کرکے بھی تنہا رہ گئے۔
مصر کی موجودہ صورتحال کا تقابل رجائیت پسند حضرات ترکی سے کرتے ہیں جہاں فوج نے تین مرتبہ منتخبہ حکومت کو اقتدار سے بے دخل کیا مگر بالآخراسلام پسنداپنے قدم جمانے میں کامیاب ہوگئے۔ ان لوگوں نے نہ صرف سیاست کو فوج کے عمل دخل سے آزاد کرالیا بلکہ عدلیہ کی دھاندلی پر بھی لگام کس دی۔ اس ہفتے اسکارف کے اوپر لگی دس سالہ پابندی کا خاتمہ اس بات کی دلیل ہے کہ ترکی میں اسلام پسند عناصر دن بدن قوی تر ہوتے جارہے ہیں۔ اس کے برخلاف قنوطیت پسند لوگ الجزائر کی مثال دیتے ہیں جہاں اسلام پسندوں کو ہٹا کر فوج اس طرح اقتدار پر قابض ہوئی کہ دوبارہ غیر جانبدارانہ انتخاب کا موقع ہی نہیں آیا۔لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تومصر کی مشابہت ان دونوں سے زیادہ پاکستان سے ہے جہاں پچھلے ۶۵؍سالوں میں کئی مرتبہ فوجی حکمراں برسرِ اقتدار آئے مگر انہیں پھر رسوا ہو کر جانا پڑا۔ ایک فرق یہ رہا کہ پاکستان میں ہر بار سیکولر لوگ فتحمند ہوئے اوراسلام پسند کوئی قابلِ لحاظ کامیابی درج نہ کراسکے۔
مصر اور پاکستان دونوں کثیر آبادی والے مسلم ممالک ہیں۔دونوں مقامات پرسیاست ومعیشت میں دلچسپی رکھنے والی طاقتور فوج ہے۔ دونوں ممالک انگریزوں کے غلام رہ چکے ہیں اورامریکہ کے باجگزار ہیں۔ ان ممالک کے اندر ایک ایسا پڑھا لکھا بااثرخوشحال سیکولرطبقہ پایا جاتا ہے جو نہ صرف مغرب کا ذہنی غلا م ہے بلکہ ملک کے عام لوگوں کو اپنا غلام بنائے رکھنا چاہتا ہے۔ اتفاق سے اس طبقے کے لوگ فوج اور سیاست دونوں مقامات پر اپنا اثرورسوخ رکھتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ پر بھی یہی چھائے رہتے ہیں۔اب اگر پرویز مشرف کی نواز شریف کے خلاف بغاوت کا موازنہ السیسی کی جانب سے مرسی حکومت کا تختہ الٹنے سے کیا جائے تو کچھ اور مشابہت سامنے آتی ہے۔ السیسی اور پرویز مشرف جب تک اقتدار کی کرسی پر فائز رہے امریکہ و اسرائیل کی آنکھوں کا تارہ بنے رہے۔اس کی جانب سے نواز شریف کے ہٹائے جانے سے قبل ان کے بارے میں کہا جانے لگا تھاکہ وہ دیگر جماعتوں کو اعتماد میں نہیں لیتے۔ اپنے بھائی یا والد سے مشورہ پر اکتفا کرتے ہیں اور عدالت کو خاطر میں نہیں لاتے۔ اسی طرح کے بے بنیاد الزامات صدر مرسی پر لگائے گئے کہ وہ اخوان کا ایجنڈاعوام پر تھوپ رہے ہیں۔دیگر جماعتوں اور عدالت کی نہیں سنتے۔
ان دونوں صورتحال میں چند اختلافات بھی ہیں۔مشرف کی فوجی بغاوت کا استقبال کیا گیا۔ نواز شریف کے حق میں کوئی بڑی تحریک نہیں چلی۔اس لئے پرویز مشرف کو ابتدا میں جبرو استبداد کی ضرورت پیش نہیں آئی لیکن بعد میں اس نے وہ سب کیا جو ایک ظالم حکمراں کرتا ہے۔ پرویز مشرف نے چھوٹتے ہی فوجی اقتدار سنبھالااورآگے چل کر انتخاب کاناٹک کرنے کے بعدصدر کی حیثیت سے حکومت کرتارہا۔اس کے برعکس مصر میں مٹھی بھر لوگوں نے خوشی منائی مگر فوجی بغاوت کے خلاف ایک ملک گیر زبردست تحریک چل پڑی، اور السیسی فرعونیت پر اتر آیا۔ عوام کے دباؤ نے اسے بالواسطہ اقتدار سنبھالنے کے بجائے پردے کے پیچھے سے حکومت کرنے پر مجبور کیا لیکن یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ تاریخ پلٹا بھی کھاتی ہے۔ جس نواز شریف کو پرویز مشرف نے نظر بند کیا تھا اسی پرویز کو شریف نے نظر بندی سے نوازا۔ پرویز مشرف پر قتل سے لے کر بغاوت تک کے سنگین الزامات عائد ہیں۔ مشرف انتخاب لڑنے جو خواب بن کر اپنے ساتھ لایا تھا وہ شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا۔ عدالت عالیہ نے اس کی ضمانت منظور کردی ہے گویا اب اس کے فرار ہونے کا راستہ کھول دیا گیا ہے۔ جس طرح نواز شریف کو منھ اندھیرے ملک سے نکلنے کے لیے مجبور کردیا گیا تھا اسی طرح کی رسوائی فی الحال پرویز مشرف کی منتظر ہے۔ آگے چل کر اس کا اور جنرل السیسی کا کیا انجام ہوگا یہ تو وقت ہی بتائے گا، لیکن اس میں شک نہیں کہ انجام جو بھی ہو وہ یقیناًعبرتناک ہوگا۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights