سفرنامۂ دہلی

0

محمد شوکت علی، کرناٹک
(سابق سکریٹری ایس آئی او آف انڈیا)
تقریبا تین سال پہلے میں فیملی کے ساتھ دہلی میں مقیم تھا۔ نئی دہلی کی ایک بہت ہی پاکیزہ جگہ ’مرکزایس آئی او آف انڈیا‘ کے کمپاؤنڈ کے اندر چار منزلہ عمارت کی چوتھی منزل کے ایک فلیٹ میں میرا قیام تھا۔ یہ جگہ میری نظر میں بہت ہی پاکیزہ اس لیے ہے کہ یہ اللہ کے پیغام کو پوری انسانیت تک پہنچانے اور انسانوں کی خدمت انجام دینے والی ایک مثالی تنظیم کا مرکز ہے۔ اس کے علاوہ اُس وقت مجھے دہلی میں جامع مسجد، قطب مینار، لوٹس ٹیمپل، راج گھاٹ وغیرہ کے خوشگوار مناظر کا مشاہدہ کرنے کا بھی موقع نصیب ہوا، والحمد للہ علی ذلک۔
پچھلے دسمبر میں دہلی کو الوداع کہہ کر بنگلور واپس آنا پڑا، کیونکہ تنظیم کے نظم کے تحت وہاں میری ذمہ داری محض دوسال کے لیے تھی۔ اس لیے نہ چاہتے ہوئے بھی دہلی کو الوداع کہنا پڑا۔ جب میں دہلی کو الوداع کہنے کے لیے کار میں بیٹھا تو میری آفس کے سبھی افراد، ہاسٹل کے سبھی طلبہ، اور میرے دیگر احباب تقریبا تیس چالیس افراد وہاں موجود تھے۔ سب کے چہروں پر حزن وملال نمایاں تھا، شائد یہ ان لوگوں کی محبت تھی۔ اس کا ایک سبب ہمارا وہاں بہت زیادہ لوگوں کے ساتھ ملنا جلنا، اور ایک دوسرے کے گھر آنا جانا بھی ہوسکتا ہے، کیونکہ میٹرو سٹی میں آباد اکثر لوگ ایک دوسرے کے لیے انجان ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے گھر آنے جانے کا رواج کم ہی ہوتا ہے، لیکن ہمارا معمول تھا کہ آفس آنے والا ہر فرد ہمارے گھر کا مہمان ہوتا تھا، یہاں خودستائی مقصود نہیں ہے، نیت کا مسئلہ اللہ پر چھوڑ یئے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہمیں رخصت کرتے وقت سب کے چہروں پر ایک طرح کا دکھ نمایاں تھا۔ صدرتنظیم برادر اشفاق احمد شریف کا قول آج بھی یاد ہے کہ ’’سب سے زیادہ دکھ شارق انصر کو ہوا ہے‘‘۔ یقیناًشارق انصر اور میرا بہت ہی گہرا تعلق تھا، اور مجھے الوداع کہتے ہوئے ان کی آنکھیں ڈبڈبائی ہوئی تھیں۔
اس کے بعد ابھی گزشتہ دنوں اللہ تعالی کی توفیق سے دہلی جانے کا ایک بار پھرموقع نصیب ہوا۔ ہمارے یہاں ’شانتی پرکاشن‘ تحریک اسلامی کا ایک کنڑ پبلشرز ہے، جس نے اپنے پچیس سال مکمل کرلیے ہیں۔ میں بھی اس کے ٹرسٹ کا ایک ممبر ہوں۔دہلی میں جماعت اسلامی ہند کی جانب سے ملک بھر سے جماعت کے پبلشرز کو ۲؍دن کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ یہاں ملک کی تمام زبانوں میں شائع شدہ تحریکی لٹریچر کا جائزہ اور مستقبل کے سلسلے میں منصوبہ بندی کے لیے ایک ورکشاپ کا انعقاد کیا گیاتھا۔کرناٹک سے میں اور غلام مولی صاحب اس میں شریک ہوئے تھے۔
اِس وقت ہمارے تحریکی پبلشرزتقریبا پانچ ہزار کتابیں ملک کی علاقائی زبانوں میں شائع کررہے ہیں۔ یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ آسام کے لوگوں نے بھی تقریبا پچاس کتابوں کا ترجمہ کیا ہے۔ آسام حلقہ کی افرادی اور تنظیمی قوت کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو یہ ایک بڑی خدمت ہے۔ یہ کام انجام دینے والے کسی زبان یا لٹریچر میں پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھنے والے افراد نہیں ہیں، بلکہ اللہ پر بھروسہ رکھ کر کام کرنے والے عام تحریکی افراد ہیں۔ یقیناًلٹریچر انسانی فکر اور اس کی تشکیل میں رہنمائی کا کام کرتا ہے، کسی قوم کا عروج یا زوال اس کے فکری ارتقاء پر مبنی ہوتا ہے۔
اس ورکشاپ میں جس ادارے نے مجھے سب سے زیادہ متأثر کیا، وہ اسلامک فاونڈیشن ٹرسٹ تمل ناڈوتھا۔انسان اگر زمانے کے ساتھ نہیں چلتا ہے، یا زمانے کے ساتھ اپنے آپ کو نہیں بدلتا ہے تو زمانہ اسے پیچھے چھوڑ کر آگے نکل جاتا ہے، اور اس کے لیے میدان میں زیادہ مسابقہ ممکن نہیں ہوتا ہے۔ تمل ناڈو کے اسلامک فاؤنڈیشن ٹرسٹ (IFTْ) نے جو کارکردگی انجام دی وہ سبھی کے لیے مثال اور نمونہ ہے۔
آج شادی وغیرہ تقریبات میں بہت کچھ خرچ کیا جاتا ہے، شادی کارڈ وغیرہ کے لیے بہت پیسے لٹائے جاتے ہیں۔ آئی ایف ٹی کے افرادلوگوں کے پاس جاکر ان کو آمادہ کرتے ہیں کہ ہم اپنی کتابوں میں آپ کے شادی کارڈ چھاپیں گے، اگر کوئی راضی ہوتا ہے تو وہ لوگ اپنی کتابوں میں بہت ہی اچھی کوالٹی کا کارڈ چھاپ کردیتے ہیں، اس کی کاپی بھی وہ لوگ یہاں لے کر آئے تھے، مجھے یہ چیز بہت پسند آئی، اس سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بہت ہی آسانی کے ساتھ ایک ہزار یا اس سے زائد گھرانے میں ہماری سوچ اور فکر پہنچ جاتی ہے۔ اسی طرح تہوار وغیرہ کے موقع پر بڑے بڑے دوکاندار خریداروں کو بیگ، قلم، گلاس، وغیرہ تحفہ کے طور پر پیش کرتے ہیں، آئی ایف ٹی کے افراد ان کے پاس جاکر ان کو آمادہ کرتے ہیں کہ آپ گلاس، قلم اور بیگ کی جگہ کتابیں ہدیہ کیجئے۔ ہم اس میں آپ کی دوکان کا اشتہار بھی دیں گے۔ اس طرح اسلام کے پیغام ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت، اوراسلام کے خاندانی نظام کے بارے میں جو بھی کتابیں ہیں، وہ آسانی کے ساتھ کافی لوگوں تک پہنچ جاتی ہیں۔ اسی طرح اس وقت تقریبا ۱۰۰؍اسکولس میں آئی ایف ٹی کا بنایا ہوا نصاب چل رہا ہے، اور ان اسکولوں کی تعدادمیں ہر سال اضافہ بھی ہوتا جارہا ہے۔
یہاں آئی ایف ٹی کے نمائندے جلالین (دو افراد تھے اوردونوں کا نام جلال تھا)تھے، یہاں ان سے کچھ باتیں کرنے اور تبادلہ خیال کرنے کا اچھا موقع ملا۔ یہاں اندازہ ہوا کہ مودودی علیہ الرحمۃ کی خطبہ مدراس میں دی گئی چار ہدایات میں سے چوتھی ہدایت پر کس قدرحسن وخوبی کے ساتھ عمل ہورہا ہے۔
پروگرام ختم ہونے کے بعد مولانا محمد فاروق خاں صاحب سے ملاقات کا پروگرام طے تھا، مولانا چتلی قبر میں واقع قدیم مرکز جماعت میں رہتے ہیں۔
دہلی سفرنامہ تحریر کرنے کا اصل حوصلہ مجھے مولانا سے ملاقات کے بعد ہی حاصل ہوا۔ میں مولانا فاروق خاں صاحب سے ملاقات کرنے کے لیے بہت ہی بے چین تھا۔ ملاقات کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ہمارے یہاں ان کی تازہ کتاب ’ ایک ایشور کی کلپنا‘ کا ترجمہ شائع ہونے کے لیے تیار ہے، اس میں موجود ویدوغیرہ کے حوالہ جات کے سلسلے میں مجھے ان سے کچھ تفصیلات حاصل کرنی تھیں۔مولانا موصوف کی بے انتہا مصروفیات کے پیش نظران سے ملاقات کرنے کے لیے پہلے سے وقت طے کرلینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ مدیر رفیق منزل اور میرے عزیز دوست ابوالاعلی سید سبحانی سے اس سلسلے میں گفتگو کی، برادرم نے نہ صرف ملاقات کا وقت طے کرلیا، بلکہ ساتھ چلنے کا وعدہ بھی کیا۔ مولانا سے جب فون پر گفتگو ہوئی، تو انہوں نے ہمیں خوش آمدید کہا۔
مولانا فاروق خاں صاحب اور ہمارے درمیان تین نسلوں کا فرق ہے، لیکن ہمارے درمیان دوستی کا تعلق ہے۔ مولانا فاروق خاں سے ملاقات کرکے اندازہ ہوتا ہے کہ جولوگ علم سے محبت رکھتے ہیں،ان کا آپسی تعلق کیسا ہونا چاہئے۔
ہم جیسے ہفت روزہ اور ماہانہ رسالے نکالنے والوں کے لیے مولانا فاروق خاں صاحب ایک نمونہ ہیں، ہمیشہ وہ کتابوں کی دنیا میں مصروف رہتے ہیں، اس عمر میں ان کی محنت اور انتھک جدوجہد یقیناًقابل رشک ہے۔
مولانا فاروق خاں صاحب زائد از پچاس اہم کتابوں کے مصنف ہیں، آپ کی تیار کردہ ’کلام نبوت‘ پانچ جلدیں ایک اہم علمی کارنامہ ہے۔ ہندی اور اردو زبانوں میں آپ غیرمعمولی مہارت رکھتے ہیں۔ مصنف بھی ہیں اور شاعر بھی۔ آپ کا شعری مجموعۂ کلام ’حرف وصدا‘ کے نام سے شائع ہوا ہے۔آپ کی کتابیں ہندوستان کی مختلف زبانوں میں شائع ہوئی ہیں۔ کئی کتابیں ہمارے یہاں شانتی پرکاشن سے بھی شائع ہوئی ہیں۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ مولانا ابھی ہندی زبان میں قرآن مجید کی دعوتی نقطہ نظر سے ایک تفسیر تیار کررہے ہیں، ان سے ذکر کیا تو کہنے لگے ’’اس کو آپ کنڑ زبان میں ترجمہ کیجئے گا،یہ ایک اہم ضرورت کی تکمیل ہوگی، کیونکہ ابھی تک جو تفسیریں لکھی گئی ہیں، وہ مسلم قوم کو سامنے رکھ کر لکھی گئی ہیں، ان تمام تفسیروں کا اپنا اپنا پس منظر ہے، علماء نے ان کو تیار کرنے کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں، اللہ ان کی قربانیوں اورمحنت کو شرف قبولیت بخشے، لیکن میں نے جو تفسیر لکھی ہے وہ ان سب سے تھوڑی الگ ہے، میں نے مسلمانوں کے بجائے عام انسانوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہندوستان میں اسلام کی دعوت کے پیش نظر یہ تفسیر تیار کی ہے۔اس کا اصل مخاطب مسلمان نہیں بلکہ انسان ہیں‘‘۔
مولانا کی جدید نظریات اور چیلنجز پر بھی گہری نظر ہے۔ ان کی گفتگو اور تحریر سے ظاہر ہوتا ہے کہ تقابل ادیان میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ دس سال قبل گوا میں ایک ورکشاپ میں ا ن سے مستفید ہونے کا بھرپور موقع ملا تھا۔
اسی (۸۰؍)سال کی عمر میں ا ن کی سخت جدوجہد، مسجد سے لگاؤ، مستقل مطالعہ، اور جوش وجذبہ نوجوانوں کو بھی حیرت میں ڈال دیتا ہے۔
میں اپنے ساتھی کے ساتھ صبح ساڑھے دس بجے ایس آئی او آفس سے جامع مسجد دہلی کے قریب واقع قدیم مرکز جماعت اسلامی ہند (چتلی قبر ) کے لیے روانہ ہوا۔ دہلی آنے والے تحریکی رفقاء کو ایک مرتبہ وہاں ضرور جانا چاہئے۔ بہت ہی بھیڑ بھاڑ والا علاقہ، جس سے گزر کر وہاں واقع دفتر جماعت جانا ہوتا ہے۔ یہاں دنیا کی چکاجوند سے الگ اپنے علمی کاموں میں مشغول مولانا فاروق خاں سے ملاقات کرکے ذہن کو کچھ ایسا سکون نصیب ہوتا ہے کہ علاقے کی بھیڑ بھاڑ اور شورشرابہ کا احساس ہی ختم ہوجاتا ہے۔
جماعت کا یہ دفتر اب بہت قدیم ہوگیا ہے، وہاں کی دیواروں کو دیکھ کر پرانی یادوں کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔اس پرانی عمارت کو دیکھ کر مولانا سراج الحسن صاحب اور قدیم قائدین تحریک کی تصویر نگاہوں میں گھوم جاتی ہے، سراج الحسن صاحب جب امیر تھے تو وہیں رہتے تھے اور سردی اور گرمی ہر موسم میں پورے ملک کا دورہ کرتے تھے۔ آج ہم آرام پسند زندگی کے عادی بن چکے ہیں، ایئر کنڈیشن یا کولر کے بغیر ہمارا گزارا مشکل ہوتا ہے۔
دہلی کی سردی اور گرمی دونوں ہی خطرناک ہیں۔ دہلی کی سردی بہت سے لوگوں کی جان لے لیتی ہے، لیکن سچ یہ ہے کہ اے سی روم میں اور کنکریٹ سیمنٹ سے بنی ہوئی بلڈنگوں میں رہنے والوں کو اس سردی کا اتنا احساس نہیں ہوتا۔ اسی طرح سوئٹر، کمبل اور چادر وغیرہ رکھنے والوں کے لیے بھی اس موسم میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، مسئلہ ان کا ہوتا ہے جو ان تمام ہی چیزوں سے محروم، فٹ پاتھ پر گزر اوقات کرنے پر مجبور ہیں۔ اورعام لوگوں کو موسم کی شدت کا احساس اسی وقت ہوتا ہے جب سردی سے ان بے چاروں کے مرنے کی نیوز ٹی وی چینل پر سنتے ہیں۔
دہلی کی گرمی بھی بہت خطرناک ہے، جب میں پہلی دفعہ دہلی آیا تو بہت سرد موسم تھا۔ ہمارے آفس کے باورچی ’احمد دین‘ نے کہا تھا کہ دہلی کی سردی سے خطرناک یہاں کی گرمی ہے، دہلی کی گرمی تو انسان کو پاگل بنادیتی ہے۔دہلی میں کبھی کبھی ۴۸؍ڈگری گرمی رہتی ہے۔ اس طرح کے موسم میں ہمارے ابتدائی قائدین نے کس طرح بغیر اے سی کے اتنے سال گزارے، یہ سوچ کر دل گھبراتا ہے۔ اللہ ان کی خدمت کو قبول فرمائے۔
مولانا فاروق خاں صاحب آج بھی وہیں اسی عمارت کے ایک چھوٹے سے کمرے میں بغیر اے سی کے زندگی گزار رہے ہیں۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights