رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایمانی تعلق کا اظہار

0

تعلق‘ اظہار کا تقاضا کرتا ہے۔ جس نسبت سے بھی تعلق جتائیے، اس کا اظہار لازمی ہوجاتا ہے کہ تعلق کی نوعیت اور جہتیں کیا ہیں؟ اگر اظہار نہ ہو تو تعلق کمزور سمجھا جاتا ہے۔ یا یوں کہئے کہ بغیر اظہار کے تعلق ویسے ہی بے معنی ہے جیسے بے رنگ وبو کے دنیا کا وجود۔ بعض تعلقات ایسے ہوتے ہیں جن کا اظہار ہر ایک کے لیے ممکن رہتا ہے‘ جیسے والدہ، والد، بھائی، بہن، رشتہ دار اور دوست احباب وغیرہ سے متعلق بخوبی واضح کیا جاسکتا ہے کہ فی الواقع ان سے تعلقات کی نوعیت کیا ہے۔ شائد ہی کوئی ایسا ہوگا جسے اظہار میں دقت پیش آتی ہو، لیکن دشواری اس وقت پیش آتی ہے جب بات غیرمادی تعلق کی ہو، جیسے رسالت پر ایمان کا معاملہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمارا ایمانی تعلق ہے، اس کا اظہار کیسے ہو؟ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں، آپ کو ہم دیکھ اور چھو نہیں سکتے اور بات بھی نہیں کرسکتے؟ جب دنیا بھر کے تعلقات کا اظہار ممکن ہے تو پھر اس تعلق کو کیسے واضح کریں جس پر دنیا وآخرت کی کامیابی کا دارومدار ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق اس قدر گہرا اور ہمہ گیر ہے کہ جس پر کسی بھی مادی تعلق کو برتری حاصل نہیں ہوسکتی۔ والدین، بچوں اور تمام انسانوں سے زیادہ محبوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس ہو تب ہی ایمان معتبر کہلائے گا۔ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا فرمانا کہ میرے ماں باپ آپؐ پر قربان (فداہ ابی وامی) اسی وجہ سے ہے۔ رسول اللہؐ سے ایسے تعلق کے اظہار پر برابر غوروخوض ہوتے رہنا چاہئے۔ رسول اللہؐ سے تعلق کا اظہار ایمان کے مطالبات کی تکمیل سے ممکن ہے۔ آپؐ سے تعلق کا اظہار اپنے اندر تین خاص پہلو رکھتا ہے۔
اول؛ بندہ مومن کار رسالت کا عملی نمونہ بن جائے۔ جن اہم ترین مقاصد کی تکمیل کے لیے آپؐ دنیا میں تشریف لائے تھے، ان کی عملی تصویر اس کی ساری زندگی بن جائے۔ شب وروز کی مصروفیات سے ایسا محسوس ہوکہ دین کی تبلیغ واشاعت ہی اس کے مطمح نظر ہے۔ انسانوں سے بے لوث تعلقات اور ان سے خیرخواہی اس کے اندر رچ بس گئی ہے۔ غرض بندۂ مومن کی شخصیت مزکی اور کتاب وحکمت کی تعلیم کا حسین امتزاج بن جائے۔
دوم؛ یہ کہ ان مقاصد کی تکمیل کے لیے آپؐ نے جو جانفشانی فرمائی اور جن کیفیات سے انتہائی احساس جوابدہی کا اظہار فرمایا، ان کیفیات کا اظہار بندۂ مومن کے قول وفعل اور چال ڈھال سے واضح ہونا چاہئے۔ اس کی ساری زندگی عزیز علیہ ماعنتم،حریص علیکم۔۔۔ اور فلعلک باخع نفسک کی عملی تصویر بن جائے۔
سوم؛ یہ کہ بندۂ مومن کے شب وروز کے معاملات ومعمولات نبوی تعلیمات کا عملی نمونہ بن جائیں۔ صبح بستر سے اٹھنے اور رات بستر پر واپس لوٹنے تک کے سارے کے سارے معاملات سنت نبویؐ کی روشنی میں انجام پائیں۔ رسول اللہؐ کی حیات طیبہ اس طور پر بہترین نمونہ ہے کہ دن بھر کی ساری سرگرمیوں، رات بھر کی ساری ساعتوں اور زندگی بھر کے تمام مرحلوں کے لیے نہایت ہی قابل عمل رہنمائی پیش کرتی ہے اور یہ انسانی زندگی کے ہرگوشے پر محیط ہے۔ اس شخص کی زندگی قابل رشک ہے جو رسول اللہ ؐ سے ایمانی تعلق کا اظہار شب وروز کے ہر چھوٹے بڑے عمل کو سنت کی روشنی میں انجام دیتے ہوئے کرتا ہے۔

محمد عبداللہ جاوید، کرناٹک

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights