دعوتی تجارت : جذبہ دعوت اور دعوتی کاموں کا معروضی جائزہ

0

انسانوں کو بندگی رب کی طرف بلانے اور عذاب آخرت سے بچانے کے جذبہ سے کئے جانے والے دعوتی کام اب ہمارے درمیان معروف ہیں۔داعی‘ مدعواور اطراف کے ماحول پراثرات و نتائج کے لحاظ سے دعوتی کام ہمہ جہت ہوتے ہیں۔ رسول اللہؐ کی دعوتی تحریک ‘ انہیں جہتوں سے منکشف ہوتی ہے ‘ ذیل کے تین نکات ملاحظہ فرمائیں:

(۱) دعوت وداعی-  دعوت کا اثر‘ داعی پرکئی لحاظ سے غیر معمولی ہوتا ہے۔ مدعوئین توبدلتے رہتے ہیں لیکن داعی اور اسکی دعوت کے مابین رشتہ ہمیشہ قائم رہتا ہے۔ لہذا اثرات کے لحاظ سے داعی کی زندگی ‘عام زندگیوں سے بالکل ممتاز ہوتی ہے۔ داعی کی زندگی پر دعوت حق کے حیات آفرین اثرات کا بخوبی اندازہ رسول اللہؐ کے دعوتی جذبہ ولگن سے ہوجاتا ہے جسکی ترجمان رب کریم کا یہ ارشاد مبارک ہے:

فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلَی آثَارِہِمْ إِن لَّمْ یُؤْمِنُوا بِہَذَا الْحَدِیْثِ أَسَفاً (الکہف:۶( حضرات صحابہ کرامؓ کا جذبۂ دعوت بھی اسی کا پرتو تھا۔

(۲) مدعوئین کا طرز عمل –  دعوت کے نتائج واثرات‘داعی کی ذات سے شروع ہوتے ہوئے مدعوئین کی زندگیوں پر محیط ہوتے ہیں۔مثبت یا منفی طرز عمل یا پھرغیر واضح رویوں سے مخاطبین پیش آتے ہیں۔ رسول اللہؐ کے دور میں مدعوئین کاطرز عمل‘ مثبت اس انداز سے رہا کہ معاشرہ کے بااثر لوگوں میں سے حضرت عمرؓ و حمزہؓ ہوں یا حضرت بلالؓ جیسے غلام ‘حضرت سمیہ ؓ ہوں یا حضرت فاطمہ ؓ….. جس نے بھی دعوت حق قبول کی ‘صبر واستقامت کا مظاہر ہ کیا۔ ہجرت کے بعد کے انتہائی نازک حالات میں بھی انکا جذبہ ٔ ایمانی اپنے عروج پر رہا‘حتی کہ صحابیاتؓ نے بھی غیر معمولی استقامت کا مظاہرہ کیا ۔حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں ما نعلم ان احداً من المھاجرات ارتدات بعد ایمانھا”ہم کوکسی ایسی مہاجر عورت کا حال معلوم نہیں جو ایمان لاکر مرتد ہوئی ہو” (بخاری )اور منفی رد عمل سے متعلق ابوجہل‘ ابولہب وغیرہ جیسے منکرین حق کے ظلم و ستم بالکل واضح ہیں۔اور مخاطبین کے غیر واضح رویے بھی سیرت سے بخوبی معلوم ہوتے ہیں۔

(۳) دعوت کے معاشرتی اثرات –   داعی و مدعو کے علاوہ معاشرہ میں رہنے والے لوگ بھی دعوتی سرگرمیوں سے متاثر ہوتے ہیں۔رسول اللہ ؐ کے معاشرہ پر اثرات کا یہ عالم رہا کہ لوگ آپؐ کی دعوت سے بخوبی واقف تھے اور اسکو قبول کرنے والوں کی زندگیوں میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کامشاہدہ بھی کررہے تھے۔ اسلام اور مسلمانوں سے لوگوں کی واقفیت اس درجہ تھی کہ وہ اپنے معاشی اور معاشرتی مسائل کا حل انہیں سے حاصل کرتے تھے۔اس ضمن میں سیرت رسول اللہؐ اور حضرات صحابہ کرامؓ کی زندگیوں سے کئی مثالیں ملتی ہیں۔

دعوتی سرگرمیوں کے ان تین پہلوئوں پر غور وفکر سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں دعوتی کام بحیثیت مجموعی ‘ایک بنے بنائے ماحول میں انجام پارہا ہے۔گرچہ دعوت ‘ داعی اور مدعو سبھی ہیں لیکن اثرات ونتائج کے لحاظ سے ان کیفیات کا مشاہدہ ہو نہیں پاتا جو دعوتی کاموں کی ا نجام دہی کے نتیجے میں لازماً رونما ہوتے ہیںجن کا اوپر اختصار سے ذکر کیا گیا ہے۔آئیے اسکا ایک معروضی جائزہ لیں۔

دعوت ‘ ایک تجارت

ایک بنے بنائے ماحول کی بہ نسبت اسلامی تعلیمات پر عمل سے تیار ہونے والے ماحول میں دعوتی کام‘اپنے اثرات ونتائج کے اعتبار سے بڑا غیر معمولی ہوتا ہے۔فی الوقت جو دعوتی کام انجام پارہا ہے وہ ایک ایسے ہندوستانی ماحول میں ہے جو ایک مخلوط سماج ہے۔ جس میںمذاہب کے احترام کا جذبہ پایا جاتا ہے۔ باشندگان کے درمیان بہتر تعلقات ہیں۔ مذہبی باتیں سننا‘ عموماً ایک ثواب کا کام سمجھا جاتا ہے۔چونکہ بحیثیت مجموعی یہ دعوتی کام پوری امت کا کام نہیں بن سکا ہے اورمعاشرہ میں بھی اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی کیفیت اس قدر حوصلہ افزا نہیں ہے‘اسلئے دعوتی کام اپنے اثرات و نتائج کے اعتبار سے زیادہ حوصلہ افزا نہیں معلوم ہوتے۔یہاں کے ماحول میں دعوتی کام ‘محض ایک مذہبی سرگرمی کی حیثیت رکھتے ہیں‘وعظ و نصیحت پر مشتمل ایک عمل‘ جسے عموماًلوگ بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک کہیں سے کوئی ایسی مخالفت سامنے نہیں آئی جو مکہ معظمہ کے ابتدائی دور کا ایک ہلکا سا احساس بھی کراتی ہو۔یا دعوتی کاموں سے متعلق سخت تنقیدیں و تبصرے اور بین المذاہب ڈائیلاگس کا کوئی ایسا سلسلہ چلا پڑاہوجس سے علمی ‘فکری و عملی چیلنجز پیدا ہوئے ہوں۔

الحمدللہ‘ دعوتی کاموں کا یہ انداز بھی قابل قدر ہے‘اور جیسی کچھ صورت حال ہے وہ بہتر ہے۔ لیکن جب ایک ایسے ماحول کا آپ عملاً تصور کریں جس میں اسلام بحیثیت نظام زندگی نافذ ہواورجس سے ایک ماحول بھی فروغ پاجائے تویہ سمجھنے میں بڑی آسانی ہوگی کہ حکمت عملی کیا ہو اور دعوتی کوششوں کے کیسے نتائج رونما ہونے چاہئے؟ہندوستانی حالات میں داعیان حق کو اسلام اور ساری انسانیت کیلئے ایسی تمنا ضرور کرنی چاہئے‘ جس سے صنعاسے حضر موت تک سونا اچھالتے ہوئے کسی خاتون کا بے خوف سفر کرنے اور بڑی بڑی بادشاہتوں کے زیر نگیں ہونے کی پیشن گوئیاں‘ ہندوستانی تناظرمیں بخوبی سمجھ آسکیں۔اورکشمیر سے کنیا کماری تک ‘خواتین کی عزت و عفت کا تحفظ اورملک کے مختلف امور و مسائل کے حل میں اسلامی تعلیمات کافیصلہ کن رول یقینی معلوم ہو۔

اسلام‘دراصل ہرسطح پر نفاذ کا تقاضہ کرتا ہے۔ ہوا اور پانی کے مستقل استعمال سے توزندگی کا سامان بنتا جبکہ دنیا و آخرت کی حقیقی زندگی‘ اسلامی تعلیمات پر عمل سے ممکن ہے۔جب انفرادی و اجتماعی حیثیتوں میں اسلامی تعلیمات پرعمل کیا جانے لگے تو نتیجتاً ایسا ماحول فروغ پائے گا کہ لوگ  اسلام کے عملی نمونوں کا مشاہدہ کریں گے۔مسلمانوں کے اخلاق و کردار اور معاملات و لین دین کو دیکھیں گے۔مساجد‘مدارس‘ تعلیمی ورفاہی ادارے‘ تجارتی مراکز‘خاندانی نظام جیسے ادارہ جاتی امورمیں قرآن و سنت کی راہنمائی کا عملی مظاہرہ کریں گے ۔جس کے سبب عقلی و نفسیاتی اثر یہ ہوگا کہ باشندگان ملک اپنے عقائد اور رسوم ورواج اور مذہبی تعلیمات کا ان عملی مظاہروں سے موازنہ کریں گے۔ یہی تقابل ان کے قلب و ذہن کو جھنجھوڑے گا۔ انہیںکسی کروٹ چین لینے نہیں دے گا۔ ان کی دلی تمنا ہوگی کہ یاتو وہ اپنے عقائد کی پرزور وضاحت کریں یا اسلام کے درخشاں پہلوئوں کا بغور مشاہدہ و مطالعہ کرکے اس کے زیر سایہ آجائیں۔

اس صورت حال میں جب دعوت دین کی صدا بلند ہو تو لوگوں کے رویے‘ حقیقی معنوں میںسامنے آئیں گے۔ رسول اللہؐ کی دعوت پر مخاطبین کے طرز عمل کو دیکھیں‘بخوبی اندازہ ہوگا کہ جب اسلام ہر طرف عملاً نظر آنے لگے اور دعوت دین بھی ہو تو لوگ کس طرح پیش آتے ہیں۔ کبھی حق کا اعتراف ہوگا‘کبھی وضاحتیں چاہی جائیں گی‘ کبھی مخالفت ہوگی‘ کبھی داعیان حق پر الزامات لگائے جائیں گے‘ کبھی آبائی دین پر قائم رہنے کا اعادہ کیا جائے گا‘ کبھی اسلامی عقائد کے غیر معقول ہونے کی غیر منطقی دلیلیں دی جانے لگیں گی‘ کبھی سازشیں رچی جائیں گی۔ غرض ‘دعوت کیلئے قول و عمل کے یہ دو پہلو بڑے خاص ہیں۔اللہ تعالیٰ بھی اپنے کلام کے ذریعہ صرف قولی دعوت نہیں دیتابلکہ اپنی وسیع و عریض کائنات کے ذریعہ عملی شہادت بھی پیش کرتا ہے۔اور ہر دور میں الہی ہدایات کے ساتھ پیغمبروں اور رسولوں کادنیا میں تشریف لانا بھی گویا اسی قولی و عملی امتزاج کا ایک حسین پہلو ہے۔

جہاں دین اسلام ہو اور اسکی دعوت کا اہتمام‘ جہاں اللہ کے نیک بندے ہوں اور ایسے لوگ بھی جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے‘ وہاںعمل اور رد عمل کے کسی نہ کسی درجہ نظارے سامنے آئیں گے۔ان میں کمی و بیشی تو ہوسکتی ہے لیکن ان کا سرے سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔عمل کے لحاظ سے مسلمانوں کا دین سے گہرا لگائو اور اعلائے کلمۃ کیلئے یکساں فکر مندی محسوس ہوگی۔ملت کے درمیان وجہ امتیاز مسلک و تنظیم نہیں بلکہ دعوت دین ہوگا۔جبکہ رد عمل کے لحاظ سے برادران وطن کی قبولیت و مخالفت کے مختلف رنگ رونما ہوں گے۔لہذا دعوتی کام انتہائی ماہرانہ اور جچے تلے انداز سے ‘ماحول اور لوگوں کی نفسیات و ضروریات کا لحاظ رکھتے ہوئے ایک دعوتی تجارت کے طور پر انجام دینا چاہئے…..یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا ہَلْ أَدُلُّکُمْ عَلَی تِجَارَۃٍ تُنجِیْکُم مِّنْ عَذَابٍ أَلِیْمٍ (الصف:۱۰)کے ذریعہ کیا گیا خطاب ‘ اسی دعوتی تجارت کا ایک مربوط لائحہ عمل ہے۔جس کے پیش نظراسوہ رسول اللہؐکی روشنی میں ٹھیٹ تجارتی انداز سے اسلامی تعلیمات سمجھنے‘ سمجھانے اور لوگوں کے دلوں کو اس کیلئے ہموار کرنے کی حکمت کے ساتھ منصوبہ بندی کرنی چاہئے۔

چند غور طلب پہلو

جس سرزمین پر دعوتی تجارت کامیاب کرنا پیش نظر ہے‘اس سے متعلق چندامور پر غور و خوص ہونا چاہئے۔

(۱) انسانی نفسیات اور رویوں کا اس پہلو سے جائزہ و مطالعہ ہونا چاہئے کہ برسوں سے مختلف عقائد اور رسوم و رواج سے وابستگی کے باوجودلوگوں کی فکر کیسے تبدیل ہوجاتی ہے اور وہ کیا محرکات ہوتے ہیں کہ انسان اپنے مزاج کو یکلخت بدلنے پرآمادہ ہوجاتا ہے۔

(۲)متفرق خدا-   یہ بھی معلوم کرنا چاہئے کہ جو لوگ ایک سے زائد خدا کو مانتے ہیں‘وہ ان سے کن بنیادوں پراپنے تعلقات استوار رکھتے ہیں؟ کیا کبھی کسی خدا سے شکوہ یا روٹھنے کامعاملہ بھی ہوتا ہے؟ اور اگر ہوتا ہے تو پھر دوبارہ اس متعلقہ خدا سے رجوع ہونے کی کیا ذہنی وقلبی کیفیات ہوتی ہیں۔چونکہ اہل ایمان ‘اہل توحید ہیں‘ انہیں متفرق خدائوں کو ماننے والوں کا خدا سے تعلق بغور سمجھنا چاہئے۔

 

از: عبداللہ جاوید

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights