داعیان دین کے لئے مواقع

0

از: عادل مدنی

انسانی سماج نے جیسے جیسے سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کی ویسے ویسے اس کی مصروفیات اور ترجیحات و دلچسپیوں نے بھی کروٹ لی۔یہ ترقی جہاں رحمت کا باعث بنی وہیں اسی ترقی کا غلط استعمال وبال جان بھی ثابت ہوا اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ انسانی سماج سے اخلاقی اور انسانی قدریں ختم ہونے لگی، جس کے سنگین نتائج جب سماج نے بھگتنے شروع کئے تو ان قدروں کو واپس لانے کے لئے مصنوعی کوششیں بھی کرنی پڑی اور اسی طرح کی منصوعی کوششوں میں ’’ایام ‘‘ کے انعقاد کا اہتمام بھی شامل ہے ۔ باپ سے محبت کی ترغیب کے لئے ’’فادرس ڈے ‘‘کا اہتمام ،ماں سے محبت کا اظہا ر کرنے کے لئے ’’مدرس ڈے ‘‘ کا اہتمام ،خواتین کی عزت و احترام کے لئے ــ ’’ یوم خواتین‘‘ کا اہتمام، مزدوروں کے حقوق جتانے کے لئے ــ’’لیبر ڈے ‘‘ منایا جانے لگا۔ نوجوانوں کا دن ’’یوتھ ڈے ‘‘ اور معمر افراد کی خدمت کے لئے ’’ اولڈ ایج پرسن ڈے‘‘ وغیرہ منایا جانے لگا۔ پھر کارپوریٹ طاقتوں نے بھی اپنی مصنوعات کے فروغ کے لئے ویلٹائن ڈے اور دیگر ایام کی بنیاد ڈالی اور شرک پر مبنی کلچر کے فروغ کے لئے ’’یوگا ڈے ‘‘ کی بنیاد ڈالی گئی۔ساتھ ہی ساتھ ادویات کے پیٹنٹ بنانے والے اداروں نے مختلف بیماریوں کی روک تھام کے دن منانے شروع کئے جس میں احتیاطی تدابیر کے ساتھ انکی مصنوعات اور
ادویات کا تعارف بھی پیش کیا جانے لگا۔
انسان نے جب جب فطر ت کے خلاف کام کیا تب تب اس کے خطرناک نتائج بھی دیکھے، غیر فطری طریقوں سے جنسی تسکین کے نتیجے میں مختلف قسم کے وائرس وجو د میں آئے جو بھیانک بیماریوں کا سبب بنے پھر ان کے انسدادکے لئے الگ الگ یوم منائے جانے لگے، کچھ ملکوں نے آبادی پرقابو پانے کے لئے سخت قانون بناکر عمل کیا تو چند دہائیوں کے بعدہی ان کے پاس نو جوان کم اور بوڑھے زیادہ ہوگئے اور پھراس عدم توازن کو دور کرنے کے لئے قانون میں ترمیم کرکے ڈھیل دینی پڑی۔کچھ اسی طرح کی وجوہات تقریباً سبھی عالمی یا قومی ایا م کے انعقاد کاسبب یا ضرورت بنیں ہے ۔ جو قومیںفطری
قدروں کو فراموش کردیتی ہیں ان کو اس طرح کے ایا م کا انعقاد کرکے قلوب کو جھوٹی تسلی دینی پڑتی ہے ۔
راقم السطور قطعی اس بحث میں پڑنا نہیں چاہتا کہ اس طرح کے ا یام کا انعقاد شرعی اعتبار سے درست ہے یا نہیںاور نہ ان کے انعقاد سے کسی کو روکنا یا اس پر ابھارنا مقصودہے بلکہ اس تحریر کے ذریعے فقط ملت اسلامیہ کو اس کے مقصد وجود کی تذکیر مطلوب ہے ۔نبی اکر م ؐکے بعد دعوت کی ذمہ داری امت محمدی پر ہے اور چونکہ اسلام دین فطرت ہے انسانوں کو انکی فطرت کی طرف واپس بلانے کے لئے اس کے پاس بہت کچھ ہے ۔ہمیں ایک داعی کی حیثیت سے یہ سوچنا چاہیے کہ ہمیں دعوت پہنچانے کے لئے کس کس پلیٹ فارم سے کون کون سے مواقع میسر ہیں اور عالمی ایام بھی چونکہ کارپوریٹ میڈیا کی ضرورت ہے اسے ہر وقت اپنے کاذ سے متعلق خبروں کی ضرورت رہتی ہے ۔ جس طرح نبی اکرم ؐنے دومتہ الجندل، ذولمجاز و عکاذ کے بازاروں میں لگنے والے میلوں کا استعمال دعوت کے لئے کیا ہمیں اپنے رسول کی اسی سنت سے حکمتوں کو سمیٹنے کی ضرورت ہے ۔آج ہم کو اپنی دعوت کے مخاطبین جہا ں
اور جس عنوان کے تحت بھی میسر ہو ان ذرائع وسائل اور عنوانات کا استعمال کرکے اسلامی تعلیمات کو فروغ دینے کی ضرورت ہے ۔
مختلف ایام کے عنوانات کی مناسبت سے جو تعلیمات اسلام کے پاس موجود ہیں وہ دیگر اقوام کو انکی اپنی زبان میں تیار کرکے پہنچائی جائے تاکہ جب ان کو ہر عنوان پر اسلامی حل یا تعلیمات موجود ملے تو کہیں نہ کہیں انھیں یہ احساس ضرور پید اہوگا کہ اسلام کے پاس ہر مسئلے کا حل یا ہدایات ورہنمائی موجود ہے اور بعید نہیں کہ وہ مسلسل و مستقل کوشش سے اسلام کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے پر مجبور بھی ہو۔کم سے کم یہ اس وقت تو کیا ہی جا سکتا ہے جب تک کہ ہم ڈومینشن نہ حاصل کرلیں اور اسلامی کلچر کو فروغ دینے کے لئے بڑے وسائل قدرت میں نہ آجائیں اور یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ ہم ہر ’’یوم‘‘ پر کچھ نہ کچھ بات کریں کیونکہ کچھ ’’یوم‘‘ تو سراسر اسلامی تعلیمات کے خلاف بھی ہیں اور
باطل طاقتوں کا ایجنڈہ بھی جس سے بچنے کی بھی ضرورت ہے ۔ اللہ کہنے سننے اور لکھنے پڑھنے سے زیادہ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین ) والسلام

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights