خیر امت: منصب اورذمہ داریاں

0

انسان کے اندر دو طرح کی صفات پائی جاتی ہیں، کچھ صفات وہ ہیں جو اس کی شخصیت کے ساتھ چمٹی ہوئی ہیں ، وہ اس سے الگ نہیں ہو سکتیں، ان صفات کو ہم صفاتِ لازمہ کہہ سکتے ہیں ۔مثلاََ کسی کا طویل قد کا ہونا اورکسی کا اس کے برعکس چھوٹے قد کا ہونا ، اسی طرح کالا یا گورا، عجمی یاعربی ، شرقی یاغربی ہونا، وغیرہ ۔ یہ اور اس طرح کی صفات انسان کی لازمی صفات ہیں لیکن ان صفات کی بنا پر کوئی انسان کسی انسان سے، اورکوئی قوم کسی قوم سے برتر وکم تر نہیں ہوتی۔ اس لئے کہ ان صفات کاتمام تردارومدار فطرت پر ہے اس میں انسان کا اپنا کوئی کردار نہیں ہے، یہاں تک کہ اگر وہ ان کو بدلنے کی کوشش کرے توبھی نہیں بدل سکتا ۔ لہذا یہ بات عدل وحکمت کے خلاف ہے کہ ان اوصاف کی بنا پر کوئی قوم کسی قوم سے یاکوئی فرد کسی فرد سے برتری کا دعوی کرے اور اس کو باعث شرف یاعار سمجھے۔
برتری اور شرافت وفضیلت کی اساس ان صفات پر ہے جو کسبی ہیں، یعنی جن کے حصول میں انسانی کوششوں کا عمل دخل ہوتا ہے، اور جنہیں اپنے اندر پیدا کرکے انسان، انسانِ کامل بنتا ہے مثلاََایمان ، تقوی ، احسان ، اخلاق وکردار ، علم وفن میں مہارت وغیرہ ۔ یہ صفات فطرت کا حصہ نہیں ہوتی ہیں بلکہ پیدا کرنے سے وجود میں آتی ہیں، اور دراصل یہی صفات انسانوں کے درمیان فرق وامتیاز اور فضیلت کی بنیاد بنتی ہیں،کیونکہ ان صفات سے آراستہ ہونا ، ان میں آگے بڑھنا ایک ایسا عمل ہے جو ہر انسان کے بس میں ہے۔ انسان اپنے عزم وارادہ ، اپنی سکت وقدرت، اور اپنی سعی وکوشش سے جتنا چاہے اس میدان میں آگے بڑھ سکتا ہے اور دوسروں سے افضل واشر ف مقام حاصل کرسکتا ہے ۔
اللہ کی نگاہ میں سارے انسان مکرم ہیں، اس لئے عدل کا تقاضا ہے کہ ان میں کوئی افضل وارذل نہیں ہوگا ۔ہاں یہ تکریم اللہ کی معرفت کا زینہ ضرور ہے ، انسان علم وتقوی پیدا کر کے ایک دوسرے سے افضل، ممتاز اور برتر بن سکتا ہے ۔ چنانچہ قرآن پاک نے اس کی صراحت بھی کردی، فرمایا :
’’ اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں بانٹ دیا تاکہ تم ایک دوسرے سے متعارف ہوسکو ، مگر اللہ کے نزدیک تم میں سب سے معزز وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے‘‘ ۔(الحجرت/۱۳)
گویا ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا ہونا اور قوموں وقبیلوں میں تقسیم ہونا انسان کے فطری ولازمی اوصاف ہیں، اور تقوی اکتسابی ہے، اس لئے یہ صفت جتنی زیادہ ہوگی اسی نسبت سے انسان کی خدا کے یہاں محبوبیت میں اضافہ ہوگا ۔
قرآن شریف میں ایک جگہ فرمایا:
’’کیا وہ جو راتوں میں قنوت کرتا ہے اور کبھی سجدہ میں پڑا ہوتا ہے ، کبھی دست بستہ کھڑا ہوتا ہے ، آخرت کے تصور سے اس پر لرزہ طاری رہتا ہے اور اپنے رب کی رحمت کا ا میدوار ہوتا ہے ۔۔۔(اور جو ان اوصاف سے عاری ہے ) برابر ہوسکتے ہیں ۔ کہہ دو ، اصحاب علم اور اہل جہل برابر نہیں ہیں ، نصیحت صرف ان لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جن کے پاس عقل ودانش ہے‘‘ ۔
انسانوں کے درمیان یہ امت، خیر امت ہے جس کے برپا کئے جانے کا مقصد لوگوں کی بھلائی ہے۔ یہ خیر لازمی نہیں بلکہ اکتسابی ہے ، اور جب تک امت ا سے حاصل نہ کرے ، وہ خیر امت نہیں ہوگی۔ یہ برتری اسے خون ، جنس ، رنگ ، نسل یا اس لئے حاصل نہیں ہے کہ وہ تاریخی امت ہے بلکہ قرآن بتاتا ہے کہ یہ لقب کچھ شرطوں کے ساتھ مشروط ہے یعنی اگر وہ شرطیں موجود ہیں تو امت خیرامت ہوگی ورنہ نہیں۔
۱) پہلی شرط یہ ہے کہ امت ایمان میں کامل ہو ۔ اگرا س کے اند ر کمال ایمان کی شرط پوری نہیں ہوتی تو وہ خیر امت نہیں ہوگی۔
۲) پھر اپنے ایمان کو ترقی دے کیونکہ ایمان کو ئی جامد شئی نہیں ہے بلکہ یہ گھٹتا بڑھتا ہے ۔ (الایمان ینقص ویزید)اور تقوی کے مقام بلند پر فائز ہوجائے ، جو روح ایمان ہے اور جو صاحب ایمان کو ہر غلط چیز سے دور رکھتا ہے اورجس کا نہ ہونا غضب کا سبب بنتاہے۔ایمان کے بھی مدارج ہیں، اس کا بلند ترین اور مطلوب درجہ یہ ہے کہ تقوی کا حق ادا کردیا جائے ۔ یا ایھا الذین امنوا اتقوااللہ حق تقاتہ ولا تموتن الا وانتم مسلمون (آل عمران /۱۰۲)اور کم سے کم یہ کہ حسب استطاعت تقوی اختیار کیا جائے ۔ اتقوا اللہ ما استطعتم واسمعواواطیعوا و انفقواخیرا لانفسکم ومن یوق شح نفسہ فاولئک ھم المفلحون (التغابن /۱۶)اس استطاعت میں بھی اہل تقوی یکساں نہیں ہیں ، اس میں بھی فرق مراتب ہے ۔
۳) تیسری شرط یہ ہے کہ مذکورہ تقوی ، متقی کی ذات تک محدود نہ ہو کیونکہ اسلام اجتماعیت کا دین ہے، اس کے بیشتر احکام اجتماعی ہیں اور ان کی اقامت کے لئے وطن ، امت اور اجتماعیت درکارہے، اس لئے خیر امت ہونے کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ الفت ومحبت ، اتحاد و اجتماعیت اور اعتصام بحبل اللہ کی فضا عام کی جائے ۔
۴)چوتھی شرط جو تمام واجبات کی جامع اور ہر عمل اجتماعی کے لئے مطلوب ہے وہ یہ ہے کہ یہ امت ، خیر امت اس لئے ہے کہ یہ معروف کو پھیلاتی اور منکر کے ازالہ کی سعی وجہد کرتی ہے ، عدل کاقیام ، اسلامی فکر وعقیدہ کی اشاعت ، گھر وخاندان ، معاشرہ اور حکومت وریاست میں شورائیت اور اجتماعی تکافل جس سے انسانی طبقات میں توازن قائم رہے اور ہر طرح سے امت جسد واحد بن جائے ، ایک کی تکلیف پوری امت کی تکلیف ا ور ایک کا غم ساری امت کا غم قرار پائے اور مختلف شعبہ ہائے حیات میں عقیدہ وفکر کی آزادی کا بول بالا ہو ۔ مظلومین کی حمایت اور کمزوروں کی داد رسی اور اس کے ساتھ ساتھ حسنات میں مسابقت دنیا وآخرت کی سعادت کی ضامن ہے ۔
یہ وہ فرائض ہیں جن کی کی مکلف پوری امت ہے اور جن کے مخاطب تمام مرد و خواتین ہیں ۔ والمومنون والمومنات بعضھم اولیاء بعض یامرون بالمعروف وینھون عن المنکر ویقیمون الصلوۃ ویوتون الزکوۃ ویطیعون اللہ ورسولہ ، اولئک سیرحمھم اللہ ان اللہ عزیز حکیم۔ (التوبہ /۷۱)
ان فرائض کی ادائیگی کے بعد اور ان اوصاف سے متصف ہونے کے بعد ہی امت ، خیر امت ہوسکتی ہے ۔ قرآن پاک نے جہاں امت کو خیر امت کا خطاب دیا ہے وہیں یہ ذمہ داریاں بھی واضح کی ہیں (آل عمران /۱۰۲۔۱۱۰)مذکورہ آیتو ں کاخلاصہ یہ ہے کہ :
اولََا ؛ وہ ایمان پیدا کیاجائے جو سارے انسانی اعمال کورائیگاں ہونے سے بچاتا ہے ۔
ثانےََا ؛ عمل صالح وہ ہے جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے دائرہ میں آتا ہے، اور یہ دونوں صفات کسبی ہیں۔ اللہ کے سارے بندوں کے سامنے دروازہ کھلا ہوا ہے ۔ یہ صرف ان لوگوں کے لئے مخصوص نہیں ہیں جو اپنے آپ کو ’ ’ مسلمان ‘‘سے موسوم کرتے ہیں اور جن کادعوی ہے کہ وہ مسلمان ہیں ۔ خیر امت اور مجرد ’’مسلم ‘‘ ہونے میں واضح فرق ہے ۔ لو آمن اھل الکتاب لکان خیراََ لھم ۔
قرآن مجید نے خیر امت ہونے کی حیثیت سے جہاں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری عائد کی ہے، وہیں ایک لفظ آیا ہے جس پر ہمارے مفسرین کے درمیان کافی اختلا ف پایا جاتا ہے ، وہ لفظ ہے ’’من ‘‘ولتکن منکم امۃ یدعون الی الخیر ۔۔۔۔۔۔(ال عمران /۱۰۴)
مفسرین کاایک گروہِ من‘‘ کو بیانیہ مانتا ہے یعنی پوری امت اور امت کا ایک ایک فرد خیر امت ہے اور دعوت الی الخیر سب کی ذمہ داری ہے ۔
جبکہ دوسرے گروہ کے نزدیک ’’من ‘‘ تبعیض کے لئے ہے اس لحاظ سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ صرف خواص امت پر عائد ہوتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ’’من‘‘ تبعیض کا ہے کہ بیانیہ ، اس سے عمل میں کیا فرق پڑتا ہے ۔
اگر بیانیہ ہے تو ہر فردا مت امرونہی کا مکلف ہے اور تبعیض کی صورت میں بھی یہ افراد اس بات کے مکلف ہیں کہ پوری امت سے ان افراد کو منتخب کریں جو اس فرض کو انجام دیں تاکہ اس کا نفاذ ممکن ہوسکے ۔ ان مخصوص افراد امت کا انتخاب پوری امت پر فرض ہے تاکہ وہ بھی اس خیر میں ان کی شریک وسہیم ہوسکے، اورایسا کرنے میں کوئی عملی دشواری بھی سمجھ میں نہیں آتی ، ہر بستی کے لوگ اجتماعی طور پر اپنے میں سے کسی ایک یا اس سے زائد افراد کواس کام پر باآسانی مامور کرسکتے ہیں اور یہ منتخب افراد مجتمع ہوکر پورے اتحاد وقوت کے ساتھ اس فر یضہ کو اداکرسکتے ہیں :۔
اس اہم فریضہ کی ادائیگی کے لئے ا مت ضرورت مند ہے:
۱۔ دین کی کامل سے مکمل واقفیت کی، کیونکہ اسے اسی دین کی طرف لوگوں کو دعوت دینی ہے ۔
۲۔ حالاتِ زمانہ سے واقفیت کی جس کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرانا ہے ۔
۳۔ مخاطب یعنی جن لوگوں کو دعوت دینی ہے، ان کی نفسیات سے واقفیت کی۔
۴۔ مضبوط سیرت وکردار کی۔
۵۔ علوم وفنون پر مکمل دستگاہ کی۔
۶۔زمینی تقویم کی۔
۷۔ اور مدعوقوم کی زبان سے واقفیت کی۔
اس لحاظ سے مذکورہ بالا تفسیر کی روشنی میں امت کے دوکام قرار پاتے ہیں ، ایک کا تعلق پوری امت سے ہے اور دوسرے کا امت کے ان مخصوص افراد سے ہے جو یہ کام انجام دیں گے ۔
بات سمجھنے کے لئے مناسب ہے کہ لفظ ’’امت‘‘ کوبھی سمجھ لیا جائے ، امت کے معنی جماعت کے نہیں ہیں جیسا کہ سمجھ لیا گیا ہے۔بلکہ یہ لفظ جماعت سے مختلف ہے۔ امت مخصوص لوگوں کی وہ جماعت ہے جن کی حیثیت پوری انسانیت کے لئے رابطہ کی یا جسم کے اعضاء کی ہے ۔تمام مومنین کے مخاطب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہر فرد دوسرے کامراقب ، مصلح اور خیرخواہ ہے ۔ صدر اول کے مسلمانوں کا یہی معاملہ تھا کہ عام چرواہا بھی خلیفہ وقت کو ٹوک دیتا تھا۔
اس طرح سے یہ خیر، امت میں عام ہوسکتا ہے اور پوری امت ، خیر امت بن سکتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے منصب اور ذمہ داریوں کو سمجھنے اور اداکرنے کا حوصلہ ، توفیق اور سعادت عطا فرمائے ۔
ضمیر الحسن خان فلاحی ، ادارہ تحقیق وتصنیف اسلامی علی گڑھ ۔ E.mail:[email protected]

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights