حکومت الٰہیہ، امامت و خلافت، روحانیتِ اسلام
حکومت الٰہیہ
سارے عالم پر بلا شرکت غیرے صرف اللہ کی حکمرانی ہے۔ اس نے انسان کو زمین پر خلیفہ مقرر کیا ہے اور بعض امور میں اسے اختیار اور آزادی دی ہے اور اسے استعمال کرنے کے لیے عقل و فہم سے نوازا ہے۔ نیز اس کی رہنمائی کے لیے اپنے پیغمبروں کو روشن کتابوں کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ گمراہی میں مبتلا نہ ہو جیسا کہ ہبوط آدمؑ کے وقت وعدہ فرمایا تھا: ’’فَإِمَّا یَأْتِیَنَّکُم مِّنِّیْ ہُدًی فَمَنِ اتَّبَعَ ہُدَایَ فَلَا یَضِلُّ وَلَا یَشْقَی‘‘۔ (سورہ طہ، آیت: ۱۲۳)
اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین پر آباد کرنے سے پہلے اس کے رزق اور اس کی ضرورت اور نفع کی ساری چیزیں یہاں فراہم کردی تھیں جن میں تصرف کرکے انسان نے نوع بنوع اور بے شمار چیزیں ایجاد کرلیں اور ان میں برابر اضافہ کرتا جارہا ہے۔ اس طرح دنیا کو سنوارنے اور ترقی دینے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کی بنائی ہوئی چیزوں پر زوال تو آتا ہے اور وہ مٹتی اور فنا ہوتی رہتی ہیں لیکن اس کی عقل کو زوال نہیں۔
با یں ہمہ اس نے اپنی عقل اور صلاحیت کا ہر معاملہ میں صحیح استعمال نہیں کیا ہے اور متعدد غلطیاں کی ہیں۔ مثلاً کئی علاقوں میں جنگلوں کو ختم کردیا اور درختوں کو کاٹنے میں احتیاط سے کام نہیں لیا جس کی وجہ سے ان میں بسنے والے جانوروں کو آزار پہنچا اور موسم پر بھی خراب اثر پڑا۔ دریاؤں کو اتنا آلودہ کردیاکہ اس کاپانی پینے کے لائق نہیں رہ گیا اور طرح طرح کی بیماریاں پیدا ہوگئیں۔ پہاڑوں میں بے دریغ توڑ پھوڑ کی تو طوفانی بارش اور سیلاب کا سامنا کرنا پڑا۔ سمندروں میں تجربات کیے تو بے شمار مچھلیاں اور دوسری بہت سی اشیاء تلف ہوگئیں۔ فضا کو آلودہ کیا تو سانس لینا مشکل ہوگیا۔
وہ تو خلاّق عالم کا کرم ہے کہ اپنی حکمت سے ہماری زیادتیوں سے پہنچنے والے نقصانات کو کم کرتا رہتا ہے ورنہ پوری دنیا وباؤں سے بھر جاتی اور جانداروں کے لیے زندہ رہنا ناممکن ہوجاتا۔
ہماری بدعنوانیاں یہیں تک نہیں ہیں بلکہ ان سے کہیں بڑھ کر ہیں اور بہت پہلے سے چلی آرہی ہیں۔ اس دور میں انہوں نے سنگین صورت اختیار کرلی ہے۔ جیسے ظلم، حق تلفی، نا انصافی اور جبر و استحصال وغیرہ۔ ان کے علاوہ چھوٹی بڑی بہت سی خرابیاں ہیں جو آسانی سے ختم کی جاسکتی تھیں لیکن انہیں ہم نے اہمیت ہی نہیں دی۔ مثلاً ہمارے معاشرہ میں چھوٹے بڑے اور عام وخاص کا فرق پہلے ہی کی طرح ہے، عرش و فرش آج بھی ہے ۔ غیر خدا کی بندگی کرنے والے بدستور پائے جاتے ہیں۔
قومی عصبیت کا جنون خدا کی خدائی کو چیلنج کر رہا ہے اور ہر قوم کے اندر اس نے نفرت اور عداوت کا زہر بھر دیا ہے جس کی وجہ سے انسانی قدریں بری طرح پامال ہوتی ہیں اور انسانی ہمدردی اور باہمی تعاون کے جذبہ کو نقصان پہنچا ہے۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ سچائی اور ایمانداری جو تمام نیکیوں کی اصل ہے اور جس پر انسانی تعلقات کی بنیاد ہے ہمارے اندر سے ختم ہوتی جارہی ہے اور اس کے بجائے جھوٹ، مکر وفریب اور ریاکاری ہماری زندگی میں داخل ہوگئی ہے۔ چنانچہ انسان پر انسان کا اعتبار اٹھ گیا ہے اور ہم اپنی اصل فطرت سے دور ہوگئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت کو بہت اچھا بنایا ہے، اگر اسے بگڑنے سے ہم بچالیں جو ہمارے اوپر فرض بھی ہے تو اپنی فطری اچھائیوں سے اپنی برائیوں کو دور کرسکتے ہیں اور دوسروں کے ساتھ اچھا سلوک کرکے انہیں ان کی غلطیوں پر متنبہ کرسکتے ہیں جیسا کہ آدم علیہ السلام کے ایک بیٹے نے اپنے طرز عمل سے اپنے بھائی کو اس کی غلطی کا احساس دلایا تھا۔ یہ ایک محکم اصول ہے قرآن مجید نے اس کا ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ اہل حق اس طریقہ پر عمل کرکے برائیوں کو دور کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ سورہ حم السجدہ (۳۴۔ ۳۵) میں ہے: ’’وَلَا تَسْتَوِیْ الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّءَۃُ ادْفَعْ بِالَّتِیْ ہِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِیْ بَیْْنَکَ وَبَیْْنَہُ عَدَاوَۃٌ کَأَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ۔ وَمَا یُلَقَّاہَا إِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوا وَمَا یُلَقَّاہَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِیْمٍ‘‘ (اور بھلائی اور برائی یکساں نہیں ہیں۔ تم برائی کو اس چیز سے دفع کرو جو زیادہ سے زیادہ بہتر ہے تو تم دیکھوگے کہ وہی جس کے اور تمہارے درمیان عداوت ہے گویا سرگرم دوست بن گیا ہے۔ اور یہ دانش نہیں ملتی مگر ان لوگوں کو جو ثابت قدم ہوتے ہیں اور یہ خوبی نہیں عطا ہوتی مگر ان لوگوں کو جنھیں حکمت کا وافر حصہ ملا ہے)۔
یہ انسانیت کا نقطۂ کمال ہے۔ اور زمین پر انسانی خلافت سے مقصود بھی یہی ہے۔ چنانچہ اسے حکومت الٰہیہ کی بنیاد قرار دے سکتے ہیں۔ عفو و درگزر اور صلح و اصلاح سے متعلق آیات اس پر دلیل ہیں۔
امامت و خلافت
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید سے رہنمائی حاصل کرنے کے لیے تقویٰ کی شرط رکھی ہے۔ یہی شرط دوسری آسمانی کتابوں سے استفادہ کے لیے بھی ہے۔[ اسی وجہ سے تمام انبیاء نے سب سے پہلے اس کی دعوت دی۔ حضرت نوح علیہ السلام کی دعوت کے سلسلہ میں آیا ہے: ’’إِذْ قَالَ لَہُمْ أَخُوہُمْ نُوحٌ أَلَا تَتَّقُون۔ إِنِّیْ لَکُمْ رَسُولٌ أَمِیْنٌ ۔ فَاتَّقُوا اللَّہَ وَأَطِیْعُون‘‘ (سورۃ الشعراء، آیت: ۱۰۶۔ ۱۰۸)۔ اسی طرح حضرت ہود، حضرت صالح، حضرت لوط اور حضرت شعیب علیہم السلام نے بھی اسی کو اپنی دعوت کی بنیاد بنایا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابتداء دعوت میں حکم ہوا کہ ’’وَأَنذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْأَقْرَبِیْنَ‘‘ (سورۃالشعراء، آیت:۲۱۴)
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دین کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی ہے اور تقوی ہی ایمان و عمل صالح کی اصل ہے۔ چنانچہ شریعت کے احکام کے بیچ بیچ میں بار بار تقویٰ کا ذکر آیا ہے تاکہ دین وشریعت کے جملہ امور میں ہم اس اصل کو پیش نظر رکھیں اور اس سے کبھی غافل نہ ہوں۔
قرآن مجید نے کہیں تو تنہا اسی وصف کا ذکر کیا ہے۔ کیونکہ دین کے فروع اس کے لازم کی حیثیت سے اس میں شامل ہیں۔ فرمایا ہے: ’’وَلَقَدْ وَصَّیْْنَا الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ مِن قَبْلِکُمْ وَإِیَّاکُمْ أَنِ اتَّقُواْ اللّہَ وَإِن تَکْفُرُواْ فَإِنَّ لِلّہِ مَا فِیْ السَّمَاوَاتِ وَمَا فِیْ الأَرْضِ وَکَانَ اللّہُ غَنِیّاً حَمِیْداً‘‘(سورۃ النساء، آیت: ۱۳۱) (اور تم سے پہلے جن کو کتاب دی گئی ہم نے انہیں بھی ہدایت کی اور تمہیں بھی کہ اللہ سے ڈرتے رہو۔ اور اگر تم کفر کروگے تو یاد رکھو کہ اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ اور اللہ بے نیاز اور ستودہ صفات ہے)
اس طرح ایک چیز کا حکم دے کر پورے ایمان اور اسلام کا حکم دے دیا[ (مولانا حمید الدین فراہیؒ )
تقویٰ کو اللہ تعالیٰ نے ہمارے عزم اور حزم کی بنیاد بنایا ہے۔ سورۃ آل عمران (۱۸۶) میں ہے: ’’وَإِن تَصْبِرُواْ وَتَتَّقُواْ فَإِنَّ ذَلِکَ مِنْ عَزْمِ الأُمُورِ‘‘۔ سورۃالاعراف (۲۰۱) میں ہے: ’’إِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَواْ إِذَا مَسَّہُمْ طَاءِفٌ مِّنَ الشَّیْْطَانِ تَذَکَّرُواْ فَإِذَا ہُم مُّبْصِرُون‘‘۔
تقوی ہمیشہ سے انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کا شعار رہا ہے۔ اس کی سب سے نمایاں علامت انفاق ہے جس طرح نماز اس کے ظہور کی اولین صورت ہے۔ اور جو تقوی میں جتنا آگے ہے اللہ کے نزدیک اس کا اتنا ہی بڑا درجہ ہے۔إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِندَ اللَّہِ أَتْقَاکُم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں متقین کے امام حضرت ابوبکرؓ ہوئے ہیں۔ انہوں نے غزوہ تبوک کے موقع پر اپنا سارا اثاثہ آپؐکے قدموں میں ڈال دیا اور اپنے لیے اللہ کو کافی سمجھا۔ ان کے بارے میں آپؐ نے فرمایا کہ ابوبکرؓ سے زیادہ کسی اور کے مال نے امت کے لوگوں کو فائدہ نہیں پہنچایا۔ اور ان کے عمل کے وزن کو پوری امت کے عمل پر بھاری قرار دیا۔ چنانچہ وہ متقیوں کے امام بنے اور پہلے خلیفہ بننے کے سب سے زیادہ حق دار ہوئے۔ حضرت ابوبکرؓ کے ہوتے ہوئے کوئی دوسرا خلیفہ ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ یہ ہے امامت اور خلافت کا نقطۂ اتصال اور دنیا کی امامت اور قیادت کے لیے انبیاء علیہم السلام کے بعد سب سے اعلیٰ اور روشن مثال۔
حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عمرؓ کو اپنا جانشین مقرر کیا جنھوں نے اسی موقع پر جب حضرت ابوبکرؓ نے اپنا سارا اثاثہ نذر کردیا تھا اپنا نصف مال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا اور سمجھا کہ زیادہ ہے اور آج حضرت ابوبکرؓ سے بازی لے جائیں گے لیکن امام پر کوئی سبقت نہیں کرسکتا۔ مگر ایسا کرنے میں انہوں نے عدل کے پہلو کو پیش نظر رکھا اور عدل تقوی سے سب سے زیادہ قریب ہے ’’اعْدِلُواْ ہُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَی‘‘۔ اس طرح وہ امام العادلین ہوئے اور دوسرے خلیفہ بننے کے سب سے زیادہ حق دار ہوئے۔
حضرت عمرؓ اپنے دور آخر میں اپنے جانشین کے لیے فکر مند رہا کرتے تھے۔ انہوں نے اس مسئلہ کو حل کرنے کے ایک کمیٹی نامزد کی جو آخر الامر میں حضرت عثمانؓ کے نام پر پہنچ کر ختم ہوئی۔ حضرت عثمانؓ اپنی بہت سی خصوصیات میں حضرت ابوبکرؓ سے مشابہ تھے جس طرح حضرت علیؓ حضرت عمرؓ سے زیادہ مماثلت رکھتے تھے۔ یہ ہے حقیقی خلافت الٰہیہ جسے امت خلافت راشدہ کے نام سے یاد کرتی ہے۔ اس نے آج تک اس میں کوئی پانچواں نام نہیں جوڑا سوائے حضرت عمرؓ بن عبد العزیز کے جو اپنے دور خلافت میں حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ کے طریقے پر چلنے کی کوشش کرتے رہے۔
ان کے بعد اس شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنے کے لیے کوئی تیار نہیں ہوا تو اللہ تعالیٰ نے باب خلافت و رحمت کو اس امت پر بھی بند کردیا۔ کوئی قوم اس کی چہیتی نہیں ہے کہ اسے ہمیشہ اور ہر حال میں اس اعلیٰ منصب پر بٹھائے رکھے اور اپنی نعمتوں سے نوازتا رہے۔ یہود کو اس نے فضیلت دی اور مسلمانوں کو خیر امت کا لقب دیا۔ اور دونوں اس غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے کہ وہ ہمیشہ اس کے حق دار بنے رہیں گے۔ یہود پر تو اس نے نصاری کو غالب کردیا، ہوسکتا ہے ہمارے لیے بھی اس کا یہی فیصلہ ہو۔ مسلم حکومتیں تو اسی کو اپنے لیے بہتر سمجھتی ہیں۔
اس وقت دنیا کی امامت اور قیادت جس قوم کے ہاتھ میں ہے وہ علم اور طاقت میں سب پر فائق ہے۔ مسلمان تو قوم موسیؑ کی طرح یہ کہنے کی بھی حالت میں نہیں ہیں جو انہوں نے طالوت کی امامت کے متعلق کہا تھا:’’قَالُوَاْ أَنَّی یَکُونُ لَہُ الْمُلْکُ عَلَیْْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْکِ مِنْہُ وَلَمْ یُؤْتَ سَعَۃً مِّنَ الْمَالِ‘‘ (وہ بولے بھلا اس کی امارت ہمارے اوپر کیسے ہوسکتی ہے جبکہ اس سے زیادہ حق دار ہم اس امارت کے ہیں۔ اور اسے تو مال کی وسعت بھی حاصل نہیں ہے)
اس کے جواب میں ان کے نبی نے ان سے کہا:’’إِنَّ اللّہَ اصْطَفَاہُ عَلَیْْکُمْ وَزَادَہُ بَسْطَۃً فِیْ الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ وَاللّہُ یُؤْتِیْ مُلْکَہُ مَن یَشَاءُ وَاللّہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ‘‘(سورۃ البقرۃ:۲۴۷) (اللہ نے تمہاری سرداری کے لیے اسے چنا ہے، اس کو علم اور جسم دونوں میں کشادگی عطا فرمائی ہے۔ اللہ جسے چاہتا ہے اپنی طرف سے اقتدار بخشتا ہے۔ اور اللہ وسیع قدرت اور علم والا ہے)
حکمرانی کی اہلیت کے لیے یہ دو بنیادی شرطیں ہیں۔ اسلام میں چونکہ امیر یا حاکم قوم کا رہبر اور امام بھی ہوتا ہے اس لیے علم اور قوت کے ساتھ اس کے لیے تقوی کو بھی لازم ٹھہرایا ہے کیونکہ اس کے بغیر عدل و قسط کا قیام ممکن نہیں ہے۔ ایک عرب شاعر جو غالباً اپنی قوم کا سردار بھی تھا کہتا ہے:
و یبقی بعد حلم القوم حلمی
و یفنی قبل زاد القوم زادی
اس طرح اس نے ایک اچھے حکمراں کی اصل خوبی کے بارے میں بتادیا۔
روحانیت اسلام
نفس کی خرابیوں میں ایک بڑی خرابی شہرت اور ناموری کی خواہش ہے۔ اس برائی میں زیادہ تر خواص مبتلا دکھائی دیتے ہیں۔
فقیہ و صوفی و ملا تمام مست ظہور
کسے خبر کہ تجلی ہے عین مستوری
جس ذات کی تجلی سے سارا عالم روشن ہے وہ اپنے کو ظاہر نہیں ہونے دیتی۔ بلکہ انسان کے علاوہ جتنی مخلوقات ہیں وہ بھی بغیر اعلان اور اظہار کے اپنے متعلقہ کاموں کو انجام دیتی رہتی ہیں۔ صرف انسان ہی ایسی مخلوق ہے جو نام نمود کے لیے کام کرتی ہے۔ اس کے اندر کی یہ خرابی اسے دوسری بڑی برائیوں کی طرف لے جاتی ہے جیسے اظہار شان و شوکت، کبر و نخوت اور اگر طاقت ہو تو جبر و استحصال اور فتنہ و فساد وغیرہ۔
قرآن مجید نے انسان کی علو پسندی اور نفس پرستی سے پیدا ہونے والی برائیوں اور ان کے نقصانات کا تفصیل کے ساتھ جابجا ذکر کیا ہے اور واضح کردیا ہے کہ دوسروں کے ساتھ وہ خود بھی ان کا شکار ہوتا رہتا ہے۔ ایک بڑا نقصان جو اسے پہنچتا ہے وہ یہ ہے کہ اپنے ہی ابناء جنس سے وہ دور ہوجاتا ہے اور ان کی اعانت اور حمایت سے خود کو محروم کرلیتا ہے۔
دوسری مخلوقات میں یہ برائی نہیں ہے۔ وہ باہم دگر مربوط ہیں اور اپنے دائرہ اور حد میں رہتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی مثال دے کر ہمیں نصیحت کی ہے، فرمایا ہے: ’’الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَان۔وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ یَسْجُدَانِ۔ وَالسَّمَاء رَفَعَہَا وَوَضَعَ الْمِیْزَانَ۔ أَلَّا تَطْغَوْا فِیْ الْمِیْزَان‘‘ (سورۃ رحمن، آیت :۵؍تا ۸؍ ) (سورج اور چاند ایک حساب سے گردش کرتے ہیں اور ستارے اور درخت بھی سجدہ ریز رہتے ہیں۔ اس نے آسمان کو بلند کیا اور حد قائم کی کہ تم بھی حد سے تجاوز نہ کرنا)
ہم انسانوں میں بھی جو لوگ مقررہ حدود کے پابند ہیں ایک دوسرے سے وابستگی رکھتے ہیں اور ان میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہوتا۔ فرمایا ہے: ’’وَمَن یُطِعِ اللّہَ وَالرَّسُولَ فَأُوْلَءِکَ مَعَ الَّذِیْنَ أَنْعَمَ اللّہُ عَلَیْْہِم مِّنَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَاء وَالصَّالِحِیْنَ وَحَسُنَ أُولَءِکَ رَفِیْقاً‘‘ (سورۃ النساء، آیت:۶۹) (اور جو اللہ اور رسول کی اطاعت کریں گے وہی ان لوگوں کے زمرہ میں شامل ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا ہے یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کی جماعت میں۔ اور کیا ہی اچھے ہیں یہ رفیق۔)
اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ان کی اطاعت گزاری یا اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حدود کی پابندی نے انھیں ایک کردیا ہے اور ایک دوسرے کا ہمدم و دمساز بنا دیا ہے۔ اور یہی اسلام ہے ]اسلام کو صبغۃ اللہ اسی لیے کہا گیا کہ اس یک رنگی کا اصطباغ تمام رنگوں کو مٹا دیتا ہے۔ یہی روحانی اصطباغ ہے اور یہی فطرت انسانی آدم علیہ السلام کی طینت جو غبار آلود ہوکر پریشان تھی یہاں آکر پھر مل جاتی ہے۔ یہی خمیر گاہ نوع انساں ہے اور یہی سجدہ گاہ ملائک[ (مولانا حمید الدین فراہیؒ ، تفسیر سورۃ الاخلاص۔ ص: ۵۳۵)
یعنی اسلام نے بلند و پست، اعلی و ادنیٰ اور آقا اور غلام کے تصور کو ختم کرکے سب کو ایک سطح پر لاکر کھڑا کردیا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو اسلام کے کوئی معنی نہ ہوں گے۔ کیونکہ سب کا دین ایک ہے اور سب اسی ذات واحد کے سامنے سجدہ ریز ہیں۔ سب کی زبان پر بس اسی کا نام ہے جس کے آگے سب اپنا نام پتہ بھول گئے ہیں۔ درحقیقت روحانی زندگی اسی کا نام ہے۔
پروفیسر عبیداللہ فراہی، سابق صدر شعبہ عربی لکھنؤ یونیورسٹی