تکثیری معاشرہ اور ہمارا مطلوبہ رویہ

0

سب و شتم سے احتراز
مسلمانوں کا دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے تئیں رویہ اسلام کے عمومی انسانیت نواز نظریے سے جلِا پاتا ہے۔ ہم اس سے پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ اسلام اپنے پیروکاروں کو دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے مذہبی جذبات کے احترام کی تعلیم دیتا ہے۔ قرآن کا ایک واضح فرمان مسلمانوں کو دوسروں کے دیوتاؤں اور خداؤں کے سبّ و شتم سے گریز کرنے کا حکم دیتا ہے: ’’اور (اے ایمان لانے والو!) یہ لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں انہیں گالیاں نہ دو، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ شرک سے آگے بڑھ کر جہالت کی بنا پر اللہ کو گالیاں دینے لگیں ہم نے اسی طرح ہر گروہ کے لیے اس کے عمل کو خوشنما بنا دیا ہے پھر انہیں اپنے رب ہی کی طرف پلٹ کر آنا ہے، اْس وقت وہ انہیں بتا دے گا کہ وہ کیا کرتے رہے ہیں‘‘۔ (الانعام :108)
لیکن اسی تعلیم کے ایک اہم پہلو پر شاذ ونادر ہی زور دیا جاتا ہے۔ اسلام انسانوں کی فطری خوبی میں یقین رکھتا ہے۔ اسلام کے نزدیک انسانی فطرت کی اساسی خوبی مسلمانوں تک ہی محدود نہیں ہے۔ دوسرے مذاہب کے لوگ خصوصاً جنہیں اسلام اہلِ کتاب کہتا، اپنی فطرت میں بحیثیت مجموعی برے، اپنے رب کے نا فرمان اور انسانوں کے تئیں ظالم وجابر نہیں ہیں۔
قرآن عیسائیوں کے ایک طبقہ کی فروتنی اور علم کا ذکر اس آیت میں کرتا ہے: ’’اور تم ایمان لانے والوں کے لیے دوستی میں قریب تر اْن لوگوں کو پا ؤ گے جنہوں نے کہا تھا کہ ہم نصاریٰ ہیں یہ اِس وجہ سے کہ ان میں عبادت گزار عالم اور تارک الدنیا فقیر پائے جاتے ہیں اور اْن میں غرور نفس نہیں ہے‘‘۔ (المائدہ:82)
اگرچہ درج بالا آیت کے پہلے ٹکڑے میں قرآن نے کفار و یہود کی کھلی مخاصمت سے خبردار کرایا ہے لیکن یہ ایک واقعی صورت حال تھی ، قرآن کا اشارہ اس کی آفاقیت کی طرف نہیں ہے۔ اس امر کی دلیل قرآن میں جا بجا انسانی فطرت کی خوبی اور اس کی اظہار میں ملتی ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا گیا ہے: ’’ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا‘‘۔(التین:4)
قرآن واضح کرتا ہے کہ تمام انسانوں کو آدم علیہ السلام کی آل کی حیثیت سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے بزرگی اور عزت بخشی ہے:
’’یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور انہیں خشکی و تری میں سواریاں عطا کیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت بخشی‘‘۔ (الاسراء:70)
’’پڑھو، اور تمہارا رب بڑا کریم ہے۔ جس نے قلم کے ذریعہ سے علم سکھایا۔ انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا۔ ہرگز نہیں، انسان سرکشی کرتا۔ اِس بنا پر کہ وہ اپنے آپ کو بے نیاز دیکھتا ہے‘‘۔ (العلق : 3۔7)
درج بالا آیات تمام انسانوں پر یکساں چسپاں ہوتی ہیں۔ انسان اپنی نسبی نجابت کے باوجود کردار کی انہیں کمزوریوں و خطروں سے دوچار ہیں۔ وہ مستقبل بعید کے مقابلے میں حال کو، غائب کے مقابلے میں حاضر کو اور روحانی زندگی کے مقابلے میں مادی زندگی کو ترجیح دیتے ہیں۔ انسانوں کو علم و دانش ودیعت کیا گیا ہے تاہم وہ جہل و نادانی کے اندھے کنویں میں آسانی سے گر جا تے ہیں۔ سب کو خیر و شر کی تمیزودیعت کی گئی ہے تاہم یہ ایک جیسے فریب کا شکار ہوتے ہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام کا ،خواہ عارضی طور پر، شیطان کے ان دیکھے فریب میں آنا انسانی ناکامی کی آفاقیت اور عموم کا صریح اظہار ہے۔ کوئی بھی خواہ کتنا ہی ذی ہوش اور با علم ہو ان کمزوریوں اور نقائص سے منزہ نہیں ہے۔ دنیوی زندگی کے فریب اتنے خوشنما ہیں کہ انہیں آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ماسوا ان لوگوں کے جو اللہ کی پکار کا مثبت جواب دیں اور اس کی رضا کے آگے جھک جائیں۔
ان وجوہات کی بنیاد پر مسلمان اور غیر مسلم میں امتیاز سے مراد ہر گز یہ نہیں ہے کہ اول الذکر فطری طور پر سلیم الطبع، رحم دل اور خدا ترس ہوتا ہے اور ثانی الذکر فطرتاً شریر اور ظالم ہو تا ہے۔ یہ امتیاز ی حیثیت کسبی اور اختیاری ہے اور بسا اوقات اس صورت حال کی بدولت ہے جس میں انسان پیدا ہوتا ہے۔
مغربی استعماریت کا مبنی بر ظلم اور شر پسندانہ رویہ، جس کی پشت پر یہودی لابی ہے، یعنی کسی پوری جمعیت کی کردار کشی کرنا اسلامی مزاج کے عین مغائر اور اسلامی اقدار کی روح کے منافی ہے۔ مسلمان مغربی میڈیا سے درآمد اصطلاحات \’اسلامی دہشت گردی\’ اور \’اسلامی بم\’ وغیرہ کی تقلید میں دوسری قوموں کے لیے اس طرح کی اصطلاحات وضع نہیں کرتے۔ یہ اصطلاحات بے ضرر نہیں ہوتیں بلکہ پوری قوم کی بدنامی اور کردار کشی کے لیے ایک نپا تلا اور سوچا سمجھا اقدام ہوتا ہے۔ اپنے درخشاں ماضی کے پورے زمانے میں مسلمانوں نے کبھی بھی ، ایک لمحہ کے لیے بھی ، نہ کسی تلوار کو عیسائی یا ہندو ٹھہرایا، اور نہ کسی سازش کو یہودی اور عیسائی قرار دیا۔ اسلامی بنیاد پرستی کا \’ فرانکنش تاین ہیولا \’ حق کو جھٹلانے اور پوری مسلم قوم کو خصوصاً اسلامی تحریکات کو متعصب ، وحشی، جمہوریت دشمن اور ظالم قرار دینے کے لیے تراشا گیا تھا۔
صیہونیت سے متاثر ہ مغربی یلغار کی روش کی دیکھا دیکھی ہندوستان میں سنگھ پریوار بھی اپنے مسلم دشمن رویے کو اختیار کرنے کا کوئی موقع نہیں گنواتا۔ چنانچہ مسلمانوں کو بدنام کرنا ارون شوری جیسے صحافیوں کا غالباً واحد مشغلہ ہے۔ یہ لوگ حقائق کو مسخ کرنے، نیم حقائق اور نیم ہضم شدہ اطلاعات کو واحد صداقت کے طور پر پیش کرنے میں بڑی مہارت رکھتے ہیں جس سے پوری قوم کو وحشی، تاریک خیال، جابر اور جمہوری حقوق کے لیے نا اہل قرار دے دیا جاتا ہے۔
مسلمانوں نے اپنے طرز فکر اور اعلیٰ منتہائے نظر کے باعث کبھی کسی پوری قوم یا جمعیت کو نا اہل، بے ایمان، شدت پسند اور اچھوت قرار نہیں دیا۔ انہوں نے کبھی دوسری قوموں کے دیوی دیوتاؤں کو برا بھلا نہیں کہا، حالانکہ اُن کے بارے میں اِن کا ایمان اِن سے کہتا ہے کہ وہ انسانی اختراع ہیں۔ اِن کی پوری تاریخ مذہبی رواداری کی روشن مثال ہے۔ جس نے بھی اس طرز عمل کے بر عکس کیا دراصل اسلامی تعلیمات کے اتباع میں نہیں بلکہ قرآن اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح تعلیمات کی خلاف ورزی میں ایسا کیا۔
علاوہ بریں، غیر مسلموں کے تئیں بد زبانی اور افترا پردازی بجائے خود مسلمانوں کے اصل مشن یعنی دعوت الیٰ اللہ سے یکسر متصادم ہے۔ غیر مسلم عوام کی کردار کشی اس منصب کے لیے سم قاتل ہے۔ مسلمانوں کو نوع انسانی کی تخفیف کرنے کے لیے اس لیے بھی منع کیا گیا ہے کہ ایسا کرنے سے ان سے مخاطب ہونے کا عمل متأثر ہو جائے گا۔
لہٰذا یہ بہت اہم ہے کہ ہر انسان کے بھلے، رحم دل اور انصاف پرور ہونے کے رجحان پر یقین رکھا جائے۔ گو انسان لغزشوں کا مرتکب ہو سکتا ہے، لیکن تلاش حق کا مادہ ہر انسان کی فطرت میں ودیعت کر دیا گیا ہے۔ ہر قوم میں اچھے اور برے عناصر ہوتے ہی ہیں۔ اچھے عناصر کی شناخت کرنا اور دعوت الی اللہ کے مقصد کے لیے ان پر ارتکاز کرنا دین حق کے پیغام کے کامیابی سے ہمکنار ہونے کی اولین شرط ہے۔
مذکورہ بالا بحث سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ہندوستانی مسلمان غیر قوموں کے تئیں اس آئیڈیل تصور پر عمل پیرا ہیں۔ سیاسی اور سماجی تعصبات اور ان کے ساتھ جبر و استحصال کی ایک طویل تاریخ کے نتیجے میں ہندوستانی مسلمان بعض اوقات تمام ہندو قوم کو اپنے معاملات میں معاند اور غیر دیانت دار پاتا ہے۔ حالانکہ اگر یہ ادراک صحیح ہوتا تو ہندو معاشرے میں مسلمانوں کی بود و باش انتہائی دشوار ہو جاتی۔ اس کے علاوہ یہ ایک فرقہ ورانہ شعوری رویہ ہے جو اس امت کے لیے مناسب نہیں جس کو اللہ نے اپنا پیغام لوگوں تک پہنچانے کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
ہندوستان جیسے تکثیری معاشرے میں یہ انتہائی ضروری ہے کہ سنگھ پریوار اور ان کے حلیفوں کی مسلمانوں کے خلاف میڈیا میں اشتعال انگیز اورمتعصبانہ دریدہ دہنی کا ترکی بہ ترکی جواب دینے سے احتراز برتا جائے۔ انہیں یہ امر ملحوظ رکھنا ہوگا کہ تمام ہندو انسان ہیں جو اپنے تشخص میں مثبت اور منفی دونوں اوصاف کے حامل ہوتے ہیں۔ اسلامی ایجنڈا انسان کے مثبت اوصاف کو مخلصانہ طور پر مخاطب کرنے میں مضمر ہے۔ یہ اوصاف جب زندگی کے صحیح و درست نظریے پر مبنی ہوں تو ایک صالح، بارآور اور خدا ترس معاشرے کی تشکیل پر منتج ہوتے ہیں۔ اس پہلو سے چشم پوشی دراصل اسلام کے دعوتی مشن کا انکار کرنا ہے۔
دریدہ دہنی اور سب و شتم دراصل ایک ایسی تفریح ہے جو مغرب سے متأثر ہے۔ اس کا واحد مقصد مغرب کے مادی اور اباحیت زدہ کلچر کو پوری دنیا میں فروغ دینا ہے۔ یہ دراصل کردار کشی کرنے، کیچڑ اچھالنے اور اجنبی ثقافتوں اور مذاہب کو ، جو ان کے تصور میں تہذیبوں کے تصادم کے مستقبل کے ڈرامے میں اہم کردار ادا کریں گے، ان کو نیچا دکھانے کی ایک مشق ہے۔ یہ ہمیں \’روشن دماغ\’ مغرب کی ما قبل کی اس اسٹیریو ٹائپنگ کی یاد دلاتا ہے جس کی رو سے تمام مشرق گندا، غلیظ اور وحشی تھا۔ مسلمانوں کا رد عمل اس یلغار کے تئیں مثبت اور ان کی دینی تعلیمات کے شایان شان ہونا چاہیے۔ سامراجیت کے غلبہ کے زمانے میں معذرت خواہانہ طرز فکر نے شکست خوردگی کے احساس کو کم کرنے اور \’برتر\’ مغرب کی انانیت پسندی کو ہوا دینے میں مدد کی۔
اسی طرح مسلمانوں کی کردار کشی کا رد عمل جوابی حملوں اور دوسروں کے سب و شتم سے دینا بھی برعکس نتیجے کا حامل ہوگا۔ اس کے مقابلے میں مسلمانوں کو اپنے دین کی اشاعت کی مثبت اور صحت مندانہ مساعی کی طرف توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔
دیگر قوموں مثلاً ہندوؤں کی اسٹیریو ٹائپنگ خالص سیاسی نوعیت کی چیز ہے جو ثقافتی اور متنوع گروہوں کا سوچاسمجھاسماجی حربہ ہے۔ یہ بعض مصنوعی مذہبی ( pseudo religious) گروہوں کے مفاد کی خاطر کسی قوم کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچا کر توانائی حاصل کرتے ہیں۔ یہ لوگ اکثر جہالت سے پیدا شدہ تعصبات کو ہوا دے کر بڑی شاطر منصوبہ بندی سے اپنی آمدنی اور سماجی مرتبہ پیدا کرتے ہیں۔ دوسری ثقافتوں اور روایتوں کو نیچا دکھانے کا مقصد اکثر یہی ہوتا ہے تاکہ اپنی ثقافت کو برتر ثابت کیا جاسکے۔ یہ ایک گمراہ کن تصور ہے۔ اس سے ایسی دنیا پیدا ہوگی جس میں لوگوں کے دل آپس میں نفرت، عناد اور کڑواہٹ سے پھٹے ہوں گے۔ ایسی دنیا ہوش مندی، امن اور ہم آہنگی سے عاری ہوگی۔
اس امت کے لیے جس کا مشن ہی لوگوں کو عقل و استدلال اور باہمی اخوت اور محبت کی طرف دعوت دینا ہے، اللہ کے رسولؐ کی ذات میں اور ان کے دعوتی طریق کار میں نمونے ہیں۔ حضورؐ ہمیشہ اپنے ہم وطنوں کو محبت سے مخاطب کرتے تھے : \’اے میری قوم\’، \’اے میرے بھائیو\’۔ جب آپؐ سے پوچھا گیا کہ آپؐ کے اس قدر جلد بوڑھا ہونے کا سبب کیا ہے تو آپؐ نے فرمایا کہ سورہ ہود اور اس جیسی سورتوں نے مجھے بوڑھا کر دیا (بخاری و مسلم)۔ اپنی قوم اور قبیلے سے محبت اور دردمندی ہی تھی کہ پیغام حق سے ان کے انکار سے پیدا ہونے والے سنگین عواقب کا تصور آپؐ کو مضطرب کیے رکھتا تھا۔ پیغمبر اسلامؐ کبھی اپنے عوام کی فطری اچھائی سے ناامید نہیں ہوئے حالانکہ وہ آپؐ سے اور آپؐ کے پیغام سے سخت بغض اور دشمنی رکھتے تھے۔ وہ کفار کو راہ حق سے بھٹکا ہوا سمجھتے تھے لیکن ہمیشہ اس بات کی توقع رکھتے تھے کہ ان کے قلب و ذہن کی اچھائیاں ضرور غالب آئیں گی۔ پوری جمعیت یا گروہ کی کردار کشی ان کا شیوہ کبھی نہیں رہا۔
جمہوری نظام اور مسلمان :
ہندوستان میں مسلمان جس صورت حال سے دوچار ہیں اس کا ایک اہم پہلو جمہوری نظام حکو مت ہے۔ سیاسی جمہو ری نظام تمام شہریو ں کو، بشمول مسلمانوں کے یکساں حقو ق دیتا ہے۔ موجو دہ سیاق میں اس سیا سی نظام کے دو اہم مضمرا ت ہیں:
۱) یہ نظام ہندوستانی عوام کے تمام طبقو ں کو سیاسی نظام حکو مت میں شرکت کرنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کا حق دیتا ہے،سب کو جان و ما ل کا تحفظ بخشتا ہے اور ذات پا ت ، مذہب یا صنف وغیرہ کی بنیاد پر ہر قسم کے امتیازات کو ممنوع قراردیا ہے۔
۲) یہ سب کو مذہبی ، سیا سی یا فلسفیانہ نظام پر یقین کر نے ، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کر نے کی آزادی بخشتا ہے۔
اس نظام میں مسلمانوں کو بحیثیت ایک طبقہ کے تکثیری سما ج میں رہنا ہے۔ بحیثیت شہری وہ ملک کے ایک صحت مند اور د انا معاشرے کی تعمیر میں شرکت کے لیے مدعو ہیں۔
اپنی اقدار کے مطابق اور ایک منصفانہ اور انسانیت نوا ز نظام میں ان کے لیے جہد و عمل کے بہترین موا قع ہیں۔ انسانیت کو مادی عدم تو ازن اور اخلا قی ابتری سے آزاد کرا نے کے لیے مسلمان ایک بہترین کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اسلام زندگی کے مادی و روحا نی دو نو ں پہلوؤں کے لیے ابدی اور منفرد پیغام رکھتا ہے۔ اس کی اعلیٰ اقدار انسانی زندگی کو عامیانہ سطح سے اٹھاکر ایک ارفع مقام عطا کرتی ہیں۔اسلام انسان کو حیوانی جبلتوں سے اوپر اٹھاکر انسا نیت کے اعلیٰ منصب پر فائز کر تا ہے۔ وہیں دو سری طرف یہ خیالی آئیڈیلزم کے بجائے انسان کے طبیعی اور مادی تقاضو ں پر بھی توجہ دیتا ہے۔
لہذا مسلم امت کی ذمہ دا ری صر ف یہی نہیں ہے کہ وہ انسانو ں کو سماجی عدم مساوات غربت اور بیماری سے بچانے کی جدو جہد میں شامل ہو بلکہ یہ بھی ہے کہ وہ اس جدو جہد کو ایک رخ دیں اور اسے کامیابی سے ہمکنار کریں۔ اس ذمہ دا ری سے پہلو تہی کر نا اس منصب اور کردا ر سے انکار ہو گا جو اللہ نے انہیں ودیعت کیا ہے۔ لہذا ہندوستان میں ملت اسلامیہ کو اس جدوجہد میں مادہ پرست افراد کی طرح محض اس کے ثمرا ت سے فائدہ اٹھا نے کے لیے نہیں شامل ہو نا ہے ، بلکہ دل میں انسانی فلاح و ہمدردی کی شمع جلانی ہو گی۔ عام فلسفیانہ روش کے برعکس اسلام ذا تی اور سماجی مفا د کو مستقل تصادم میں نہیں رکھتا بلکہ اسلامی تنا ظر میں دونوں کی تطبیق کی گئی ہے۔ اسی طرح اہل وطن کی فلاح ملت اسلامیہ کی اپنی فلاح کے ساتھ متصادم نہیں ہے۔
اس شمو لیت کے اخلا قی حدو د اللہ نے اس طرح متعین کیے ہیں جس سے ساری انسانیت کی بہبود مقصو د ہے۔ حتی کہ بظاہر مخصو ص احکا م مثلاً حرمت سود کا مقصد بھی منصفانہ معاشرتی نظام کا قیام اور انسانیت کو ظلم و زیادتی سے نجات دلانا ہے۔ ہندوستانی مسلمان اس جدوجہد میں تبھی شریک ہو سکتے ہیں جب وہ اسلامی اقدار پر پو ری طرح عمل پیرا ہوں۔ دنیا میں اچھے خیالات کی کمی نہیں اور نہ ہی آئیڈیل کی کمی ہے۔ ہندو ستا ن کے نظام سیا ست کا اصل بحران کردارکا بحران ہے۔ مسلمان دیانت دار کردار کی مثال پیش کر سکتے ہیں۔ خود غرضی سے اوپر اٹھ کر اسلامی اقدار کی بنیاد پر اپنے انفرادی اور اجتماعی رویوں کی تعمیر کرکے وہ معاشرے کے لیے نمونہ بن سکتے ہیں۔ انسانیت کوآلام و مصائب سے نجات دلانے کی اس جدو جہد کی قیادت کرنے کے لیے اقدار کو عملی طور پر پیش کرنا ہوگا۔امت مسلمہ ماضی میں ایسا کرچکی ہے۔ وہ اب بھی ایسا کر سکتی ہے۔
سب سے اہم با ت اس جدو جہد میں مسلمانوں کی شمولیت دعو تی مشن کے ساتھ ہی ہونی چا ہیے۔ بلکہ یہ کہنا زیا دہ درست ہے کہ اس مشن کا جز و لاینفک سماج کی تعمیر نو ہے۔ ایک ایسی قوم جس کے دل میں انسانی مصائب کو دور کرنے کا جذبہ ہو اور وہ اپنے معاملات میں انصاف پرور اور با اخلا ق ہو، وہی قوم انسانیت کو اللہ کے پیغا م کی طرف بلا نے کے منصب پر فائز ہوسکتی ہے۔ اس دعوت کی سچائی اس کے اپنے عمل سے پر کھی جا ئے گی۔
آخر میں اس با ت پرزور دینے کی ضرو رت ہے کہ ہندوستانی مسلمان اپنی سماجی و معاشی ترقی سے چشم پو شی نہ کریں۔ کمزوروں اور دبے کچلے افراد کی دعوت جو خود دوسرو ں سے مانگتے رہتے ہو ں، کیسے مو ثر ہو سکتی ہے۔ کا میاب دعوتی کاوشوں کی اہم ضرورت مادی معنوں میں بھی ذا تی ارتقاء ہے۔ اسلامی اصو لو ں پر تیا رکیا گیا سماجی و معاشی ترقی کا منصوبہ یقیناً توجہ حاصل کر ے گا۔ اللہ ان کی مدد کر تا ہے جو اس کے بتائے ہو ئے طریقے پر معاشی ترقی کے لیے جدوجہد کر تے ہیں۔

تحریر: ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی
ترجمانی: عرفان وحید

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights