انقلابات عالم۔ مستقبل کے امکانات

0

از: شہمینہ سبحان، ریاض

تبدیلیاں دراصل انسانی زندگی کا حصہ ہیں۔ مختلف مراحل پر مختلف قسم کی تبدیلیاں کائنات کی فطرت ہے اور سیاسی، سماجی و نظریاتی تبدیلیاں دنیا کے مختلف حصوںمیں ہمیشہ آتی رہی ہیں اور آتی رہیں گی گویا یہ ایک ناگزیرعنصر ہے۔تاریخ انسانی کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہیکہ یہ تاریخ مختلف قسم کے انقلابات سے بھری پڑی ہے اور جو انقلابات دنیا میں آئے ہیں ان میں نہ ہی پورے کامیاب رہے اور نہ ہی پورے ناکام۔ لیکن تاریخ انسانی پوری کوشش و جدوجہد سے عبارت ہے خواہ کہ کوشش کا جو بھی رخ رہا ہو۔کوشش ایک مثبت پہلو ہے انقلابات یوں تو فرد کی سطح پر بھی آتے ہیںاور اجتماعی سطح پر بھی، ان کی حیثیت علاقائی بھی ہوتی ہے اور قومی و بین الاقوامی، ان کی نوعیت الگ الگ ہوتی ہے۔ دنیا کی تاریخ پرایک طائرانہ نگاہ انقلابات کے تناظرمیں اگر ڈالی جائے تووہ کچھ اس طرح ہیں ۔ (مختصر جائزہ لیا گیا)

صنعتی انقلاب : جو شروع تو برطانیہ سے ہوا تھا لیکن بڑھتے بڑھتے امریکہ اور یورپ کے دوسرے حصوں تک پہنچ گیا۔ یہ 1750 سے 1800 کے درمیان واقع ہوا ۔ اسکے جو اثرات سوسائٹی پر پڑے اس میں سے اہم نکات یہ کہ
۔ لوگ شہروں کی طرف منتقل ہو نے لگے اور شہروں کی تعداد بڑھنے لگی، بہتر معیار زندگی کیلئے دوڑ دھوپ بڑھ گئی
۔ حمل و نقل کے ذرائعوں میں بہتری آئی
۔کیپٹلزم کو فروغ ملا
طاقت کو حاصل کرنے کے نئے ذرائع ڈھونڈے جانے لگے۔
اسی طرح دنیا میں ایک انقلاب”سائنٹفک ریولیشن “کے نام سے بھی آیا جو یورپ میں آیا تھا 1500 سے 1600 ءکے درمیان ۔جس کو سائنس کی دنیا میں نشاة ثانیہ (وقفہءحیات نو) کہا جاتا ہے ۔ جہاں سائنسی تجربات اسکے طریقے کار اور عوامل پر بہت بحث کی گئی ۔پرانے آیئڈےاز، تھیوریس پر سوال اٹھایا گیا اور بالخصوص ہیلیوسینٹرک تھیوری پر ،تحقیق کی گئی کہ سورج اس کا ئنات کا مرکز ہے اور زمین اس کے گرد گھومتی ہے ۔ اس کے علاوہ بھی مختلف سائنسی علوم پہ بھی بات کی گئی کہ جہاں نئی تبدیلی کی ضرورت ہو وہ لائی جاسکے اس طرح یہ انقلاب رونما ہوااور بالکل اسی طرح کمرشیل انقلاب بھی اس دنیا کی تاریخ کا ایک اہم عنوان ہے ۔یہ یورپ میں برپا ہوا اور 100 سے 1300 کے درمیان واقع ہوا۔ اس انقلاب کے ذریعے سے دنیامیں مادیت کی طرف دوڑنے بھاگنے کی خواہش پیدا کی گئی شہروں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ساتھ متوسط طبقے کی تعداد میں بھی بڑھوتری ہوئی اور اس انقلاب میں بھی کیپٹلزم کو فروغ ملا۔ بینکنگ سسٹم میں ترقی ہوئی، طاقت کو فروغ دینے والے ذرائع پر بھی غور کیا جانے لگا۔بینکنگ کے نظام میں نئے تجربات کئے گئے اور ان کو اس کے ایک مستقل حصے کے طور پر شامل کیا گیا ۔ تجارت کو بڑھانے کے عوامل پر بھی تحقیق کی گئی۔اس کے علاوہ روس، فرانس اور ایران میں بھی مختلف ادوار میں انقلابات آتے رہے جس کی وجوہات ، اثرات اور تفصیلات کے متعلق دوسرے مضامین میں روشنی ڈالی گئی جہاں کہیں جمہوریت اور کہیں اسلامی جمہوریہ ایران تشکیل پایا۔(ایران کا انقلاب جو 1979ء میں آیا تھا کے بعد وہاں اسلام کو بحیثیت سرکاری مذ ہب قبل کیا گیا)

انقلابات کی تاریخ میں ایک انقلاب زراعت کے متعلق بھی آیا تھا۔ جو تقریبا 10000 بی سی کے درمیان آیا تھا جس میں لوگ دریاوں کے کنارے بس جاتے تھے اس انقلاب کے ذریعے سے سماجی ترقی حا صل ہوئی ۔ لوگ فارمنگ کے نئے ذرائع تلاشنے لگے ، نئی ٹکنالوجی کو حاصل کرنے کا رحجان بڑھا۔اور ساتھ ہی اس کا بھی اگر تذکرہ ہوجائے تو مناسب ہے کہ ایک انقلاب چین میں بھی آیا تھا 1912سے 1949کے درمیان۔ اس طر ح چین ،بحیثیت ریاست اس کا قیام عمل میں آیااور اس انقلاب کے بعدوہاں کی حکومت نے اپنے ہی عوام کے حقوق کو تنگ کردیا تھاپھر کمیونسٹوں اور قومیت کے ماننے والوں کے درمیان ایک سیول وار چلنے لگی تھی،سیاسی آزادی محدود کردی گئی تھی،کسی بھی انسان کی زندگی کے متعلق اہم فیصلے کرنے کا حق کمیونسٹ حکومت کے زیر تحت ہو گیا۔ اس طرح کمیونسٹ بڑی طاقت بن گئی لیکن انکی لڑائی نیشنلسٹوں کے ساتھ باقی ہی رہی۔

اسی طرح ایک انقلاب کیوبا میں بھی برپا ہوا۔ 1959میں ،اس انقلاب کی خصوصیات یہ تھی کہ یہ ایک کمیونسٹ ریاست بنادی گئی ۔ فیڈل کاسٹرو اسکا بانی تھا۔ اور اس انقلاب کے ذریعے سے اس نے تجارت اور صنعت کے شعبے پر پورا کنٹرول حاصل کیااور کمیونزم کو یہاں پر برتری ملی۔انقلابات کے حوالے سے بات اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتی جب تک کہ ”انقلاب محمدی“کا ذکر نہ کیا جائے یہ وہ انقلاب تھا جس نے دلوں کو مسخر کیا تھا جہاں بیابان میں رہنے والے وقت کے امام بن گئے جن سے رب راضی ہو گیارضی اللہ عنھم ورضو ا عنہ۔ جہاں ہر قسم کی طبقاتی تقسیم کو ختم کردیا گیا اعلی و ارفع کے پیمانے بدل دیئے گئے ”ان اکرمکم عنداللہ اتقکم“۔ جہاں سوسائٹی کے دبے ہوئے لوگوں کو بھی عزت و توقیر بخشی گئی۔ ان کو باوقار مقام دیا گیا ۔ جہاں لوگو ں کو گندگیوں و رذالت سے نکال کر زندگی کی اعلی اقدار دی گئیں۔”وکنتم علی شفا حفرة من النار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ“اور زندگی کو اسکے مقصد سے آشنا کرایا گیا”لیبلوکم ایکم احسن عملا“۔دولت کی منصفانہ تقسیم کی تعلیم دی گئی، غریبوں اور سماج کے پچھڑے ہوئے طبقات کے حقوق کو تسلیم کیا گیا۔نظام عدل قائم کیا گیا، کوئی اونچ نیچ ، ذات پات، حسب نسب کے فرق کے بغیر”وکونوا قوامین بالقسط“۔اس انقلاب کے ذریعے سے معشیت کو فروغ ملا، لوگوں کو ایک سیاسی نظام ملا۔ زندگی گزارنے کی اقدار ملیں غرض کہ زندگی کا ایک رخ متعین کیا گیاگویا اس انقلاب نے انسانی تاریخ کا دھارا موڑدیا ۔زندگیاں بدل گئیں۔

ان انقلابات کی روشنی میں مستقبل کے امکانات کا جائزہ لیا جائے اور بالخصوص اسلام کے حوالے سے بات کی جائے تو یہ بات یقینی ہے کہ اس نور کو ہمیشہ روشن رہنا ہے۔ اس چراغ کے لئے یہ طئے ہے کہ وہ نہیں بجھے گا بس اپنے حصے کی شمع روشن کئے جانا ہے ۔صلیبی طاقتیں آج بھی اپنے عروج پر ہے اور ساری دنیا کے ذہنوں کو انھوں نے مرعوب کر رکھا ہے اپنا کلچر، اپنی شناخت ، اپنی اقدار کو تک لوگوں نے مغربیت میں ڈھال لیا ہے ان کا مروجہ تعلیمی نظام فوقیت پا یا۔ غرض ان کا ہی ڈنکا بجنے لگاہے۔لیکن مستقبل کی آنکھ دیکھتی ہے اور امکان یہ ہے کہ حرکت ہوگی اور بالضرور ہوگی، زمانہ کروٹ لے گا، جس طرح جسم میں حرکت ہوتی ہے اور وہ کروٹ لیتا ہے ۔ بالکل اسی طرح تبدیلیاں برپا ہوتی ہیں اور انقلاب آتے ہیں ۔ تاریخ انسانی میں انقلابات کا سلسلہ اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ خود تاریخ نوع انسانی۔پیدائش آدم کے روز اول سے ہی یہ سلسلہ جاری ہے گر چہ کہ رفتار کبھی دھیمی اور کبھی تیز ہوتی رہی ۔ کبھی انقلاب ، ترقی معکوس کے مراحل بھی پیش آئے اور کبھی جمود کے ادوار بھی مشاہدے میں آتے رہے ہیں ۔اسلام و مسلمانوں کو نئے وسائل و ذرائع سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے پیغام کو لوگوں تک پہنچانے کی ضرورت ہے دنیا کے سامنے اسکے افکار و نظریات کو پیش کیا جانا وقت کا تقاضہ ہے۔

دنیا اس وقت ایک دفاعی جنگ لڑ رہی ہے اور اس کے سامنے ایک بہترین نظریہ ، ایک بہترین حل پیش کیا جائے تو امکان بلکہ یقین کی حد تک کہا جاسکتا ہے کہ مستقبل ان شاءاللہ اسلام کا ہوگا ۔یہاں اس نکتے کا تذکرہ بھی کرتی چلوں کہ اسلام جس کے ماننے والوں میں ایک طبقہ وہ جس نے اس دین کو اپنی کال کوٹھریوں میں بند کردیا ہے انھوں نے اس کو بہت نقصان پہنچایا ہے ، دوسرا وہ جو سیکولرازم کا حامی بظاہر مسلمان ہے ان سے تو کوئی امید نہیں، پھر تیسرا وہ جس کو قرآن نے سورہ فاطر میں” راست باز لوگوں“ کے نام سے یاد کیا ہے اور کہا کہ یہ سیدھی راہ پر چلنے والے ہیں ۔انھوں نے حکمت و موعظت کے اصول اپنائے جن کے ذریعے سے ایک خوشگوار تبدیلی آرہی ہے اور سعید روحیں اس میں داخل ہورہی ہیں یہ ایک خوش آئند بات ہے۔دوسری طرف جہاں غیر مسلم دنیا ساری اقوام کو اپنے زیر نگین کرنے میں کامیاب ہوگئی تھیں جہاں وہ کہتے تھے کہ جسموں پر ہماری حکومت ہے تو دلوں اور دماغوںکو بھی ہمارے زیر نگین ہونا چاہیے ان پر بھی ایک بوکھلاہٹ طاری ہے وہ اپنا شکنجہ مزید سخت تر کرنے کےلئے کوشاں ہے براہ راست بھی اور اپنے زر خرید غلاموں کے ذریعے بھی۔ ایک کشمکش سی بر پا ہے ۔مسلم ممالک اور مسلمانوں پر اپنے منصوبوں کو لاگو کرنے کے لئے ان صلیبی، سامراجی و صیہونی طاقتوں نے بہت قوتیں لگادی ہیں اور ان کی کوشش مستقل چلتی جارہی ہے ایسے میں ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ عالم اسلام کے مخالفین کی یہ سرگرمیاں اس وقت دفاعی جنگ سے زیادہ کچھ نہیںاور یہ کہ صلیبی، صیہونی و سامراجی طاقتیں اس وقت ہاری ہوئی جنگ لڑرہی ہیں کہ مسلمان قافلہءسخت جان کی طرح پامردی سے مقابلہ کررہے ہیں اور مستقبل ان شاءاللہ امید افزاءہے صرف یہ کہ کوششوں کو صحیح رخ دیا جائے اور ایک مستقل کوشش کی جائے۔”والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا“(سورہ عنکبوت)اور پھر نوید مل ہی جائے گی۔”یریدون لیطفﺅا نوراللہ بافواھھم واللہ متم نورہ“(سورہ صف)

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights