افلاس محبت یا اخلاقی بحران

0

انسانی تعلقات کی بنیاد جذبات پر قائم ہے۔ محبت ،نفرت ،حسد،رشک،تعصب اور رواداری ،یہی چیزیں انسانی تعلقات کی راہ کے تعین کا سبب بنتی ہیں ۔ نیکی اور بدی کے درمیان بھی یہی حدفاصل ہیں۔ کسی عزیز یا دوست کے متعلق رائے قائم کرتے وقت اگر ہم اس کے حسنِ سلوک سے متأثر ہوتے ہیں تو اس کی تعریف کرتے ہیں۔ اس کے بر عکس اس کی بد سلوکی کا تجربہ ہو تو اسے برا سمجھتے ہیں ۔
کسی بھی اچھائی یا برائی کا تعین کرنے کے لیے باہمی سلوک سے زیادہ انسان کا اپنا نظریہ بھی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ نیک انسان کو ساری انسانی برادری نیک دکھائی دیتی ہے اور جس انسان کے دل میں برائی ہو ،اسے دوسرے لوگوں میں بھی برائی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔یہ دیکھنے والے انسان کی آنکھ ہوتی ہے جو اسے دوسرے فریق میں بھی تصویر کا وہی عکس دکھاتی ہے جو وہ دیکھنا چاہتا ہے۔
اسی طرح جب ہم کسی عزیز یا دوست سے ناراض ہوتے ہیں تو اس میں برائیاں ڈھونڈنے لگتے ہیں اور اگر اس سے خوش ہوتے ہیں تو صرف اس کی نیکیوں پر ہی نظر جاتی ہے اور اس کی برائیاں بالکل نظر انداز کردیتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ہماری آنکھوں پر جس رنگ کا شیشہ چڑھا ہوگا ہمیں اسی رنگ کی دنیا نظرآئے گی۔ اگر ہم تعصب کی عینک اتار دیں تو ہماری بیشتر غلط فہمیاں دور ہو جائیں گی۔
آج ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر خاندانوں میں معمولی معمولی باتوں پر آپس میں جھگڑا طول پکڑ لیتا ہے اور برسوں چلتا رہتا ہے۔ یہ رشتے ہمیں بغیر محنت کے ملتے ہیں، شاید اسی لیے ہم ان کی ناقدری کرتے ہیں۔ ان رشتوں کی مثال حقیقت میں ہرے بھرے پودے کے مانند ہوتی ہے،جس کو سینچنے کے لیے بڑی محنت ،وقت اور قربانی درکار ہوتی ہے، اور اس کی نگہداشت اور آبیاری خاندان کے ہر فرد کا فرض ہے۔
حقیقت میں ہماری ذات سے وابستہ ہر رشتہ اور ہر تعلق اس وقت تک مضبوط و مستحکم نہیں ہو سکتا جب تک اس میں ’محبت کا امرت ‘ اچھی طرح رچ بس نہیں جاتا۔مگر افسوس کہ آج محبت کے فقدان نے خاندانوں ،رشتہ داروں،معاشرتی تعلقات حتی کہ ازدواجی تعلقات میں بھی دوریاں پیدا کر دی ہیں۔ اب ،جیسا کہ دیکھنے میں آتا ہے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے محبت کے بجائے عداوت اور ہمدردی کے بجائے بدلہ لینے کا جذبہ پایا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہمیں ہر رشتہ، ناتا ،ربط و تعلق نا پائیدار، کمزور اورمشکوک دکھائی دیتا ہے۔اب ہمارے رویوں، باتوں اور چال چلن میں خلوص اور محبت باقی نہیں رہی اور اس کی کمی نے خونی رشتوں اور عزیزوں کے درمیان صدیوں کے فاصلے حائل کر دیے ہیں اور ان کے درمیان چھوٹی چھوٹی غلط فہمیوں ،رنجشوں اور شکایتوں کو عام کر دیا ہے۔دل کی بد گمانی ،لہجے کا طنز، حاسدانہ رویہ اور محبت کی عدم موجودگی نے خاندانوں کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا ہے۔
بسا وقات لوگ جذبات میں آکر اپنی عقل سے سوچنے کے بجائے دوسروں کی باتوں میں آکر بلا تحقیق اپنے عزیزوں کو اپنے سے دور کر دیتے ہیں۔ غلط فہمیوں کی کثرت نے لوگوں کو ایک دوسرے سے جدا کر دیا ہے۔افرا تفری کے اس دور میں کسی کے پاس اتنی فرصت نہیں ہے کہ وہ کسی کے بارے میں مخلص ہو کر سوچے اور کسی کے لیے اپنے دل میں سچے جذبات رکھے ۔لوگوں کے دلوں میں مصلحت چھپی ہوتی ہیں ۔اور اچھائی کے حقیقی معنی ناپید ہوتے ہیں۔ ان کی مصلحت پسندی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے اچھے اخلاق اور خلوص کا اظہار بھی اس لیے کرتے ہیں تاکہ اس کے بدلے انہیں بھی کچھ حاصل ہو جائے۔محبت ،خلوص،سچے جذبات اور نیک اخلاق جیسے معتبر الفاظ بھی اب حقیقی معنی کھو چکے ہیں اور ان کے پیچھے اپنی کسی نہ کسی مصلحت کو پوشیدہ رکھے ہوتے ہیں جو کبھی نہ کبھی دوسروں کے سامنے عیاں ہو جاتی ہے ۔
حاصل کلام یہ کہ محبت اور خلوص کے رشتے بہت نازک ہوتے ہیں، ذرا سی بے توجہی سے ٹوٹ جاتے ہیں ۔اور اگر یہ ٹوٹ جائیں تو انسان اندر سے پوری طرح ٹوٹ جاتا ہے اور بکھر کر ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے۔ان رشتوں کومضبوط کر نے کے لیے انسان کو اپنا دل صاف رکھنا چاہیے۔کیونکہ اگر دل میں ایک بار کینہ یا بغض آجائے تو دل کی صفائی میں برسوں لگ جاتے ہیں اور بسا اوقات دل کبھی صاف نہیں ہوتا۔

محمد اسعد فلاحی ، معاون شعبۂ تصنیفی اکیڈمی، مرکز جماعت اسلامی ہند، نئی دہلی

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights