اسلام : حقیقی ترقی اور کامیابی کا ضامن

0

مولانا نسیم احمد غازی فلاحی سے خصوصی انٹرویو

ایس آئی او کے نوجوانوں سے ہماری بڑی توقعات وابستہ ہیں: نسیم غازی
مولانا نسیم احمد غازی فلاحی کا نام ہندوستان میں دعوت دین کی جدوجہد کے سلسلے میں ایک نمایاں نام ہے، موصوف اس میدان میں تقریبا نصف صدی سے نہ صرف عملی طور پر سرگرم ہیں، بلکہ علمی وفکری پہلو سے بھی آپ نے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ موصوف اسلامی ساہتیہ ٹرسٹ اور مدھر سندیش سنگم جیسے معروف دعوتی اداروں کے روح رواں ہیں، نوجوانوں سے خصوصی تعلق رکھتے ہیں، ایس آئی او آف انڈیا کی کل ھند دعوتی مھم کے تناظر میں ایڈیٹر رفیق منزل ابوالاعلی سید سبحانی نے آپ سے خصوصی انٹرویو لیا، افادہ عام کے لیے اسے شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔ ادارہ
آپ اپنا مختصر تعارف کرانا پسند کریں گے؟آپ دعوتی میدان سے کب اور کیسے وابستہ ہوئے؟
میری دینی تعلیم جامعۃ الفلاح میں ہوئی۔ دوران تعلیم سے ہی میری سوچ یہی رہی ہے کہ میرے ہم وطن میرے بھائی ہیں اور ان کے مسائل میرے مسائل ہیں۔ بھائی ہونے کے ناطے میری ذمہ داری ہے کہ میں ان کی خیرخواہی کروں۔ جس چیز میں مجھے اپنی بھلائی اورنجات نظر آتی ہے، میرا فرض ہے کہ میں اپنے غیرمسلم بھائیوں کو اس سے واقف کراؤں اور اس پر غوروفکر کی انہیں دعوت دوں۔دینی تعلیم سے فراغت کے بعد جماعت کے مرکز میں مجھے خدمت کا موقع مل گیا۔ اُس وقت سے ہنوز اللہ دعوت کا کام لے رہا ہے۔ اس وقت خاص طور سے ہندی زبان میں اسلامی لٹریچر کی تیاری کے کام کی نگرانی میرے ذمہ ہے۔ ایک ضروری بات یہ بھی عرض کردوں کہ یہ سب کچھ صرف اور صرف اللہ کی مہربانی سے ہوا،فالحمد للہ رب العالمین!
اس وقت جبکہ ملکی وعالمی سطح پر اسلام اور مسلمانوں کی تصویر مسخ کرنے کی سازشیں رچی جارہی ہیں، اس کے باوجود اسلام کی طرف لوگوں کا رجحان بڑھ رہا ہے، آخر اس کی کیا وجوہات آپ سمجھتے ہیں؟
اس سوال کا جواب بالکل واضح ہے۔ اسلام جس وقت نبیؐ پر نازل ہوا، اس وقت کے حالات آج سے کہیں زیادہ سنگین تھے، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ حق پھیلتا ہی گیا۔ اس کی کچھ وجوہات ہیں:
(i) لوگوں کو ہدایت دینے کی ذمے داری خدا نے اپنے ذمے لی ہے۔ ہمارا کام صرف یہ ہے کہ ہم اپنے عمل اور قول سے حق کو لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کریں۔
(ii) اسلام کے پھیلنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کی تعلیمات بہت سادہ، عام فہم، نہایت موثر اور فطرت کے عین مطابق ہیں۔ اس کی تعلیمات کی خوبی یہ ہے کہ وہ لوگوں کو اپنی طرف کھینچ کر رہتی ہیں۔ میری بات کے ثبوت میں اسلامی تاریخ بھری پڑی ہے اور آج بھی اس کے نمونے ہمارے سامنے ہیں۔ سماج کے مختلف طبقات اور گروہ کے لوگ جب اسلام اور قرآن کا مطالعہ کرتے ہیں تو بہت سے لوگ اس کو اپنانے کے لیے اپنے کو مجبور پاتے ہیں۔
ایک خاص بات یہ سمجھنے کی ہے کہ جب آدمی کا ذہن اسلام کے بارے میں پراگندہ کردیا جاتا ہے اور پھر اس آدمی کو اسلام کا مطالعہ کرنے کا موقع میسر آتا ہے تو وہ یہ دیکھ کر دنگ رہ جاتا ہے کہ اسلام کے بارے میں سنا کیا تھا اور درحقیقت وہ ہے کیا! اور پھر مخالفین کی عیاریاں اور مکاریاں ، جھوٹ اور فریب کو دیکھ کر اس کا ضمیر ان لوگوں پر افسوس کرنے لگتا ہے اور وہ اسلام کا گرویدہ ہوجاتا ہے۔ اسی لیے قرآن نے اور پیغمبرؐ نے بار بار کہا کہ پہنچادو چاہے ایک آیت ہی ہو۔
(iii)انسان فطری طور پر حق پسند ہوتا ہے اور امن وسلامتی چاہتا ہے، مگر حق سے ناواقف ہونے کے باعث غیرحق کو حق سمجھ بیٹھتا ہے، جس شخص یا ادارے سے اسے توقع ہوتی ہے کہ شاید اس کے یہاں اسے اپنی مطلوبہ چیز مل جائے گی، وہ اس کی طرف رجوع ہوجاتا ہے۔ لیکن جب کبھی اسے واقعی حق مل جاتا ہے تو پھر اپنے ضمیر کی آواز پر وہ اسے قبول کرلیتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے کہ مٹی میں ملے لوہے کے ذرات مقناطیس کی طرف کھنچ کر چلے آتے ہیں، ا س لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ حق کو قولی اور عملی طور پر پیش کیا جائے۔
اگر اہل اسلام کی عملی زندگی اسلام کے مطابق ہوجائے تو آپ دیکھیں گے کہ مخالفین کی باتیں دھواں بن کر اُڑ جائیں گی اور لوگ بڑی تعداد میں دین رحمت کے سایے میں آنے لگیں گے۔ ( ان شاء اللہ)
مسلم امت کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ کیا امت مسلمہ بحیثیت مجموعی اپنا دعوتی فریضہ انجام دے رہی ہے؟
یہ سوال اگر آپ مجھ سے نہ پوچھتے تو بہتر تھا۔ اس لیے کہ میرا زخمی دل جب امت کے دعوتی کردار کے بارے میں سوچتا ہے تو وہ اس طرح تڑپتا ہے گویا اس پر نمک پاشی کردی گئی ہو۔ اس کے باوجود اگر آپ اس سوال کا جواب مجھ سے چاہتے ہی ہیں تو میں چند باتیں علماء اور افراد امت سے معذرت کے ساتھ عرض کروں گا۔ میں یہ باتیں کسی جذباتی رد عمل کے طور پر نہیں بلکہ اپنے غور وخوض، حقیر سے مطالعے اور مشاہدے کی روشنی میں عرض کر رہا ہوں۔
سب سے پہلی بات مجھے یہ کہنی ہے کہ ہمارے علماء کرام، دانشوران عظام اور ملت کے اصحاب حل وعقد اس غلط فہمی کے شکار ہوگئے ہیں کہ دعوتی کام یعنی لوگوں کو جہنم سے بچانے اور جنت کا مستحق بنانے کا کام، سب کے کرنے کا نہیں بلکہ کچھ لوگ اگر اس کو انجام دے دیں تو بس کافی ہے۔ یعنی یہ کام فرض کفایہ ہے۔ اس کی دلیل ان حضرات کے پاس اس کے سوا کوئی نہیں کہ قرآن میں سورہ آل عمران کی آیت ۱۰۴؍ میں ارشاد ہواہے:وَلْتَکُن مِّنکُمْ أُمَّۃٌ یَّدْعُونَ إِلَی الْخَیْْرِ وَیَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَأُوْلَءِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُون ۔ اور ان کے نزدیک اس میں مذکور ’مِن‘ سے مراد کچھ لوگ ہیں۔ یعنی ’من‘ تبعیض کے لیے ہے۔ جبکہ خود قرآن میں حرف ’من‘ تبیین کے لیے بھی متعدد بار استعمال ہوا ہے۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ اسی آیت میں وَأُوْلَءِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُون بھی فرمایا گیا ہے کہ ’’اور دراصل یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں‘‘۔ یہ فقرہ خود بتا رہا ہے کہ یہاں معاملہ ’’کچھ‘‘ کا نہیں ’’سب ‘‘ کا ہے۔ نیز چند آیتوں کے بعد یہ بھی فرمادیا گیا کہ کُنتُمْ خَیْْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّہ۔ (آل عمران، آیت:۱۱۰)
یعنی ’’تم بہترین امت ہو جو سارے انسانوں کے لیے وجود میں لائی گئی ہو، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر اللہ میاں یہاں صاف صاف الفاظ میں فرمادیتے کہ سب کو یہ کام کرنا ہے اور لازماً کرنا ہے تب بھی امت کا رویہ کم وبیش وہی رہتا جو آج ہے ۔ جیسا کہ بہت سی تعلیمات اور فرائض کے بارے میں دیکھنے کو ملتا ہے۔
ان حضرات کی جانب سے ایک ’عقلی‘ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ غیرمسلم بھائیوں کو حق کی طرف بلانے کا کام ہر شخص کے بس کا نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے تو بڑی قابلیت، بڑی اونچی صلاحیت اور مہارت کی ضرورت ہے۔ پھر ملت میں بہت سے معذوراور کم زور لوگ ہیں یا ہوسکتے ہیں، اگر دعوتی کام کو سب کے لیے ضروری قرار دے دیا جائے گا تو آخر یہ لوگ اس فرض کو کیسے ادا کرپائیں گے۔
یہ دلیل بھی بڑی بودی ہے۔ میں یہ کہنے کی جرأت تو نہیں کرسکتا کہ یہ حضرات دراصل دعوتی کام کی نوعیت کو سمجھ ہی نہیں پاتے ہیں، البتہ اگر سوئے ادب نہ ہو تو یہ عرض کروں گا کہ یہاں بھی وہ غلط فہمی کا شکار ہوگئے ہیں۔ تجربات شاہد ہیں کہ جولوگ ان حضرات کی رائے میں ’’بے صلاحیت‘‘ اور ’’معذور‘‘ ہیں، انہوں نے اس میدان میں شاندار خدمات انجام دی ہیں۔ ایک مسلمان جب اسلام کی تعلیمات کے مطابق اچھا کردار پیش کرتا ہے یا کوئی کتاب یا کتابچہ دعوتی تڑپ کے ساتھ کسی کو پڑھنے کے لیے دیتا ہے، تو یہ بھی دعوت کا ایک طریقہ ہے۔ دعوتی کام کی کوئی ایک یا چند متعین شکلیں نہیں ہیں۔ (دیکھیں میری کتابیں: دعوتی تجربات، اول ودوم)
دوسری بات یہ ذہنوں میں بٹھائی جاتی ہے کہ ’’بھائی پہلے اپنی اصلاح کرلی جائے، غیروں میں دعوت بعد میں دیں گے۔‘‘
تیسری بات یہ کہ ملت کی بہت بڑی اکثریت، عملاً دعوتی کام سے غافل بلکہ بے نیاز ہے۔
مختصراً یہی کہا جاسکتا ہے کہ دعوتی کام کے پہلو سے امت مسلمہ مجرمانہ غفلت کا شکار ہے۔
کیا ملک میں دعوت دین کا جو موقع موجود ہے وہ مسلم امت کے لیے غنیمت یا ایک بہترین موقع نہیں؟ امت کے درمیان دعوتی فکر کو کیسے عام کیا جاسکتا ہے جبکہ علماء تک اس سلسلے میں غلط فہمی کا شکار ہیں؟
ملک عزیز میں ملت کو دعوت کا جو موقع ملا ہوا ہے وہ بہت غنیمت ہے۔
جہاں تک امت کے درمیان دعوتی فکر کو عام کرنے کی بات ہے تو میرے خیال میں امت کے اندر یہ کام انجام دینا آج نسبتاً زیادہ سہل ہے۔ اس لیے کہ موجودہ حالات نے امت کو اس پہلو پر سوچنے کے لیے آمادہ کیا ہے۔نیز علماء بھی اب اس سلسلے میں سوچنے لگے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کچھ لوگ اپنے کو اس کام کے لیے وقف کریں، اور وہ دعوتی کام کے پہلو سے ملت کو بیدار کریں۔ جماعت اور ایس آئی او اس کام کو اپنے پروگرام کا اہم حصہ بنائیں۔ وہ علماء اور دیگر لوگوں سے رابطہ کرکے اس پہلو سے بیداری پیدا کرنے میں اہم رول ادا کرسکتے ہیں اور مجھے امید ہے کہ دعوتی کام کے لیے ملت سے افرادبھی ملیں گے اور مالی قوت بھی حاصل ہوگی۔
کیا ملک میں اس وقت تحریک اسلامی کے پاس جو دعوتی لٹریچر موجود ہے وہ کافی معلوم ہوتا ہے؟ یا اس میں مزید پیش رفت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے؟
بے شک تحریک اسلامی کے پاس جو دعوتی لٹریچر موجود ہے وہ قابل قدر ہے اور اب تک دعوتی میدان میں اسی سے کام لیا بھی جارہا ہے۔ لیکن موجودہ حالات کے پیش نظر نئے لٹریچر کی سخت ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ خاص طور پر بھارت کی مذہبی کتب اور مذہبی روایات اور ان کی نفسیات کو سامنے رکھ کر نئے لٹریچر کی اشد ضرورت ہے۔ اسی طرح برادران وطن کے ذہن کو پیش نظر رکھ کر قرآن مجید کی تفسیر نیز سیرت پر آپؐ کی تعلیمات کی روشنی میں کتابوں کی ضرورت محسوس ہوتی۔ آج کے نئے معاشی، سیاسی، سماجی، نفسیاتی اور ماحولیاتی وغیرہ مسائل پر بھی اسلامی لٹریچر کی ضرورت ہے۔ چنانچہ ایسے افراد کی ٹیم تیار کرنے پر فوری توجہ درکار ہے جو اصل مراجع سے رجوع کرکے جدید اسلوب میں لٹریچر تیار کرسکے۔ ملت کے باصلاحیت نوجوانوں کو اس میدان میں خدمت کے لیے آگے آنا چاہیے۔
دعوت دین اور سماجی مسائل کے سلسلے میں قائدانہ کردار، یہ دو چیزیں ہیں، انبیاء نے اپنے زمانے میں دونوں کو ایڈریس کیا ہے، ہم اس کے درمیان کیسے ہم آہنگی پیدا کریں، دیکھنے میں آتا ہے کہ ہم سماجی مسائل میں الجھ کر رہ جاتے ہیں اور اس میں دعوتی پہلو نظرانداز ہوجاتا ہے، اور ہم عام سوشل ورکر بن کر رہ جاتے ہیں۔
دعوت دین اور سماجی مسائل کے حل کے لیے کوششیں دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں۔ بلکہ ایک ہی چیز کے دو پہلو ہیں۔ نبیؐ نے دعوت دین کا آغاز سماجی مسائل کے حل سے ہی کیا ہے اور یہی فطری طریقہ ہے۔ داعی حسب موقع جیسا حکمت کا تقاضا ہو کہیں سے بھی کام کا آغاز کرسکتا ہے۔ جہاں تک آپ کایہ اندیشہ یا مشاہدہ ہے کہ سماجی مسائل کے حل میں الجھ کر آدمی صرف سوشل ورکر بن کر رہ جاتا ہے، تو دراصل اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے شخص کے ذہن میں دعوت کی اہمیت نہیں ہوتی ہے۔ اگر دعوت کی اہمیت و ضرورت کا احساس آدمی کو رہے تو پھر وہ ہر کام میں دعوتی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ جس شخص کے ذہن میں یہ بات راسخ ہوجائے گی کہ انسان کا سب سے بڑا مسئلہ جہنم کی آگ سے بچنے کا ہے اور انسان کی سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ اسے جہنم کی آگ سے بچا لیا جائے تو پھر وہ اپنے اصل مقصد سے کبھی غافل ہو ہی نہیں سکتا۔
ترقی کا ایک مادی ماڈل وہ ہے جو آج کی دنیا میں رائج ہے۔ جس سے تنگ آکر لوگ مختلف انداز سے روحانیت کے پیچھے بھاگ رہے ہیں؟ اسلام کا اس سلسلے میں کیا موقف ہے؟ یا اسلام کی رو سے ترقی کا کیا مفہوم ہے؟ اور اس کو بنیاد بناکر ہم کس طرح دعوتی کام کو آگے بڑھاسکتے ہیں؟
ترقی کا مادی ماڈل جو آج دنیا میں رائج ہے، لوگ اس سے تنگ آکر روحانیت کی طرف بھاگ رہے ہیں، یہ سوچنا دراصل ہماری غلط فہمی ہے۔ بظاہر روحانیت کی طرف دلچسپی کی اصل وجہ یہ ہے کہ مادیت کے جو بداثرات مختلف پہلوؤں سے انسان اور انسانی سماج پر پڑتے ہیں تو آدمی ان سے بچنے کے لیے ہر اس شخص یا ادارے کی طرف متوجہ ہوتا ہے جس سے اسے امید ہوتی ہے کہ وہ ان بداثرات سے اسے محفوظ کردے گا۔ لیکن وہ کسی طرح بھی مادیت کو چھوڑنا نہیں چاہتا۔ جہاں وہ امن و سکون کی تلاش میں جاتا ہے وہاں اسے مادیت سے چھٹکارے کی تعلیم نہیں دی جاتی بلکہ اسے کچھ نام نہاد امن و سکون کے طریقے بتاکر مزید مطمئن کردیا جاتا ہے کہ وہ مادیت میں ڈوبا رہے اور ہمارا حصہ بھی ہمیں پہنچاتا رہے۔ایسے سبھی لوگوں کو حقیقی امن و سکون دراصل اپنے خالق ومالک خدا کے بھیجے ہوئے ضابطہ حیات یعنی اسلام کی تعلیمات میں ہی مل سکتا ہے۔ صحیح تصور آخرت کے بنا حقیقی امن وسکون کی تمنا کرنا اپنے کو دھوکے میں ڈالنا ہے اور اسلام نے آخرت کا جو تصور پیش کیا ہے اسے تسلیم کرکے ہی حقیقی امن وسکون اور زندگی کا صحیح لطف حاصل کیا جاسکتا ہے۔ لیکن خود مسلمانوں کا ایک خاصا طبقہ اس فریب میں مبتلا ہے کہ روحانی اور دینی پیاس بجھانے کے لیے کچھ مذہبی امور انجام دے دیے جائیں اور بقیہ زندگی پوری آزادی سے گزاری جائے۔ یعنی دینی ضرورت پوری کرنے کے لیے وہ نماز، روزہ، حج اور کچھ ذکرواذکار اسلام کے مطابق کرلیں اور اپنے کاروبار، معاملات، شادی بیاہ، لین دین، اور حقوق العباد وغیرہ امور میں من مانی کرتے ہیں۔ چنانچہ اس طبقے کی مادیت پرستی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا کردار دعوت کے کام میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ہم کسی کو صرف نظری طور پر کچھ سمجھا کر یا کچھ لٹریچر کا مطالعہ کراکے اسلام کی حقانیت کا قائل نہیں بنا سکتے جب تک کہ مسلمانوں کی اکثریت عملی میدان میں اسلام کی نمائندہ نہ ہو۔
اس دور کا ترقی کا مادی ماڈل دراصل ایک سراب ہے، ایک دھوکہ ہے۔ ترقی کے اس مادی ماڈل میں ایک طبقہ امیر سے امیر تر ہوتا جاتا ہے اور تمام سہولیات اور سارے عیش وآرام کو صرف اپنا حق سمجھتا ہے۔ دوسری طرف ایک طبقہ غریب سے غریب تر ہوتا جاتا ہے، اور وہ بنیادی ضرورتوں تک سے محروم رہتا ہے اور جس کے نتیجے میں وہ خودکشی کرنے تک پر مجبور ہوجاتا ہے۔
کسی کے ایک آنسو پر ہزاروں دل تڑپتے ہیں
کسی کا عمر بھر رونا یونہی بیکار جاتا ہے
ترقی کے اس ماڈل میں ماں باپ جیسی شفیق ورحیم ہستیوں کو اپنے عیش وآرام اور موج مستی میں حائل سمجھ کر انہیں ’اولڈ ایج ہوم ‘ میں پھینک دیا جاتا ہے اور کتے، بلیوں کو اپنے بچوں کے ساتھ سلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ترقی کے اس ماڈل میں خالق کائنات کی نوازشوں اور نعمتوں کو باریک بینی سے تلاش کرکرکے ان سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے، مگر اس بات کی چنداں ضرورت محسوس نہیں کی جاتی کہ ان نعمتوں کو دینے والی ہستی کی بھی تلاش کی جائے اور معلوم کیا جائے کہ ہمارے رحیم وکریم خالق نے ہمیں اس دنیا میں کیوں بھیجا ہے؟ اور وہ ہم سے کیا چاہتا ہے؟ اس ہستی نے ان عظیم نعمتوں کو ختم ہوجانے ہی کے لیے پیدا کیا ہے یا ان کے دوام کے لیے بھی کوئی تدبیر بتائی ہے؟
ترقی کے اس ماڈل کا اگر دیانتداری کے ساتھ پوسٹ مارٹم کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ نہایت شاندار اور سنہری لباس میں غلاظت بھری پڑی ہے جس میں سے تعفن اٹھ رہا ہے۔
یہاں اس پر اس سے زیادہ اظہار خیال کا موقع نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ترقی کے اس مادی ماڈل کا بھرپور جائزہ لے کر اس کی حقیقت کو سامنے لایا جائے۔
اسلام ترقی کا جو ماڈل پیش کرتا ہے، اس میں سارے انسانوں کو برابر کے حقوق دیئے جاتے ہیں، بلکہ پسماندہ طبقے کو زیادہ مراعات دی جاتی ہیں۔ سب کے ساتھ انصاف ہوتا ہے اور انصاف پانا آسان ہوتا ہے۔ ترقی کے اسلامی ماڈل میں بوڑھے ماں باپ بوجھ نہیں بلکہ اللہ کی رحمت ہوتے ہیں۔ اسلام ہمیں بتاتا ہے کہ ان کے قدموں کے نیچے جنت ہے۔ اس ماڈل میں عورت مجلسوں کی زینت اور عیش وسرمستی کا سامان نہیں، بلکہ گھر کی ملکہ اور سماج کے لیے محترم ہستی ہوتی ہے۔ اسلامی ماڈل میں غم غلط کرنے کے لیے شراب کا سہارا نہیں لیا جاتا بلکہ ذکر الہی اور راتوں میں جاگ کر خدا کے آگے سربسجود ہوکر اس کا مداوا کیا جاتا ہے۔ اس ماڈل میں خود کھانے سے پہلے دریافت کیا جاتا ہے کہ کہیں ہمارا پڑوسی بھوکا تو نہیں۔ اسلام کی نظر میں وہ ترقی ترقی نہیں جو صرف اس دنیا تک محدود ہو۔ وہ اس ترقی کا قائل ہے جس کے اثرات مرنے کے بعد والی زندگی تک پہنچتے ہوں۔
اسلام کے نزدیک روحانیت اور امن وسکون کی تلاش ان کی ’دوکانوں‘ پر جاکر نہیں کرنی پڑتی، بلکہ اسلام نے زندگی گزارنے کا جو طریقہ بتایا ہے اور نبیؐ نے اس کو عملی جامہ پہنا کر ہمارے سامنے رکھا ہے، اس میں اسی دنیا میں رہتے ہوئے یہ مقصد حاصل ہوتا رہتا ہے۔
کیا دعوت دین ہماری سرگرمیوں کا مرکزی عنوان بن سکی ہے؟ اگر نہیں، تو اس کے سلسلے میں آپ کیا مشورہ دینا پسند کریں گے؟
عام مسلمانوں میں یہی بات پھیلائی گئی ہے کہ دعوتی کام فرض کفایہ ہے، اگر اسے چند لوگ بھی انجام دے دیں گے تو سب کی طرف سے ذمہ داری پوری ہوجائے گی یا پھر یہ سوچ عام کی گئی ہے کہ پہلے مسلمانوں کی اصلاح کرلو اس کے بعد دوسروں میں تبلیغ کرو۔ ان حالات میں دعوتی کام امت کی سرگرمیوں کا مرکزی عنوان بننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ البتہ تحریک سے وابستہ لوگ کم از کم کہنے کی حد تک اس غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہیں۔ لیکن عملاً ہمارے یہاں بھی یہ کام مرکزی اہمیت حاصل نہیں کرسکا ہے۔
جہاں تک اس سلسلے میں مشورہ دینے کی بات ہے تو یہی گزارش کروں گا کہ جتنی جلد ممکن ہو دعوتی کام کو زندگی کا مقصد بنا لیجئے کیونکہ اس میں ہماری دنیا و آخرت کی کامیابی مضمر ہے۔ یہاں یہ عرض کرنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ دعوتی کام صرف تقریر کردینا، کتابیں تقسیم کردینا یا اس قبیل کے دیگر کام انجام دینے کا نام نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک طریقہ زندگی (Art of Living) ہے۔ یعنی ہمارا ہر کام اور ہماری ہر حرکت ایسی ہو جس سے نہ صرف ہم محظوظ ہوں بلکہ دوسرے بھی لطف اندو ز ہوں، ہمارے دعوتی کردار کی مثال عطر سے بھری شیشی کی طرح ہے کہ اسے جہاں بھی اور جس وقت بھی کھولا جائے گا اس میں سے خوش بو ہی نکلے گی۔
لوگوں سے ہمیں محبت ہو، ان کی دنیا و آخرت کی کامیابی کی فکر ہو، انہیں جہنم سے بچانے کی چنتا ہو، اور ہم اسلام کی تعلیمات پر اس طرح سے عمل کریں جو مطلوب ہے تو پھر ہمارا ہر کام اسلام کی عملی شہادت بن جائے گا اور یہی اصل دعوتی کام ہے۔
نوجوانوں کے درمیان دعوتی سوچ کس طرح پروان چڑھائی جاسکتی ہے؟ کیمپس اور سوسائٹی میں ہمارے وابستگان کا کیا اور کیسا رول ہونا چاہئے؟
SIOصالح نوجوانوں کی تنظیم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سے وابستہ نوجوانوں سے مل کر دلی سکون اور آنکھوں کو ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے، ایس آئی او کے نوجوانوں سے ہماری بڑی توقعات وابستہ ہیں۔ ان کے اندر دعوتی سوچ پیدا کرنے کے سلسلہ میں تنظیم کے ذمے داروں کا رول سب سے زیادہ اہم ہے، پھر اسلامی تعلیم گاہوں کے معلمین کی ذمے داری ہے کہ وہ دوران تعلیم ہر ہر بچے کے اندر دعوتی تڑپ پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ تنظیم کے ذمے دار اُن کے لیے ایسا پروگرام ترتیب دیں جس سے ان کی سوچ دعوتی بنے۔ ایسے عملی پروگرام ترتیب دئیے جائیں، ورک شاپ کا نظم کیا جائے جہاں ان نوجوانوں کی برین واشنگ ہو، دعوت کے سلسلے میں ان کی الجھنیں دور کی جائیں۔ ان کو دعوت کے آسان اور موثر عملی طریقے بتائے جائیں۔ پروگرام ترتیب دینے میں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ ان کی صلاحیت و قوت کا زیادہ سے زیادہ استعمال دعوتی کاموں میں ہو۔ دوسرے کاموں کی فہرست کم کی جائے اور اس ذہن کی حوصلہ شکنی کی جائے کہ ہمیں دنیا کے سارے کام انجام دینے ہیں اور سارے مسائل حل کرنے ہیں۔ نوجوان دعوتی کام بڑوں کے مقابلے میں زیادہ اچھے اور موثر انداز میں انجام دے سکتے ہیں۔ اس لیے کہ سماج میں عام طور پر نوجوانوں سے خیر کی امید کم اور شر کی امید زیادہ ہوتی ہے۔ اگر تحریک سے وابستہ نوجوان اسلام کے تقاضوں کو پورا کرنے لگیں تو ان شاء اللہ اسلام کی اشاعت کو کوئی روک نہیں سکتا۔ سماج کے ضرورت مند لوگوں کی مدد کرنے میں ہمارے نوجوان خود سے پہل کریں، اور یہ خدمت بے لوث اور بے غرض ہو۔ خدمت کے لیے مواقع اور تدابیر پر غور کریں۔ کسی بھی جائز کام کو حقیر اور معمولی نہ سمجھیں۔یہ کام بلالحاظ مذہب و ملت ہونا چاہیے۔
کیمپس میں نوجوانوں کے لئے کرنے کے بہت سے کام ہیں جن سے نہ صرف دعوتی کام انجام پائے گا بلکہ یہ نوجوان سب کی آنکھوں کے تارے بن جائیں گے۔ سب سے پہلی بات جس کا ہمیں خیال رکھنا ہے وہ یہ کہ ہم تعلیمی اور اخلاقی حیثیت سے نمایاں اور ممتاز مقام رکھتے ہوں۔ تعلیمی حیثیت سے کمزور اپنے ساتھیوں کو اوپر اٹھانے کی فکر، ان کی کمزوری کے اسباب معلوم کرنے اور ان کے ازالے کی کوشش۔ نوجوانوں میں مثبت سوچ پیدا کرنے کی سعی جیسے بہت سے کام ہیں جو کیمپس میں کیے جاسکتے ہیں۔ کیمپس میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ آپ کے روابط نہایت مدھر اور مضبوط ہوں۔ یہ روابط صرف کیمپس تک محدود ہوکر نہ جائیں بلکہ وہ ان کے گھروں تک آپ کو کھینچ کر لے جائیں۔
دعوت دین کا عظیم فریضہ انجام دینے والوں کو کن بنیادی خوبیوں سے آراستہ ہونا چاہئے، تاکہ قولی دعوت کے ساتھ ساتھ عملی دعوت کا کام بھی جاری رہے؟
جو صفات اور خوبیاں اسلام ہر مومن کے اندر دیکھنا چاہتا ہے وہی صفات ایک داعی کے اندر مطلوب ہیں، کیوں کہ اسلام کی نظر میں ہر مومن داعی ہے۔ ان تمام مطلوبہ صفات کا احاطہ یہاں ممکن نہیں۔ قرآن مجید میں ان کی تفصیل موجود ہے۔ پھر بھی چند صفات کا تذکرہ یہاں کیا جارہا ہے:
*داعی کے اندر انسانیت کی نجات کے لیے سچی تڑپ موجود ہو اس طرح کہ اس کے اثرات اس کے اوپر نمایاں طور پر نظر آئیں۔
* حکمت بھی ایک داعی کے لیے لازمی صفت ہے۔
* صبر و تحمل کی صفت کے بغیر دعوتی کام ممکن نہیں۔
*اعلیٰ ظرفی اور کشادہ دلی اور عفوو درگزر کی صفت بھی اس کام کے لیے ضروری ہے۔
* اللہ سے مضبوط اور زندہ تعلق قائم کیے بنا یہ کام ناممکن ہے۔
ہندوستان جیسے تکثیری معاشرے میں اسلام کا کیا مستقبل دیکھتے ہیں؟ یہاں مسلمانوں کی صورتحال اور دعوت دین کے سلسلے میں ان کی مجرمانہ غفلت کو سامنے رکھتے ہوئے آپ کیا کہیں گے؟
ہندوستانی معاشرے میں اسلام کا مستقبل نہایت تابناک ہے۔ یہ ہماری خوش فہمی نہیں بلکہ تجربے اور مشاہدے کی روشنی میں یہ بات عرض کی گئی ہے۔ بس شرط یہ ہے کہ مسلمان اسلام کی بحیثیت مجموعی قولی اور عملی شہادت کا فریضہ انجام دیں۔وہ اپنے گھر،معاشرے اور سماج کی تعمیر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کریں۔ اس طور پر کہ لوگ ان کے معاشرے کو دیکھ کر یہ باور کرنے لگیں کہ درحقیقت یہی معاشرہ ایک مثالی معاشرہ ہے، جس کی تقلید کئے بغیر نہ ہمیں کامیابی مل سکتی ہے اور نہ ملک کو ترقی۔ ان کوششوں کے بغیر خالی خولی باتیں کرنے سے دعوت کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ مگر افسوس اسی بات کا ہے کہ مسلمان سدھرنا نہیں چاہتے۔ دین اور اسلام کے نام پر انھوں نے چند باتوں کو منتخب کرلیا ہے، اور اسی پر وہ مطمئن ہیں۔ جتنی جلد مسلمان اسلام کا عملی نمونہ اپنی زندگیوں میں پیش کرنا شروع کردیں گے اتنا ہی ان کے حق میں بہتر ہوگا۔
ملک میں فاشسٹ طاقتیں مستقل تبدیلی مذہب مخالف قانون بنانا چاہتی ہیں تاکہ مذہب کی تبلیغ کا راستہ بند کیا جاسکے، کیونکہ اس سے ماحول خراب ہوتا ہے اور سماج میں مختلف قسم کے خطرناک مسائل جنم لیتے ہیں، آپ اس بارے میں کیا سوچتے ہیں؟
ملک کے بعض حصوں میں پہلے ہی تبدیلی مذہب کے سلسلے میں کچھ شرائط لگادی گئی ہیں۔ اور اب پورے ملک میں اس طرح کا قانون بنانے کی کوشش کی جارہی ہے جس سے تبدیلی مذہب بند ہوسکے یا کم از کم اس میں کمی آسکے۔ میرے خیال میں تبدیلی مذہب پر مطلقا پابندی عائد کرنا ممکن نہیں، البتہ اس کے پروسیس (process)میں بہت سی شرائط لگاکر اس میں رکاوٹ کھڑی کی جاسکتی ہے، لیکن جو سعید روحیں حق سے آشنا ہوجاتی ہیں اور جنہیں اپنی اخروی نجات کی فکر لاحق ہوجاتی ہے، ان کو کوئی حق سے نہیں روک سکتا ؂
زباں کو بند کریں یا مجھے اسیر کریں
میرے خیال کو بیڑی نہیں پنہا سکتے
کیا عرب میں اس کی آزادی تھی، کیا مصر کی فرعونی سلطنت نے اس کی اجازت دے رکھی تھی؟ نہیں۔ لیکن ایسے ہی مقامات پر اسلام زیادہ تیز رفتاری سے پھیلا۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ تبدیلی مذہب سے ماحول خراب ہوتا ہے اور سماج میں خطرناک مسائل جنم لیتے ہیں، تو یہ سراسر غلط پروپگنڈہ ہے۔ حق قبول کرنے سے ماحول خراب نہیں بلکہ بہتر ہوتا ہے اور اس طرح مسائل جنم نہیں لیتے بلکہ ختم ہوتے ہیں۔ کیا قبول حق کرنے والے ماحول خراب کرتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ قبول حق کرنے والے تو اپنی سابقہ اخلاقی وسماجی اور معاشرتی برائیوں کو ترک کرکے اور بھلائیوں اور نیکیوں کو اختیار کرکے ماحول کو سدھارنے اور خوشگوار بنانے میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔ درحقیقت ماحول تو وہ لوگ خراب کرتے ہیں اور مسائل بھی وہی پیدا کرتے ہیں جو اس حق اور سچائی پر غور کرنے کے بجائے آنکھ بند کرکے اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ انسان کس خاندان میں پیدا ہوتا ہے، اس میں کسی کا دخل نہیں لیکن اس کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ شعوری طور پر یہ فیصلہ کرسکے کہ اسے کون سا طریقہ زندگی اختیار کرنا ہے، کس مذہب میں اس کے مسائل کا حل اور قلبی و روحانی سکون کا سامان ، نیز اخروی کامیابی کی ضمانت ہے۔
ملک میں اس وقت دعوت دین کے مختلف طریقے رائج ہیں، نوجوانوں کے درمیان بحث ومباحثے کا رجحان بڑھ رہا ہے، آپ کس اسلوب کو زیادہ مناسب سمجھتے ہیں؟
دعوت دین کے طریقے کیا ہوں اس کے لیے کوئی متعین بات طے نہیں کی جاسکتی۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں اور حالات کے مطابق اس کے طریقے متعین کیے جاسکتے ہیں۔ بحث ومباحثے کا طریقہ ماضی میں بھی رائج رہا ہے اور آج بھی رائج ہے۔ قرآن نے ’’وجادلھم بالتی ھی احسن‘‘ (ان کے ساتھ اس طریقے سے بحث و مباحثہ کرو جو بہترین ہو) کہہ کر اس طریقہ کی راہیں متعین کردی ہیں۔ بحث و مباحثے میں بھی ایک داعی کے اندر دل سوزی، محبت اور انسانیت دوستی پائی جائے۔ مخالف کو شکست دینے، اس کے خلاف تالیاں پیٹنے یا نعرے بازی وہنگامہ آرائی کے بجائے اس کو سمجھانے اور سیدھے راستے پر لانے کی محبت و دل سوزی کے ساتھ کوشش کی جائے۔
یہاں یہ بات بھی سامنے رہے کہ بحث و مباحثے کو اپنا معمول نہ بنایا جائے۔ صحیح طریقہ یہی ہے کہ ایسا ماحول تیار کیا جائے جس میں آدمی غور وفکر کرسکے، اور اپنے لیے سنجیدگی سے کوئی صحیح راستہ پسند کرسکے۔
دعوت دین کے سلسلے میں آپ کے اہم تجربات جو ہمارے ساتھ شیئر کرنا پسند کریں گے؟
جہاں تک دعوت دین کے سلسلہ میں اہم تجربات کی بات ہے، ان کو بیان کرنا اس وقت ممکن نہیں ہے۔ میری دو کتابیں دعوتی تجربات حصہ اول دوم (ناشر مدھر سندیش سنگم) میں اس سلسلے میں بہت سے واقعات نقل کیے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں یہاں بس اتنا عرض کروں گا کہ انسانوں سے محبت اور ان کے تئیں اپنی ذمے داریوں کو پورا کرنا، قول سے زیادہ اپنے عمل سے اسلام کی دعوت دینا ان شاء اللہ شاندار نتائج کا موجب ہوگا۔میرا ماننا یہ ہے کہ انسان پیاسا ہے، مگر اسے معلوم نہیں کہ اس کی اس پیاس کو بجھانے کے لیے ’آب حیات‘ کہاں ملے گا۔ لیکن جب کبھی اس کے سامنے یہ آب حیات آجاتا ہے تو وہ اس پر ایسے ٹوٹ پڑتا ہے جیسے کوئی پیاسا پرندہ پانی سے بھرے برتن پر۔
قارئین رفیق ، بالخصوص وابستگان تنظیم کو کیا پیغام دیں گے؟
اوپر جو باتیں عرض کی گئی ہیں ان میں ہم سب کے لیے بہت سے پیغامات موجود ہیں، تاہم چند باتیں مزید عرض کی جارہی ہیں:
ایس آئی او سے وابستہ افراد کو یہ بات سمجھنے میں کوئی دقت نہیں ہونی چاہئے کہ ہمارا نصب العین قرآن وسنت کے عین مطابق ہے۔ اگر اس نصب العین کو حاصل کرنے کے لیے کماحقہ جدوجہد نہ کی جائے تو پھر اس کی حیثیت ایک مردہ عبادت سے زیادہ نہیں ہوگی۔ اس لیے اپنا یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے ہمیں ہروقت بیدار رہنا ہے، نیز اپنی قابلیتوں اور صلاحیتوں کا خود اندازہ لگاکر انہیں اللہ کے کام کے لیے وقف کرنا ہے۔ مسلم نوجوانوں کو گمراہ کرنے کے لیے بہت سی طاقتیں سرگرم ہیں، لہذا ہمیں ان سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔
اپنی صلاحیتوں کو بارآور بنانے اور ان سے خود اپنے کو اور پورے سماج اور ملک کو فیضیاب کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہماری سوچ مثبت اور تعمیری ہو، اور یہ تبھی ممکن ہے کہ ہم ہر حال میں خدا کے شکرگزار ہوں۔ ہمیں انتہاپسندی اور تشدد کے رویے سے مکمل پرہیز کرنا چاہئے اور صبروتحمل کو اپنا شیوہ بناکر اپنے مقصد کی طرف گامزن رہنا چاہئے۔ دین پسند مسلم نوجوانوں کو ایک اہم بات یہ یاد رکھنی چاہئے کہ ان کا مقصد زندگی تو یقیناًنہایت اعلی اور ارفع ہو، لیکن اسے حاصل کرنے کے لیے جدوجہد اور کوشش زمین سے شروع کرنی چاہئے۔ زمینی حقائق کو نظرانداز کرکے تمناؤں اور خیالوں کی اونچی اڑان بھرنا اپنے آپ کو ہلاک کرنا ہے۔ اگر کوئی ہمیں صالح انقلاب کا شارٹ کٹ راستہ دکھاتا ہے تو ہمیں کبھی بھی اس کے دھوکے میں نہیں آنا چاہئے۔ بلا لحاظ مذہب وملت لوگوں کے مسائل کو سمجھنا اور انہیں حل کرنے کی کوشش کرنا، لوگوں اور سماج کی آگے بڑھ کر خدمت کرنا، اور انہیں اپنے قول وعمل سے دین حق سے واقف کرانا یہی اقامت دین اور صالح انقلاب کا پہلا زینہ ہے اور یہی انبیائی طریقہ بھی رہا ہے۔ ہمیں اپنے ملک اور سماج سے محبت ہونی چاہئے اور اس کو ہر طرح کے نقصان سے بچانے کی فکر ہونی چاہئے۔ ہمیں سماج سے لینے کے بجائے اسے کچھ دینے کی فکر کرنی چاہئے، کیونکہ ہمارے سماج کو جس چیز کی واقعی ضرورت ہے وہ صرف آپ کے پاس ہے ؂
یہ بھی تو سوچئے کبھی تنہائی میں ذرا
دنیا سے ہم نے کیا لیا، دنیا کو کیا دیا
ہمارے نوجوانوں کو حالات پر باریکی کے ساتھ نظر رکھنی چاہئے۔ اسلام کے خلاف پھیلائی جارہی بے بنیاد باتوں اور سازشوں سے باخبر رہنا چاہئے، اور اس کے ازالے کے لیے بروقت پیش رفت کرنی چاہئے۔ جدید ذرائع ابلاغ کا بھرپور استعمال ہونا چاہئے، لیکن ہمارا ہر قدم اور ہر کام اسلامی تعلیمات کے مطابق اور داعیانہ کردار سے ہم آہنگ ہونا چاہئے۔
آخر میں ایک ضروری بات یہ بھی عرض کرنی ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو کسی بھی حالت میں مایوسی کو اپنے قریب بھی پھٹکنے نہیں دینا ہے اور علم واعلی اخلاق سے لیس ہوکر حکمت ودانائی اور صبروتحمل کے ساتھ ناموافق حالات کو بدلنے کے لیے اپنے آپ کو تن من دھن سے اللہ کے لیے وقف کردینا ہے۔ اگر ہم ایسا کرسکے تو پھر ان شاء اللہ رب العالمین کی طرف سے ہمارے لیے یہ بشارت ہے:
وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْن۔ (القرآن، سورہ العنکبوت: ۶۹)
’’اور جو لوگ ہمارے مشن کو پورا کرنے کے لیے بڑھ چڑھ کر جدوجہد کریں گے، ہم ان کے لیے اپنی راہیں کھول دیں گے، بیشک اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو اپنے کام بہتر سے بہتر طریقے سے انجام دیتے ہیں‘‘۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights