ادھوری ترقی

0

رمیش نے ایک بار پھر نظر اٹھا کر چھت میں سوراخ ڈھونڈنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔اور اسے تو ناکام ہی ہونا تھا کیونکہ چھت میں سوراخ تو دور کی بات کوئی ہلکی سی چیر یا دراڑ تک نہ تھی۔ کھڑکیاں اور دروازے بھی اندر سے بند تھے۔ اب وہ پریشان اس بات پر تھا کہ اگر چھت میں کوئی سوراخ نہیں ہے، کھڑکیاں دروازے بھی اندر سے بند ہیں، تو آخر اتنی ساری دولت اس کے کمرے میں آئی کیسے۔ وہ چھت میں سوراخ اس لیے ڈھونڈ رہا تھا کہ اس نے سن رکھا تھا کہ ’’اوپر والا جس کو چاہتا ہے چھپر پھاڑ کے دیتا ہے‘‘۔ اور اتنی دولت کوئی اور بھی دے سکتا ہے ؟یہ اس کے لئے نا قابل یقین بات تھی ۔اس نے ایک بار پھر نوٹوں کو گننا شروع کیا۔ نقد رقم تقریباً50؍کروڑ سے زائد تھی ۔نقد کے علاوہ کئی بیش قیمت ہیرے جواہرات بھی اس تھیلے میں موجود تھے جو اچانک اس کے کمرے میں نمودار ہوگیا تھا ۔نقد رقم اور ہیرے جواہرات کے علاوہ تھیلے میں ایک کتاب بھی تھی جس میں اس دولت کے استعمال سے متعلق رہنمائی تھی۔اس نے کتاب کے کچھ ورق پڑھنے کے بعد اسے اٹھا کر شیلف میں رکھ دیا اور ایک بار پھر تھیلے کو کھنگالنے لگاکہ اچانک اس کی نظر ایک خط پر پڑی جس پر جلی حرفوں میں اس کا نام لکھا ہوا تھا ۔خط میں کسی سفر اور مقام کی تفصیلات لکھی تھیں، ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا تھا کہ تمہیں جلد ہی اس مقام کی طرف ہمیشہ کے لئے منتقل ہونا ہوگا ۔اس لئے اس دولت کو سوچ سمجھ کر صرف کرنا ۔اس مقام سے متعلق وہ اس سے پہلے بھی کئی دفعہ سن چکا تھا۔ پچھلے چھ مہینوں میں خود اس کے اپنے محلے کے تین لوگ اس مقام کے لئے روانہ ہو چکے تھے ۔جن لوگوں میں اس کا ایک لنگوٹیا یار آصف بھی شامل تھا ۔اس نے خط کو قریبی میز کی دراز میں ڈالا، اور سامنے پڑی دولت سے متعلق سوچنے لگا۔
گھنٹوں سوچنے کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہونچا کہ کچھ دنوں بعد خط کے مطابق اسے اپنا دیس چھوڑ کر پردیس کے سفر کے لئے روانہ ہونا پڑے گا ۔اس لئے اس دولت کو کسی تجارت میں لگاکر مزید بڑھانے نیز سفر کی آسائشیں مہیا کرنے کے لئے استعمال کرے، تاکہ دوران سفر اسے کسی قسم کی پریشانی نہ ہو ۔اپنے اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے وہ انتھک محنت کرنے لگا، سب سے پہلے اس نے کنسٹرکشن کے میدان میں قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا، اور چند ہی سالوں میں اس میدان کا بے تاج بادشاہ بن گیا ۔صرف دس ہی سالوں میں اس نے ایسی عمارتیں بنوائی جس کا اس سے پہلے کے لوگ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے ۔ایسے راستے بنوائے جس پر سفر کرنے والوں کو یہ گمان ہوتا کہ وہ ہوائی سفر میں ہو ں۔ کنسٹرکشن کے علاوہ رمیش نے نادیدہ کرم فرما کی دی ہوئی دولت نیز اپنی محنت کی بدولت دیگر میدانوں میں بھی اپنے نام کا سکہ بٹھا دیا۔جہاں اس نے سفر کے لئے صاف و شفاف سڑکیں بنوائیں، وہیں دورانِ سفر آرام کے لئے عالیشان اور پر تعیش عمارتیں بھی بنوائیں۔سفر کے ایڈونچر سے پوری طرح لطف اندوز ہونے کے لئے برق رفتار گاڑیاں اور تحفظ کے پیش نظر نت نئے ہتھیار تیار کئے، دیکھتے ہی دیکھتے رمیش ایک عظیم الشان سلطنت بنانے میں کامیاب ہوگیا ۔دولت سے لے کر سیاست تک ہر چیز اس کے اشاروں پر ناچنے لگی ۔اس عظیم الشان سلطنت کے قیام میں جہاں رمیش کی محنت اور نادیدہ کرم فرما کی دی ہوئی دولت کا حصہ تھا، وہیں بڑا حصہ ان بے کس اور مجبور انسانوں کے خون پسینے کا بھی تھا، جنھیں رمیش نے اپنی دولت و قوت کے بل پر اپنی چاکری پر مجبور کررکھا تھا۔انسانوں کا یہ خون کبھی کبھار رمیش کو بے چین بھی کردیتا۔مگر جب وہ اپنی سلطنت پر نظر ڈالتا تو یہ بے چینی فوراً ہی کافور ہوجاتی۔اس سلطنت کی تیاری میں رمیش اس خط کو پوری طرح بھول چکا تھا جو دولت کے ساتھ اس کے ہاتھ آیا تھا۔لیکن خط کی وہ عبارت جس میں رمیش کی پردیس روانگی کا ذکر تھا، وہ اکثر اس کے ذہن میں گردش کرنے لگتی، لیکن کاموں کی زیادتی اسے خیالات کو فوراً جھٹکنے پر مجبور کر دیتی ۔
ساری عیش و عشرت اور آسائشوں کے باوجود جیسے جیسے پردیس کے روانگی کا وقت قریب آرہاتھا، ویسے ویسے رمیش کی بے چینی میں اضافہ ہو تا جارہا تھا، آخر کار پردیس روانگی کا دن آپہنچا، رمیش جی کڑا کرکے اپنے خصوصی مصاحبوں کے ساتھ اپنی رولس راٹس میں بیٹھ کر منزل کی جانب رواں دواں ہوگیا ۔سفر کی آسانی نیز پردیس میں اپنی خدمت گزاری کے لیے رمیش نے سیکڑوں خادم اور مصاحب بھی اپنے ساتھ لے لیے۔ سفر میں رمیش جہاں سے بھی گزرتا اپنی تیار کردہ عمارتیں دیکھ کرفخر سے اس کا سینہ چوڑا ہوجاتا۔ سارا راستہ اس کے تصور ترقی (Idea of Development) کی منہ بولتی تصویر بن گیا تھا۔ سفر گو طویل تھاپر مصاحبوں کی موجودگی نیز وسائل سفر کی فراہمی نے اسے بالکل آسان بنا دیا تھا۔ لیکن جب وہ اپنے مصاحبوں اور غلاموں کی فوج کے ساتھ اپنے نئے وطن کی سرحد میں داخل ہونے لگا، تو وہاں موجود دربان نے انہیں روک دیا ۔سوال کرنے پر اس نے رمیش سے کہا: ’’اس وقت صرف تم ہی یہاں داخل ہو سکتے ہو‘‘، ’’اور میرے مصاحب ؟‘‘ رمیش نے سوال کیا،’’وہ بھی جلدی ہی یہاں آکر تم سے مل جائیں گے‘‘،دربان نے مسکرا کر جواب دیا۔ ویسے یہ ضروری نہیں کہ جو تعلق تمہارا اور ان کا تمہارے پچھلے وطن میں تھا وہ یہاں بھی باقی رہے۔ رمیش کچھ سمجھتے کچھ نہ سمجھتے ہوئے بھی دربان کے ساتھ اس نئے ملک کی سرحدوں میں داخل ہوگیا۔
انتہائی خوبصورت جگہ تھی۔ ہر طرف سبز و شاداب باغات اور محلات نظر آرہے تھے ۔محلات کی طرف دیکھتے ہوئے رمیش نے دربان سے کہا: ’’میں ایک ترقی پذیر وطن سے یہاں آیا ہوں، میں نے اپنے پچھلے وطن میں کئی شاندار اور عالیشان عمارتیں بنوائیں،خود میری ساری زندگی حسین باغات اور محلات میں گزری، لیکن اتنی خوبصورت عمارتیں میں نے آج تک نہیں دیکھی، وہاں بھی خوبصورت نو خیز لڑکیاں میرے حسن و دولت کی وجہ سے مجھے گھیرے رہتی تھیں،پر ایسی خوبصورت لڑکیاں جو تمہارے وطن میں نظر آرہی ہے،ویسی میں نے کبھی دیکھیں اور نہ ہی کبھی ان کا تصور کیا، ان سب کو چھوڑ جو خوبصورت غلام ان محلات میں جس چابکدستی سے کام کرتے نظر آرہے ہیں،اتنی چابکدستی اور خوبصورتی تو میں نے فوجی جرنیلوں اور شہزادوں میں بھی نہیں دیکھی ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویامیں خواب دیکھ رہا ہوں‘‘۔
رمیش سانس لینے کے لئے رکا، اور پھر گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہنے لگا: ’’ یہاں تو سیکڑوں ہزاروں بلکہ تا حد نظر ایسے خوبصورت محلات نظر آرہے ہیں، کیا ان میں سے کوئی ایک محل مجھے بھی حاصل ہوسکتا ہے؟‘‘اس سوال کے ساتھ رمیش امید بھری نظروں سے دربان کی طرف دیکھنے لگا۔ رمیش کی بے چینی دیکھ کر دربان نے مسکراتے ہوئے کہا: ’’اس بات کا فیصلہ تو ان محلات کا مالک ہی کر سکتا ہے‘‘، رمیش نے دربان کی بات کاٹتے ہوئے کہا کہ ’’میں ان محلات کے مالک سے ملنا چاہتا ہوں،کیا تم ہماری ملاقات کرا سکتے ہو؟‘‘
ملنے کا وقت تو گزر گیا، کاش تم یہاں آنے سے پہلے ہی اپنے وطن میں ان محلات کے مالک سے مل لیتے تو اب تک ان محلات میں سے کوئی شاندار محل اور غلاموں کی ایک فوج تمہاری ملکیت بن چکی ہوتی۔ دربان نے تأسف بھری نظر رمیش کے چہرے پر ڈالتے ہوئے کہا: ’’ویسے ایک پتے کی بات بتاؤں، ان محلات کا مالک وہی ہے جس نے تمہیں مال و دولت سے بھرا تھیلا دیا تھا‘‘۔’’کیا؟‘‘یہ سن کر رمیش کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔’’کاش میں اس سے مل سکتا، اگر میں اس سے وہاں ملتا اور ان محلات اور یہاں کی آسائشوں کے بارے میں جانتا، تو اس کی دی ہوئی ساری دولت اسے واپس کر دیتا، اور اس کے بدلے ان میں سے ایک محل اس سے مانگ لیتا، پر افسوس کہ میرے پاس اس کا پتہ نہیں تھا، ورنہ میں ضرور اس سے مل کر یہاں آتا تھا‘‘۔ رمیش کی یہ بات سن کر دربان غصہ ہو گیا اور سخت گیر لہجے میں کہا: ’’تم جھوٹ کہتے ہو، اس مالک نے دولت کے ساتھ اپنی کتاب بھی اس تھیلے میں رکھی تھی، اس میں تمہارے کرم فرما کا تعارف،پتہ اور ساتھ ہی ساتھ محلات کے حاصل کرنے طریقہ بھی بتایا گیا تھا،تم نے خود اس پیغام سے آنکھیں پھیر لیں اور اب اپنے ہی کرم فرما پر یہ الزام لگا رہے ہو کہ اس نے اپنا پتہ نہیں بتایا؟!!‘‘
’’مجھے معاف کرنا‘‘رمیش نے دربان سے کہا، لیکن میں تمہارے مالک کی دی ہوئی دولت کو بڑھانے ،بڑی بڑی عمارتیں اور سڑکیں بنانے، نیز موج مستی میں اتنا مصروف ہوگیا تھا کہ مجھے کبھی اس محسن سے ملنے اور اس کا شکر ادا کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔’’کیا میں واپس اپنے پرانے وطن جاکر اس سے مل سکتا ہوں ؟‘‘رمیش نے سوال کیا ۔ ’’نہیں‘‘ جو ایک بار اس ملک میں داخل ہوجائے وہ کبھی یہاں سے واپس نہیں جا سکتا۔ میرے مالک نے وہ دولت تمہیں اس لئے نہیں دی تھی کہ تم اس کے ذریعہ بڑی بڑی عمارتیں،راستے،اور گاڑیاں بناؤ۔ بلکہ اس لئے دی تھی کہ تم ان چیزوں کے ساتھ ساتھ اس وطن میں جہاں تم اس وقت کھڑے ہو، ایک محل خرید سکو،پرانے ملک میں تم بس ایک مسافر تھے، اور یہ وطن تمہاری اصل منزل ہے۔ مگر افسوس تم نے ساری دولت آسائش سفر ہی کے حصول کے لئے خرچ کردی، اور منزل کے لئے کچھ بھی بچا کر نہ رکھا۔ افسوس!تمہارا تصور’ ترقی‘ صرف سفر تک محدود رہا ۔اور منزل کی ’ترقی‘ سے بے نیاز رہا۔کاش تمہارا تصور ’ترقی‘ سفر اور منزل دونوں کا احاطہ کرتا۔ آج تم ان محلات اور یہاں کی آسائشوں سے محروم نہ رہتے۔ چلو میں تمہیں تمہارانیا گھر بتاتا ہوں جہاں تمہیں ہمیشہ رہنا ہے ۔ یہ کہہ کر دربان نے رمیش کا ہاتھ پکڑا اور اسے لے کر بائیں جانب کھڑے پہاڑوں کی جانب بڑھنے لگا۔گھنٹوں چلنے کے بعد وہ آخر کار پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ گئے،اور جیسے ہی رمیش نے پہاڑ کی دوسری جانب دیکھا اس کی تو جان ہی نکل گئی۔ بوسیدہ کھنڈرات تھے،جن میں سے آگ کے شعلے نکل رہے تھے، آگ کے شعلے بھی ایسے کہ معلوم ہوتا آسمان چھو رہے ہو۔ رمیش نے ڈرتے ڈرتے سوالیہ نظروں سے دربان کی طرف دیکھا۔ رمیش کی آنکھوں میں چھپے سوال کو پڑھ کر دربان نے خشک لہجے میں کہا: ’’یہی تمہارا نیاگھر ہے جہاں تمہیں ہمیشہ کے لیے رہنا ہوگا‘‘۔ یہ کہہ کر دربان نے رمیش کو پہاڑ کی چوٹی سے آگ میں دھکیل دیا ۔’’نہیں، نہیں‘‘ کی فلک شگاف چیخیں رمیش کے منہ سے نکلنے لگی تھیں۔
تبھی اچانک اس نے اپنے چہرے پر ٹھنڈے پانی کے چھینٹے محسوس کئے، ڈرتے ڈرتے اس نے آنکھیں کھولیں، تو قریب ہی اس نے اپنی بیوی کوکھڑا پایا، جو اس سے پوچھ رہی تھی: ’’کیا کوئی بھیانک خواب دیکھ لیا؟‘‘۔’’نہیں !خواب نہیں، حقیقت دیکھی، کائنات کی سب سے بڑی حقیقت‘‘۔ رمیش بڑ بڑاتے ہوئے اٹھا، اور سیدھا کاغذ اور قلم لے کر بیٹھ گیا تاکہ دنیا کو بھی اس حقیقت سے آگاہ کرے۔ اس رات کے چھوٹے خواب نے رمیش کی زندگی ،اس کے تصور ’ترقی‘ ہر چیز کو بدل کر رکھ دیا اب وہ دولت سے زیادہ اخلاقیات،جسم سے زیادہ روح، اور سفر سے زیادہ منزل کی فکر کرنے لگا۔اسے پوری امید ہے کہ نئے دیس میں اسے ان محلات میں ضروری جگہ ملے گی جو اس نے اپنے خواب میں دیکھے تھے۔

محمد سلمان، کیمپس سکریٹری ایس آئی او مہاراشٹر ساؤتھ

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights