ادب اطفال: ایک وسیع اور مؤثر دنیا

0

شہر بنگلور کے ایک چھوٹے لیکن معروف ہال لیڈی جہانگیر ہال میں وقفہ وقفہ سے کتابوں کی نمائش ہوا کرتی ہے۔ گزشتہ ایسی ہی ایک نمائش میں جانے کا اتفاق ہوا۔ اس نمائش میں غیر معمولی چیزیہ نظر آئی کہ کتابیں تول کر فروخت ہورہی تھیں۔ ان میں اکثر کتابیں بچوں کے لٹریچر کے زمرے کی تھیں۔ تقریباً تمام کتابیں امریکہ اور نگلینڈ کے پبلشرز کی تھیں۔ اس نمائش نے اس حقیقت کا ثبوت پیش کیا کہ امریکہ اور یورپ میں بچوں کے لٹریچر پر کافی توجہ دی جاتی ہے۔
آج جب یہ مضمون تحریر کیا جارہا تھا۔ یہ خبر سامنے آئی کہ دہلی میں منعقدہ ورلڈ بک فیئر کو ’’بچوں کے لٹریچر‘‘ کے عنوان (Theme)کے تحت منعقد کیا جارہا ہے۔بک فیئر کا افتتاح صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی نے کیا۔ موصوف نے بچوں کے لٹریچر کی اہمیت کو واضح کیا۔ آپ نے اس بات کا تذکرہ کیا کہ ہندوستان انگریزی لٹریچر کی اشاعت میں دنیا بھر میں چھٹا مقام رکھتا ہے۔ آپ نے بچوں کے لٹریچر کے حوالے سے صرف اتنا کہا کہ ہمارے پاس بچوں کی کہانیاں بولنے کی روایت قائم رہی ہے۔ ان کہانیوں میں ۲۰۰؍ سال قبل مسیح کی تصوراتی کہانیاں پنچ تنترابڑی مشہور ہیں۔ اس کے علاوہ آپ نے جَٹ کا کہانیاں، رامائن اور مہابھارت کی کہانیوں بھی تذکرہ کیا۔ ہندوستان کی قدیم دیومالائی کہانیوں کو بھی آج دوبارہ نئی زبان اور انگریزی میں کارٹون یا گرافکس کی مدد سے پیش کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔
بچوں کے لٹریچر کی اہمیت:
بچوں کو نفسیاتی اعتبار سے عمر کے دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ایک ۰؍ تا ۶؍ سال کی عمر اور دوسرا ۶؍ تا ۱۴؍ سال کی عمر۔ حضرت علیؓ نے انسانی زندگی میں مراحل کا تذکرہ کیا ہے، اس میں پہلا مرحلہ رحمِ مادر ، دوم ۰؍۔۷؍، سوم ۷؍۔۱۴؍، چہارم ۱۴؍۔۲۱؍، پنجم ۲۱؍ سے زائد ہے۔ انسانی

زندگی میں بچپن کی بڑی اہمیت ہے۔
بچپن (۰؍۔۶؍ سال) ہی کے دوران بچے کا ۹۰؍فیصد دماغ تشکیل پاتا ہے۔ اسی عمر کے دوران بچہ میں motor skill, sensorial skills اورmathematical skillپروان چڑھتے ہیں۔ بچپن کا دوسرا مرحلہ ۷؍ سے ۱۴؍ سال والا بھی بہت اہم ہوتا ہے۔ ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ ۵؍ سال کی عمر سے بچہ مختلف سوالات کرنے لگتا ہے، جس میں زیادہ سوالات اس کے اپنے وجود اور اطراف کی چیزوں کے بارے میں ہوتے ہیں۔ یہ عمر کیوں؟ اور کیسے؟ کی کھوج کرتی ہے۔ ۸؍ سال کی عمر تک کو cognetiveعمر بھی کہا جاتا ہے۔ اس لیے کہ اس عمر میں بچہ اپنی زندگی کی تشکیل کی بنیادیں تیار کرتا ہے۔ اس مختصر سی بحث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بچپن کی صحیح تربیت کتنی ضروری ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، بعد ازاں اس کے ماں باپ اور ماحول یا تو اسے مومن بناتے ہیں یا مجوسی و یہودی۔ اس حدیث سے اس عمر کی اہمیت اور اس عمر کے دوران تربیت کی ضرورت کا اندازہ ہوتا ہے۔
بچپن کی تربیت کے کئی عناصر ہیں: ماں باپ، ماحول اور اسکول۔ ماحول میں جہاں دوست شامل ہیں، وہیں اس زمرے میں کتابوں (لٹریچر) اور دیگر میڈیا کو بھی شامل کیاجاسکتا ہے۔ میڈیا میں ٹی وی اور موجودہ دور میں سوشل میڈیا بھی شامل ہوجائے گا۔
ہندوستانی مسلمان اور بچوں کا لٹریچر:
ہمارے ملک میں مسلمانوں کا رویہ لٹریچر کے تئیں بڑا مایوس کن ہے۔ کتابیں پڑھنے کا شوق ویسے بھی کئی وجوہات کی بنا پر کم تھا، اور اب میڈیا کی بدلتی شکلوں نے کتابوں کے پڑھنے کے ذوق کو اور بھی کم کردیا ہے۔ بڑوں کا معاملہ ہی دگرگوں ہے۔ اس کے اثرات بچوں پر بھی پڑتے ہیں۔ مسلم والدین کا رویہ یہ ہے کہ جن کتابوں کا تعلق نصاب یا اسکول سے ہے وہی کتابیں خریدیں گے۔ نصابی کتب سے ہٹ کر دیگر لٹریچر ابھی اکثر والدین کے نزدیک ’’فضول خرچی‘‘ ہے۔ اگر کوئی بچہ پڑھنے کا ذوق بھی رکھتا ہے تو والدین اس کی ہمت افزائی نہیں کرتے۔
ویسے بچوں میں بھی پرنٹ میڈیا (کتابوں) کے بجائے ویژول میڈیا (T.V.)کو دیکھنے کا رجحان اور دلچسپی زیادہ پائی جاتی ہے۔ اس لیے بچوں کے چینل آج بڑے مقبول ہیں اور کافی منافع کمار ہے ہیں۔
مسلم بچوں کا معاملہ تو بہت تشویش ناک ہے۔ ٹی وی چینلوں کے ذریعہ یا تو ہندو کلچر، تاریخ و تہذیب دکھائی جاتی ہے یا پھر مغربی کلچر و تہذیب کی یلغار ہے۔ ان چینلوں کے ذریعہ بچوں کی غذائیت Food habitکو تبدیل کیا جاتا ہے اور انھیں بچپن ہی سے صارفی تمدن Consumerismکا حصہ بنادیا جارہا ہے۔ پرنٹ لٹریچر پر بھی اسی کی چھاپ ہے۔
مسلم بچوں کے ساتھ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ اس کی مادی زبان اکثر اردو ہوتی ہے۔ اور اسے روانی کے ساتھ کسی اور زبان میں پڑھنے کی مشق کرائی جارہی ہے۔ مثلاً انگریزی یا ہندی۔ بچہ انگریزی اورہندی تو پڑھ لیتا ہے لیکن ان دونوں زبانوں میں اخذ کرنے کی قابلیت کم ہوتی ہے۔ جس کے نتیجے میں وہ نصابی کتب کو رٹنے میں مصروف رہتا ہے اور دیگر لٹریچر کو پڑھنے میں کم ہی مائل ہوتا ہے۔
یہاں والدین کو یہ سمجھنا چاہیے کہ دنیا کے تمام ماہرین تعلیم و ماہرین نفسیات یہی لکھتے ہیں کہ بچوں کی بنیادی تعلیم ان کی مادری زبان میں ہونی چاہیے اور بچہ کو اپنی مادری زبان پر جتنا عبور ہوگا وہ اتنا ہی زندگی کا لطف اٹھا سکتا ہے۔ اور تعلیمی میدان میں اختراعی عمل اختیار کرسکتا ہے۔ ہم سامراجی تسلط کی غلامانہ ذہنیت کو برقرار رکھتے ہوئے بچوں کو انگریزی تعلیم دینا کامیابی کی ضمانت سمجھتے ہیں۔
مذکورہ بالا چند وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ہندوستان میں بچوں کا اسلامی لٹریچر تیار نہیں ہورہا ہے۔ بچوں کے لٹریچر کی تیاری میں بڑا فنڈ بھی لگتا ہے۔ ہمارے ملک میں اس وقت بچوں کا معیاری اسلامی لٹریچرGood Wordsادارے کے ذریعہ شائع ہورہا ہے۔ یہ لٹریچر معیاری بھی ہے اور کسی حد تک ضرورت کو پورا کرتا ہے۔ لیکن اس کام میں مزید تنوع کی ضرورت ہے۔ مثلاً تاریخ کے حوالے سے سخت گیر رویہ رکھنے والی دائیں بازو کی جماعتوں نے تاریخ کے حوالے سے جن واہمات کو معاشرہ میں عام کیا ہے، ان واہمات کو دور کرنے والا کوئی بچوں کا لٹریچر موجود نہیں ہے جو ہماری کم سے کم بنیادی ضرورتوں کو پورا کرسکے۔ تاریخ کے حوالے سے مولانا افضل حسین صاحب نے جو کام انجام دیا ہے، اسے انگریزی میں ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ آج ہم جنوب میں شیر میسور ٹیپو سلطان کے متعلق بڑے جذبات کا اظہار کرتے ہیں لیکن افسوس کہ ان پر کوئی کتاب جو بچوں کے لیے مناسب ہو، انگریزی زبان میں موجود نہیں ہے۔
یقیناًبچوں کا لٹریچر تیار کرنا آسان کام نہیں ہے۔ موجودہ دور کی نسل کو اپیل کرنے کے لیے کارٹون، فوٹو گرافی اور گرافکس کا استعمال ضروری ہے اور کتاب کے تمام صفحات کا ملٹی کلر ہونا بھی ضروری ہیں۔ کتابوں کی چھپائی پر جو خرچ آتا ہے، اس کی مناسبت سے اگر کتاب کی قیمت رکھی جاتی ہے تو مسلم گاہکوں کو بڑی مہنگی لگتی ہے۔ فی کتاب چھپائی کی قیمت اس وقت گھٹ سکتی ہے جبکہ کتابیں کثیر تعداد میں شائع ہوں۔ اسلامی کتابوں کی چونکہ ڈیمانڈ کم ہوتی ہے، اس لیے صرف دو ہزار کی تعداد میں شائع ہوتی ہیں، جس کے نتیجے میں قیمت کا فی بڑھ جاتی ہے۔
ہندوستان میں معیاری بچوں کے اسلامی لٹریچر کی کمی کی ایک اور بنیادی وجہ بچوں کے لٹریچر کو ترتیب دینے والوں کی عدم ہمت افزائی ہے۔ اگر کوئی مصنف بچوں کے لیے کتاب لکھتا ہے تو اسے خود اپنا سرمایہ لگا کر شائع کرنا ہوتا ہے، نہ تو کوئی اشاعتی ادارہ اسے رائلٹی دیتا ہے اور نہ ہی کسی ادارے سے اس کی ہمت افزائی ہوتی ہے۔ مدرسوں میں بچوں کو پڑھانے کے لیے چندہ مل جاتا ہے، لیکن کوئی ادارہ بچوں کے لٹریچر کی تیاری میں مصروف ہے، تو شاید اسے اتنا چندہ یا فنڈ بھی نہیں ملتا، اس لیے کہ ابھی ملت کے سامنے یہ کوئی اہمیت کا کام نہیں ہے۔ پھر یہ سوال بھی چند اسلام کی تفسیر بیان کرنے والے کھڑا کردیتے ہیں کہ اس میں فوٹو ہو کہ نہ ہو۔ کارٹون جائز ہے کہ نہیں ہے۔ اب تو بعض حضرات یہ بھی بحث کرنے لگتے ہیں کہ شیر اور گیدڑ کی کہانی نہ سنائی جائے اور نہ لکھی جائے۔ اس لیے کہ نہ شیر بولتا ہے اور نہ گیدڑ۔ جب آپ بچوں سے یہ کہتے ہیں کہ شیر نے یوں کہا تو آپ بچوں سے جھوٹ بول رہے ہیں، جو کہ حرام ہے!
ابھی ہم ان موشگافیوں میں پڑے ہیں اور ہمارے بچے چھوٹا بھیم، Tom and Jerry، Ninjaboyاور ہنومان کو دیکھ کر اپنے عظیم ورثہ سے ناواقف ہورہے ہیں۔
بچوں کے لٹریچر کی تیاری سرپرستی چاہتی ہے۔ بچوں کے لٹریچر کو شائع کرنے والے اردو پبلشروں کا موازنہ اگر ہم حکومت کے اداروں یا بعض NGOsکے ذریعے کرتے ہیں تو بڑا تفاوت نظر آتا ہے۔ مثلاً مرکزی مکتبہ سے مائل خیرآبادی صاحب کی کہانیوں کی کتابوں کا موازنہ اگر ہم پرتھم بکس کی جانب سے شائع شدہ کتب سے کرتے ہیں تو زمین و آسمان کا فرق نظر آتاہے۔ پرتھم بکس بچوں کے لیے چند اردو کتب بھی شائع کرتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ ادارہ مشہور ہندوستانی سافٹ ویئر کمپنیInfosys کے تعاون سے کام کررہا ہے۔ اسی طرح بعض کتابیں National Book Trustاور چند اردو اکاڈمیوں نے بھی شائع کی ہیں۔ جامعہ پبلیکشنز لمیٹڈ اور این سی پی یو ایل(NCPUL)بھی بچوں کا لٹریچر شائع کررہا ہے لیکن انھیں جتنی پذیرائی ملنی چاہیے اتنی نہیں مل رہی ہے۔
پرنٹ میڈیم بہت تیزی کے ساتھ اب ڈیجیٹل میں تبدیل ہورہا ہے۔ ہمیں مستقبل کی فکر کرتے ہوئے بچوں کے لیے ڈیجیٹل مواد تیار کرنا بہت بڑا چیلنج ہے۔ اس میدان میں ایران نے بہت کام کیا ہے۔ مغرب بالخصوص امریکہ کی بعض اسلامی تنظیمیں بھی اس میں کام کررہی ہیں۔ ملیشیا میں بھی کچھ کام ہوا ہے۔ ہمیں اس سرمایہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندوستانی تناظر میں کام کرنا چاہیے۔ اس میدان میں ہمیں ابھی تک کوئی نمایاں کام نظر نہیں آرہا ہے جو ہمارے ملک میں ہوا ہو۔ بعض احباب نے مائل خیرآبادی صاحب کی کہانیوں کو فلمایا ہے۔ لیکن ایک DVDلانے کے بعد شائد ہمت افزائی نہ ہونے کی وجہ سے مزید ان کی جانب سے پیش رفت نہیں ہوسکی۔
ایک مشہور چینی کہاوت ہے کہ اگر آپ ایک سال کا منصوبہ بنا رہے ہو تو کاشتکاری کرو، دس بیس سال کا منصوبہ بنارہے ہو تو باغبانی (پھلدار درخت لگانے) کا منصوبہ بناؤ اور اگر آپ اس سے طویل مدت کا منصوبہ بنا رہے ہو تو اپنی نسلوں کو تیار کرو۔
افسوس کہ ہمارے پاس پہلے تو طویل المعیاد منصوبہ نہیں ہے کہ ہم اس ملک میں اگلے پچاس برسوں میں اپنے آپ کو کس پوزیشن میں لائیں گے، اور جن کے پاس یہ منصوبہ ہے وہ اپنی نوخیز نسل کی نگہداشت، تعلیم و تربیت ویسے نہیں کررہی ہے، جو انھیں مقصد کی طرف لے جاسکے۔ ہم تو اپنے بچوں کو مستقبل میں پیسہ روپیہ کمانے کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور انھیں اتنا ہی پڑھاتے ہیں، جتنا کہ پیسہ کمانے کے لیے ضروری ہے۔ اگر زاویہ نگاہ تبدیل ہوتا ہے تو پھر ملت بچوں پر investکرے گی اور اس میں بچوں کے لٹریچر کی تیاری کا ادارہ بھی شامل ہوگا۔ 2n2

ادب اطفال میں نئے رحجانات

بچوں کا ادب ، ادب کی ایک مشکل ترین صنف سمجھی جاتی ہے ۔کیوں کہ یہ ادب ایک مقصدی ادب ہوتا ہے ، اس کے ذریعے بچوں کو مسرت کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ان میں تخیل کی صلاحیت پیداکرنے، جذبہ اور حوصلہ پروان چڑھانے،مختلف النوع تجربات سے روشناس کرانے، دنیااور لوگوں کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرنے، ان میں ثقافتی و تہذیبی ورثے کو منتقل کرنے اوراخلاقی اوصاف کے نشوونما کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ اس ادب کے ذریعے ان میں پڑھنے اور لکھنے کی مہارتیں اورمختلف میدانوں سے متعلق علم کو بھی پیدا کرنے کی سعی کی جاتی ہے۔ ظاہر ہے ان تمام مقاصد کے ساتھ بچوں کے لیے دلچسپ ادب پیش کرنانہایت ہی مشکل کام ہے، اسی لیے اس صنف میں بہت ہی کم ادیبوں نے طبع آزمائی کی ہے۔ خاص طور پرموجودہ دور میں اردو زبان میں بچوں کے ادب پر بہت کم توجہ دی جارہی ہے۔ حالانکہ اردو میں بچوں کے ادب کی ایک توانا روایت رہی ہے۔انیسویں صدی کے دوران محمدحسین آزاد ، ڈپٹی نذیر احمد اور مولوی اسماعیل میرٹھی نے بچوں کے لیے کافی کتابیں تصنیف کی تھیں۔حالیہ زمانے میں مائل خیر آبادی اس میدان کے اہم ادیب رہے ہیں جنہوں نے اسلامی اقدار کو پیش نظر رکھتے ہوئے بچوں کے لیے کافی اہم ذخیرہ ادب تخلیق کیا تھا۔70؍اور80؍ کی دہائیوں میں ماہنامہ نور میں بھی کچھ اچھے اور دلچسپ ناول شائع ہوتے تھے ۔یہ تمام تحریریں اپنی نوعیت کے اعتبار سے کافی اہم ہونے کے باوجود نئی نسل کی امنگوں، ان کی خواہشوں ، دلچسپیوں اور ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے سے قاصر ہیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ بچوں کے ادب میں بھی نئے نئے اسلوب اختیار کیے جانے لگے ہیں،اور بچوں میں بھی الگ الگ عمر کے گروپ کے بچوں کے لیے الگ الگ موضوعات پر ، الگ الگ زبان اور اسلوب میں کتابیں تیار کی جارہی ہیں۔12؍سال کے کم عمر بچوں کی کتابوں کی طباعت اور ڈیزائیننگ انتہائی خوبصورت اور دلکش ہوتی ہے ۔ ان میں الفاظ کم اور تصاویر زیادہ ہوتی ہیں۔ تصاویر ہی کے ذریعے بہت ساری باتیں بیان کردی جاتی ہیں۔نئے زمانے کے بچوں میں ٹیلی ویژن اور ویڈیو گیمس کی وجہ سے تصویروں پر مبنی کتابوں میں ہی زیادہ دلچسپی دیکھی جارہی ہے۔
تیرہ سال سے زیادہ عمر کے بچوں کی کتابوں کا انداز اور ان کے موضوعات الگ ہوتے ہیں ۔ انگریزی اور دیگر یورپی زبانوں میں تو ’ینگ ایڈلٹ لٹریچر‘ کے نام سے ایک الگ صنف موجود ہے جس میں نوبالغوں کے لیے ان کے ذوق کے مطابق کتابیں موجود ہیں۔نوبالغوں کے ادب میں کثیر موضوعاتی کہانیاں، تحیر خیز واقعات کا تسلسل،یاد رکھے جانے والے کردار،دلچسپ مکالمے،موثراور واضح اسلوب تحریر، حسن مزاح، حیرت انگیز آغاز اور انجام وغیرہ جیسی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ان میں پیش کیے جانے والے کردار اور موضوعات ایسے ہوتے ہیں جن سے نوعمر بچوں کو اپنائیت محسوس ہوتی ہے ۔ ان کرداروں اور موضوعات کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ بچے انہیں جھٹلانہ سکیں، نہ انہیں چھوٹا کرسکیں اور نہ ان کی قدرمیں کمی ہو۔ ان کرداروں اور موضوعات کو ایسی زبان میں پیش کیا جاتا ہے کہ نوعمر بچے انہیں آسانی سے سمجھ سکیں۔ ان کہانیوں میں پلاٹ کو تمام چیزوں سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ انگریز ی میں مقبول عام ہیری پوٹر سیریز اسی نوبالغوں کے ادب کا ایک نمونہ ہے۔
اس وقت خاص طور پر اسلامی نقطہ نظر سے بچوں کے لیے ایسی کہانیوں اور ناولوں کی سخت ضرورت ہے جو آج کی نئی نسل کی ضرورتوں اور دلچسپیوں کے مطابق بھی ہوں،اور اس کے ذریعے بچوں میں مثبت اقدار بھی نشوونما پاسکیں۔
(ڈاکٹر فہیم الدین احمد، اسسٹنٹ لکچرر، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد)

۔۔۔۔کے ذمہ دار تخلیق کار اور قاری دونوں ہیں

علمی دنیا میں یہ رواج عام ہے کہ جو موضوع یاشعبۂ علم اپنی تخلیقی حیثیت ا ور معنویت فراموش کر دیتا ہے تحقیق کا موضوع بن جاتا ہے۔یہ بات اردو زبان میں ادبِ اطفال کی صورتحال پر بھی صادق آتی ہے۔اردو میں ان دنو ں جتنا وقت ادبِ اطفال پر تحقیق میں صرف ہو رہا ہے اتنا تخلیق پر نظر نہیں آتا۔ جو تخلیقات ہو بھی رہی ہیں، وہ قارئین کی نظرِالتفات سے محروم ہیں،اور اس بے التفاتی کے ذمہ دار تخلیق کار اور قاری دونوں ہیں۔
مطالعہ کا شوق بچپن سے پروان چڑھتا ہے اور بڑھتی عمر کے ساتھ جنون کی شکل اختیار کرلیتاہے،بچپن کامطالعہ بچوں میں نہ صرف اخلاقی اقدار کو فروغ دیتا ہے بلکہ زبان وبیان کی درستگی اور اظہار کے سلیقے بھی سکھاتا ہے۔دورِحاضر میں ترسیل کے ذرائع بڑھے ہیں،کمپوٹر اور ملٹی میڈیا تعلیمی عمل میں دلچسپی کا سامان فراہم کررہے ہیں۔ لیکن بچوں کا وہ وقت جو کہانیاں پڑھنے یا سننے سنانے میں صرف ہوتا تھا، اس کی جگہ کارٹون موویزیا کمپوٹر گیمزلے چکے ہیں،جس کے سبب بچے نہ صرف نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہو رہے ہیں بلکہ اقدار کے زوال کے ساتھ ساتھ زبان و بیان کا معیار بھی پست ہورہا ہے۔نسلِ نو کو تباہی سے بچانے کے لیے ان کا تعلق تکنیکی وسائل کے ساتھ ساتھ علم وادب سے جوڑنا بھی وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔ یہ کام اس صورت میں ممکن ہوسکتا ہے جبکہ ادبِ اطفال کو دورِ حاضر کے ان تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے جو ہمہ پہلو ہیں تا کہ بچوں کا ہمہ جہت ارتقاء ہو سکے۔ انگریزی ادب میں اس سلسلے میں خاصی پیش رفت ہورہی ہے جبکہ اردو ادبِ اطفال اب بھی محض پند ونصائح کے مجموعے کا نام سمجھا جاتا ہے۔
اردو زبان میں بچوں کے لیے معیاری ادب کی تخلیق میں جہاں دوسری زبانوں میں کیے جارہے تجربات سے استفادہ کی ضرورت ہے وہیں اس بات کو بھی ملحوظ رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا لٹریچر دوسری زبانوں کا چربہ نہ ہو،بلکہ ہم خود موضوعات کے تنوع کے ساتھ ساتھ ہیئتی اور تکنیکی تجربات کو بھی رواج دیں تاکہ بچوں میں دلچسپی کے ساتھ مطالعہ کے رجحان کو پروان چڑھانے میں مدد ملے۔اس سلسلے میں اردو رسائل کا رول بہت اہم ہے کہ وہ نہ صرف قارئین سازی کا بلکہ مصنفین سازی کا بھی کام کرتے ہیں۔
(خالد محسن، سابق مدیر ماہنامہ رفیق منزل)
ادب اطفال کا یہ سب سے بڑا چیلنج ہے

بچوں کا ادب تخلیق کرنا،ا ور اس میں کام کرنا ہمیشہ اہم مگر نازک مسئلہ رہا ہے۔ کیونکہ اس کے لیے جہاں بچوں کی نفسیات، رجحانات، اور معاشرت وماحول کا دقیق علم درکار ہے، وہیں ان تمام چیزوں کو بچوں کی سطح پر اتر کر بیان کرنے کا، اور سمجھانے کا فن بھی نہایت ضروری ہے، جو بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتا ہے۔
ہمارے دور میں سائنس وٹکنالوجی کی تیزرفتار ترقی گزرے زمانے کے سنگ ہائے میل کو بڑی تیزی کے ساتھ پیچھے چھوڑتی جارہی ہے۔ نسلوں کے درمیان خلیج تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ سماجی ومعاشرتی اقدار وروایات تیزی سے اتھل پتھل ہورہی ہیں، دیہی سادہ زندگی پر شہری مگر پر تصنع زندگی غالب آتی جارہی ہے، اور اس سے سے سب سے پہلے اور براہ راست نوعمر نسل متأثر ہورہی ہے۔ چنانچہ محض بیس پچیس سال قبل کا بچوں کا ادب موجودہ نسل کے لیے آؤٹ ڈیٹیڈ معلوم ہوتا ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ دنیا بدل گئی ہے، ماحول بدل گیا ہے، اور اقدار وروایات تبدیل ہوگئی ہیں۔ بچے تو بچے ہیں، موجودہ جوان نسل میں بھی بیشتر لوگ ایسے ہیں جو رابندر ناتھ ٹیگور اور پریم چند کی کہانیوں کا منظر اورپس منظر سمجھنے سے قاصر ہیں۔
اس سیاق وسباق کا مقصد یہ ہے کہ ادب اطفال کے تخلیق کاروں کو نئے چیلنجز کا سامنا ہے۔ اب انہیں ایک تیزطرار ’بولڈ‘ الکٹرانک دور کی ایسی نسل کو مخاطب کرنا ہے جو وعظ ونصیحت سننے کے لیے تیار نہیں۔ اور جو ابتدا ہی سے تقابل کا رجحان اور صلاحیت رکھتی ہے۔ تقابلی رجحان کا مطلب ہے کہ جب انٹرٹینمنٹ کے لیے اس کے پاس ٹی وی، ویڈیو، کمپیوٹر اور دیگر الکٹرانک دلچسپ آلات موجود ہیں تو وہ کتاب کا مطالعہ کیوں کرے۔
ظاہر ہے اسے اب اگر لٹریچر پڑھانا ہے تو ان تمام چیزوں سے زیادہ دلچسپ اور زیادہ معلوماتی چیزیں اس کے سامنے پیش کرنا ہوں گی، تاکہ وہ اسے قبول کرسکے۔ ادب اطفال کا یہ سب سے بڑا چیلنج ہے۔
(شمشاد حسین فلاحی، ایڈیٹر ماہنامہ حجاب اسلامی، نئی دہلی)

بچوں کے اردو رسائل کا گرتا معیار

حالیہ دنوں بچوں کے لیے اردو زبان میں بہت ساری کتابیں لکھی گئیں لیکن مائل خیر آبادی کے معیار والی کوئی کتاب منظر عام پر نہیں آئی،نظم ہو یا نثر بچوں کے ادب پر سنجید گی اور یکسوئی سے کوئی کام نہیں ہو سکا۔ایک زمانے میں بچوں کے رسالوں میں ماہنامہ نور ، ھلال ،اچھا ساتھی ،پیام تعلیم ،جیسے رسالوں سے بچوں کی ذہن سازی کاکام بخوبی انجام دیا جاتا رہا ۔ان رسالوں کے ذریعہ بچوں کی دینی ،اخلاقی، ذہنی و علمی تر بیت کا کام بھی خوب ہوا، لیکن اب ان رسالوں کا زور مستقل ٹوٹتا جا رہا ہے، کیونکہ خانگی اداروں کے ذریعہ شائع کیے جا نے والے یہ رسالے گیٹ اپ ، ڈیزائننگ، اور عمدہ طباعت کے معاملے میں ان رسالوں کا مقابلہ نہیں کر پارہے ہیں ،جو سرکاری اداروں کی سر پر ستی میں شائع ہو رہے ہیں ۔ماہنامہ امنگ ،سہ ماہی سائنس کی دنیا ، جیسے رسالے سیکولر رنگ اختیار کئے ہوئے ہیں ،ان رسالوں کے ذریعہ بچوں کو صرف معلومات اور تفریح فراہم کی جاتی ہے ،البتہ ان کی دینی و اخلاقی تر بیت کا کو ئی انتظام نہیں کیا جاتا۔حال ہی میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ذریعے بچوں کا رسالہ ماہنامہ بچوں کی دنیا شروع کیا گیا ۔تقریباً 70؍صفحات پر مشتمل اس رسالہ کا ہر صفحہ رنگوں سے مزین ہے۔آرٹ پیپر پر شائع ہو نے والا یہ رسالہ بے شمار دلچسپ اور رنگین تصاویر لئے ہوئے ہے۔ان سب کے باوجود اس کی قیمت محض 10؍روپے رکھی گئی ہے، لیکن مشمولات پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ ایک منظم منصوبہ کا حصہ ہے ، جو بچوں میں لادینی افکار اور مغربی کلچر کو فروغ دینے کا کام کر رہا ہے۔ ایسے میں ایس آئی او نظام آباد کی مسا عی قابل صد ستائش ہے کہ وہ انتہائی قلیل وسائل کے باوجود ماہنامہ توحید شائع کرتے ہیں۔ جوایک اچھی تعداد میں شا ئع ہو تا ہے، یہ بچوں کے اندرایمانیات کا شعور بیدار کر نے میں اہم رول ادا کر تا ہے،لیکن اس کی کوالٹی پر تو جہ دینے کی سخت ضرورت ہے۔
(ایس۔ ایم۔ رحمان، سابق صدر حلقہ ایس آئی او مہاراشٹر ساؤتھ)
۔۔۔تاکہ نئی نسل تابناک منزل کی طرف گامزن رہے

ادب اطفال سماج کی ایک ویسی ہی ضرورت ہے جیسی کسی دیوارکی تعمیر کے لیے گارے یا پتھر اور اینٹ کی ہے۔ کسی خوبصورت اور بلند دیوار کا منصوبہ ان بنیادی عوامل کے بغیر پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا۔ ٹھیک ایسے ہی کسی بہتر اور معیاری سماج کی تشکیل کا خواب ادب اطفال کی بنیاد پر اٹھائے بغیر شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا ہے، اور ادب اطفال بھی ایسا جس کی تخلیق صالح اور تعمیری فکر اور جذبے کے ساتھ کی گئی ہو۔ اسی لیے علامہ اقبال نے جو قابل تحسین طفلی ادب پیش کیا اس میں بچوں کو سب سے پہلے خدا شناسی اور خدمت انسانیت کے عظیم فریضے کی طرف متوجہ کیا، چنانچہ
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میرے
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
ترانے کی پکار نسلاً بعد نسلٍ کروڑوں بچوں کے دلوں سے مسلسل اٹھ کر ان کی زندگیوں کے رخ کو پاکیزہ وعظیم مقاصد کی طرف موڑتی رہتی ہے۔
یہ بات اطمینان کی ہے کہ اردو ادباء و شعراء میں ایسی شخصیات اٹھتی رہی ہیں جنھوں نے اپنے فن کا ایسا بڑا سرمایہ چھوڑا ہے جس سے پاکیزگی کی خوشبو اور مقصد کی لگن پھوٹتی ہے۔ آج کی اہم ضرورت ہے کہ اس تسلسل کو منطقع نہ ہونے دیا جائے۔ جو شعرائے کرام حالات و ماحول کی نا موافقت کے باوجود نئی نسل کی بہتر تعمیر کے لیے اپنے قلم کو وقف کیے ہوئے ہیں ان کے فن کی قدر افزائی کرکے اس کو بچوں تک پہنچایا جائے۔ صاحبِ صلاحیت شعراء کو اس صنف کی بھی خدمت کرتے رہنے کی طرف متوجہ کیا جائے اور نئی نسل کے شعراء کو بھی اس پہلو سے ان کی ذمہ داریاں یا د دلائی جائیں۔
ملک بھر میں پھیلی ہوئی اردو اکیڈمیاں، کونسلیں ،تنظیمیں اور ادبی و سماجی ادارے بھی اپنی اپنی سطح پر ادب اطفال کے فروغ کی عملی کوششیں کریں تاکہ ہم اپنی نئی نسل کو شعر و فن کے حوالے سے تابناک منزلوں کی طرف گامزن رکھ سکیں۔
(انتظار نعیم، نائب صدر ادارہ ادب اسلامی ہند)

سید تنویر احمد
ایڈیٹر کرناٹکا مسلمس، بنگلور
[email protected],
09844158731

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights