یونان سے جاپان تک بحران ہی بحران

0

یونان کے حوصلہ مند عوام نے یوروپی سرمایہ داروں کے دباؤ کو مسترد کردیا۔یورپی سیاسی رہنماؤں اورحکومتی سربراہوں نے یونانیوں کو باربار متنبہ کیا تھاکہ استصواب میں ’نہیں‘کے ووٹ کا مطلب یوروزون سے نکاسی ہوگالیکن وہ خوفزدہ نہیں ہوئے بلکہ اپنی معاشی خودمختاری کی مدافعت میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا اور وزیراعظم الیکس ستسیپراس کے اس موقف کی تائید کی کہ قرض خواہ یونان کی معیشت کی ’سانس بند کر دینا چاہتے ہیں۔‘ یہ فیصلہ ایسے حالات میں کیا گیا جبکہ ملک میں اے ٹی ایم بند ہیں، بینکوں میں پیسے ختم ہونے کو ہیں اور معیشت کاحال برا ہے اور اس کے باوجود یونانیوں نے برلن اوربرسلزمیں تیارکی جانے والی کٹوتیوں کی شرائط کوٹھوکر سے اڑا دیا لیکن اس موقع پر یہ حقیقت کھل کر سامنے آگئی کہ یونان کا دیوالیہ پن دراصل سود پر منحصرمغرب کے معاشی نظام کی شکست کا شاخسانہ ہے۔
اس فیصلے سے الٹے یوروپی یونین دباؤ میں آگئی اور یہ جرمنی کی چانسلرانگیلا میرکل کے دس سالہ دوراقتدارکامشکل ترین چیلنج بن گیا۔ اب انہیں یہ طے کرنا ہے کہ آیا یوروزون کوقائم رکھا جائے یا نہیں۔ فرانس کے صدرفرانسوااولاند اور انگیلامیرکل کے درمیان اس بابت شدید اختلافات ہیں۔ صدراولاند کے مطابق ’(یونان سے)معاہدے کاوقت ابھی ہے۔‘ جبکہ انگیلامیرکل کا موقف یہ ہے کہ ’ایک اچھایورپی ایسانہیں ہوسکتا جوکسی بھی قیمت پرمعاہدے کے لیے تیارہو۔‘دونوں رہنماؤ ں نے پہلے پیرس میں باہم تبادلۂ خیال کیا تاکہ بعد میں یوروزون کے رہنماؤں کے ساتھ برسلز کے ہنگامی اجلاس میں یکساں موقف اختیار کر سکیں۔ ویسے یوروپی یونین میں شامل اٹلی بھی یونان کے ساتھ گفتگوکے حق میں ہے۔
انگیلامیرکل کی مشکل یہ ہے کہ وہ پارلیمانی منظوری کے بغیریونان کے ساتھ نئے بیل آؤٹ معاہدے پربات چیت کرنے کی مجاز نہیں ہیں۔ انگیلا کو منظوری مل بھی جائے تو اس سے جرمنی میںیونان کے خلاف بڑھتی ناراضی کارازفاش ہوجائے گا اور انہیں ایسے سیاستدانوں،حکام اورمعاشی ماہرین کی ناراضگی مول لینی ہوگی جو یونان کویوروزون سے نکال باہر کرنا چاہتے ہیں۔ یونان کی رجعت پسند جماعت سی ایس یو نے ایک نئے استصواب کا مطالبہ کیا ہے جس میں عوام سے پوچھا جائے کہ ’’کیایونان کا یوروزون سے باہرہونا زیادہ اچھانہیں ہے‘‘ اس کے برعکس نائب چانسلرسگمرگیبریئل نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا ’وزیراعظم ایلکس ستسیپراس نے یورپ اوریونان کے درمیان وہ آخری پل بھی توڑ کر گرادیا ہے جس پر دونوں معاہدے کے لیے آگے بڑھ سکتے تھے۔‘
یوروگروپ کے وزرائے خزانہ کے سربراہ ییرون ڈائسلبلوم نے استصواب کے نتائج کو ’یونان کے مستقبل کے لیے انتہائی قابل افسوس‘ قراردیا۔ انھوں نے کہاکہ ’یونان کی معیشت میں بہتری لانے کے لیے مشکل اقدامات اوراصلاحات ناگزیرہیں۔‘ اس بیان سے پتہ چلتا ہے کہ یوروپی ممالک کے اندرتسیپراس کی حکومت کے خلاف رویے میں سختی پائی جاتی ہے۔ اس لئے کہ ان کے پاس نہ کوئی متبادل ہے اور نہ وقت ہے۔ یونان کی معیشت بے روک ٹوک گررہی ہے اور اگرای سی بی سے پیسے نہیں ملے تویونان کے بینک بیٹھ جائیں گے۔ ۲۰؍ جولائی کویونان نے ای سی بی کو تین ارب یورو لوٹانا ہے۔ اگروہ قرض ادانہیں کرپاتا ہے توسینٹرل بینک یونان کے بینکوں سے تمام فنڈنگ واپس لے لے گا۔ یونان کی معاشی حالت اس قدر خستہ ہوچکی ہے کہ اسے آئندہ تین سال کے عرصے میں مزید۵۰؍ارب یورو درکار ہے۔ اس لئے کچھ ماہرین اس فیصلے کومعاشی خودکشی قرار دے رہے ہیں اور کچھ یونان کو ترقی یافتہ یوروپ کی فہرست سے نکال کر پسماندہ ممالک کے زمرے میں شامل کرنے کی بات کررہے ہیں جبکہ یونانی عوام اس کا جشن منا رہی ہے۔
آج دنیا کومعاشی اعتبار سے ترقی یافتہ اور پسماندہ ممالک میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ دنیا کے خوشحال ترین ممالک یعنی جی ۸ میں جہاں امریکہ اور مختلف یوروپی ممالک شامل ہیں وہیں جاپان بھی موجود ہے۔ جاپان امریکہ اور چین کے بعددنیا کی تیسری سب بڑی معیشت ہے اس کے باوجود ۳۰؍ جون کو وہاں کی بْلٹ ٹرین میں ایک چونکا دینے والا واقعہ رونما ہوا جب ایک مسافر نے اپنے سر پرتیل ڈال کر سرِ عام خودکو نذرِ آتش کرلیا۔ اس خود سوزی کے نتیجے میں دو ایسے لوگ بھی ہلاک ہو گئے جو مرنا نہیں چاہتے تھے اور ۲۰؍افرادزخمی ہوگئے جن میں دو کی حالت نازک تھی۔ سوال یہ ہے کہ جاپان جیسے خوشحال ملک کے کسی شخص کو ایسا انتہائی قدم اٹھانے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ لیکن یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ خودکشی کا عفریت خوشحال ممالک ہی میں پھلتا پھولتا ہے۔ خودکشی کی سب سے زیادہ شرح جن ملکوں میں ہے وہ غریب نہیں بلکہ خوشحال ممالک ہیں اور سرِفہرست ۱۲؍ ممالک میں ایک بھی مسلم ملک نہیں ہے۔
جاپان میں خودکشی پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ یہاں خودکشی کو ایک مقدس اور دلیر انہ عمل سمجھا جاتا ہے۔ جاپانی شہری اکثر معمولی سی بات پر بھی اپنی جان لے لیتے ہیں۔ جاپانی معاشرے میں ہتک عزت، کاروبارمیں نقصان،محبت میں ناکامی اور ایسی ہی دیگر وجوہات کی بنا پرخودکشی کرلینے کی روایت عام ہے۔ جاپانی لوگ اخبار میں اشتہار دے کراجتماعی خودکشی کی دعوت دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ایک جائزے کے مطابق۲۰۰۹ ؁ء کے دوران جاپان میں ۳۳؍ ہزار سے زائد افراد نے خودکشی کی۔ یہ مسلسل بارہواں سال تھا جب کہ جاپان میں اتنی زیادہ تعداد میں عام شہریوں نے خودکشی کی۔ جاپان کی ایجنسی برائے قومی پالیسی کے مطابق خودکشی کے ان واقعات کی بڑی وجوہات میں اقتصادی مسائل اورڈپریشن سب سے نمایاں ہیں۔
جاپانی حکومت نے اس سنگین صورتحال سے نمٹنے کے لئے ماضی میں کئی اقدامات کئے اور بسا اوقات تین ماہ کے دوران۴ء ۱۲ بلین عام شہریوں میں خودکشی کے رحجان کو روکنے کے لئے استعمال کئے۔ اس خرچ سے ایسے مشاورتی مراکز قائم کئے گئے جن کے ذریعے پژمردگی اورذہنی انتشار کے شکار افرادکی خصوصی مددکی جاسکے۔ حکومت کی ان کوششوں کی بدولت ۲۰۱۲ ؁ء میں خودکشی کرنے والوں کی تعداد گھٹ کر ۳۰؍ ہزار تک پہنچی اور گزشتہ سال یہ صرف ۲۵؍ ہزار تھی۔ ایک سروے کے مطابق جاپان میں خودکشی کرنے والے شہریوں کی اوسط یومیہ ۹۰؍کے قریب بنتی ہے۔
ماہرین کے خیال میں خودکشی کی بڑھتی ہوئی شرح کا براہ راست تعلق ’غیرمستحکم ملازمتوں‘ سے ہے، یعنی مختصر عارضی کنٹریکٹ کی ملازمتیں۔جاپان میں بہت سارے عمررسیدہ افراد اب بھی محفوظ ملازمتوں پرفائز ہیں، اس لئے تقریباً ۴۰؍ فیصد نوجوان مستقل ملازمتیں حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ اقتصادی عدم استحکام یا عدم تحفظ کے تناظر میں جاپانی تہذیب شکایت کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ جاپان ایک اصولوں میں جکڑا ہوا معاشرہ ہے۔ نوجوانوں کے ذہن کو ایک چھوٹے سے ڈبے میں بند ہونے کے لیے قائل کیا جاتا ہے۔ ان کے پاس اپنے جذبات کے اظہار کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ ان کے لئے اپنے غصے کے اظہار کے ذرائع مسدود ہیں۔جب وہ اپنے باس کی جانب سے دباؤ کا شکار ہوتے ہیں تو مرنے کو ہی واحد راہِ نجات سمجھتے ہیں۔
جاپان کے نام نہاد ترقی یافتہ معاشرے میں نوجوان ٹیکنالوجی کے سبب مزید تنہائی کا شکار ہوگیا ہے۔ ایسے متأثرہ افراد جو عموما مرد ہوتے ہیں، اپنے آپ کو کمرے میں بند کر لیتے ہیں، باہر کی دنیا سے روابط ختم کر دیتے ہیں اور مہینوں یا برسوں تک باہر نہیں آتے۔ ایک تحقیق کے مطابق یہ مایوسی اور تنہائی نوجوان جاپانیوں کے رومانوی اور جنسی تعلقات پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ جاپان فیملی پلاننگ ایسوسی ایشن کی جانب سے شائع کردہ جائزے کے مطابق ۲۵؍ تا ۲۹؍ سال کے درمیان ۲۰؍ فیصد مردوں کو جنسی تعلقات میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔انٹر نیٹ کے باعث جاپان میں نوجوان افراد کے پاس بہت زیادہ جنسی معلومات توہے لیکن انھیں زندگی کا تجربہ نہیں ہے۔ انھیں بالکل علم نہیں ہے اپنے جذبات کا اظہار کیسے کیا جاتا ہے۔ ۲۰۰۹ ؁ء تک جاپان خودکشی کے واقعات کی تعداد کے حوالے سے ایشیائی ممالک میں اول مقام پر تھا لیکن بعد میں جنوبی کوریا جاپان کو پیچھے چھوڑ کر پہلے مقام پر آ گیا۔
مشرق بعید کی تیسری بڑی معیشت جنوبی کوریا ہے عالمی سطح پر وہ ۱۳؍ ویں مقام پر ہے۔ ایک چونکا دینے والے جائزے کے مطابق راجدھانی سیول کی آبادی کے۱۰؍سے۳۹؍سال کی عمروں میں مرنے والوں کی اکثریت کی موت کا سبب خودکشی ہوتاہے۔ ۲۰؍ سے ۳۰؍ سال کی عمرکے افرادسب سے زیادہ خودکشی کرتے ہیں۔ اس عمر میں مرنے والے ۵۲؍فیصد کی موت خودکشی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ کوریا میں قومی سطح پر خودکشی کی شرح چالیس افراد روزانہ ہے۔ ان میں عام لوگوں کے علاوہ اشرافیہ بھی شامل ہوتے ہیں۔ سابق صدر کوریا پوموہیون اور ہیونڈائی کمپنی کے سربراہ چون مون ہون بھی خودکشی کرچکے ہیں۔ کوریائی خودکشی کے واقعات کے پسِ پشت نہ صرف ذہنی تناؤ بلکہ دیگرلوگوں کی آراء کی بہت زیادہ اہمیت دینے کی نفسیات کا بھی دخل ہے۔ ناکامی کے بعد وہ دوسروں کاسامناکرنے سے بہت زیادہ شرماتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر خودکشی کرنے والوں کی عمر ۳۰؍ سے ۵۰؍ سال کے درمیان ہوتی ہے۔
روزگار کے علاوہ تعلیمی مسابقت بھی کوریائی سماج میں خودکشی کا سبب بنتی ہے۔ نوجوانوں کے خیال میں ان کے مستقبل کا سارا دارومداریونیورسٹی کے کسی خاص شعبے میں داخلے پرہوتاہے اس لئے امتحانات کی تیاری شدید نفسیاتی مسئلہ بن جاتی ہے۔ نتائج کے بعدداخلے حاصل کرنے میں ناکام لوگوں کے اندر خودکشی کا رحجان پیدا ہوتاہے۔بزرگوں کے اندر خودکشی کی وجہ حرص وہوس کے شکار معاشرے میں خودغرضی کے طغیان کے سبب خاندانی نظام کا درہم برہم ہوجانا ہے۔ جب نوجوان اپنے بزرگوں سے محبت و عقیدت رکھنے کے بجائے انہیں اپنے اوپر بوجھ سمجھنے لگتے ہیں تو لازمی طور پر نسلوں کے فاصلے بڑھ جاتے ہیں۔ایسے میں بزرگ حضرات جیتے جی تنہائی کی کھائی میں جھونک دئیے جاتے ہیں۔جب انہیں اپنا وجود بے مصرف لگنے لگتا ہے تو وہ خودکشی کی جانب مائل ہونے لگتے ہیں۔
اس میں تہذیب و ثقافت کا بھی حصہ ہے اس لئے ان ممالک میں خودکشی کوکبھی احکام الٰہی کی پامالی یا جرم نہیں سمجھا گیا۔ اس کے برعکس مشرقی ایشیا میں کنفیوشس کو ماننے والے خودکشی کو ایک دلیرانہ فعل خیال کرتے ہیں۔ وہاں اپنی عزت وآبروکو بچانے کے لئے خودکشی کرناجوانمردی سمجھاجاتاہے۔روایتی طورپران خودکشی کرنے والوں کی تعظیم کی جاتی ہے جوعصمت دری کے خوف سے یا کسی انچاہے حاکم کی اطاعت پرخودکشی کی موت کوترجیح دیتے ہیں۔ جاپان اور یونان کے لوگ گوکہ مختلف خطوں میں آباد ہیں۔ ان کی زبان اور مذہب جدا جدا ہے لیکن اس کے باوجود ان کے درمیان مادہ پرستی مشترک ہے۔ اسلام کی دولت سے بے بہرہ یہ لوگ نہ اپنی زندگی کا مقصد جانتے ہیں اور نہ ان کے نزدیک اپنی جانِ عزیز کی کوئی قدر وقیمت ہے۔ اگر ان کو پتہ ہوتا خالق کی کائنات کی اس بابت کیا رہنمائی ہے تو اس دنیا میں ہر ۴۰؍ سیکنڈ میں ایک خودکشی کی واردات رونما نہ ہوتی۔
اللہ تعالیٰ سورۃالنساء آیت۲۹؍ میں ارشاد فرماتا ہے: ’’ اوراپنے آپ کوقتل نہ کرویقیناًاللہ تم پرنہایت مہربان ہے‘‘،دراصل زندگی اورموت خالصتاََ اللہ کا اختیارہے۔ قضاوقدرکی مالک وہی ذات پاک ہے اس لئے دین اسلام میں خودکشی قطعاً حرام ہے اس کے لیے کوئی بھی توجیہ قابلِ قبول نہیں۔
عصر حاضر میں انسانیت کو لاحق اس سنگین مسئلہ کا بہترین حل دینِ اسلام پیش کرتا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: ’’اور ہم ضرور تمہیں خوف وخطر، فاقہ کشی، جان ومال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمہاری آزمائش کریں گے۔ اِن حالات میں جو لوگ صبرکریں اور جب کوئی مصیبت پڑے، تو کہیں کہ: ’’ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے‘‘۔ انہیں خوشخبری دے دو،ان پران کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی،اْس کی رحمت اُن پرسایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رَوہیں‘‘۔ (البقرۃ:۱۵۵۔۱۵۷)۔ اس آیت مبارکہ میں اللہ رب العزت نے انسانوں کو آلام ومصائب سے نبرد آزما ہونے کے نسخۂ کیمیا ’’صبر وتوکل‘‘ سے نواز دیا ہے۔ لیکن افسوس کہ انسانوں کا ایک بڑاطبقہ پریشانیوں اور تکلیفوں پر صبر کرنے کے بجائے اپنے آپ کوموت کے حوالے کردیتاہے۔ وہ نہیں جانتا کہ اللہ کے رسولؐنے اس بابت کیافرمایا:
’’جس نے پہاڑ سے اپنے آپ کو گرا کر خودکشی کرلی وہ جہنم کی آگ میں ہوگا اور اس میں ہمیشہ ہمیش پڑا رہے گا‘ اور جس نے زہر پی کر خودکشی کرلی تو وہ زہر اس کے ہاتھ میں ہوگا اورجہنم کی آگ میں وہ اسے اسی طرح ہمیشہ ہمیش پیتا رہے گااور جس نے لوہے کے کسی ہتھیار سے خودکشی کرلی تواس کاہتھیار اس کے ہاتھ میں ہوگا اور جہنم کی آگ میں ہمیشہ کے لئے اسے اپنے پیٹ میں مارتا رہے گا۔‘‘ (صحیح بخاری)
خودکشی گناہ کبیرہ ہے۔ جسم وجان اللہ کی بہت بڑی نعمت اورامانت ہے اوراگر کوئی اسے جان بوجھ کر ضائع کردے تو وہ بدترین خیانت کامرتکب ہوتا ہے۔ جو شخص تقدیر کے خیرو شر پر ایمان رکھتا ہے وہ ایسی حماقت ہر گز نہیں کرسکتا لیکن جب شیطان انسانوں کے باطل اعمال کو خوشنما بنا کرپیش کرتا ہے تونادان لوگ اس کے جھانسے میں آجاتے ہیں اور اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال دیتے ہیں۔ تہذیب جدید کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ اس نے احکام الٰہی سے اپنے آپ کو بے نیاز کرلیا ہے اور نادانستہ طور پر تباہی کے دہانے پر جاکر کھڑی ہو گئی۔ حکیم الامت علامہ اقبال نے اسی لئے فرمایا تھا ؂
دیار مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو ، وہ اب زر کم عیار ہو گا
تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جوشاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ، ناپائدار ہو گا
ڈاکٹر سلیم خان، معروف تجزیہ نگار

 

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights