کیا ہم رحمۃ للعالمین کے امتی ایسا نہیں کرسکتے؟

0

دعوت دین کی منصوبہ بندی میں ایک اہم کام خدمت خلق کو اس کا صحیح مقام دینا ہے۔ آج مسلمانوں کی زیادہ تر توجہ عالیشان مساجد کی تعمیر جیسے امور تک ہی محدود ہے، جبکہ بھوکوں کو کھانا کھلانا، ننگوں کو کپڑا پہنانا، قرض کے بوجھ تلے دبے ہوئے انسانوں کو اس سے چھٹکارا دلانا، نادار بن بیاہی لڑکیوں کے نکاح کا انتظام کرنا، بیواؤں کی مدد کرنا، ارضی وسماوی آفات اور وبائی امراض کے وقت بلا تفریق مذہب وملت فائدہ پہنچانا اسلامی تعلیمات کا حصہ ہے۔ آج جبکہ تعلیم اور علاج معالجہ ایک نفع بخش تجارت کی حیثیت اختیار کرچکا ہے اور صرف اونچے طبقے کے لوگوں تک ہی اس کا فائدہ پہنچ رہا ہے، اس میدان میں آگے بڑھ کر خدمت خلق کے ذریعے دعوت دین کے لیے نرم گوشے پیدا کئے جاسکتے ہیں۔ دوسری اقوام، خاص طور سے عیسائی برسوں سے یہ کام کررہے ہیں اور اس کے اچھے اثرات بھی سماج میں ظاہر ہورہے ہیں، یہاں تک کہ چندسال پہلے مشہور انگریزی ہفت روزہ ’’آؤٹ لک‘‘ میں آزادی کے بعد ہندوستان کی نامور ہستی کی نشاندہی کرنے کے لیے قارئین سے کہا گیا تو اکثر لوگوں نے ’’مدر ٹریسا‘‘ کا نام لیا، حالانکہ وہ ہندوستانی نہیں تھی۔ یہ محض اس لیے کہ اس نے بیماروں، لاچاروں اور بے گھروں کے لیے بے مثال خدمت کی تھی، جس کی وجہ سے عوام نے مذہب ومسلک سے بلند ہوکر اس کے نام کی تائید کی ۔
اسی طرح ملک کی غیر مسلم تنظیمیں اور ان کی معروف شخصیات نے خدمت خلق کے اداروں کا جال بچھایا ہے جو تعلیم اور علاج معالجہ کے میدان میں قابل قدر کام کررہے ہیں۔ سائی باباخدمت خلق کے ادارے نے کئی ہسپتال قائم کئے ہیں، جہاں ہارٹ آپریشن، گردے کے Transplantationو Dialysis اور کینسر کے Chrome therapy تک کے مرحلے مفت میں کرائے جاتے ہیں۔ اسی طرح کرناٹک کی مذہبی شخصیات اور تمل ناڈو میں کانچی مٹھ نے آنکھوں کے علاج کے لیے شنکرنترالیہ جیسے شہرہ آفاق ہسپتال قائم کررکھے ہیں۔ جہاں مذہب وطبقہ سے بے نیاز ہوکر ملک کے ماہر ترین ڈاکٹروں کے ذریعے مفت یا کم تر فیس میں علاج کیا جاتا ہے۔ کیا ہم رحمۃ للعالمین کے امتی ایسا نہیں کرسکتے؟
(ایچ عبدالرقیب،جنرل سکریٹری انڈین سینٹر فار اسلامک فائنانس)

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights