(میں بھی حاضر تھا وہاں(۲

0

بابوجی کی اسلام سے دلچسپی بلکہ اس کی طرف بڑھتے قدم کی خبر ان لوگوں کو لگی، جو اسلام سے کسی بھی وجہ سے نفرت اور عداوت رکھتے تھے۔ ویسے بھی اس کی خبر ایک نہ ایک دن ان کو ہونی ہی تھی۔ اس خبر سے ان کی راتوں کی نیند اڑ گئی۔ اس بات کو ان لوگوں نے سنجیدگی سے لیا اور اس ’خطرے‘ کو لے کر وہ سرجوڑ کر بیٹھے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر اس ’خطرے‘ کا فوری طورپر تدارک نہ کیا گیا تو یہ ’طوفان‘ کی شکل اختیار کرسکتا ہے اور یہ’بیماری‘ وباثابت ہوسکتی ہے۔ ان لوگوں کو سب کچھ گوارہ تھا مگر یہ بات گوارہ نہ تھی کہ کوئی شخص اسلام قبول کرے اور وہ بھی اعلیٰ ذات کا شخص۔ ان لوگوں کی یہ اسلام دشمنی کچھ بلاوجہ نہ تھی۔ اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ ان کو اسلام سے بالکل بھی واقفیت نہیں تھی، بلکہ اس کے بارے میں وہ سخت غلط فہمیوں اور پروپگنڈے کا شکار تھے۔ یہ بات ان کی سمجھ سے باہر تھی کہ اسلام میں کوئی خوبی بھی ہوسکتی ہے۔ اس کی وجوہات عیاں تھیں۔ نہ تو اسلام کے بارے میں کوئی لٹریچر ان کو مطالعے کے لیے ملا تھا اور نہ ہی مسلمانوں کا کردار ایسا تھا جس سے اسلام کی نمائندگی ہوتی۔ اگر ان کی زندگیوں سے نمائندگی ہورہی تھی تو وہ غیر اسلام کی تھی جسے وہ اسلام تصور کر رہے تھے۔ ان لوگوں نے یہی خیال کیا کہ ضرور ہی بابوجی کو مسلمانوں سے مالی مددملی ہے یا کوئی دوسرا دنیوی مفاد ہے، جس کی وجہ سے انہوں نے یہ اقدام کیا ہے۔
ان میں کچھ لوگ ایسے ضرور ہوسکتے تھے جو سوچی سمجھی پالیسی کے تحت اسلام کے مخالف بنے ہوئے تھے۔ بہر حال یہ لوگ سرجوڑ کر غوروفکر کے لیے بیٹھے اور مختلف تدابیر پر غور کرتے رہے۔ ایک روز شام کے وقت چار پانچ معزز حضرات بابوجی کے گھر پہنچے۔ ان میں سبھی لوگ بابوجی کے پہلے سے شناسا تھے۔ ان کے پاس ایک بڑا تھیلا تھا جو کسی چیز سے بھرا ہوا تھا۔ بابوجی نے انہیں کمرے میں بیٹھایا۔ ان لوگوں نے بیٹھتے ہی اپنے ساتھ لائے ہوئے تھیلے کو بابو جی کے سامنے فرش پر خالی کردیا۔ دراصل اس تھیلے میں نوٹ (روپئے) بھرے ہوئے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے نوٹوں کا ڈھیر لگ گیا۔ اس کے فوراً بعد بغیر تاخیر کیے ایک صاحب نے جوان میں معمر تھے، نہایت معذرت خواہانہ انداز میں بابوجی سے فرمایا:
’’بابوجی! ہم آپ سے معذرت خواہ ہیں کہ ہم نے آپ کی پریشانی کو محسوس نہیں کیا، جس کی وجہ سے آپ کو دوسروں سے تعاون لینا پڑا۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ مشکل حالات میں آدمی اس طرح کا اقدام کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ اور شاید آپ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ پیش آیا ہے۔ بہر حال اب آپ اس رقم کو قبول فرمائیں۔ ہم آئندہ بھی آپ کے رابطے میں رہیں گے اور حسب ضرورت آپ کا تعاون کرتے رہیں گے۔‘‘
بابوجی نہایت سمجھدار انسان تھے۔ وہ ان لوگوں کے آنے کا مقصد سمجھ گئے اور ان لوگوں کی بات سن کر صرف اتنا کہا:
’’پہلے آپ اس رقم کو واپس تھیلے میں رکھ لیں، اس کے بعد ہی آپ لوگوں سے بات ہوگی۔‘‘
ان لوگوں نے بیک آواز کہا:
’’بابوجی، یہ رقم آپ کی ہی ہے۔ آپ اسے قبول فرمائیں۔ ہم اسے واپس لے جانے کے لیے نہیں لائے ہیں۔ ‘‘
بابوجی نے قدرے بلند آواز میں اپنی وہی بات دہرائی کہ آپ اسے فوراً تھیلے میں رکھیں۔ اس کے بعد ہی میں آپ لوگوں سے کوئی بات کرسکو ں گا! دونوں طرف سے اپنی اپنی بات پر اصرار ہوتا رہا اور آخر کار ان لوگوں نے نوٹوں کی گڈیاں واپس اپنے تھیلے میں رکھ لیں اور بابوجی کے جو اب کا انتظار کرنے لگے۔ بابوجی نے اس پیشکش اور ہمدردی پر ان لوگوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے عرض کیا کہ ’’آپ لوگوں کو یہ بہت بڑی غلط فہمی ہوئی ہے کہ مسلمانوں نے میری مالی مدد کی ہے یا میں نے ان سے کوئی مدد لی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے اپنے پاس ہی کچھ نہیں ہے پھر بھلا وہ مجھے کیا دے سکتے ہیں۔‘‘
کچھ دیرتک وہ لوگ بیٹھے رہے اور پھر مایوس ہوکر رخصت ہوگئے۔
چند دنوں کے بعد یہ لوگ پھر آئے۔ اس بار ان کے پاس ایک طویل فہرست تھی جس میں بہت سے نوجوانوں کے نام، تعلیم، کاروبار اور تنخواہ وغیرہ کی تفصیلات تھیں۔ آنے کے بعد انہوں نے وہ فہرست بابوجی کے سامنے پیش کی اور عرض کیا کہ اس فہرست میں آپ کو جو رشتے پسند ہوں بتائیں، آپ کی بہنوں کی شادی بغیر کسی خرچے کے ان سے کرادی جائے گی۔ بات دراصل یہ تھی کہ ان لوگوں نے خیال کیا کہ بابوجی پیسے کے لالچ میں تو ایسا نہیں کر رہے ہیں، البتہ ان کا محرک بہنوں کے مناسب رشتے ہیں۔ چونکہ ہندوؤں میں لڑکی کی شادی بہت خرچیلی ہوتی ہے اور مسلمانوں میں لڑکی کی شادی کا مسئلہ اتنا سنگین نہیں ہے، غالباً اسی وجہ سے وہ مسلمانوں کی طرف قدم بڑھارہے ہیں۔ اسلام سے ناواقف ہونے بلکہ اس کے بارے میں غلط فہمیوں کا شکار ہونے کی وجہ سے وہ اس حقیقت کو ماننے کے لیے تیار نہ تھے کہ اسلام میں کوئی خوبی ہے جو بابوجی کے لیے کشش کا سبب بنی ہے۔ وہ تو یہی سمجھ رہے تھے کہ کوئی نہ کوئی دنیوی مفاد ان کے سامنے ہے۔
بابوجی نے اس لسٹ پر ایک اچٹتی ہوئی نظر ڈالی اور ان لوگوں کا اس نوازش پر شکریہ ادا کرتے ہوئے عرض کیا کہ آپ میری بہنوں کی بالکل فکر نہ کریں۔ البتہ ہندو سماج میں میری کچھ بہنیں ایسی ہیں جو شادی کے لیے مناسب رشتے کے انتظار میں بیٹھی ہیں۔ اگر آپ کہیں تو ان بہنوں کی شادی کے لیے اس لسٹ میں سے رشتے منتخب کرلوں۔
وہ لوگ بابوجی کے جواب سے اندر ہی اندر جھلا کر رہ گئے اور اپنی فہرست واپس لے کر وہاں سے رخصت ہوگئے۔ اور ایک بار پھر آگے کا لائحہ عمل طے کرنے کے لیے بیٹھے۔ لیکن اس بار وہ غصے میں تھے۔ ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی تھی کہ آخر بابوجی کو مسلمانوں نے ایسی کیا چیز دے دی ہے، یا ان کو ان کے اندر ایسی کیا خوبی نظر آئی ہے کہ جس کی خاطر وہ ہر دولت اور بہترین رشتوں کو ٹھکر ا رہے ہیں۔
اب ان لوگوں نے مختلف مذہبی شخصیات کو بابوجی کے پاس بھیجنا شروع کیا تاکہ وہ بابو جی سے بات کرکے ان کی برین واشنگ کر سکیں۔ بابوجی کا تقابلی مطالعہ بہت وسیع تھا۔ گفتگو کا انداز نرالا تھا، اپنے سامنے والے کی بات اطمینان اور صبر کے ساتھ سماعت فرماتے پھر نہایت مؤثر انداز میں نہایت سنجیدگی کے ساتھ اس کا جواب دیتے، مثالوں کے ذریعے اپنی بات سمجھاتے، ان کا اپنی بات رکھنے کا جو انداز تھا اس میں وہ اپنی مثال آپ تھے، ان کے دلائل کے سامنے کوئی ٹک نہ پاتا۔ یہ ممکن نہ تھا کہ کوئی ان سے متأثر ہوئے بغیر رہ جاتا۔ پھر وہ آنے والے کا بڑی گرم جوشی سے استقبال کرتے، اس کی ہر ممکنہ تواضع فرماتے۔ اس لیے وہ بابوجی کو متأثر کرنے کے بجائے خود متأثر ہوکر جاتے۔
جب اس طرح کی تدابیر کامیاب ہوتی نظر نہیں آئیں تو ان لوگوں نے بابوجی کو خوف زدہ کرنے کے حربے اختیار کرنے شروع کیے۔ ان کے پاس بے نام خطوط بھیجے گئے جن میں ان کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جاتیں اور انہیں اس اقدام سے روکنے کی کوشش کی جاتی۔ مگر یہ سب باتیں بابوجی کے ایمان میں اضافے ہی کا سبب بنیں۔ ایک بار بابوجی کے آفس میں دہلی سے ایک انٹلی جنس آفیسر ملاقات کے لیے پہنچا۔ آفس میں آنے کا مقصد دراصل بابوجی کو خوف زدہ کرنا اور یہ باور کرانا تھا کہ آپ جو حرکت کر رہے ہیں اس سے آپ کی ملازمت خطرے میں پڑسکتی ہے۔
یہ بات وہ آفیسر بھی جانتا تھا کہ ہمارے ملک کے دستور نے اپنی پسند کا مذہب ا ختیار کرنے اور اس کی تبلیغ کی مکمل آزادی اپنے شہریوں کو دی ہے، اس لیے اس بنیاد پر کسی کی ملازمت ختم نہیں کی جاسکتی ۔ اس لیے اس نے بابو جی سے اس مو ضوع پر گفتگو کرنے کے بجائے جماعت پر گفتگو کی۔ اس نے بابوجی سے کہا کہ عبدالشکور صاحب جماعت کے ممبر ہیں، اس لیے ان سے کسی سر کاری ملازم کا ربط رکھنا ٹھیک نہیں۔ اس نے اس بات کا اشارہ دیا کہ یہ چیز آپ کی ملاز مت کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔
بابوجی نے اس آفیسر کی بات سن کر نہایت پر وقار انداز میں اس کو بتایا کہ عبدالشکور صاحب کو میں اپنا باپ سمجھتا ہوں۔ کیا اپنے باپ سے ربط رکھنا کسی قانون میں جرم ہو سکتا ہے۔ تھوڑی گفتگو کے بعد وہ آفیسر اپنی اصل بات پر آگیا اور اس نے بابوجی سے اصل مسئلہ پر گفتگو شروع کی۔ بابوجی نے اپنے مخصوص لہجے میں اس آفیسر کے سامنے اسلام کی تعلیمات اس انداز میں پیش کیں کہ وہ اسلام کی یہ تعلیمات سن کر دنگ رہ گیا اور وہ ان تعلیمات میں اتنا گم ہوگیا کہ اسے یاد ہی نہیں رہا کہ وہ کس مہم پر آیا ہے۔ چنانچہ اس نے بابوجی سے کہا آپ نے جو راستہ اپنایا ہے میں اس پر آپ کو مبارک باد دیتا ہوں اور اپنی ہرمدد کا آپ کو یقین دلاتا ہوں۔ جب وہ رخصت ہونے لگا تو بابوجی سے گرم جوشی کے ساتھ گلے ملا اور اپنا پتہ اور فون نمبر وغیرہ ان کو دے کر گیا۔
جب مخا لفین نے دیکھا کہ اب کوئی تدبیر کام نہیں کر رہی ہے تو انہوں نے ایک بڑی سازش کا منصوبہ بنایا۔ ان کے نزدیک بابوجی کو کسی بھی حالت میں دین حق سے روکنا ضروری تھا۔ اب وہ اس مناسب موقع کا انتظار کرنے لگے جب وہ فطری انداز میں اپنے غلط منصوبے کو عملی جامہ پہنا سکیں۔
چنانچہ ایک دن وہ موقع آہی گیا۔ شہر میں ایک شخص کا قتل ہوگیا اور وہ موقع ہی پر مرگیا۔ اس شخص کا تعلق غیر سماجی عناصر سے تھا۔ ان لوگوں نے جو اس موقع کی تلاش میں تھے اپنے منصوبے کو عمل شکل دے دی اور پولیس اوربعض سیاسی لوگوں کی ملی بھگت سے مقتول کا ایک فرضی نزا عی بیان تیار کرا لیا، جس میں مقتول کی طرف سے کہا گیا کہ مجھے بابوجی نے قتل کرایا ہے۔ اگر مقتول نزا عی بیان دے کر مرتا ہے تو اس صورت میں فوری طور پر ملزم کو گرفتار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کہا وت ہے کہ ’’چور کے پیر نہیں ہوتے‘‘، بابوجی کو فوری گرفتار نہیں کیا گیا۔ وہ کئی دنوں تک حسب معمول آفس جاتے رہے، مگر کسی نے ان سے پوچھ تاچھ تک نہ کی۔چند دن گزرنے کے بعد بابوجی کو پولیس اسٹیشن یہ کہہ کر بلا یا گیا کہ ان سے کچھ ضروری کام ہے،اور جب وہ وہاں پہنچے تو انہیں گرفتاری وارنٹ تھما دیا گیا اور گرفتار کر لیا گیا۔جس انداز سے ان کی گرفتاری ہوئی اس سے صاف محسوس ہو رہا تھا کہ یہ بناوٹی کیس ہے۔
اس سازش سے مخا لفین کا مقصد یہ تھا کہ بابوجی سروس سے معطل ہو جائیں گے اور ان کا ذریعہ معاش ختم ہو جائے گا۔ معاش کی مار بڑی سخت مار ہوتی ہے۔ جب اس مصیبت میں مبتلا ہوں گے تو مجبوراً ’راستے‘ پر آجا ئیں گے۔ اگر وہ ’’گھر واپسی‘‘ کا وعدہ کریں گے تو پھر ہم انہیں اس مصیبت سے نجات دلا دیں گے۔ واقعی یہ ایک بڑی آز مائش تھی۔ مگر جن لوگوں کو حق کا مزہ مل گیا ہو ان کے لیے ایسی آزمائش کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ وہ اپنے کو اکیلا نہیں سمجھتے۔ ان کا ایمان ہوتا ہے کہ ان کا قادرمطلق رب ان کے ساتھ ہے، جو ان کی مدد پر قادر ہے۔ وہ ان سازشوں کو ناکام کرنے کی پوری قوت رکھتا ہے۔ اپنے مخلص بندوں سے اس کا مدد کا وعدہ ہے(ومکروا ومکر اللہ، واللہ خیر الماکرین)۔
بابوجی کا خیال تھا اور اس کا وہ اظہار بھی کرتے تھے کہ ہم نے اسلام قبول نہیں کیا ہے بلکہ اسلام نے ہمیں قبول کیا ہے۔ انہیں اپنے رب پر بڑا بھروسہ تھا۔ اس رب پر جس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ سے بچالیا، جس نے موسی علیہ السلام کو سمندر سے بخیر نکال لیا، جس نے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ کے اسلام دشمنوں کے نرغے سے صحیح سلامت نکال کر اس بات کو ثابت کردیا کہ وہ رب کریم اپنے مخلص بندوں کو کبھی مایوس نہیں کرتا۔
یہ نادان سمجھ رہے تھے کہ بابوجی کو جیل بھجواکر اور ملازمت سے معطل کراکے ان کے اہل خانہ کا رزق بند کرادیں گے اور انہیں بھوکوں مرنے پر مجبور کردیں گے تاکہ وہ اپنی ’روش‘ سے باز آجائیں اور اُن کے راستے پر واپس آجائیں، چاہے اُن کا راستہ کتنا ہی گمراہ کن ہو۔ کتنی گھٹیا اور گری ہوئی سوچ تھی ان کی! ان لوگوں کو نہیں معلوم کہ روزی دینے والا ربِ کریم ہے تم نہیں۔ وہ مخلص اہل ایمان کا سرپرست ہے، زندہ وجاوید سرپرست۔ وہ ایسے راستوں سے روزی دے سکتا ہے اور دیتا ہے جس کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا۔ وہ قادر مطلق رب شرمیں سے خیر کے ایسے چشمے نکال دیتا ہے کہ جسے دیکھ کر لوگ دنگ رہ جاتے ہیں۔
بابوجی اس پوری سازش کو سمجھ گئے اور جیل جاتے جاتے اپنی والدہ سے جو تھانے میں موجودتھیں، بس اتنا کہا کہ کسی کا احسان مت لیجئے گا، میں ان شاء اللہ ضمانت پر آجا ؤں گا اور پھر میں خود اس معاملے کو دیکھوں گا۔ چنانچہ بابوجی کے جیل جانے کے بعد ان بناوٹی ہمدرد اور کرم فرما ؤں کی ایک ٹولی بابوجی کے گھر پہنچی اور ان کے گھر والوں کو تسلی دینے اور اطمینان دلا نے لگی کہ ہم بابوجی کو جلد چھڑا لا ئیں گے۔
بابوجی کی والدہ اگر چہ اسلام نہ لا ئی تھیں بلکہ اسلام کی مخا لف ہی تھیں، ان کی حمیت نے جوش دکھا یا اور انہوں نے ان فر یبیوں کی مدد لینے سے صاف انکار کر دیا۔ وہ لوگ منہ لٹکاکر واپس چلے گئے، یہ سوچتے ہوئے کہ دیکھتے ہیں کتنے دنوں تک ان کی اَکڑ باقی رہتی ہے اور کتنے دنوں تک معاش کی مار جھیل پاتے ہیں۔
دوسری طرف غیر مسلم بھا ئیوں کا وہ طبقہ اور محلے کے لوگ جو بابوجی کے اخلاق و کردار اور لوگوں کے تئیں ان کی ہمدردی اور بہی خواہی سے وا قف تھے، لوگوں کی اس حرکت پر سخت ناراض ہوئے اور اس حرکت کی مذمت کرنے لگے۔ شہر کے معروف پنڈت (پروہت) جن کا بابوجی کے گھر بہت زیادہ آنا جانا تھا اور وہ بابوجی کے تمام حالات و کوائف سے اچھی طرح واقف تھے، وہ بھی بابوجی کے ساتھ ہوگئے، اس ظلم وانصافی پرخاموش نہ رہ سکے اور انہوں نے بھی اس کی کھل کر مذمت کی اور جن لوگوں نے یہ حرکت کی تھی ان سے ملاقات کرکے ان کو برا بھلا کہا۔
ان سازشی لوگوں نے ایک حرکت یہ کی کہ بابوجی کی گرفتاری اور ان پر لگائے گئے الزام کی خوب تشہیر کی۔ نیشنل اخبارات تک میں اس خبر کو شائع کرایا۔
اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ خدا اپنے بندوں کو آزماتا ہے مگر انہیں تنہا نہیں چھوڑ تا۔ غیب سے ان کی مدد کرتا ہے۔ راہیں آسان فرماتا اور آگ سے کندن بنا کر نکالتا ہے۔ یہی معاملہ بابوجی کے ساتھ پیش آیا۔ خدا کو بابوجی اور ان کے خاندان پر اپنا فضل کرنا تھا، اس لیے ان کا ہاتھ تھام لیا اور اس آزمائش کو ان کے لیے باعث خیر و برکت بنا دیا ۔
’’ یا نار کونی برداً وسلا ما علی ابراہیم‘‘
جیل میں بھی بابوجی کا کردار وہی تھا جو جیل سے باہر تھا۔ بلکہ جیل میں انہوں نے ساتھی قیدیوں کے ساتھ جو رویہ اپنایاوہ نہایت شاندار تھا، جس کی وجہ سے سبھی ساتھی قیدی ان کے مرید ہوگئے، کوئی بابوجی کے پیر دباتا، کوئی سر۔ ہر کوئی ان کی خدمت کو اپنے لیے باعث سعادت تصور کرنے لگا۔ ایک تو وہ قیدیوں کے دلوں کی باتیں سنتے اور ان کی صحیح رہنمائی کرتے، ان کی سوچ کو مثبت رخ دیتے، اور دوسرا یہ کہ بابوجی کے اعزہ اور احباب کی طرف سے ان کے لیے روز ہی جو کھانے پینے کا سامان بھیجا جاتا، جس میں کھانے کے علاوہ پھل وغیرہ بھی ہوتے، وہ سب چیزیں بابوجی ساتھی قیدیوں کو کھلادیتے۔ خود جیل کا کھانا ہی کھاتے۔ اس رویہ سے قیدی ان سے بے حد متأثر ہوتے۔ خوشبو کی خاصیت ہے کہ وہ جہاں بھی پہنچتی ہے، خوشبو ہی پھیلاتی ہے۔ عطر کی شیشی کو آپ جب بھی کھولیں گے اور جہاں بھی کھولیں گے، اس میں سے خوشبو ہی نمودار ہوگی۔ مسجد میں کھولیے یا بازار میں، گھر میں کھولیے یا پردیس میں۔ یہاں تک کہ اگر آپ اسے باتھ روم میں کھولیں گے تو اس میں سے وہاں بھی خوشبو ہی آئے گی۔دراصل یہی معاملہ انسان کے حسن اخلاق اور حسن کردار کا ہے۔
قیدیوں کو جب معلوم ہوا کہ بابوجی پر قتل کرانے کا الزام ہے تو وہ بھی بے ساختہ پکار اٹھے کہ ایسا اچھا آدمی یہ غلط کام کراہی نہیں سکتا۔ یہ بالکل جھوٹا الزام ہے اور جن لوگوں نے یہ سازش رچی ہے وہ اس کا برا انجام دنیا ہی میں بھگتیں گے۔ بعدکے واقعات نے اس بات کو ثابت کردیا اور اس سازش میں جن لوگوں نے کلیدی رول ادا کیا تھا، وہ دنیا ہی میں برے انجام کو پہنچے۔ بابوجی کے بہی خواہوں اور ہمدردوں کی تعداد بڑھنے لگی۔ مخالفین ہار مان کر بیٹھ گئے۔
بابوجی کے ایک وکیل دوست سردار جی تھے۔ ان کو جب بابوجی کے بارے میں معلوم ہوا تو وہ ازخود آئے اور انہوں نے بابوجی کا کیس بلا معاوضہ لڑ نے کی پیش کش کی۔ یہ وکیل صاحب جانے مانے وکیل تھے۔ چنانچہ چند ہی دنوں میں بابوجی کی ضمانت منظور ہوگئی اور وہ گھر آگئے۔ کسی کو بھی یہ امید نہ تھی کہ اتنی آسانی سے اور اتنی جلد ان کو ضمانت مل جائے گی، مگر یہ صرف ربِ کریم کا فضل تھا۔ بابوجی کی زبان پر یہی دعا تھی کہ مولی! مجھ پر ایسی آزمائش نہ ڈالنا جسے میں برداشت نہ کرسکوں اور میری مدد کرنا۔ گرفتاری کے بعد بابوجی کو ملازمت سے معطل کر دیا گیا تھا چنانچہ اس وقت سب سے فوری اور ضروری مسئلہ معطلی کو ختم کرانے کا تھا۔
بابوجی اپنے عقیدے کے سلسلے میں کوئی سمجھوتہ کرنے والے نہیں تھے اس لیے مخالفین سے کسی ہمدردی کی امید نہ تھی۔
بابوجی کو خدانے قلم کی بڑی صلاحیت دی تھی ۔یعنی وہ بہت اچھی اور مؤثر ڈرا فٹنگ کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی معطلی کو ختم کرنے کے لیے متعلقہ افسران کو درخواستیں دیں اور بالآخر اللہ نے انہیں کامیاب کیا، اور چند ہی دنوں میں وہ بحال ہوگئے۔
اب مرحلہ قتل کے مقدمے کا تھا۔ ان کے اوپر بڑا ہی سنگین الزام تھا۔ چونکہ ان کے خلاف نزاعی بیان پیش کیا گیا تھا، اس سے بظاہر ان کا بری ہونا مشکل نظر آرہا تھا، خاص طور سے نچلی عدالت سے۔ مگر جس کو اللہ رکھے اسے کون چکھے۔ اللہ رب العزت نے بہت جلد اس مصیبت سے ان کو نجات دلادی، وہ نچلی عدالت ہی سے با عزت بری ہوگئے۔ یہ قصہ بھی دلچسپی اور عبرت سے خالی نہیں، اس لیے اس کا مختصر تذکرہ ضروری معلوم ہوتا ہے۔
ہوا یہ کہ پولیس کو بابوجی کے خلاف کوئی گواہ نہیں مل سکا، تو اس نے مخالفین کے دبا ؤمیں ایک فرضی گواہ سکھا پڑھا کر عدالت میں کھڑا کردیا۔ ادھر ایک اجنبی شخص بابوجی کے پاس آیا اور اس نے ان کو بتایا کہ آپ کے خلاف پولیس نے جو گواہ پیش کیا ہے وہ پولیس کا پیٹنٹ گواہ ہے، جس کی بہت سی گواہیاں عدالت میں جھوٹی ثابت ہوچکی ہیں۔ اُس شخص نے یہ بھی کہا کہ میں چند دنوں میں اس گواہ کی جھوٹی گواہیوں کاریکا رڈ عدالت سے نکلوا کر آپ کو دے دوں گا۔ چنانچہ اس شخص نے حسب وعدہ وہ ریکارڈ نکلواکر بابوجی کو دے دیا۔
تاریخ پر جب پولیس کی طرف سے اس گواہ نے بابوجی کے خلاف یہ گواہی دی کہ انہوں نے مقتول کو میرے سامنے قتل کرادینے کی دھمکی دی تھی تو بابوجی کے وکیل نے گواہ کے ریکاڈر کی فائیل جج کے سامنے پیش کرتے ہوئے عدالت سے کہا کہ یہ پولیس کا جھوٹا گواہ ہے، اور اس سے قبل ڈیڑھ سوگواہیاں دے چکا ہے جو عدالت میں جھوٹی ثابت ہوچکی ہیں۔
جج صاحب نے فائیل کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے گواہ سے دریافت کیا کہ کیا تم ڈیڑھ سوگواہیاں جھوٹی دے چکے ہو؟ جج صاحب کے اس سوال پر اس گواہ کے اوپر ہیبت طاری ہوگئی، اس کا ضمیر بیدار ہوگیا، اور اس نے سارا سچ اُگل دیا۔ بولا جناب جج صاحب! میں اب تک بہت سی جھوٹی گواہیاں دے چکا ہوں۔ یہ سب مجھ سے یہ پولیس والے کراتے ہیں۔ میں ایک غریب رکشے والا ہوں۔ اگر میں انکار کرتا ہوں تو یہ لوگ مجھے مارتے ہیں۔ اس گواہ نے یہ بھی کہا کہ جناب یہ گواہی جو ابھی میں نے دی ہے یہ بھی جھوٹی ہے، جو میں نے ان پولیس انسپکٹر کے کہنے پر دی ہے۔ سچ یہ ہے کہ میں نے اس بارے میں کچھ نہیں سنا، کچھ نہیں دیکھا۔ یہ سب مجھ سے اِن انسپکٹر صاحب نے کہلوایا ہے۔ وہ گواہ یہ کہتے ہوئے رونے لگا اور اپنے پاپوں کے لیے معافی مانگنے لگا۔
یہ سن کر جج صاحب کا غصہ ساتویں آسمان پر تھا۔ انہوں نے پولیس انسپکٹر کو جو عدالت میں موجود تھا بڑی سخت پھٹکار لگائی اور سب کے سامنے اسے ذلیل کیا۔ نیز بابوجی کو با عزت بری کردیا۔
بابوجی کے بری ہونے کی خبر بھی شہر میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ لوگ انہیں مبارک باد دینے کے لیے آنے لگے۔ اس دن بابوجی کی حیثیت ایک فاتح کی سی تھی، اور مخالفین بڑی خفت محسوس کررہے تھے۔ ان میں سے بعض لوگ اپنے ضمیر کی آواز پر بابوجی سے معافی مانگنے کے لیے آئے۔ ایک عام تأثر عوام میں یہ تھا کہ بابوجی کے ساتھ غیبی طاقت ہے، جوان کی مدد کررہی ہے۔اس واقعے کے بعد شہر کے حالات جو بہت ناموافق تھے، اب سازگار ہونے لگے۔ مخالفت میں جو شدت تھی اس میں کافی حدتک کمی واقع ہوگئی۔ اللہ رب العزت نے شر میں خیر پیدا کردیا۔یہ سب اللہ کا فضل تھا اور کچھ نہیں۔
اللہ کے رسول حضرت محمدؐ کا ارشاد ہے کہ تم میں جو لوگ دور جاہلیت میں اچھے تھے وہ اسلام میں بھی اچھے ہیں۔ پیارے نبیؐ کایہ قول بابوجی پر پورے طورپر صادق آتا تھا۔ بابوجی کی خوبیاں، ان کا اخلاق وکردار، ان کا جذبہ انفاق وجذبہ خدمت خلق، اسلام قبول کرنے کے بعد اور نکھر گئے، بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ ان میں جان پڑگئی۔ پہلے یہ سب کام وہ اپنی طبیعت کے میلان کی وجہ سے کرتے تھے لیکن اب انہیں اللہ کا حکم سمجھ کر اور اس کو خوش کرنے کے لیے کرنے لگے ۔ چنانچہ اب وہ پہلے سے بھی زیادہ ہردل عزیز ہوگئے۔
آفس میں وہ اپنی ذمے داریاں نہایت خوش اسلوبی اور خوش انتظامی سے انجام دیتے۔ جس محکمے میں جاتے اس میں سدھار نمایاں طورپر دیکھنے کو ملتا۔ اس بات سے ان کے اعلی افسران بہت متأثر ہوتے اور بابوجی کی عزت اور قدر کرتے۔ یہ افسران اکثر بابوجی کے گھر تشریف لاتے، کئی بار اپنی فیملی کو بھی ساتھ لاتے۔ بابوجی کی مہمان نوازی اور ان کی حکیمانہ باتوں سے مستفید ہوتے۔ واضح رہے کہ بابوجی آفس میں شرعی وضع قطع کے ساتھ رہتے تھے، یعنی چہرے پر داڑھی اور لباس کرتا پاجامہ، جاکٹ یاشیروانی۔ آفس میں ایک خاص بات یہ تھی کہ جس محکمہ میں زیادہ کرپشن ہوتا اور جس کے حالات زیادہ بے قابو ہوتے وہاں خوشامد کرکے بابوجی کو بھیجا جاتا اور بابوجی کے جاتے ہی اس محکمے کے اندر زبردست سدھار دیکھنے کو ملتا۔ اب ایک دلچسپ واقعہ ملاحظہ فرمائیں:
نگرپالیکاکے چئیرمین کو اس بات پر بڑی حیرت تھی کہ بابوجی اتنی خوبیوں اور صلاحیتوں کے مالک ہیں پھر بھلا وہ مسلمان کیوں ہوگئے۔ یقیناًان کے ساتھ کچھ معاشی اور مالی مجبوریاں رہی ہوں گی، جن کے سبب انہیں یہ ’ناپسندیدہ‘ کام کرنا پڑا ہوگا۔ چیئرمین صاحب ایک بڑے صنعتی خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور ان کے پاس مال دولت کی کوئی کمی نہیں تھی۔ چنانچہ ایک دن انہوں نے اپنی کوٹھی پر بابوجی کی کھانے کی دعوت کی۔ کھانے سے فارغ ہوکر چیئرمین صاحب بابوجی کو باہر لان میں لے گئے اور ان کے گلے میں ہاتھ ڈال کر ٹہلنے لگے۔ پھر بڑی محبت اور اپنائیت کے ساتھ بابوجی سے عرض کیا کہ آپ کو یقیناًکوئی مالی پریشانی لاحق ہوئی ہوگی جس کی وجہ سے آپ کو اسلام قبول کرنا پڑا ہوگا۔ بہرحال جو ہواسوہوا، مگر اب آپ اپنے کو تنہا نہ سمجھیں اور میرے پاس جو مال دولت ہے اسے اپنا ہی سمجھیں۔
بابوجی چیئرمین صاحب کا منشا سمجھ گئے۔ اس طرح کی چیزیں دیگر لوگوں کی طرف سے بھی آتی رہی تھیں۔ یہ دونوں لوگ لان میں بڑی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ اب بابوجی نے چیئرمین صاحب سے عرض کیا کہ میرے بارے میں یہ بہت بڑی غلط فہمی پھیلائی گئی ہے کہ مجھے مسلمانوں نے مالی مدد دی ہے۔ یہ بات بالکل غلط ہے، اس میں کوئی سچائی نہیں۔ مسلمانوں کی مالی حالت کتنی خراب ہے اس کو آسانی سے دیکھا جاسکتا ہے۔ البتہ مسلمانوں کے پاس یقیناًایک نہایت قیمتی دولت ہے۔ ایسی دولت جو پوری دنیا میں کسی کے پاس نہیں۔ افسوس کہ ان کو خود اس دولت کا احساس نہیں ہے۔ لیکن میں نے ان سے وہ دولت ضرورلی ہے، اس کا مجھے اعتراف ہے۔
چیئرمین نے حیرت زدہ ہوکر برجستہ دریافت کیا کہ وہ دولت کیا ہے؟ بابوجی نے بتایا کہ وہ قیمتی دولت ان کا دین اسلام ہے، جو خالق کائنات نے ان کے سپرد کیا ہے، اس تاکید کے ساتھ کہ اس پر خود بھی چلنا اور دوسرے انسانوں تک بھی اس دولت کو پہنچانا۔ مگر افسوس کہ وہ اس پر عمل کرنے میں بھی کوتاہ ثابت ہوئے اور اسے دوسروں تک پہنچانے میں بھی۔ بہرحال خدا کی مہربانی سے مجھے یہ دولت حاصل ہوگئی۔ بابوجی نے چیئرمین صاحب کو بتایا کہ میرے ساتھ کچھ ایسے حالات پیش آئے جن کی وجہ سے مجھے دل کے سکون اور حق کی تلاش ہوئی۔ میرے والد صاحب کا ۵۲؍سال کی عمر میں اچانک انتقال ہوگیا۔ میں کئی بار عجیب وغریب بیماریوں میں مبتلا ہوا۔ اور بھی بہت سے واقعات پیش آئے جن کی وجہ سے مجھے حق کی تلاش ہوئی۔ سکون کی تلاش ہوئی۔ میں نے اپنی اس الجھن کا اظہار اپنے خاندانی پنڈت جی سے کیا جو خود بڑے عالم اور شہر کے مشہور مذہبی رہنما ہیں۔ انہوں نے مجھے اس کے لیے بہت سی مذہبی تدابیر بتائیں اور مختلف مذہبی مقامات پر جانے کا مشورہ دیا۔ میں نے وہ سارے کام کئے جو انہوں نے بتائے۔ مذہبی مقامات کی زیارت بھی کی۔ مگر ان سب سے میرے دل کی بے چینی اور بے قراری بڑھتی ہی گئی۔ کوئی بھی چیز مجھے مطمئن نہ کرسکی۔ میں نے ہر جگہ مذہب کے نام پر فریب، دھوکہ اور لوٹ کھسوٹ ہی دیکھی۔ پیروں کا سہارا بھی لیا، وہاں بھی بات نہیں بنی۔ جہاں تک اسلام کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں تو میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ مجھے تو مسلمانوں سے ہمیشہ نفرت ہی رہی۔ میرا خاندان بھی مسلمانوں سے انتہائی نفرت کرتا تھا۔ مجھے اسلام کے بارے میں معلومات بھی نہیں تھیں۔ اور اگر کچھ معلوم تھا تو وہ یہی کہ یہ وحشیوں کا دھرم ہے۔ مگر اچانک میری ملاقات کچھ اچھے مسلمانوں سے ہوگئی اور مجھے اسلام کے بارے میں پڑھنے کو مل گیا۔ جس سے اندازہ ہوا کہ جس چیز کی مجھے تلاش ہے وہ یہاں مل سکتی ہے۔ چنانچہ میں نے اسلام پر کافی کچھ پڑھا، لوگوں سے گفتگوئیں کیں۔ اپنے خاندانی پنڈت جی کو بھی سب کچھ بتایا، ان سے برابر تبادلہ خیال ہوتا رہا۔ آج بھی وہ میرے گھر آتے ہیں۔ میں اسی نتیجے پر پہنچا کہ اسلام دین حق ہے جو سارے انسانوں کے لیے سارے انسانوں کے خالق، مالک اور پروردگار نے بھیجا ہے۔
کوئی شخص اپنا دشمن نہیں ہوتا اور وہی کام کرتا ہے جسے وہ اپنے اور اپنے بال بچوں کے لیے مفید سمجھتا ہے۔ میں نے اپنے اور اپنے خاندان کے لیے خدا کے اس دین کو پسند کیا۔ اس دین نے مجھ پر جو اثرات ڈالے وہ سب کے سامنے ہیں۔ چیئرمین صاحب آپ میرے اندر خیروبھلائی کی جو باتیں محسوس کررہے ہیں وہ بھی اسی دین کی برکت ہے۔
یہ دین یعنی اسلام صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بھیجا گیا ہے بلکہ سارے انسانوں کا مشترکہ سرمایہ ہے۔ اسلام انسان کی پوری زندگی کا دین ہے اور اس میں خوبیاں ہی خوبیاں ہیں۔ میں نے مسلمانوں سے اسلام ضرور لیا ہے مگر یہ اسلام ان کا نہیں میرا ہے، جسے میرے رب نے میرے لیے بھیجا ہے۔ اور میں نے اپنی ہی چیز کو ان سے لیا ہے۔ میں چاہتا ہوں کے آپ بھی اس کو دیکھیں اور اس کا مطالعہ کریں۔ بابوجی نے مختصراً اسلام کی بہت سی تعلیمات چیئرمین صاحب کے سامنے رکھیں۔ اس گفتگو سے چیئرمین صاحب کے ذہن میں یہ بات تو صاف ہوگئی کہ بابوجی نے کسی دنیوی لالچ میں ایسا نہیں کیا ہے بلکہ اس کے اسباب دوسرے ہیں۔
بابوجی کی ایک خوبی یہ تھی کہ وہ اپنے ماتحتوں کا بہت خیال رکھتے تھے، جس کی وجہ سے وہ لوگ بابوجی کی بہت عزت کرتے اور ان کی خدمت کو اپنے لیے بڑی سعادت کی بات سمجھتے تھے۔ اس کیفیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بابوجی کے رٹائرمنٹ کے بعد بلکہ ان کے انتقال کے بعد بھی وہ لوگ بابوجی کے گھر آتے اور ان کے گھر کے کام بخوشی انجام دیتے۔ ان لوگوں میں سب غیر مسلم تھے۔ یہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ آدمی کا کردار سبھی نفرتوں اور عصبیتوں کی دیواروں کو منہدم کردیتا ہے۔
بابوجی کی ایک خوبی یہ تھی کہ ان کا رویہ لوگوں کے ساتھ نہایت مثبت ہوتا۔ ان کی کوشش ہوتی کہ وہ کسی کو مایوس نہ کریں۔اس لیے وہ ان کے مسائل حل کرنے کی پوری کوشش کرتے۔ لوگوں کی خدمت کرکے اور ان کی مدد کرکے انہیں دلی سکون حاصل ہوتا۔ بابوجی نے اپنے گھر کے سامنے لوگوں کے پانی پینے کے لیے ایک ٹنکی لگوادی تھی جس سے مسافر مستفید ہوتے اور دعائیں دیتے۔ اسی طرح جانوروں کے لیے بھی پانی پینے کا نظم کر رکھا تھااور جانوروں کی دعائیں بھی سمیٹ رہے تھے۔
بابوجی اچھے کھانوں کے بہت شوقین تھے مگر اس سے زیادہ انہیں دوسروں کو کھلانے میں مزہ آتا تھا۔ مہمان نوازی کی زبردست صفت ان کے اندر پائی جاتی تھی۔ جس کی وجہ سے ایک وسیع حلقہ احباب مسلم اور غیر مسلموں کا تھا۔ عید کے موقع پر غیر مسلم احباب کے یہاں سویاں بھجواتے اور اپنے گھر کھانے پر ان لوگوں کو مدعو کرتے۔
لوگوں کو تحفے تحائف دیتے۔ ضرورت مندوں اور محتاجوں کا خیال رکھتے۔ ضرورت کی چیزیں ان کے گھروں پر بھجواتے۔ دوسروں کے لیے قربانی دینے کا جذبہ ان کے اندر موجود تھا، جس کی وجہ سے لوگ ان کی بڑی قدر کرتے۔
بابوجی کی خوبی یہ تھی کہ ان سے جو شخص بھی ملتا وہ ان سے متأثر ہوئے بغیر نہ رہتا۔ بلکہ ان کا عقیدت مند ہوجاتا۔ اس میں مسلم اور غیر مسلم کی تمیز نہ تھی۔
بابوجی کے اندر حکمت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ ان کی باتیں بڑی حکیمانہ ہوتی تھیں، کس موقع پر کیا کرنا ہے اور کیا کہنا ہے، یہ انہیں اچھی طرح معلوم تھا۔ ایک بار ایک غیر مسلم بجلی کا کچھ کام کرنے بابوجی کے گھر آیا۔ وہ بابوجی کا پہلے سے شناسا تھا مگر اسے معلوم نہ تھا کہ بابوجی مسلمان ہوگئے ہیں۔ رمضان کا مہینہ تھا۔ افطار کا وقت قریب آیا تو بابوجی نے اپنے بیٹے سے کہا کہ روزہ کھولنے کا وقت قریب ہے۔ کچھ افطار کے لیے لے آؤ۔
اس بات پر اس کا ریگر کو بڑی حیرت ہوئی اور اس نے دریافت کیا، بابوجی! کیا آپ بھی روزہ رکھتے ہیں؟!۔ بابوجی نے تپاک سے جواب دیا، کیوں بھائی، کیا سارے اچھے کام صرف مسلمانوں کے لیے ہیں؟
ایک بار چند لوگ بابوجی کے پاس آئے اور انہوں نے عیسائیت کی مذمت سے گفتگو شروع کی۔ کہنے لگے بابوجی ذرا بتائیے کہ اگر کوئی شخص بغیر باپ کے پیدا ہو تو اسے کیا کہیں گے۔ عیسائی کہتے ہیں کہ وہ خدا کا بیٹا ہے۔ (دراصل وہ کہنا چاہ رہے تھے کہ عیسی علیہ السلام ناجائز اولاد ہیں اور حضرت مریم علیہا السلام بدچلن عورت ہیں، نعوذباللہ)
بابوجی نے نہایت اطمینان سے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس میں تو کچھ بھی غلط نہیں ہے۔ خدا کی قدرت میں ہر چیز ہے۔ جو خدا سیتا جی کو بغیرماں باپ کے پیدا کرسکتا ہے اس کے لیے بغیر باپ کے پیدا کرنا تو اور بھی زیادہ آسان ہے۔
ان کی حکیمانہ باتوں کی ایک لمبی فہرست ہے۔
بابوجی کو دین حق اسلام نے پیتل سے کندن بنادیا تھا، اور وہ اپنے اخلاق، کردار، حسن سیرت، جذبہ خدمت خلق جیسی خوبیوں کی وجہ سے ہر دل عزیز بن گئے تھے۔ شہر کے وہ لوگ جو شروع میں ان کو ناقابل برداشت بوجھ سمجھتے تھے، اب شہر میں ان کے وجود کو ضروری اور باعث رحمت قرار دیتے تھے۔ لوگوں کی اس عقیدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب بابوجی کا انتقال ہوا تو عوام کا جم غفیران کے جنازے میں شریک ہونے اور انہیں کندھا دینے کے لیے امڈپڑا۔ غیر مسلموں نے اپنی دوکانیں بند کردیں اور شایدکہ پہلی بار قبرستان میں غیر مسلموں کی اتنی بڑی تعداد کو دیکھا گیا جو اپنے بابوجی کو آخری سلام کرنے آئے تھے۔ بلاشبہہ بابوجی ایک سایہ دار درخت تھے، ایک بہتا دریا تھے، جن کے چلے جانے کے بعد ہم جیسے کتنے ہی لوگ ان کے فیوض سے محروم ہوگئے۔
اللہ رب العزت ان کی مغفرت فرمائے اور جنت میں اعلیٰ مقام عطا کرے!اور ہمیں ان سے اچھی حالت میں ملائے۔
نسیم احمد غازی فلاحی،سکریٹری اسلامک ساہتیہ ٹرسٹ۔ نئی دہلی

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights