مولانا سید حامد حسینؒ

0

جماعت اسلامی ہند کے عظیم قائدین میں شمار ہوتے ہیں، آپ ایک عظیم قائد، اور ایک مثالی مربی ورہنما کے علاوہ زبردست خطیب تھے، آپ کے خطابات اور واقعات کا ذکر آج بھی تحریکی حلقے میں کیا جاتا ہے، تحریک اسلامی سے چالیس کی دہائی میں وابستہ ہوئے اور تادم زیست وابستہ رہے۔
ابتدائی حالات: مولانا سید حامد حسین مرحوم فروری ۱۹۲۰ ؁ء میں مہاراشٹر کے معروف ضلع امراؤتی کے قصبہ ایلچپور میں پیدا ہوئے۔ تعلیمی مراحل ایلچپور، ناگپور، اور کھام گاؤں میں پورے کئے، ۱۹۳۸ ؁ء میں تعلیم سے فراغت کے بعد ۱۹۴۰ ؁ء میں ملازمت اختیار کرلی، ملازمت کے سلسلے میں حیدرآباد، جالنہ اور ورنگل وغیرہ میں بھی قیام رہا۔ کچھ عرصے تک فوج میں ملازمت کی، جس کا اثر بعد میں بھی آپ کی زندگی بالخصوص تحریکی زندگی میں نمایاں رہا، نظم وضبط کے بہت ہی پابندتھے، اور ہر کام بہت ہی ڈسپلن اور یکسوئی کے ساتھ کرنے کے قائل تھے۔ شادی سے قبل بہت ہی آزاد خیال مانے جاتے تھے، ۱۹۴۵ ؁ء میں شادی ہوئی، اس کے بعد طرزفکروعمل میں کافی تبدیلی آئی، جماعت اسلامی سے ربط قائم ہوا، اور کچھ ہی دنوں بعد جماعت اسلامی سے وابستہ ہوگئے۔
تحریک اسلامی سے وابستگی:شادی کے بعد آپ کی زندگی میں نمایاں تبدیلیاں آنی شروع ہوگئی تھیں، اس کی ابتدا مولانا مودودیؒ کے لٹریچر سے ہوئی، اس سے آپ خوب مستفید ہوئے، آغاز میں مولانا مودودیؒ کی خطبات کا مطالعہ کیا، جس نے آپ کی شخصیت پر گہرا اثر چھوڑا، اس کے بعد ہی جماعت کے پروگرامس میں پابندی اور سرگرمی کے ساتھ شریک ہونے لگے، اور ۱۹۴۹ ؁ء میں باقاعدہ رکن ہوگئے۔
تحریکی ذمہ داریاں: جس وقت آپ جماعت کے باقاعدہ رکن ہوئے، اس وقت آپ کا قیام ملازمت کے سلسلے میں حیدرآباد میں تھا، وہیں آپ تحریکی سرگرمیوں میں مشغول ہوگئے، اور بہت ہی جلد اگست ۱۹۵۱ ؁ء میں حلقہ آندھراپردیش وبرارکے نائب قیم بنائے گئے۔۱۹۵۱ ؁ء ہی میں آپ جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوری کے رکن بھی منتخب ہوگئے، اور تاحیات مرکزی مجلس شوری کے رکن رہے۔ اس کے بعد اگست ۱۹۵۳ ؁ء میں آندھراپردیش کے قیم بنائے گئے۔ ستمبر ۱۹۵۴ ؁ء میں جب مولانا ابواللیث اصلاحی اور مولانا صدرالدین اصلاحی کی گرفتاری کا حادثہ پیش آیا، اُس وقت آپ کو فوری طور پر مرکز جماعت رامپور بلا لیاگیا، اور ستمبر ۱۹۵۴ ؁ء سے فروری ۱۹۵۵ ؁ء تک کے لیے قائم مقام امیر جماعت مقرر کیا گیا۔ مولانا ابواللیث صاحب کی رہائی کے بعد آپ نے ان کے نمائندے کی حیثیت سے فروری ۱۹۵۵ ؁ء سے جون ۱۹۵۵ ؁ء تک ملک کے مختلف علاقوں کا تفصیلی دورہ کیا۔۱۹۵۶ ؁ء میں مرکز جماعت میں معاون قیم بنائے گئے، ۱۹۶۹ ؁ء میں اور بعد کے زمانے میں بھی اترپردیش کے امیرحلقہ کی ذمہ داری دی گئی، لیکن ۷۲ ؁۱۹ ؁ء میں مولانا یوسف صاحب جب امیر جماعت ہوئے تو انہوں نے آپ کو دوبارہ مرکز بلالیا، اور مرکزمیں سکریٹری کے طور پر آپ ٹرسٹ، مالیات اور املاک کی ذمہ داریاں سنبھالنے لگے۔ ایمرجنسی کے دوران جب جماعت کے دیگر وابستگان کی گرفتاری عمل میں آئی تو آپ کو بھی گرفتار کرلیا گیا، اور تہاڑ جیل بھیج دیا گیا۔ مذکورہ بالا سطور میں مولانا حامد حسین کی تحریکی ذمہ داریوں کا ایک ہلکا سا تعارف کرایا گیا ہے، اس کے علاوہ بھی آپ تحریک کے اندر مختلف کلیدی اور اہم مناصب پر فائز رہے، اور بحسن وخوبی تحریک اسلامی کے قافلے کی قیادت میں اپنا کردار ادا کرتے رہے۔
بے مثال خطیب اور مربی: مولانا حامد حسین مرحوم کی شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو خطابت کا تھا، آپ ایک زبردست خطیب تھے، تحریک اسلامی ہند میں اس پہلو سے آپ کو ایک نمایاں مقام حاصل تھا، جس مجلس میں رہتے، سامعین آپ کے لیے منتظر رہتے، اور خطاب خواہ کتنا ہی طویل ہو، پوری مجلس پر ایک قسم کا سکوت طاری رہتا۔ آپ کی گفتگو میں جادوئی تاثیر تھی، لوگ دور دور سے آپ کے خطاب کو سننے کے لیے چلے آتے تھے۔ آپ نے اپنی تقریروں کے ذریعے جس طرح سے جماعت اسلامی کے پیغام کو اہل وطن کے سامنے متعارف کرایا، وہ اپنی مثال آپ ہے، یقیناًوہ ہمیشہ جماعت اسلامی کے ایک ترجمان کے طور پر ملک وبیرون ملک میں اس کے پیغام اور نصب العین کی نشرواشاعت میں مصروف رہے۔ آپ کا یہ معمول تھا کہ جہاں جاتے کوشش کرتے کہ عوامی پروگرامس کے علاوہ پریس کانفرنس کا بھی اہتمام کیا جائے، پریس کو کس طرح خطاب کرنا، اس فن میں بھی آپ خوب مہارت رکھتے تھے۔ تقریر کے علاوہ آپ کی تحریری صلاحیت بھی خوب تھی، گرچہ حد درجہ تحریکی مصروفیات کے سبب باقاعدہ تصنیفی کام نہیں کرسکے، لیکن آپ کی جو تحریریں بھی موجود ہیں، ان کو دیکھ کر آپ کی تحریر کے بارے میں بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
بیرونی اسفار:آپ کو ملکی مسائل کے ساتھ ساتھ عالمی مسائل، بالخصوص عالم اسلام کے مسائل سے خاص دلچسپی تھی، چنانچہ آپ نے مختلف مواقع پر برطانیہ، پاکستان، ایران اور سعودی عرب وغیرہ کے اسفار کئے۔ خمینی انقلاب کے بعد ایرانی حکومت کی دعوت پر آ پ وہاں بھی گئے، پاکستان میں بھٹو کی پھانسی کے بعد وہاں کا دورہ کیا، اور حالات کا بہت قریب سے جائزہ لیا۔
سفر آخرت: ۱۹۸۲ ؁ء میں جب ابواللیث صاحبؒ امیر جماعت ہوئے توآپ دوبارہ اترپردیش کے امیر حلقہ مقرر کئے گئے۔ اِسی دوران آپ سفر حج کے لیے تشریف لے گئے، حج کے بعد ہی ریاض میں ایک خطرناک سڑک حادثہ کے نتیجے میں اِس دارفانی سے کوچ کرگئے، انا للہ وانا الیہ راجعون، یقیناًمولانا سید حامد حسین کی زندگی نوجوانوں کو یہ پیغام دیتی ہے کہ میدانِ عمل سنبھالنے کے لیے تیاری کی ضرورت ہے، جس قدر سخت چیلنجز کا سامنا ہے، اسی قدر بلکہ اس سے زیادہ تیاری اور صلاحیت پیداکرنے کی ضرورت ہے، واللہ ولی التوفیق
(ابن اسد)

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights