موجودہ حالات کے تناظر میں میڈیا کا کردار

0

حیدر آباد یونیورسٹی کے دلت اسکالر روہت ویمولا واقعہ اور جے این یو تنازع میں میڈیا نے جو کردارادا کیا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ حیدرآباد یونیورسٹی میں طلباء تنظیموں کے انتخابات نے اے بی وی پی ہی نہیں، وہاں کی انتظامیہ کے ساتھ ساتھ مرکزی حکومت کے بعض وزراء کو بھی پریشان کردیا تھا۔ پس پردہ یہ حقیقت بیان کی جارہی ہے کہ اس یونیورسٹی میں دلت مسلم اتحاد کی بنا پڑ رہی تھی جسے فرقہ پرست ذہنیت آسانی سے قبول کرنے کو تیار نہیں تھی۔ اس ذہنیت کو میڈیا کا بھرپور ساتھ ملا۔ اے بی وی پی کی ہنگامہ آرائی، میڈیا کی چیخ وپکار، مرکزی حکومت کے بعض وزراء کی اس معاملہ میں شمولیت اور ناپسندیدہ طلباء کے خلاف ‘تادیبی کارروائی’  پر اصرار سے بات اس قدر بڑھی کہ روہت ویمولا کو خودکشی کے لئے مجبور ہونا پڑا۔ اس خودکشی میں فرقہ پرست ذہنیت ، زرد سیاست اور زرد صحافت نے مشترکہ کردار ادا کیا تھا۔ جے این یو طلباء یونین اسی زرد کردار کو بے نقا ب کرنے کی کوشش کررہی تھی  لہٰذا اس کوشش کو دبانے کے لئے میڈیا نے پھرسے اپنا کندھا پیش کردیا جس پر سوار ہو کر ایک مفروضہ کو بنیاد بنا کر ملک گیر سطح پر ہنگامہ برپا ہوا۔ ایک معمولی واقعہ کو بنیاد بنایا گیا اور بہت ہی زوروشور کے ساتھ اس کی تشہیر کی گئی۔ اس کے بعد طلباء کی مکمل طور پر حوصلہ شکنی کرنے اور ان کی آواز کوکلی طور پر دبانے کے لئے اسی ہتھیار’sedition’ کو استعمال کیا گیا جسے اکثر وبیشتر اس ملک کے دلتوں، آدیباسیوں اورمسلم اقلیت کے خلاف کثرت سے استعمال کیا جاتا رہا  ہے۔ اس بار قانون کو بالائے طاق رکھ کر اور بیخوفی کے ساتھ صرف اس لئے استعمال کیا گیا کہ ایک مخصوص نظریہ کے حامل طبقہ کو اقتدار سے قربت حاصل ہوگئی ہے۔ لہٰذا میڈیا نے بھی کھل کر کھیلنے کو ہی مناسب سمجھا اور اس کی کوششوں کے نتیجہ میں جو طوفان بدتمیزی برپا ہوا اسے پوری دنیا نے دیکھا۔

میڈیا کے دوش پر سوار زرد سیاست کی طوفان بدتمیزی سے عدلیہ کی دہلیز بھی محفوظ نہیں رہی۔ دہلی ہائی کورٹ اس کا ثبوت ہے جہاں سرعام قانون کا مزاق اڑایا گیا۔ اہل اقتدار کے اس مخصوص نظریہ نے کہ یہ لاقانونیت نہیں بلکہ ‘عوام ‘ کا غصہ ہے، میڈیا میں خوب سرخیاں بٹوریں۔ اس نظریہ کے حاملین اوروکلاء پر میڈیا کی نظرعنایت نے انہیں ہیرو بنا دیا اور وہ قانونی گرفت سے خود کو محفوظ تصور کرتے ہوئے کنہیا کمار کے بارے میں یہاں تک کہہ گئے کہ “ہم نے اسے (پولس حراست میں لئے جانے کے درمیان) اس قدر مارا کہ اس کی پینٹ گیلی ہوگئی اور ہندوستان کی تعریف کرنے والے نعرے لگانے پر مجبور کرنے کے بعد ہی اسے چھوڑا گیا”۔ اس وقت فرقہ پرستی اپنا جو رنگ دکھارہی ہے اور ملک میں فروغ پزیر اشتعال انگیزی کی جو لہر پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اسے میڈیا نے کچھ اس انداز سے پیش کیا جسے دیکھ کر ہی بہت سوں کی نیندیں حرام ہوگئیں اور ہر سو ‘sedition’  کی دھوم مچ گئی۔ ایسا ہی ایک منظر 2001ء  میں زرد سیاست کی علمبردار بی جے پی کی سربراہی میں مرکز میں برسر اقتدار این ڈی اے کے دور حکومت میں میڈیا نے ایک بار اور پیش کیا تھا جب اچانک دہلی میںMonkey Manنمودار ہوا اورمیڈیا کی  ہی مہربانی سے “منھ نچوا” کے نام سے خوف ودہشت کا وہ ماحول قائم ہوا کہ صرف دہلی میں ہی نہیں یک لخط پورے ملک میں موضوع سخن بن گیا لیکن پھر وہ اچانک غائب بھی ہوگیا۔ ملک کے عوام آج تک نہ جان سکے کہ وہ کہاں سے آیاتھا اور کس نے بھیجا تھا۔ اس وقت بھی ملک کے عوام کی پیشانیوں پر “محب وطن ” اور “غدار وطن” کے اسٹیکر چسپاں کرنے کی کوشش کے نام پر میڈیا نے وہ تماشا کھڑا کیا کہ عوام جان ہی نہ سکے کہ یہ کس نے کیا اور کیوں کیا۔

میڈیا کے کردار کی بات کی جائے تو روہت ویمولا تو نہیں لیکن جے این یو تنازع کے حوالے سے میڈیا ضرور واضح طور پر تین زمروں ،زرد، کارپوریٹ اورغیرجانبدارصحافت میں تقسیم ہوتا ہوا نظر آیا ہے۔ مخصوص نظریہ کے حامل طبقہ کے اقتدار سے قربت کے نتیجہ میں اس وقت جو بلند وبالا خواب دیکھے جارہے ہیں زرد صحافت کا علمبردار میڈیا اس میں رنگ بھرنے کی پوری کوشش ہے۔ یہی کوشش اس نے جے این یو واقعہ کے سلسلہ میں بھی کی۔ ایک ویڈیو کلپ سے چھیڑ چھاڑ کرکے پہلے ایک جعلی ویڈیو تیارہوا، پھر ایک چینل نے اسے  جان بوجھ کر نشر کیا، اس کے بعد دوسرے  چیلنز اور میڈیا گروپ اس میں شامل ہوگئے۔ کارپوریٹ میڈیا نے بھی اس موقع پر ان کی آواز سے آواز ملائی، نتیجہ کے طور پر پورے ملک کا ماحول گرم ہوگیا اور میڈیا کی طرف عوام کی توجہ مبذول ہوگئی۔ اس کے بعد کارپوریٹ میڈیا نے خود کو زرد صحافت کے علمبردار میڈیا سے دور کرنا شروع کردیا۔ رفتہ رفتہ وہ بظاہر اس کا حریف بن گیا اور اس غیر جانبدار میڈیا کے ہم رکاب ہوگیا جو اول روز سے جے این یو واقعہ کی صحیح تصویر پیش کررہا تھا لیکن اس کی آواز کو جان بوجھ کر دبانے اور نظر انداز کرنے کی کوشش کی جارہی تھی۔ کارپوریٹ میڈیا کے اس تیزی سے پالا بدلنے کے پیچھے بات یہ نہیں تھی کہ روہت ویمولا کی خودکشی،کنہیا کمار اور دیگر طلباء پر ملک سے بغاوت seditionکا چارج لگائے جانے نے اس کے دل ودماغ کو متاثر کردیا تھا اور اس کی غیرت جاگ اٹھی تھی،  بلکہ اس کے وہ مفادات تھے جو اسی راہ پرچل کرپورے ہورہے تھے جو ایک عرصہ سے میڈیا کا محبوب، آزمودہ اور کامیاب طریقہ ہے۔ پہلے خبر کو سنسنی خیز بنا کرمن پسند ماحول تیار کرنا، اس کے بعد میڈیا صارفین کو دو حصوں میں تقسیم کرنا، پھر مخالف اور موافق کے درمیان زور دار بحث کرانا اور ضرورت پڑنے پر اپنی طرف سے مرچ مسالہ ملادینا ،ان سب کے بعد ان سے بڑھنے والی ٹی آرپی اور اشتہارات سے زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرنا، یہی سب کچھ جے این یو معاملہ میں بھی ہوا۔

اس بار اس میں کارپوریٹ میڈیا کی برہمی بھی شامل ہوگئی تھی۔ وجہ اپنے پرائے کی تمیز کئے بغیر میڈیا پرسنس کی وہ پٹائی تھی جوزرد سیاست کے علمبراروں کے ہاتھوں ہوئی تھی، اس نے آگ میں گھی ڈالنے کا کام کیا تھا۔کارپوریٹ میڈیا کا یہ کردار اس بات سے بھی واضح ہو جاتا ہے کہ کنہیا کمار کے جیل سے باہر آنے کے کچھ روز بعد ہی وہ پھر سے برسراقتدار طبقہ کا ہم آواز ہوگیا اور ان کا قصیدہ پڑھنے لگا۔ اگر واقعی یہ حق کا علمبردار ہوتا تو وہ دو دیگر طلباء عمر خالد اور انربان جو ملک سے بغاوت’ sedition’ کے ہی الزامات کے تحت اب تک جیل میں بند تھے ان کی رہائی کی آواز بلند کرتا۔اس واقعہ میں مذکورہ دونوں طلباء کے بے قصور ہونے کی بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ہاں یہ بات الگ ہے کہ زرد سیاست اور زرد صحافت دونوں ہی اس پورے معاملہ کو دفن کرنے  کے لئے معاملہ کو کسی ایک کے سرمنڈھنے کے اپنے پرانے اور آزمودہ نسخہ کو  ان طلباء پر بھی آزمانا چاہتی ہیں تاکہ ماضی کے متعدد قصوں کی طرح یہ قصہ بھی تمام ہوسکے۔ لیکن ملک کے ذی ہوش دانشور اور اہل حق ہی نہیں خود جے این یو طلباء یونین کے صدر کنہیا کمار بھی ان کی بے گناہی کی نہ صرف بات کررہے ہیں بلکہ ان کی رہائی کے لئے پرزور احتجاج بھی کررہے ہیں۔ کنہیا کمار پراسٹوریز پر اسٹوریز شائع کرنے والا کارپوریٹ میڈیا جے این یو کے ہی ان دونوں طالب علموں پر مکمل خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے، بلکہ زرد صحافت کا علمبردار میڈیا جو ان دونوں کے خلاف منفی اسٹوری چلا تا رہتاہے، کارپوریٹ میڈیا اس معاملے میں گاہے بہ گاہے ان کے ہم رکاب بھی ہوجاتا ہے۔ اس طرح اس نے یہ ثابت کردیاہے کہ وہ اپنے مفادات کے لئے کسی وقت بھی کوئی بھی رخ اختیار کرسکتا ہے۔مفادات اسے اہل اقتدار سے قریب کرتے ہیں اور وہی اسے ان سے دور بھی لے جاتے ہیں۔

سوشل میڈیا کا کردار بھی متضاد رہا ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ اس میں منفی رپورٹنگ کے مقابلہ میں مثبت اورتعمیری رپورٹنگ زیادہ نظر آئی۔بلکہ جس جعلی ویڈیو کے ذریعہ یہ طوفان برپا کیا گیا تھا اس پر سے پردہ ہٹانے کا اصل کام تو سوشل میڈیا نے ہی کیا تھا۔ سوشل میڈیا  کا یہ مثبت اور تعمیری کردار کب تک برقرار رہتا ہے اس پر کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ اس لئے کہ اس کے پر کترنے اور اس کی آزادی کوسلب کرنے کی حالیہ کوششیں گرچہ عارضی طور پر روک دی گئی ہیں لیکن کلی طور پر ان سے دست برداری اختیار نہیں کی گئی ہے۔ نیشنل انکرپشن پالیسی National Encryption Policyکا ڈرافٹ اسی کی ایک کڑی ہے جسے حال ہی میں حکومت نے بڑی عجلت میں اس سبکی سے خودکوبچانے کے لئے، جواپوزیشن پارٹیوں اورسوشل میڈیاکے صارفین کی طرف سے اس پرکی جانے والی شدیدتنقیدکے سبب ہورہی تھی، یہ کہتے ہوئے واپس لینے کااعلان کیاتھا کہ”حکومت وزیراعظم نریندرمودی کی قیادت میں سوشل میڈیاکی فعالیت کومزیدفروغ دینے کی کوششوں میں مصروف ہے”۔ ڈرافٹ میں جن ضابطوں کا ذکر کیا گیا ہے اگر وہ من وعن نافذ کردئے جائیں تو وہ سوشل میڈیا جس کا اس وقت پوری دنیا میں طوطی بول رہا ہے، دنیاکے تعلیم یافتہ لوگوں کی بڑی آبادی ہی کیانیم تعلیم یافتہ حتی کہ غیرتعلیم یافتہ آبادی بھی اس کا استعمال کررہی ہے، عالمی سطح پر وقوع پذیراہم واقعات اورکارنامے اسی کے کھاتے میں ڈالے جارہے ہیں، ہمارے ملک میں اس سوشل میڈیا کی تصویر بالکل جدا ہوجائے گی۔ اس ڈرافٹ میں سوشل میڈیاسائیٹس کے ذمہ داران کے ساتھ ان کے صارفین پر بھی 90 دنوں تک پیغامات کو سنبھال کر رکھنے کولازمی قراردیاگیاہے جنہیں ضرورت پڑنے پر سیکورٹی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کوفراہم کرنا ہوگا ورنہ انہیں غیر قانونی قرار دیا جاسکتا۔ یہ ڈرافٹ دوبارہ کب بوتل سے باہر نکل آئے کچھ کہا نہیں جاسکتا ہے۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ سوشل میڈیا کے غیرجانبدارانہ کردار کے علاوہ صنعت کاروں اورحکمراں جماعت کے مابین روابط بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔اسی کا ہی ایک مظہر کانگریس پارٹی کے نائب صدر راہل گاندھی کا پارلیمنٹ میں دیا گیا وہ بیان ہے جس میں انہوں نے مرکزی حکومت پریہ الزام عائدکیاتھا کہ “وہ انٹرنیٹ کو بھی بڑے بڑے صنعت کاروں کو بانٹنا چاہتی ہے”۔

میڈیا کے کردار کو دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال کا ماضی میں دیا گیا وہ بیان زیادہ واضح انداز میں پیش کرتا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ “میڈیا پارٹی کے لیڈروں کی بیویوں اور بچوں کو نشانہ بنا رہا ہے…میڈیا کا ایک بڑا طبقہ  مجھے اور میری پارٹی کو ختم کرنے کے لئے سازش رچ رہا ہے اور کچھ میڈیا ہاؤس نے سپاری لے رکھی ہے”۔ماضی میں ہی میڈیا پر خودحکمراں طبقہ کی طرف سے اس سے بھی زیادہ جارحانہ الزامات عائدکئے جاچکے ہیں۔مرکزی وزیر جنرل (ریٹائرڈ) وی کے سنگھ نے الزام عائدکیاتھا کہ ان پر دباؤ بنانے کے لئے مسلسل کام کرنے والی ہتھیار لابی کی شہ پر میڈیا کا ایک حصہ ان کے خلاف ایک ‘منافق مہم’ چلا رہا ہے اور انہوں نے اس بارے میں وزیر اعظم نریندر مودی کو آگاہ کردیا ہے۔ انہوں نے پی ٹی آئی سے گفتگوکرتے ہوئے مزیدکہاتھاکہ”میں یہ نہیں کہوں گا کہ مختلف لوگوں کے ساتھ ان کے کیا تعلقات ہیں۔ بہت سے لوگ ہیں جنہیں وہ ادا کرتے ہیں۔ایسے میں، یقینا ہی کچھ صحافی اور دیگر لوگ ہوں گے جو اس طرح کا لکھیں گے جیسا ان سے کہا جائے گا”۔ ان سب باتوں کا ماحصل یہ ہے کہ میڈیاکی جانبداری ،بدعنوانی ،مفاد پرستی اور کسی فریق و فرد کی کردارکشی کوئی نئی بات نہیں ہے ،اس کی ارباب اقتداراورسرمایہ داروں سے وفاداری بھی بہت پرانی ہے۔ایک طرف نجی چینل ہیں جو کاروباری مفادات کے پیش نظر کبھی اقتدار اورسرمایہ داروں کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں تو کبھی ضرورت پڑنے پر اپنی راہ جدا کرلیتے ہیں، اور دوسری طرف وہ چینل ہیں جو حکومت کے ترجمان اور اس کے قصیدہ خواں نظر آتے ہیں۔ عوامی نشریات کہے جانے والے چینل عموما سرکاری تشہیر کا ذریعہ ہو کر رہ گئے ہیں۔

ایک ایسے وقت میں جب عمومی طور پر ملک کا میڈیا اپنی یہ تصویر پیش کررہا ہو اقدار پرمبنی صحافت اور اس کے مثالی کردار کی توقع سراب سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ جب میڈیامیں انصاف،حق گوئی اور غیر جانبداری کے لئے جگہ تنگ ہوتی جا رہی ہو، تصورات اور خواہشات سے ماوراء وہ عمل جس سے بہتر نتائج برامد کئے جاسکتے ہیں اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ غیرجانبدار میڈیا سے تعلقات استوار کرکے ان کی آواز کومضبوط اوربلند کرنے میں معاونت کی جائے، مفادات کے غلام کارپوریٹ میڈیا کے خود غرضانہ کردار کو گفت وشنید کے ذریعہ بدلنے کی کوشش کی جائے اور جانبدارانہ میڈیا کو بے نقاب کرنے اوران کا محاسبہ کرنے(میڈیا کے پبلک ٹرائل) کی کوئی راہ تلاش کی جائے جس کی طرف ماضی میں دہلی کے وزیراعلی اروند کیجریوال نے یہ کہتے ہوئے توجہ دلائی تھی کہ “کوئی چینل اگر غلط حقائق کے ساتھ خبر دکھائے تو لوگوں کو اس پر بحث کرنی چاہئے۔ مثال کے طور پر دہلی میں ایسے 8-10 مخصوص مقامات ہیں جہاں لوگ جمع ہوتے ہیں، وہاں یہ بتایا جائے کہ فلاں چینل نے اس طرح کی خبر دکھائی اور یہ جھوٹی تھی۔ اس طرح کے پبلک ٹرائل کی شروعات کی جا سکتی ہے”۔ اگر میڈیا کے تیزی سے بگڑتے ہوئے کردار کی طرف توجہ نہیں دی گئی تو اس وقت جس طرح سے میڈیامیں آزادء اظہار کی آڑ میں غلط بیانی سے کام لینے، افواہ پھیلانے ، کردارکشی کرنے، ناپسندیدہ شخصیات وطبقات کے خلاف مہم چلانے، اقتداروسرمایہ داروں کے اشاروں پرکام کرنے اوراس کے صلہ میں اپنے مفادات حاصل کرنے کی جو ایک ہوڑسی لگی ہوئی ہے اورایک دوسرے پر سبقت لے جانے  کے لئے جس طرح سے توانائی صرف کی جارہی ہے اگریہ سلسلہ یونہی جاری رہاتو اس کے بدترین نتائج برآمدہوںگے۔

 

از:  عمیرکوٹی ندوی

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights