مطلوبہ تبدیلی

0

انسان کا جسم دو چیزوں سے مرکب ہے:
۱)روح
۲) جسم
انسان جب اس جہانِ فانی کے مختلف نشیب و فرازسے گزرتا ہے ،تو اسے بہت سارے مسائل اور امراض کا سامنا ہوتا ہے ۔جن میں بعض کا تعلق اس کے جسمانی وجود سے ہوتا ہے اور بعض کا روحانی وجود سے۔ پھر جب انسان بیمار پڑتا ہے،یا کسی جسمانی تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے،تو وہ اس کے علاج کے لیے پریشان ہوجاتا ہے ، بسا اوقات مرض سنگین بھی ہو جاتا ہے،چنانچہ اس کے ساتھ ساتھ اس کے دوست احباب ،اور رشتے دار سب پریشان ہو جاتے ہیں اور ہر کوئی یہ چاہتا ہے کہ کسی طرح اسے اس مرض سے چھٹکارا نصیب ہو۔لیکن جب اسی شخص کو کوئی روحانی مرض لاحق ہو جاتا ہے تو اسے اس کی کوئی فکر نہیں ہو تی ہے اور مرض چاہے کتنا ہی سنگین کیوں نہ ہو جائے ،دوست احباب ،اور رشتے دار کسی کی پیشانی پر شکن تک نہیں آتی۔۔۔ آخرکیوں؟یہ جانتے ہوئے بھی کہ اصل زندگی ہماری آخرت کی زندگی ہے،ہم کس بے فکری کے شکار ہیں؟
مثال کے طور پر روحانی امراض میں سے ایک مرض’’خود پسندی‘‘ہے، جو ہمیشہ خوبصورت لباس میں نظر آتی ہے ،لیکن روح کو جہنم میں جھونکنے کا سبب بنتی ہے۔خود پسندی ا یک ایسی بیماری ہے جو انسان کواندھا کر دیتی ہے،اندھا اس طور پر کہ انسان کو اپنی ذات کے سلسلے میں ایسے دھوکے میں مبتلا کردیتی ہے کہ پھر وہ اپنی ذات میں سمٹ کر رہ جاتا ہے اور اُسے کسی کی اچھائی نہیں نظر آتی۔۔۔ یہ ان بیماریوں میں سے ایک ہے جو تنہا نہیں آتی ہیں بلکہ اپنے ساتھ بیماریوں کا ایک قافلہ لے کر آتی ہیں،کیونکہ جب انسان خود پسندی میں مبتلا ہوجاتا ہے،تو پھر وہ دوسروں کو حقیر سمجھنے لگتا ہے۔۔۔ان کا مذاق اڑانے لگتا ہے۔ قرآن وسنت میں اس رویے کی سخت مذمت کی گئی ہے۔
لمحہ فکریہ !!!
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنے وجود کے ایک اہم حصہ کو نظر انداز کیسے کر دیتے ہیں ؟؟
آخر ہمیں اس کی اہمیت کا احساس کیوں نہیں ہے؟ہم کبھی اس کے لئے فکر مند کیوں نہیں ہونا چاہتے؟؟۔۔۔۔۔۔
نماز ،روزہ،حج،اور زکوۃ تو محض رمائنڈر ہیں، یہ تو ہمارے اندر خدا کے سامنے جوابدہی کا محض احساس پیدا کرتے ہیں ۔اصل چیز تو انسان کی زندگی میں مطلوبہ تبدیلی ہے،روحانی تبدیلی، اخلاق وکردار اور رویے کی تبدیلی، جہاں ایک دوسرے سے محبت ہو،اپنی خواہشات و جذبات کے بجائے اللہ تعالی کی رضامندی پیش نظر ہو،اور جس طرح ہم جسمانی طور پر صحت مند رہنے کی کوشش کرتے ہیں، اسی طرح روحانی طور پر بھی صحت مند رہنے کی کوشش کرنے لگیں۔
(فخرالاسلام اعظمی، اسلامی اکیڈمی۔ نئی دہلی)

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights