مسئلہ بنگلہ دیش اور شہادت نظامی

0

تقسیم ہند اپنے آپ میں ایک بڑا سانحہ تھی، اس کے پیچھے کون کون سے عناصر کارفرما تھے اس سے قطع نظر، اس دوران آگ اور خون کا جو کھیل کھیلا گیا، اور اس کے نتیجے میں فرقہ واریت اور فسطائیت کو پورے خطے میں جس طرح پنپنے کا موقع ملا وہ برصغیر کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ سقوط ڈھاکہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے،سقوط ڈھاکہ کے پیچھے کن کن عناصر کا رول رہا یہ ایک الگ مسئلہ ہے، لیکن اس کے بعد فسطائی قوتوں کو ملک میں ظلم اور استبداد کا جو کھلا موقع ملا اور اس کے نتیجے میں ان فسطائی عناصر نے جب جب موقع ہاتھ آیاملکی فضا کوجس طرح مسموم کیا، وہ انسانیت کو شرمادینے والا واقعہ ہے۔
فسطائیت کو جہاں بھی اپنا رنگ دکھانے کا موقع مل جاتا ہے، وہاں شفافیت اور حق وانصاف کی جگہ خالص جبر اوراستبداد کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔ بنگلہ دیش میں گزشتہ چند سالوں سے برسراقتدار پارٹی کی جانب سے جماعت اسلامی اور بی این پی کے خلاف جو کچھ کارروائیاں ہورہی ہیں، اور اپنے ناپاک مقاصد کو روبہ عمل لانے کے لیے حکومتی اداروں اور عدلیہ کو جس طرح من مانے طور پر استعمال کیا جارہا ہے، یہ اس کی واضح مثال ہے۔ مولانا مطیع الرحمن نظامی امیر بنگلہ دیش جماعت اسلامی کی شہادت کے بعد ایک بار پھر برسراقتدار حسینہ واجد حکومت کا استبدادی چہرہ دنیا کے سامنے آگیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں اس وقت جو کچھ ہورہا ہے وہ خالص سیاسی انتقامی کارروائی ہے، جس میں عدل وانصاف کے تقاضوں کو بری طرح پامال کیا گیا ہے، اور ملک کی جمہوری ساکھ اور جمہوری اقدار کو زبردست چوٹ پہنچائی گئی ہے۔
انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل
بنگلہ دیش میں جس کالے قانون کے تحت جماعت اسلامی اور بی این پی کو نشانۂ ستم بنایا جارہا ہے، انٹرنیشنل لائرز اسوسی ایشن کے مطابق وہ بہت ہی کمزور قسم کا قانون ہے، ڈھاکہ میں اسوسی ایشن کی جانب سے منعقد کانفرنس میں سینئر ماہر قانون جسٹس ٹی ایچ خان نے صاف لفظوں میں کہا تھاکہ ’’یہ قانون سراسر جنگل کا قانون ہے۔ جس طرح کسی جانور کو باندھ کر ذبح کیا جاتا ہے، اس قانون کے تحت ملزمان کے ساتھ یہی سلوک کیا جائے گا۔ انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کے نام کے ساتھ ’انٹرنیشنل‘ کا لفظ ہی ایک کھلا مذاق ہے، کیونکہ اس کا کسی انٹرنیشنل معیار کے ساتھ دور دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے‘‘۔ (ہفت روزہ ایشیا لاہور، خصوصی اشاعت: بنگلہ دیش۔انصاف اور انسانیت کا قتل، صفحہ۲۰؍) اس کے علاوہ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دنیا بھر کے مختلف اداروں نے بھی اس قانون کو غلط اور انٹرنیشنل معیار سے گرا ہوا قرار دیا ہے۔ انگلینڈ کے مشہور قانون داں اسٹیفن جو انٹرنیشنل کرائمز کورٹ یوگوسلاویہ اور روانڈا کے وکیل بھی رہے ہیں، انہوں نے ڈھاکہ میں بنگلہ دیش سپریم کورٹ بار اسوسی ایشن کی جانب سے منعقد کانفرنس میں اس مقدمے کے تعلق سے کہاتھا کہ ’’جس قانون کے تحت یہ مقدمہ چلایا جارہا ہے وہ بنگلہ دیش کے دستور اور انٹرنیشنل قانون کے سراسر خلاف ہے۔ لہٰذا انٹرنیشنل کمیونٹی اس کو غیرجانبدارانہ تسلیم نہیں کرے گی۔ جنگی جرائم کے مقدمے کو انٹرنیشنل معیار کے مطابق بنانے کے لیے شفاف دلائل درکار ہوں گے۔ اس مقدمے کے ججوں کے تقرر میں فریقین کی رضامندی شامل ہونا لازمی ہے اور ان ججوں کا عالمی معیار کا ہونا بھی ضروری ہے۔ انٹرنیشنل قانون میں اس بات کو بالکل واضح کیا گیا ہے کہ کسی شخص کو ایسے جرم کی سزا نہیں دی جاسکتی کہ جس کی نشاندہی قانون کے مطابق اس وقت نہ کی گئی ہو، جبکہ یہ جرم سرزد ہوا تھا‘‘۔ (حوالہ مذکور، صفحہ ۲۱؍)
تاریخی تناظر
بنگلہ دیش میں موجودہ سیاسی بحران کو سمجھنے کے لیے اس کے تاریخی تناظر کو سمجھنا ضروری ہے۔ تقسیم ہند کے نتیجے میں جس پاکستان کا وجود عمل میں آیا تھا، وہ دو حصوں میں منقسم تھا، ایک مشرقی پاکستان اور دوسرا مغربی پاکستان، اور ان دونوں حصوں کے درمیان تقریباً دوہزار کلومیٹر کی دوری پائی جاتی تھی۔ اس وقت دارالحکومت مغربی پاکستان میں تھا، اور پاکستان کی اکثر سیاسی قیادت اور بیوروکریسی مغربی پاکستان ہی سے تعلق رکھتی تھی۔ مشرقی پاکستان کو اس بات کی مستقل شکایت تھی کہ وسائل کی تقسیم اور ملکی سیاست و بیوروکریسی میں مشرقی پاکستان کی حصہ داری کو مستقل نظرانداز کیا جارہا ہے۔مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان زبان اور کلچر کے اعتبار سے خاصا فرق موجود تھا، اور اس کی بنیاد پر گاہے بگاہے علیحدگی کی آوازیں بھی اٹھتی رہتی تھیں۔ یقینا علیحدگی کی اس آواز کے پیچھے مختلف عناصر کارفرما رہے ہوں گے، جس میں لسانی تعصب بھی شامل تھا، لیکن حقیقت یہ ہے، جس کا مختلف تجزیہ نگاروں نے خود جماعت اسلامی کی قیادت نے بھی اعتراف کیا ہے، وہ یہ کہ اس وقت پاکستان کی سیاسی قیادت پورے ملک کو ساتھ لے کر چلنے میں ناکام رہی، بیوروکریسی کا کردار بھی نامناسب رہا، اور ساتھ ہی ایک بڑا کردار پاکستان کے سیاسی عدم استحکام کا بھی رہا، وہاں کبھی بھی ایک مستحکم جمہوری نظام قائم نہیں ہوسکا، اور آئے دن فوجی انقلابات نے ملک کی صورتحال کو بگاڑنے میں خطرناک کردار ادا کیا۔ بہر حال ۱۹۷۰ء آتے آتے مشرقی پاکستان کی سیاسی قیادت کی مغربی پاکستان سے شکایات اور اختلافات میں کافی اضافہ ہوچکا تھا، جس کا اظہار ۱۹۷۰ء کے انتخابات کے نتائج کی صورت میں صاف طور پر ہوگیا تھا، جس میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں بڑی اکثریت حاصل کی، اور مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی نے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ انتخابات کے ان نتائج کو قبول کرتے ہوئے اقتدار ان کے حوالے کردیا جاتا، لیکن پاکستان کی سیاسی یا فوجی قیادت نے ان اختلافات اور شکایات کو سنجیدگی سے لینے کے بجائے ہمیشہ فوجی طاقت وقوت کے استعمال کو مسئلے کا حل سمجھا۔
جماعت اسلامی کا واضح اور دوٹوک موقف
مولانا مودودی علیہ الرحمہ نے ۱۹۷۰ء کے انتخابات سے دوماہ قبل ۲۴؍اکتوبر ۱۹۷۰ء کو فوج کے اس رویے پر تنبیہ کرتے ہوئے بہت صاف لفظوں میں کہا تھا:
’’میں آپ سے صاف کہتا ہوں کہ اس وقت فوج بھی ایسی پوزیشن میں نہیں کہ اس ملک کو ایک ملک رکھ سکے۔ اگر کسی کے اندر عقل ہے تو وہ خود غور کرے کہ اگر خدانخواستہ مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی تحریک زور پکڑجائے تو کیا آج فوجی طاقت کے بل پر اسے مغربی پاکستان کے ساتھ جوڑ کر رکھا جاسکتا ہے؟ پاکستان کے ان دونوں بازوؤں کو کسی فوج نے ملاکر ایک ملک نہیں بنایا تھا، بلکہ اسلامی اخوت اور برادری کے جذبے نے انہیں ملایا تھا، اور آج بھی یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ جڑے رہ سکتے ہیں تو صرف اس طرح کہ وہی اسلامی برادری کا جذبہ دونوں طرف موجود ہو اور مشرقی پاکستان کے لوگ خود یہ چاہیں یا کم ازکم ان کی بہت بڑی مؤثر اکثریت یہ چاہے کہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کا اتحاد برقرار رہے، ورنہ علیحدگی پسند اگر خدانخواستہ اس رشتۂ اخوت کو کاٹنے میں کامیاب ہوجائیں تو محض فوج کی طاقت کے بل بوتے پر آپ مشرقی پاکستان کو مجبور نہیں کرسکتے کہ وہ مغربی پاکستان کے ساتھ ملا رہے‘‘۔ (ہفت روزہ آئین، لاہور۔ ۱۲؍مارچ ۱۹۷۱ئ)
اس پورے تناظر میں خاص بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی نے اس وقت جہاں ایک طرف پاکستان کو ایک رکھنے کے لیے آخری لمحے تک کوشش کی، وہیں صورتحال کی تبدیلی کے لیے واقعی حل کی طرف بھی توجہ دلائی، ۱۹۷۰ء کے انتخابات کے بعد جماعت اسلامی نے بہت ہی واضح موقف اختیار کیا، اور کہا کہ انتخابات میں گرچہ بہت سی خامیاںا ور کمزوریاں تھیں، لیکن بہرحال ان کے نتائج کو قبول کیا جائے۔ جماعت اسلامی نے اس وقت عوامی لیگ کو، جسے مجموعی طور پر اکثریت حاصل ہوئی تھی، اقتدار منتقل کرنے کا مطالبہ کیا، اور اسے ملک میں جمہوریت کی بحالی کا پہلا مرحلہ قرار دیا۔ ۷؍دسمبر ۱۹۷۰ء کو انتخابات کے نتائج سامنے آنے کے فوری بعد مولانا مودودی علیہ الرحمہ کی صدارت میں جماعت کی مجلس عاملہ نے متفقہ قرارداد منظور کی، جس سے جماعت اسلامی کی پالیسی واضح طور سے سامنے آتی ہے:
’’مجلس عاملہ یہ تسلیم کرتی ہے کہ (انتخابی) بدعنوانیاں خواہ کتنے ہی بڑے پیمانے پر ہوئی ہوں، ملک کے مختلف حصوں میں جو لوگ کامیاب ہوئے ہیں، ان کو بہرحال معروف جمہوری اصولوں کے مطابق عوام کی اکثریت حاصل ہوئی ہے۔ جماعت چونکہ خود جمہوریت کی حامی ہے، اس لیے وہ قطعی طور پر یہ رائے رکھتی ہے کہ جو پارٹیاں کامیاب ہوئی ہیں، انہیں لازماً کام کرنے اور عوام کو یہ دیکھنے کا موقع ملنا چاہیے کہ وہ کس حدتک ان کی توقعات پوری کرتی ہیں۔ جمہوریت میں کسی انتخاب کا فیصلہ بھی آخری اور ابدی فیصلہ نہیں ہوتا۔ اگر اس ملک میں جمہوری طریق کار اپنی صحیح صورت میں جاری رہے، شہری آزادیاں محفوظ رہیں، اور وقتاً فوقتاً انتخابات ہوتے رہیں تو ہر جماعت کے لیے یہ موقع باقی رہے گا کہ عوام کی رائے کو اپنے حق میں ہموار کرسکے اور عوام کو بھی یہ موقع حاصل رہے گا کہ ایک گروہ کی کارکردگی کا تجربہ کرکے اگر وہ مطمئن نہ ہوں تو دوسرے انتخاب کے وقت کسی دوسرے کا تجربہ کریں‘‘۔ (ہفت روزہ آئین، لاہور۔ ۸؍جنوری ۱۹۷۱ئ)
سقوط ڈھاکہ اور اس کے بعد ۔۔ ۔۔۔
اقتدار کے نشے میں مست صدر مملکت یحییٰ خان اس مسئلے کی نزاکت کو سمجھنے سے قاصر رہے، عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن کو چند مذاکراتی کوششوں کے بعد گرفتار کرلیا گیا، اور ان کی پارٹی کے ممبران اسمبلی مشرقی پاکستان چھوڑ کر بھارت میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے اور پھر فوجی جارحیت کا ایک خطرناک کھیل شروع ہوا، جس میں بھارت نے بھی اپنا کردار ادا کیا، مختصر یہ کہ اس میں کافی جانی نقصان کے بعد پاکستانی فوج نے ہتھیار ڈال دیئے اور مشرقی پاکستان نے بنگلہ دیش کی صورت میں ایک خودمختار ریاست کے قیام کا اعلان کردیا۔
اس موقع سے جماعت اسلامی اور دیگر مختلف جماعتوں کا بھی یہی موقف تھا کہ ملک کو تقسیم ہونے سے بچایا جائے، اور اس موقف کو اختیار کرنے میں اصولی طور پر کوئی مضائقہ بھی نہیں تھا۔ ملک کو تقسیم سے بچانے کے لیے انہوں نے اپنی حد تک اخلاق اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کوششیں بھی کیں، لیکن بنگلہ دیش کے قیام کے بعد نہ صرف یہ کہ جماعت اسلامی نے بنگلہ دیش کو قبول کیا، بلکہ موقع ملنے پر اس نے وہاں ہر میدان میں غیرمعمولی طور پر ملک اور ملکی عوام کے لیے خدمات بھی انجام دیں، اور بہت ہی کم عرصے میں غیرمعمولی مقبولیت حاصل کی۔
جنگی جرائم کی حقیقت
بنگلہ دیش کے قیام کے بعد یہ بات بہت زوروشور کے ساتھ اٹھائی گئی کہ وہاں بڑا جانی ومالی نقصان ہوا ہے اور اس دوران خطرناک قسم کے جنگی جرائم سرزدہوئے ہیں، شیخ مجیب الرحمن حکومت کا دعوی تھا کہ ۳۰؍لاکھ افراد قتل کیے گئے ہیں اور ۲؍لاکھ خواتین کی عصمت دری کی گئی ہے، چنانچہ ان کا پتہ چلانے اور ان کی ذمہ داری طے کرنے اور ان کو قانون کے دائرے میںلانے کے لیے مختلف قوانین اور کمیشن بنائے گئے۔اس کی تفصیل پروفیسر خورشید احمد کے الفاظ میں کچھ یوں ہے:
’’جناب مجیب الرحمن نے جنوری ۱۹۷۲ء میں دو قانون نافذ کیے، ایک ’وارکرائمز ایکٹ‘ اور دوسرا ’وار کولیبریشن آرڈر۱۹۷۲ئ‘۔ وارکرائمز ایکٹ کے تحت پاکستانی فوج کے افسروں اور جوانوں پر مقدمہ چلایا گیا اور اس سلسلے میں ۱۹۵؍فوجیوں کو جنگی جرائم کا ملزم قرار دیا گیا۔ بھارت کی قید سے ان کی واپسی کا مطالبہ کیا گیا۔ بنگلہ دیش حکومت نے پاکستانی حکومت اور افواج کے مددگاروں کی حیثیت سے جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا، ان میں سے ۳۷ہزار ۴سو ۷۱ ؍پر الزامات عائد کیے گئے مگر مقدمہ صرف ۲؍ہزار ۸سو ۴۸؍پر چلایا گیا۔ بقیہ ۳۴؍ہزار ۶سو ۲۳؍کے خلاف کوئی ثبوت نہ ملنے کی بنیاد پر مقدمہ دائر نہ کیا جاسکا اور ان کو رہائی مل گئی۔ ان دوہزار ۸سو ۴۸؍ میں سے بھی جن پر مقدمہ چلایا گیا عدالت نے صرف ۷۵۲؍کو سزا دی۔ باقی پر کوئی جرم ثابت نہ ہوسکا اور وہ بھی رہا کردیے گئے۔ یہ امر واضح رہے کہ ان ۲؍ہزار ۸سو ۴۸؍میں کوئی بھی جماعت اسلامی سے متعلق نہیں تھا۔ اس طرح یہ بھی واضح رہے کہ ان دو قوانین کے تحت کارروائی کے ساتھ تیسرا اقدام بھی کیا گیا اور وہ بنگلہ دیش کی دستور ساز اسمبلی کے ۱۲؍ارکان پر مشتمل ایک کمیٹی تھی، جسے جنگی جرائم کے مرتکب افراد کے بارے میں معلومات جمع کرنے کا کام سونپا گیا اور اسے ’ایم سی اے کمیٹی‘ کہا گیا، اور عوامی لیگ کے آفس میں اس کا دفتر قائم کی گیا۔ اس کے ساتھ مبینہ طور پر پاکستانی فوج کے ستم زدہ لوگوں کو زرتلافی (Compensation)ادا کرنے کے لیے بھی انتظام کیا گیا اور وزارت خزانہ کے سپرد یہ کام ہوا کہ جس خاندان میں کوئی شخص مارا گیا ہے ان کو زرتلافی دیا جائے۔ سرکاری اعدادوشمار جو بعد میں بنگلہ دیش کی قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے ان کی رو سے اس پوری کوشش کے نتیجے میں ۷۲؍ہزار افراد نے Claim دائر کیے اور تحقیق کے بعد ۵۰؍ہزار کو زرتلافی ادا کیا گیا۔ ان متأثرین نے اپنے نقصان کا جنہیں ذمہ دار ٹھہرایا، ان قوتوں میں جماعت اسلامی کا دور دور کا بھی تعلق ریکارڈ پر نہ لایا گیا۔ (ظاہر ہے کہ اس طرح کی کوئی رائی بھی ہوتی تو اس کا پہاڑ ضرور بنایا جاتا)۔(ہفت روزہ ایشیا لاہور، ۲۵؍ستمبر ۲۰۱۳ئ، صفحہ ۲۹؍)
۱۹۷۱ء کی جنگ کے بعد سے بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان کے آپسی تعلقات میں کافی تلخیاں آگئی تھیں، چنانچہ تینوں ممالک کی مشترکہ کوششوں سے ۱۹۷۴ء میں ایک معاہدہ ہوا، اس معاہدے سے متعلق پروفیسر خورشید احمد لکھتے ہیں: ’’اس کے نتیجے میں بنگلہ دیش نے ہندوستان میں قید ۱۹۵؍پاکستانی فوجیوں کی واپسی کا مطالبہ واپس لے لیا اور یہ مطلوب جنگی قیدی باقی جنگی قیدیوں کے ساتھ پاکستان واپس کردیے گئے۔ ‘‘ آگے لکھتے ہیں: ’’دوسری قسم کے مطلوبہ افراد جنہیں شریک کار کہا گیا تھا، ان کے بارے میں نومبر ۱۹۷۳ء میں شیخ مجیب الرحمن نے عام معافی کا اعلان کیا تھا۔ ان چند سزا یافتہ افراد کے سوا جن کو بہت ہی سنگین جرائم میں سزا دی گئی تھی۔ بعد میں ان کو بھی معافی دے دی گئی اور اس طرح یہ افراد بھی دوسال کے بعد رہا کردیے گئے۔‘‘ (حوالہ مذکور)
یہی وہ حقائق تھے جن کی بنا پر ۲۰۰۷ء سے قبل جماعت اسلامی کے کارکنوں کے خلاف جنگی جرائم یا کسی دوسری زیادتی کا کوئی واضح الزام نہیں لگایا گیا۔ ۱۹۷۳ء کی عام معافی اور ۱۹۷۴ء کے معاہدے کے بعد تو جنگی جرائم کی فائل ہی سرے سے بند کردی گئی تھی۔ لیکن ادھر چند سالوں سے عوامی لیگ کی حسینہ واجد حکومت ان تمام حقائق کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپوزیشن پارٹیز (جماعت اسلامی اور بی این پی) کو ان تمام واقعات کا ذمہ دار قرار دینے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے، اور جنگی جرائم سے متعلق مختلف جھوٹے الزامات کے تحت جماعت اسلامی اور بی این کے قائدین کو نشانۂ ستم بنایا جارہا ہے۔
عوامی لیگ اور جماعت اسلامی
مسئلے کو اور زیادہ وضاحت سے سمجھنے کے لیے عوامی لیگ اور جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے آپسی تعلقات کو سمجھنا بھی بہت ضروری ہے۔ ۱۹۸۰ء کی دہائی میں بنگلہ دیش میں جمہوریت کی بحالی اور فوجی حکومت کے خاتمے کے لیے عوامی لیگ اور جماعت اسلامی نے مشترکہ مہم چھیڑی تھی۔ فروری ۱۹۹۱ء میں بنگلہ دیش میں ہوئے عام انتخابات میں کسی بھی پارٹی کو واضح اکثریت نہ ملنے کی صورت میں عوامی لیگ نے جماعت اسلامی کو اپنے ساتھ حکومت میں اشتراک کی دعوت دی تھی، حتی کہ پروفیسر غلام اعظم مرحوم کو وزیر بنانے تک کی پیشکش کی تھی۔ ۱۹۹۴ء سے ۱۹۹۶ء تک بی این پی کی حکومت کے خلاف جماعت اسلامی اور عوامی لیگ نے مل کر عبوری حکومت کی تشکیل اور صاف وشفاف آزادانہ انتخابات کے لیے مشترکہ طور پر مہم چلائی تھی۔ اس دوران جماعت اور عوامی لیگ مل کر سارے پروگرامس اور حکمت عملی طے کرتی تھیں۔ اس پورے دورانیے میں ایک دفعہ بھی عوامی لیگ کی جانب سے یہ بات نہیں کہی گئی کہ آپ دیش مخالف ہیں یا ہم آپ کو جنگی جرائم کا مرتکب سمجھتے ہیں۔ عوامی لیگ ۲۰۰۸ء سے قبل دو دفعہ اقتدار میں آئی، ۱۹۷۱ء اور ۱۹۹۶ء میں، اس دوران بھی عوامی لیگ نے جماعت اسلامی کے خلاف کسی قسم کی نہ تو کارروائی کی اور نہ ہی کوئی الزام لگایا۔
اصل مسئلہ
اصل مسئلے کا آغاز ۲۰۰۱ء سے ہوتا ہے۔ عوامی لیگ نے گرچہ ملک کی آزادی کی تحریک کی قیادت کی تھی، لیکن قیام بنگلہ دیش کے بعد کبھی بھی عوامی لیگ کو وہ مقبولیت حاصل نہیں ہوئی جو مقبولیت اس طرح کی سیاسی جماعتوں کو حاصل ہوا کرتی ہے۔ چنانچہ وہ دو بار ہی حکومت بنانے میں کامیاب ہوسکی۔ اس دوران اس کے لیڈر شیخ مجیب الرحمن اور ان کے اہل خانہ کو پھانسی ہوگئی اور بنگلہ دیش کو مختلف قسم کے سیاسی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ اکتوبر ۲۰۰۱ء میں ملک میں آٹھویں عام انتخابات منعقد ہوئے، ان اتخابات میں عوامی لیگ کو خطرناک شکست کا سامنا کرتے ہوئے ۵۸؍نشستوں پر اکتفا کرنا پڑا، جبکہ ۳۰۰؍نشست کی پارلیمنٹ میں جماعت اسلامی، بی این پی اور دوسری دو چھوٹی پارٹیوں کے اتحاد کو ۱۹۷؍نشستیں ملیں۔ انتخابات کے نتائج سے صاف ظاہر تھا کہ اس اتحاد کو جماعت اسلامی کی عوامی مقبولیت سے غیرمعمولی فائدہ حاصل ہوا ہے۔ اب عوامی لیگ کو اس بات کا اندازہ ہوگیا تھا کہ اگر بی این پی اور جماعت اسلامی اتحاد برقرار رہ گیا تو عوامی لیگ کا سیاسی کریئر خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
اسی سال یعنی ۲۰۰۱ء سے عوامی لیگ نے جماعت اسلامی کے خلاف محاذ کھول دیا۔ عوامی جذبات کا استحصال کرنے کے لیے اس سے اچھا کوئی حربہ نہیں ہوسکتا تھا کہ ۱۹۷۱ء کے گڑے مردے اکھاڑے جائیں۔ چنانچہ اسی وقت سے عوامی لیگ نے اپنے کرتب دکھانے شروع کردیے۔ بدقسمتی سے ۲۰۰۸ء کے عام انتخابات آتے آتے بی این پی کی غلط پالیسیوں اور اس کے وزراء کی بدعنوانیوں سے دل برداشتہ ہوکر عوام نے حسینہ واجد کو حکومت بنانے کا موقع دے دیا۔ حکومت سنبھالنے کے بعد ہی سے حسینہ واجد نے سارے سیاسی داؤ کھیلنے شروع کردیے اور اپوزیشن بالخصوص جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے خلاف خطرناک قسم کی انتقامی کارروائیوں کا آغاز کردیا۔ ۱۹۷۳ء میں پاکستان کے آرمی افسران اور دیگر فوجی عہدیداروں کے خلاف ٹرائل کے لیے جو قانون بنایا گیا تھا، اب اسی کو اپوزیشن پارٹیوں بالخصوص جماعت اسلامی کے خلاف استعمال کیا جانے لگا۔ اس کے لیے ۲۰۱۰ء میں انٹرنیشنل کرائم ٹریبونل کا قیام عمل میں لایا گیا، جس کے سلسلے میں قدرے تفصیل کے ساتھ ابتدا میں گفتگو کی گئی ہے۔ اس ٹریبونل کے تحت یکے بعد دیگر ے جماعت اسلامی اور بی این پی کے قائدین کے خلاف کارروائیوں کا آغاز کردیا، جس کے تحت اب تک متعدد افراد کو پھانسی کی سزادی جاچکی ہے،اور متعدد ابھی قطار میں ہیں۔
تشویشناک صورتحال
اس وقت بنگلہ دیش سیاسی انتقام اور جبرواستبداد کی آگ میں جل رہا ہے۔ ملک میں ایمرجنسی جیسے حالات پیدا کردیے گئے ہیں۔ نہ عدلیہ آزاد ہے اور نہ میڈیا اور دوسرے حکومتی ادارے۔ ہزاروں ہزار کی تعداد میں نوجوانوں اور بزرگوں کو پابند سلاسل کردیا گیا ہے۔ نہ جانے کتنے افراد کو عوامی مظاہروں کے درمیان قتل کردیا گیا ہے۔ جہاں کسی نے حق اور انصاف کے لیے آواز اٹھانے کی کوشش کی اس کو اغوا کرلیا جاتا ہے اور چند دنوں کے بعد اس کی لاش غیرمعلوم مقام سے ملتی ہے۔ وکیلوں اور حقوق انسانی کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور اداروں کو اس قدر خوف وہراس میں مبتلا کردیا گیا ہے کہ وہ اپنی زبان تک کھولنے کی جرأت نہیں کرتے۔
یقینا جبرواستبداد کے اس ماحول میں عوام کی زبان بند کی جاسکتی ہے، من چاہے طریقے سے قیدوبند اور قتل وخون کیا جاسکتا ہے، لیکن زمینی حقائق کو ہرگز تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ بنگلہ عوام جماعت اسلامی اور اس کی سرگرمیوں سے نہ صرف خوب اچھی طرح واقف ہیں بلکہ اس سے خوب مانوس بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ حکومت صاف وشفاف اور بنگلہ دستور کے مطابق آزادانہ الیکشن کرانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ زمینی سطح پر خدمت خلق اور عوامی ویلفیئر کے لیے بنگلہ دیش جماعت اسلامی کی جدوجہد نے جو غیرمعمولی اثرات مرتب کیے ہیں، ان کی موجودگی میں بنگلہ عوام کو اتنی آسانی سے گمراہ کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوگا۔ عوام کے درمیان جماعت اسلامی کی غیرمعمولی مقبولیت ہی ہے کہ مولانا مطیع الرحمن نظامی کی پھانسی سے قبل پورے ملک میں حفاظتی دستوں کو بڑی تعداد میں تعینات کردیا گیا تھا۔ برسراقتدار حکومت فی الواقع ملک کے کچھ غداروں سے نہیں بلکہ اپنے ملک کے عوام کی بڑی اکثریت سے نبردآزما ہے۔ مسئلہ صرف جماعت اسلامی اور بی این پی کا نہیں ہے، بلکہ اصل مسئلہ ملک میں اپنے اقتدار کو مستقل طور پر یقینی بنانے اور اپوزیشن کو توڑ کر رکھ دینے کا ہے۔
قافلۂ سخت جاں پھر بھی رواں دواں
اس موقع پر ایک بار پھر اسلامی تحریک نے اپنی پرامن جدوجہد اورغیرمعمولی صبرواستقلال کا مظاہرہ کیا ہے۔ ملک کی اس قدر مقبول جماعت کے امیر کی پھانسی کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا، لیکن اس موقع پر بھی جماعت اسلامی نے جس قدر صبر اور برداشت کا ثبوت پیش کیا، اور جس طرح اپنی جدوجہد کو حسب سابق پرامن انداز سے جاری رکھے ہوئے ہے، اس سے یقینا عوام کے درمیان ان پر اعتماد میں اضافہ ہوگا۔ بنگلہ دیش میں اور اس سے قبل مصر اور دیگر ممالک میں ملکی حکومتوں اور بیرونی عناصر کی جانب سے اس بات کی بارہا کوشش ہوئی کہ تحریک اسلامی (بالخصوص جماعت اسلامی اور اخوان المسلمون) تشدد کا راستہ اختیار کرلے، تاکہ ان کو اپنے ناپاک مقاصد حاصل کرنے میں آسانی ہوسکے، لیکن الحمدللہ مصر میں بھی اور بنگلہ دیش میں بھی تحریک اسلامی نے جس قدر حکمت اور دوراندیشی کا ثبوت دیا ہے، اس کو توفیق خداوندی اور نصرت خداوندی ہی کہا جاسکتا ہے۔ حالانکہ مصر میں ملک کی پہلی منتخب جمہوری حکومت کے خلاف فوج کے ذریعہ ایک منظم سازش کے تحت بغاوت کرائی گئی اور ظلم وجارحیت کی انتہا کردی گئی اور بنگلہ دیش میں تحریک کے قائد اعظم کو بے بنیاد الزامات لگاکر علی الاعلان پھانسی کی سزا دی گئی۔
مسلم دنیا کا ایک بہت بڑا مسئلہ مسلم ممالک میں ایک خود مختار اور آزادانہ جمہوریت کا قیام ہے۔ مسلم دنیا کے بیشتر ممالک یا تو مطلق العنان بادشاہت کی راہ پر چل رہے یا جمہوریت کے نام پر بعض جابروظالم نظامہائے حکومت قائم ہیں۔ بنیادی انسانی حقوق، آزادیٔ رائے اور انتخاب، خودمختار اور اپنے فیصلوں میں آزاد نظام حکومت کا قیام، مسلم دنیا کے عوام ان تمام چیزوں سے ابھی ناواقف ہیں یا ان سے محروم رکھے گئے ہیں۔ دنیا بھر کے نام نہاد جمہوریت کے علمبرداربھی یہی چاہتے ہیں کہ مسلم دنیا کے ممالک اور ان کے عوام کا اسی طرح استحصال ہوتا رہے تاکہ ان کو اپنے مقاصد کے حصول میں کسی طرح کی رکاوٹ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
تحریک اسلامی کے لیے پیغام
شہید مولانا مطیع الرحمن نظامیؒ نے اپنے عدالتی بیان میں ایک بہت ہی اہم بات کہی تھی، وابستگان تحریک اسلامی کے لیے اس میں بہت بڑا پیغام ہے:
’’جنگی جرائم یا انسانیت کے خلاف جرائم سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے اور اللہ تعالی کی مہربانی سے میں کبھی کسی ایسی سرگرمی میں ملوث نہیں رہا۔ کوئی بھی حکومت آخری حکومت نہیں قرار دی جاسکتی، نہ دنیا کی کسی عدالت کو آخری عدالت قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس عدالت کے بعد ایک اور عدالت ہے اور تمام افراد کو اس عدالت کا سامنا کرنا پڑے گا‘‘۔
آخری ملاقات میں گھروالوں کو تسلی دیتے ہوئے نظامی صاحب نے فرمایا:
’’اس کائنات میں بس ایک ہی دربار ہے، جہاں سے رحمتیں تقسیم ہوتی ہیں۔ میں نے وہاں رحم کی اپیل داخل کردی ہے۔ اس کے علاوہ مجھے کسی کے رحم کی ضرورت نہیں۔ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اگر اس نے مجھے شہادت کی خلعت پہنانے کا فیصلہ کیا ہے، تو ہمارے لیے اس سے زیادہ خوشی کی بات اور کیا ہوسکتی ہے؟‘‘۔

 

از: ابوالاعلی سید سبحانی

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights