قرآن مجید کا طریقہ تعلیم و تربیت ۔ حصہ دوم
زکوٰۃ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ آخرت کی یاد دہانی ہے۔ اس طورپر کہ اپنا مال زکوٰۃ میں دے کر ہم اسے اللہ کی طرف لوٹا دیتے ہیں۔ اسی طرح اپنی جان بھی اس کو سپرد کردیتے ہیں۔ چنانچہ زکوٰۃ کی ادائیگی میں خاکساری اور فروتنی حددرجہ ضروری ہے۔ فرمایا ہے: وَیُؤْتُونَ الزَّکَاۃَ وَہُمْ رَاکِعُونَ(سورہ مائدہ(۵۵)دوسری جگہ ہے: وَالَّذِیْنَ یُؤْتُونَ مَا آتَوا وَّقُلُوبُہُمْ وَجِلَۃٌ أَنَّہُمْ إِلَی رَبِّہِمْ رَاجِعُونَ (سورہ مؤمنون:۶۰) معلوم ہوا کہ زکوٰۃ خشوع اور خوف کے پہلو سے نماز ہی کی طرح ہے](فراہیؒ۔ مفردات القرآن:۱۹۱)
روزے کے متعلق فرمایا: یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَo(سورہ بقرہ: ۱۸۳)
[روزہ کے جسم پر پڑنے والے اثرات سے عرب واقف تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کے روحانی فوائد یعنی تقوی، نفس کو پاک کرنا اور غریبوں اور محتاجوں کے ساتھ حسن سلوک کی طرف انھیں متوجہ کیا۔
قرآن مجید میں روزہ کے حکم سے پہلے عرب صوم کو صوم ہی کہتے تھے۔ وہ یہودونصاری کو روزہ رکھتے ہوئے دیکھتے تھے۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں بتایا کہ یہ تعذیب نفس کے لیے نہیں ہے جیسا کہ یہودونصاری سمجھتے تھے بلکہ پاک کرنے کے لیے ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا مقصد انھیں تنگی میں ڈالنا نہیں ہے](فراہیؒ۔ الرائع فی اصول الشرائع۔ ص ۷۵- ۷۶)
حج کے سلسلہ میں فرمایا:’’ فَمَن فَرَضَ فِیْہِنَّ الْحَجَّ فَلاَ رَفَثَ وَلاَ فُسُوقَ وَلاَ جِدَالَ فِیْ الْحَجِّ وَمَا تَفْعَلُواْ مِنْ خَیْر یَعْلَمْہُ اللّہُ وَتَزَوَّدُواْ فَإِنَّ خَیْرالزَّادِ التَّقْوَی وَاتَّقُونِ یَا أُوْلِیْ الأَلْبَابِ‘‘ (بقرہ: ۱۹۷)اس سے پہلے (۱۸۹۔۱۹۵) میں [اللہ تعالیٰ نے حج ، قتال اور انفاق کا ایک ساتھ ذکر کیا ہے اور تقوی کو اس کی غرض وغایت بتایا ہے تاکہ تقوی کے ساتھ ان کے تعلق کا ہمیں علم ہو۔’’تزوّدوا‘‘ کا مطلب ہے تقوی کو زادراہ بناؤ۔ ان لوگوں کی طرح نہیں جو حج میں دنیاوی فائدہ کے لیے آتے ہیں](فراہیؒ۔ تعلیقات سورہ بقرہ)
کیونکہ عبادت اگر تقوی سے خالی ہو تو وہ ایک رسمی چیز بن کر رہ جاتی ہے۔ اسی لیے فرمایا ہے: لَّیْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّواْ وُجُوہَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَـکِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَالْمَلآئِکَۃِ وَالْکِتَابِ وَالنَّبِیِّیْنَ وَآتَی الْمَالَ عَلَی حُبِّہِ ذَوِیْ الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَالسَّآئِلِیْنَ وَفِیْ الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلاۃَ وَآتَی الزَّکَاۃَ وَالْمُوفُونَ بِعَہْدِہِمْ إِذَا عَاہَدُواْ وَالصَّابِرِیْنَ فِیْ الْبَأْسَاء والضَّرَّاء وَحِیْنَ الْبَأْسِ أُولَـئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوا وَأُولَـئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُونَ (بقرہ: ۱۷۷) اس آیت نے پورے دین کو اپنے احاطہ میں لے لیا ہے اور کوئی چیز اس سے باہر نہیں رہنے دی ہے۔
ہمارے خانگی امور میں تقوی کے پہلو سے مردوزن کے تعلق کی وضاحت کی ہے اور پاکیزہ زندگی گزارنے کا حکم دیا ہے۔ زن وشوکے رشتہ میں حدود کا پاس ولحاظ رکھنے اور صلح ومصالحت سے کام لینے کی نصیحت کی ہے، بالخصوص مردوں کو اخلاق ومروت اور بلند ظرفی کا ثبوت دینے اور پابند عہد رہنے کا درس دیا، کیونکہ نکاح مردوزن کے درمیان ایک پختہ میثاق اور مضبوط بندھن ہے۔ اسی بناپر طلاق میں جلد بازی سے روکا ہے۔ اگر اس کی نوبت آجائے تو مطلقہ کو نان نفقہ دینے کا حکم دیا ہے اور اسے’’حقا علی المحسنین‘‘ اور ’’حقا علی المتقین‘‘ (سورہ بقرہ:۲۳۶ اور ۲۴۱) کہہ کر اسے ان کے اوپر ایک حق واجب قرار دیا ہے۔ اور بات کو اس جملہ پر ختم کیا ہے: کَذَلِکَ یُبَیِّنُ اللّہُ لَکُمْ آیَاتِہِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ (آیت: ۲۴۲)
اگر مطلقہ یا بیوہ کا کوئی سرپرست نہ ہو تو اس کی کفالت کی ذمہ داری تمام مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے۔ اس لیے اس فرض سے منہ نہیں موڑا جاسکتا۔
اولاد،قرابت مندوں اور یتیموں وغیرہ کے حقوق قرآن مجید میں پوری صراحت کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ سورہ نساء کے شروع میں وراثت کی تقسیم اس طرح کی ہے کہ کسی کی حق تلفی نہ ہو۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلے تقوی کا حکم دیا، اس کے بعد یتیموں کے حقوق بیان کیے۔پھر وراثت میں حصہ پانے والوں کا ذکر کیا۔ وراثت کی تقسیم کو اللہ تعالیٰ نے اپنی وصیت قرار دیا ہے۔ چنانچہ سب کے حصے متعین طورپر بتادیے ہیں اور ان میں کمی بیشی کرنے کو حدود الٰہی کی خلاف ورزی کہا ہے اور خلود فی النار کی دھمکی دی ہے۔اس سے کئی باتوں کی طرف رہنمائی ہوئی ہے:
۱۔ ایک یہ کہ کسی انسان کے بس میں نہیں ہے کہ وہ حصوں کی صحیح صحیح تقسیم کرسکے کیونکہ ہمارا علم محدود ہے اور ہماری طرف سے ناانصافی اور غلطی ہونے کا بہت زیادہ امکان ہے۔
۲۔ دوسرے یہ کہ مورث جان بوجھ کر یا کسی دباؤ میں آکر یاکسی جذبہ سے مغلوب ہوکر کسی کی طرف جھک نہ جائے۔ اس وجہ سے بھی معاملہ کو اس پر نہیں چھوڑا گیا ہے۔
۳۔ تیسرے محجوب الارث کے لیے مورث کو کچھ نہ کچھ وصیت کرجانا چاہیے اور اس سے گریز نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یتامی میں سب سے مقدم وہی ہیں۔
۴۔ چوتھے ورثاء میں اگر کسی وارث کی حق تلفی ہوتی ہے تو باقی ورثاء کو اس پر خاموشی نہیں اختیار کرنی چاہیے۔ یہ چیز شہادت سے تعلق رکھتی ہے۔
۵۔ مال وراثت میں اپنے حق اور حصہ میں دوسروں کے حق اور حصہ کو شامل نہیں ہونے دینا چاہیے۔ کیونکہ یہ ان کے لیے مال حرام ہے۔
مال وراثت کو ہڑپ کرنے والوں کے متعلق سورہ فجر (۱۷۔۲۰) میں سخت تنبیہ آئی ہے: ’’کَلَّا بَل لَّا تُکْرِمُونَ الْیَتیمَ oوَلَا تَحَاضُّونَ عَلَی طَعَامِ الْمِسْکِین ۔وَتَأْکُلُونَ التُّرَاثَ أَکْلاً لَّما ۔ وَتُحِبُّونَ الْمَالَ حُبّاً جَمّاً‘‘۔
کسب حلال کو اللہ تعالیٰ نے ہم پر فرض کیا ہے اور پاکیزہ رزق حاصل کرنے کے لیے پاک ذرائع اختیار کرنے کی تاکید کی ہے۔ سود کو حرام ٹھہرایا ہے کیونکہ یہ باہمی تعاون، رحمدلی اور خیرخواہی کے خلاف ہے۔ سورہ بقرہ(۲۶۱۔۲۷۴) میں انفاق اور اس کے ساتھ جذبۂ خیرخواہی اور اللہ کی رضا جوئی کا ذکر ہے۔ اور انفاق کی برکت کی تمثیل بیان کی ہے۔ اس کے بعد آیات(۲۷۵۔۲۷۶) میں سود کی حرمت، اس کی بے برکتی، سود لینے والوں کی عقل کی خرابی اور اللہ کے ساتھ ان کی عداوت کا ذکر کیا ہے اور بتادیا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔
انفاق کے ساتھ احسان، مواسات، حسن اخلاق، حلم، صبر، بلند ہمتی اور ہمیشہ باقی رہنے والے خیر کی طلب کا ذکر ہے۔ یہ وہ صفات ہیں جو پاکیزگیٔ نفس سے عبارت ہیں۔ جبکہ سودخوری سے اس کے بالکل برعکس صفات پیدا ہوتی ہیں۔ جو خلاف فطرت اور خلاف انسانیت ہیں۔ قرآن مجید نے تجارت کو سود سے الگ کیا ہے۔ اور آزاد تجارت سے اپنی معیشت کو مستحکم کرنے کی بات کہی ہے تاکہ لوگوں کو پاکیزہ رزق حاصل ہو اور انسانی بنیادوں پر ان کے درمیان روابط قائم ہوں۔ مکروفریب کے بجائے سچائی اور ایمان داری کی بنیاد پر معاشی نظام فروغ پائے۔
جس طرح ایک ایماندارانہ معاشی نظام سماج کی ضرورت ہے اسی طرح امن وامان کے قیام کے لیے انصاف پسند حکومت کا ہونا بھی ضروری ہے جو لوگوں کی جان ومال کی محافظ اور ان کے حقوق کی نگراں ہو۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے[سیاست، تعاون اور اتحاد معیشت کے بہت سے اصول وفرائض بیان فرما دیے ہیں اور معاشرہ کے عام معاملات ومسائل سے الگ تھلگ رہنے کا نہایت واضح طورپر ابطال کیا ہے۔ یہیں سے یہ بات صاف ہوگئی کہ جب اللہ تعالیٰ نے ہم پر ایک دوسرے کو حق وصبر کی نصیحت کرنے کا فرض عائد کیا ہے تو لازما ہم کو اظہار حق کے لیے تقریر کی آزادی بھی بخشی ہے۔ چنانچہ ہم اسلام کے اصولوں میں یہ بات پاتے ہیں کہ ایک طرف تو امت پر یہ فرض عائد کیا گیا ہے کہ وہ امیر کی کامل اطاعت کرے اور دوسری طرف یہ ذمہ داری بھی ڈالی گئی ہے کہ وہ حق کا اعلان کرتی رہے اور نصیحت کا کلمہ کہنے میں ہر خوف سے بے پرواہو۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اس امت کو اللہ تعالیٰ نے شہداء کے لقب سے ممتاز فرمایا ہے، جس کے معنی حق کی گواہی دینے والے کے ہیں](فراہیؒ۔ تفسیر سورہ والعصر: ۳۵۷۔۳۵۸)
چونکہ حکومت عدل وانصاف کو قائم کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہے اس لیے اس کے خلاف کام کرنے والوں کو سزادینے کی ذمہ داری اسی پر عائد ہوتی ہے اور دوسروں کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہوتی۔ قرآن مجید نے اس سلسلہ میں واضح ہدایات دی ہیں۔ مثلاً قتل کے معاملہ میں سورہ بقرہ (۱۷۸-۱۷۹) میں فرمایا ہے: ’’یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الْقِصَاصُ فِیْ الْقَتْلَی الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالأُنثَی بِالأُنثَی فَمَنْ عُفِیَ لَہُ مِنْ أَخِیْہِ شَیْْء ٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاء إِلَیہ بِإِحْسَانٍ ذَلِکَ تَخْفِیْفٌ مِّن رَّبِّکُمْ وَرَحْمَۃٌ فَمَنِ اعْتَدَی بَعْدَ ذَلِکَ فَلَہُ عَذَابٌ أَلِیمٌo وَلَکُمْ فِیْ الْقِصَاصِ حَیَاۃٌ یَاْ أُولِیْْ الأَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَo ‘‘
]یہ فرق وامتیاز یعنی آزاد کی حیثیت آزاد کی اور غلام کی حیثیت غلام کی صرف خوں بہا کے معاملہ میں ہے۔ لیکن جہاں تک انسانی جان کا تعلق ہے اس میں آزاد اور غلام سب برابر ہیں۔ امام ابوحنیفہؒ کی یہی رائے ہے[(فراہیؒ۔ تعلیقات سورہ بقرہ)
سورہ مائدہ(۳۲) میں فرمایا ہے: ’’ مَن قَتَلَ نَفْساً بِغَیرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِیْ الأَرْضِ فَکَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعاً وَمَنْ أَحْیَاہَا فَکَأَنَّمَا أَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعاً‘‘ [جو کسی کو قتل کردے بغیر اس کے کہ اس نے کسی کو قتل کیا ہو یا فساد پھیلایا ہو ایسے شخص سے کسی کی جان محفوظ نہیں ہوتی۔ اس وجہ سے سب پر یہ ذمہ داری ڈالی گئی کہ اس کو گرفت میں لینے کے لیے حکومت کی مدد کریں تاکہ حکومت ہر ایک کی طرف سے اس سے انتقام لے۔ اور جب حکومت ایسا کرتی ہے تو تمام انسانوں کی طرف سے اس سے بدلہ لیتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے اگر شریعت اس ایک قاتل سے کسی کی حفاظت کرتی ہے تو گویا پوری امت کی حفاظت کرتی ہے۔[ (تعلیقات سورہ مائدہ)
اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ[اگر کوئی شخص کسی قتل کو چھپاتا ہے، یا قاتل کے حق میں جھوٹی گواہی دیتا ہے، یا قاتل کا ضامن بنتا ہے، یا قاتل کو پناہ دیتا ہے، یا قاتل کی دانستہ وکالت کرتا ہے، یا دانستہ اس کو جرم سے بری کرتا ہے، وہ گویا خود اپنے اور اپنے باپ، بھائی، بیٹے کے قاتل کے لیے یہ سب کچھ کرتا ہے، کیونکہ ایک کا قاتل سب کا قاتل ہے] (مولانا امین احسن اصلاحیؒ، تدبر قرآن، تفسیر سورہ مائدہ)
نیز سزاؤں کے نفاذ میں اگر لوگوں کے درمیان تفریق یا کسی قسم کی رورعایت کی جاتی ہے تو یہ خلاف عدل ہوگا اور جرم وسزا سے متعلق قانون کے کوئی معنی نہ ہوں گے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک مخزومیہ عورت نے چوری کی تو قریش نے حضرت اسامہ بن زیدؓ سے جو آپؐ کو بہت عزیز تھے اس کے لیے سفارش کرائی۔ آپؐ نے ان سے فرمایا تم اللہ کی مقرر کی ہوئی حدود میں سے ایک حد کے معاملہ میں سفارش کرنے آئے ہو؟ پھر آپؐ خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے اور فرمایا:’’لوگو، تم سے پہلے قوموں کو اسی چیز نے تباہ کیا کہ ان کا حال یہ ہوگیا تھا کہ اگر ان میں سے کوئی معزز آدمی چوری کرتا تو اس کو چھوڑ دیتے، اور اگر کوئی معمولی آدمی چوری کرتا تو اس پر حد جاری کرتے۔ بخدا میں ایسا نہیں کرنے کا، اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تو اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔‘‘(متفق علیہ)
پیغمبر کے شہید ہونے کا مطلب یہی ہے کہ وہ لوگوں کے لیے حق وانصاف کا نمونہ ہو اور اس کی امت اس کے طریقہ پر چلنے والی ہو۔ اسی وجہ سے فرمایا ہے: وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّۃً وَسَطاً لِّتَکُونُواْ شُہَدَاء عَلَی النَّاسِ وَیَکُونَ الرَّسُولُ عَلَیْْکُمْ شَہِیْداًoسورہ بقرہ: (۱۴۳)
(سورہ نساء: ۱۳۵) میں ہے:یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُونُواْ قَوَّامِیْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَاء لِلّہِ وَلَوْ عَلَی أَنفُسِکُمْ أَوِ الْوَالِدَین وَالأَقْرَبِیْنَ إِن یَکُنْ غَنِیّاً أَوْ فَقَیْراً فَاللّہُ أَوْلَی بِہِمَا فَلاَ تَتَّبِعُواْ الْہَوَی أَن تَعْدِلُواْ وَإِن تَلْوُواْ أَوْ تُعْرِضُواْ فَإِنَّ اللّہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیْراًo رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا اور سفارشی کو رد کرکے اس کا ثبوت دیا وہ اس آیت سے کلی مطابقت رکھتا ہے۔
سورہ حج کے آخر میں ہے:وَجَاہِدُوا فِیْ اللَّہِ حَقَّ جِہَادِہِ ہُوَ اجْتَبَاکُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَیْْکُمْ فِیْ الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ مِّلَّۃَ أَبِیْکُمْ إِبْرَاہِیْمَ ہُوَ سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمیْنَ مِن قَبْلُ وَفِیْ ہَذَا لِیَکُونَ الرَّسُولُ شَہِیْداً عَلَیْْکُمْ وَتَکُونُوا شُہَدَاء عَلَی النَّاسِ۔
یہ آیت مسلمانوں کے فرض منصبی کو بتا رہی ہے کہ وہ ایسی امت ہیں جو ملت ابراہیمی کی تکمیل کے لیے برپا کی گئی ہے[جس کی بنا اسلام کامل پر ہے۔ یعنی یہ امت اپنے باپ ابراہیم واسماعیل علیہما السلام کی سنت کے مطابق اللہ کی راہ میں قربانی ہے اور اس کی زندگی اور موت اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔اسی وصف کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اسے برگزیدہ کرکے سارے عالم پر اپنا گواہ بنایا ہے](فراہیؒ۔ذبیح کون ہے،ص:۱۲۔۱۵)
اس امت کو اتنے بلند مقام پر اس لیے فائز کیا گیا کہ اس کو جو کتاب دی گئی ہے وہ اسے اخلاق وعمل کی انتہائی بلندی پر پہنچانے کے لیے دی گئی ہے اور اس کے پیغمبر نے اپنے عمل سے اس کی گواہی دے دی ہے۔ اور اپنے متبعین کے اندر اس کا حوصلہ پیدا کیا ہے کہ ان کے نقش قدم پر چل کر دوسروں کے لیے مثال قائم کریں۔ لیکن کوشش وعمل میں سب ایک ہی درجہ پر نہیں ہوتے اور نہ سب کا حال یکساں ہوتا ہے۔ ان میں درجات کے فرق کا ہونا ناگزیر ہے]اسی لیے آپ دیکھتے ہیں کہ پیغمبر کی طرف سبقت کرنے والوں میں اول اس کی قوم کے شریف النفس اور پاکباز لوگ ہوتے ہیں۔ مومنین میں سے مسابقین کو جو فضیلت کا درجہ ملا ہے تو اس کی وجہ یہی ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ جب افق سے روشنی نمودار ہوتی ہے تو سب سے پہلے پہاڑ کی بلند ترین چوٹی منور ہوتی ہے، پھر جو اونچائی میں اس سے قریب تر ہوتی ہے۔ اسی طرح درجہ بدرجہ نیچے کی چوٹیاں روشن ہوتی جاتی ہیں۔ یا آسمان سے بارش ہو تو جو زمین زیادہ زرخیز ہوتی ہے وہ پہلے لہلہا اٹھتی ہے۔یہی حال امت کا ہے۔ اس میں سب سے پہلے پیغمبر کی ذات بیدار ہوتی ہے، پھر صدیقین، شہداء اور صالحین متنبہ ہوتے ہیں۔ اس کے بعد ان کے متبعین کا نمبر آتا ہے۔ اور جب یہ فصل پک کر تیار ہوجاتی ہے تو اللہ تعالیٰ دانوں کو جمع کرکے الگ کرلیتا ہے اور خس وخاشاک کو آگ میں جھونک دیتا ہے۔
یہیں سے وہ حکمت واضح ہوتی ہے جو پیغمبر اور ان کے اصحاب کو سخت آزمائشوں سے گزارنے میں ملحوظ رکھی گئی ہے تاکہ جس کے اندر ذرہ برابر ایمان ہو وہ کافروں اور منافقوں کی صف میں نہ رہ جائے۔ اس چھان پھٹک میں وہ مومنین کی صف میں سے ان لوگوں کو بھی خارج کردیتا ہے جو نور ایمان کے بغیر اس میں شامل ہوگئے ہیں] (فراہیؒ۔القائد الی عیون القائد)
چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان اور اہل کفرونفاق کو الگ الگ جماعت قرار دیا ہے۔ اور دوسری جماعت کے لوگوں بالخصوص ان کے سرکردہ افراد کی طرف جھکاؤ رکھنے سے سختی سے منع کیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ اگر ہم ان کی طرف جھکیں گے تو اللہ کی نصرت سے محروم ہو جائیں گے جیسا کہ فرمایا ہے: وَلاَ تَرْکَنُواْ إِلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُواْ فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ وَمَا لَکُم مِّن دُونِ اللّہِ مِنْ أَوْلِیَاء ثُمَّ لاَ تُنصَرُونَ(فراہیؒ۔ تعلیقات سورہ ھود: ۱۱۳)
سورہ آل عمران(۱۰۰۔۱۰۵) میں ہے: أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوَاْ إِن تُطِیْعُواْ فَرِیْقاً مِّنَ الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ یَرُدُّوکُم بَعْدَ إِیْمَانِکُمْ کَافِرین وَکَیْفَ تَکْفُرُونَ وَأَنتُمْ تُتْلَی عَلَیْْکُمْ آیَاتُ اللّہِ وَفِیْکُمْ رَسُولُہُ وَمَن یَعْتَصِم بِاللّہِ فَقَدْ ہُدِیَ إِلَی صِرَاطٍ مُّسْتَقِمٍo یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّہَ حَقَّ تُقَاتِہِ وَلاَ تَمُوتُنَّ إِلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُونَo وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّہِ جَمِیْعاً وَلاَ تَفَرَّقُواْ وَاذْکُرُواْ نِعْمَتَ اللّہِ عَلَیْْکُمْ إِذْ کُنتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَینَ قُلُوبِکُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِہِ إِخْوَاناً وَکُنتُمْ عَلَیَ شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَکُم مِّنْہَا کَذَلِکَ یُبَیِّنُ اللّہُ لَکُمْ آیَاتِہِ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُونo وَلْتَکُن مِّنکُمْ أُمَّۃٌ یَدْعُونَ إِلَی الْخَیْرِ وَیَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَأُوْلَـئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحونo وَلاَ تَکُونُواْ کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُواْ وَاخْتَلَفُواْ مِن بَعْدِ مَا جَاء ہُمُ الْبَیِّنَاتُ وَأُوْلَـئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ عَظِیمo
[اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اہل کتاب کے اختلافات اور ان کے جمع مال کا بہت زیادہ ذکر کیا ہے اور اہل ایمان کو اس سے سختی کے ساتھ روکا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ توحید کے بعد شریعت کا پہلا مطالبہ رحمدلی اور انسانی ہمدردی کا ہے۔ اور اختلاف شیطان کا پہلا حربہ ہے جس کے ذریعہ وہ قوموں کو گمراہی کے کھڈمیں ڈھکیل دیتا ہے۔
سورہ آل عمران خاص طورپر اسی بات کی تعلیم کے لیے رکھی گئی ہے۔ اور خلافت کے استحقاق کو اللہ تعالیٰ نے اتحاد پر منحصر کیا ہے جو اس تزکیہ سے عبارت ہے جس کے لیے حضرت ابراہیمؑ نے دعا فرمائی تھی۔ اس باب میں قرآن مجید نے کئی جگہوں پر خبر دی ہے کہ یہ پیغمبرؐ لوگوں کو کتاب (یعنی احکام شریعت) اور حکمت (یعنی مکارم اخلاق) کی تعلیم دیتا ہے اور تمام طرح کی آلائشوں سے پاک کرکے ان کا تزکیہ کرتا ہے اور اس طرح انہیں نفس واحدہ بنادیتا ہے۔ اس میں تزکیہ ہی وہ چیز ہے جو پوری شریعت کو محیط ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ میں ہم کو ایسے سیاسی اور تمدنی احکام دیے ہیں جو باہمی اختلاف کو ختم کرتے ہیں، صلح وآشتی پیدا کرتے ہیں اور ہمیں پاک صاف بناتے ہیں] (فراہیؒ۔تفسیر سورہ بقرہ،ص:۴۱)
از: عبید اللہ فراہی