غلبہ دین اور جاوید احمد غامدی

0

قوموں کے عروج وزوال کی داستان انسانی تاریخ کے صفحات پر ثبت ہے۔اگر ان داستانو ں کا مطالعہ کریں تو ہم دیکھتے ہیںکہ قومیں گمنامی کے گوشہ سے ابھرتی ہیںاور دیکھتے  ہی دیکھتے پوری دنیا پر چھا جاتی ہیں۔تہذیب وتمدن کے عروج پر پہنچتی ہیں۔ قومیںجب غالب آتی ہے اس وقت انکی عظمت اور شوکت کو دیکھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ اب اس عروج کوکبھی زوال نہ ہوگا۔ لیکن قوموں کا فطری وقت ختم ہو جانے کے بعد انکی بساطــ ہرکما لے رازوالے کے ابدی اصول کے تحت لپیٹ دی جاتی ہیں۔ بعض قومیں سو جاتی ہیں۔ بعض تاریخ کے دھندلکوں میں کھو جاتی ہیں،بعض قعر ذلت میں ایسی گر ی کہ پھر کبھی انکو اٹھنا نصیب نہ ہوا۔اور کچھ تو صفحہ ہستی سے اس طرح مٹ گئی کہ گویا انکا وجود کبھی تھا ہی نہیں تاریخ میں انکی حیثیت ایک داستان عبرت کی سی رہ گئی۔ اسلام اور مسلمانوں کو بھی ایسا ہی زبردست  غلبہ حاصل ہو اتھا۔مسلمانوں کی طاقتور حکومتیں دنیا میں قائم ہوئیں۔ سائنس، ٹکنالوجی،  علوم و فنون، طب، تاریخ، ادب، علوم عمرانیات، سیاسی وانتظامی امور، دولت وحشمت میں کوئی قوم انکے ہم پلہ نہ تھی۔ ایک طویل عرصہ تک مسلمان اس دنیا پر غالب رہے۔ جن فطری اصولوں کے تحت ان کو عروج حاصل ہوا تھا انھی اصولوں کے تحت زوال انکا مقدر بنا۔ اس زوال کے ساتھ ہی اسلامی نشاۃالثانیہ کی کوششیں بھی امت مسلمہ میں شروع ہوگئیں۔ مسلمانوںکے اندر احیائی تحریکیں اٹھنا شروع  ہوئیں۔  جمال الدین افغانی جنہیں احیائی تحریکوں کا باوا آدم کہا جاتاہے سے لیکر سید ابواعلی مودودی جنہوں نے احیائی تحریکوں کو اک منظم فکر اور ایک مربوط طریقہ کار دیا تک ایک مسلسل جدوجہد نظر آتی ہیں۔ یہ تحریکیں اس عزم کے ساتھ اٹھی کہ    ؎

آسماں ہوگا سحر کے  نور سے آئینہ پوش

اور ظلمت رات کی سیماب پا ہوجائے گی

پھر  دلوں کو  یاد  آجائے گا پیغام  سجود

پھر جبیں خاک حرم سے آشنا ہو جائے گی

اسی طرح مسلمانوں میں بعض لوگ اس فکرو خیال کے بھی پیدا ہوئے کہ بلا شبہ اسلام اک برتر مذہب اور اسلامی تہذیب اک برتر تہذیب ہے لیکن سچائی اب بہر حال  یہی ہے کہ یہ تہذیب اپنے سے کمتر تہذیب سے شکست کھاگئی۔ دن بہ دن گہرا ہوتا انحطاط، مٹتے عظمت کے نشاں،گرتی قدریں ان اسباب نے ایک مایوسی کی کیفیت پیدا کردی۔ شاید ایسی ہی فکر کی طرف حالی نے اشارہ کیا تھا۔

پستی کا کوئی  حد  سے گزرنا  دیکھے

اسلام  کا  گر کر  نہ  ابھرنا  دیکھے

مانے نہ کبھی کہ مد ہے ہر جزر کے بعد

دریا  کا  ہمارے  جو  اترنا  دیکھے

اسی شکست خوردہ ذہنیت میں حالات کے نشیب  وفراز،امت مسلمہ کی گرتی ساکھ، مسلم ممالک کی ابتر حالت، احیائی تحریکوں کی اپنے مقاصد میں ناکامی، امت مسلمہ کی روز بہ روز بگڑتی تہذیبی اور اخلاقی صورت حال اور موجودہ تہذیب کا زبردست غلبہ دیکھ کرایک ا ورعجیب قسم کی فکر یہ بھی پیدا ہو ئی کہ یہ دین سرے سے کوئی غلبہ ہی نہیں چاہتا۔اس کے مزاج اور فطرت میں کوئی انقلابی پیغام نہیں ہے۔ یہ کسی اجتمائی قانون کے نفاذ کیلئے کوئی عملی جدوجہد نہیں چاہتا ہیں ۔ اسکی تعلیمات میں اجتماعی نظم قائم کرنے سے متعلق کوئی احکامات نہیں ہیں بلکہ ارباب حل وعقد کو دی گئی چند نصیحتیں اور اخلاقی اصول ہیں ۔ دین کا نفاذ، اسکے حدود کی اقامت، اور اسلامی نظام کا قیام اس طرح کا کوئی مطالبہ مسلمانوں سے نہیں ہے، انکی ذمہ داری صرف وعظ ونصیحت اور تبلیغ و تلقین ہے۔ دوسرے مذاہب کی طرح اسلام بھی صرف انسان کی ذات، اسکے اخلاق اور تزکیہ سے متعلق چند احکامات دیتا ہے۔ معاشرہ،حکومت ،سماج اسکے اصل مخاطب ہی نہیں ہیںبلکہ وہ صرف فرد کو مخاطب کرتا ہے۔ عصر حاضرمیں اس فکر کی سب سے موثر اور مدلل آواز محترم جاوید احمد غامدی صاحب کی ہے۔ جاوید احمد غامدی صاحب ایک عرصہ دراز تک نہ صرف یہ کہ غلبہ دین کی فکر کو پسند کرتے تھے بلکہ اسکے لئے عملی جدوجہد کرنے والی تحریک جماعت اسلامی سے باضابطہ وابستہ بھی تھے۔ اپنی کتاب ’’غلبہ ٔ دین کی جدوجہد‘‘  میں آیت ’’اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے اور اچھے کام کرنے کا حکم دے اور برے کاموں سے منع کرے یہی لوگ ہیں جو نجات پانے والے ہیں ‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں ،’’ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دین کے اس غلبہ کی جدوجہدقرآن کی رو سے ہر مسلمان پر ا سکی استطاعت اور صلاحیت کے مطابق بہرحال واجب ہے۔ اس کا پہلا مرحلہ جیسا کہ ہم نے عرض کیا خود مسلمانوں میں دین کے نفاذ اور دوسرا مرحلہ دنیا کی قوموں پر اس کا سیاسی غلبہ ہے‘‘ـ ۔ ایک طویل عرصہ تک اسی فکر وخیال کے حامل رہنے کے بعد بدلتے حالات میں چیزوں پر نئے سرے سے غور کرنے کے بعد وہ اس فکر پر قائم نہ رہ سکے۔اب غلبہ دین سے متعلق افکارو نظریات،تحریکات،لٹریچر،اور اصطلاحات پر زبردست تنقید کرتے ہیں۔ اس مضمون میں ہم نے اسی فکر کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔ غامدی صاحب کے افکار کا جائزہ لیتے وقت ہم نے دوسرے اہل علم کی بہ نسبت مولانا امین احسن اصلاحی کی تحریروں سے زیادہ استفادہ کیا ہے۔ اس کی دو وجوہات رہیں اول یہ کہ بقول غامدی صاحب انہوں نے جو بھی علم حاصل کیا خدا کے فضل اور مولانا امین احسن اصلاحی سے حاصل کیا۔ دوسرے یہ کہ غامدی صاحب اپنی تحریروں میں اکثر یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیںکہ جو فکر وہ پیش کررہے ہیں یہ وہی فکر ہے جو مولانا امین احسن کی تھی۔ اپنی کتاب میزان کے دیباچہ میں لکھتے ہیں  ’’اسکی ہر محکم بات کو پروردگار کی عنایت اور میرے جلیل القدر استاذ مولانا امین احسن اصلاحی کی رشحات فکر سے اخذ واستفادہ کا نتیجہ سمجھئے اور اس میں کوئی بات کمزور نظر آئے تو میری کوتاہی علم پر محمول کیجئے‘‘۔

خلافت کے متعلق غامدی صاحب اپنے مضمون  ’’خلافتــ‘‘ میں لکھتے ہیں ۔ ’’ اس میں شبہ نہیں کہ خلافت کا لفظ اب کئی صدیوں سے دینی اصطلاح کے طور پر استعمال ہوتا رہا ہے۔ لیکن یہ ہرگز کوئی دینی اصطلاح نہیں ہیں۔ دینی اصطلاح رازی،غزالی، ماوردی، ابن حزم،اور ابن خلدون کے بنانے سے نہیں بنتی اور نہ وہ لفظ جسے مسلمان کسی مفہوم میں استعمال کرنا شروع کردیں دینی اصطلاح بن جاتا ہے۔یہ اللہ اور اسکے رسول کے بنانے سے بنتی ہے۔ اور اسی وقت قابل تسلیم ہوتی ہے،جب ان کا اصطلاحی مفہوم  قرآن و حدیث کے نصوص یادوسرے الہامی صحائف سے ثابت کردیا جائے۔‘‘  بلاشبہ دینی اصطلاح رازی، غزالی، ماوردی، ابن حزم،اور ابن خلدون کے بنانے سے نہیں بنتی لیکن کسی لفظ کی اصطلاحی حیثیت صرف غامدی صاحب  کے انکار سے بھی ختم نہیں ہوجاتی۔ قرآن مجید میں کوئی لفظ اصطلاحی حیثیت میں استعمال ہوا یا نہیں ظاہر ہے قرآنی علوم کے ماہرین اسکے استعمال کی بنیاد پر طے کرینگے قرآن اسکی کوئی فہرست بنا کر تو نہیں دیتا ہے۔لفظ خلافت ہمیشہ سے قرآنی اصطلاح کے طور پر ہی استعمال ہوتا رہا ہے۔ اگر غامدی صاحب کو اس سے اختلاف ہے توانھیں اس کے لیے ان دلائل کے مقابلے بہت ہی مظبوط دلائل دینے ہونگے جو خلافت کی اصطلاحی حیثیت کیلئے دیے گئے ہیں یا کم ازکم اسی درجہ مضبوط دلائل دینے ہونگے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں غامدی صاحب کی گفتگو وزنی دلائل دینے سے خالی ہیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد خلافت کے اصطلاح ہونے کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں، ’’ خلافت عربی کاایک مصدر ہے اسکا مادہ ’خلف‘ ہے اور اسی سے خلیفہ ہے۔ خلافت کے لغوی معنی نیابت اور قائم مقام کے ہیں۔ یہ لفظ بھی قرآن حکیم کے اختیار لغویہ میں سے ہیں یعنی عربی زبان کے ان لفظوںمیں سے ہیں جن کو لغت میں عام معانی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے مگر قرآن حکیم نے خاص اپنے مصطلحہ شرع معنی کے لئے اختیار کرلیا  جیسے ایمان ،تقدیر،بعث، صلوۃ ،وغیرہ ذالک  قرآن کی زبان میں خلافت اور استخلاف فی الارض سے مقصود زمین کی قومی عظمت وریاست اورقوموں اور ملکوں کی سلطنت ہے۔ قرآن حکیم اس کو سب سے بڑی نعمت قرار دیتا ہے جو اچھے یقین اور اچھے کاموں کے بدلے اقوام عالم کو دنیا میں ملتی ہے۔‘‘

غامدی صاحب اسی مضمون میں آگے تفہیم القرآن پر طنز کرتے ہوئے کسی لفظ کے اصطلاح ہونے کا عجیب وغریب قاعدہ بیان کرتے  ہوئے لکھتے ہیں۔’’چنانچہ قرآن کی جو آیات خلیفہ اور خلافت کے الفاظ کو انکے ترجمہ میںبعینہہ قائم رکھ کر لوگوں کو یہ باور کرانے کیلئے پیش کی گئی ہیں کہ قرآن نے یہ لفظ کسی خاص اصطلاحی مفہوم میں استعمال کیا ہے انھیں کسی مستند ترجمے یا تفسیر میں دیکھ لیجئے حقیقت اس طرح واضح ہو جائیگی کہ آپ کہ پاس بھی تبصرہ کیلئے کوئی الفاظ نہیں باقی نہیں رہ جائے گے جس طرح کہ میرے ناقدین میں سے ایک صاحب علم کے پاس نہیں رہے ہیں ‘‘  گویا غامدی صاحب کے نزدیک کسی لفظ کے اصطلاح ہونے کی شرط یہ ہی کہ اسکا ترجمہ نہ کیا جائے۔ اس اعتبار سے تو صلوٰۃ بھی دینی اصطلاح نہیں رہتی کیونکہ اکثر مفسرین نے اسکا ترجمہ نماز کیا ہے خود محترم غامدی صاحب نے اپنے ترجمہ قرآن البیان میں بھی اسکا ترجمہ ہی استعمال کیا ہے۔ اسی طرح لفظ خلافت کے بارے میں وضاحت کرتے ہو ئے ایک سوال کے جواب میں کہ نظام خلافت کس طرح قائم ہوتا ہے؟  غامدی صاحب جواب دیتے ہیں، ’’ یہ ایک افسانہ ہے۔ خلافت کوئی دینی اصطلاح نہیں ہے۔ بلکہ جانشینی کے معنی میں استعمال ہوتی ہیں۔ کوئی نظام خلافت قسم کی چیز دین میں نہیں ہے۔ جو لوگ نظام خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں میں اکثر ان سے کہتا ہوں کہ وہ کیا چڑیا ہے بتادیجئے اگرخلافت سے مراد عباسیوں اور امیوں کی حکومت ہے تو مجھے اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور آپ کو بھی نہیں ہونی چاہیے خلافت کوئی شرعی لفظ نہیں ہے اور اس کی کوئی شرعی حیثیت ہی نہیں ہے۔‘‘ اسی طرح کے خیالات کا اظہار غامدی صاحب اپنے دوسرے سوالات کے جوابات میں بھی کرتے رہتے ہیں۔ غامدی صاحب کو اصل اختلاف نہ لفظ سے ہیں نہ اسکی معانی سے ،بلکہ مسئلہ انکی وہ خود ساختہ فکرہے ۔ لفظ خلافت استعمال کرتے ہی اسلامی نظام کا جو تصور ابھرتا ہے وہ غامدی صاحب کے فلسفہ دین سے راست ٹکراجاتا ہے اس لئے غامدی صاحب  نے اس کے اصطلاح ہونے سے ہی انکار کردیا۔

غامدی صاحب کے استا ذامام مولانا امیں احسن اصلاحی اپنی کتاب’’ اسلامی ریاست‘‘ میںخلافت کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں، ’’ریاست کا اسلامی تصور اس اصطلاح کے اندر چھپا ہوا ہے جو اسلام نے ریاست کی تعبیر کے لئے استعمال کی ہیں اسلامی لٹریچر پر نظرکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ اسلام نے اپنے اصولوں قائم شدہ سیاسی تنظیم کیلئے ریاست،سلطنت، یا حکومت کی اصطلاحیں نہیں اختیار کی ہیں بلکہ خلافت،امارت یا امامت کی اصطلاحیں اختیار کی ہیں۔ خلافت کی اصطلاح اسلامی اصولوں پر قائم شدہ ریاست کیلئے استعمال ہوتی ہے۔ امامت،یا امارت سے مراد وہ گورنمنٹ ہے جوخلافت کے اداروں کی تنفیذ کرتی ہیں۔‘‘

اسی کتاب میں خلافت کے صحیح تصور اور اسکی بگڑی ہوئی شکل کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں، ’’ریاست کا اسلامی تصور سمجھنے کیلئے ہمیں سب سے پہلے یہ حقیقت ملحوظ رکھنی چا ہیے اسلام میں ریاست ایک ریاست نہیں بلکہ خلافت ہے۔ پھر ساتھ ہی یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے ہیںکہ کسی چیز کا صحیح تصور اسکی معیاری شکل ہی سے اخذ کیا جاسکتا ہے۔ اس وجہ سے یہاں خلافت کی بھی صرف معیاری شکل ہی زیر بحث ہے۔ اس کی بگڑی ہوئی شکلیں جن کی مثالیں تاریخ میں موجود ہے ہمارے لیے کار آمد نہیں ہے۔‘‘

اسکی صفات کو بیان کرتے ہومولانا مزید وضاحت کرتے ہیں ’’پانچواں یہ کہ یہ منصب اپنے مزاج کے لحاظ سے صرف ایک انفرادی منصب نہیں ہے بلکہ ایک اجتماعی اور سیاسی منصب بھی ہے۔تمام انسانوں کو یا کم از کم ان سارے لوگوں کو جو اس منصب کی ذمہ داریوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ انفرادی طور پر بھی اس منصب کے فرائض پورے کرنے ہیں اور اجتمائی طور پر بھی اسکے مقاصد کو بروئے کار لانے کیلئے ایک نظام قائم کرنا ہے۔ کیونکہ اس نظام کے بغیر اس کے مقاصد پورے نہیں ہو سکتے‘‘۔

مولانا امین احسن اصلاحی خلافت کو نہ صرف یہ کہ اسلامی اصطلاح قرار دے رہے ہیں بلکہ اس منصب کے فرائض کو ادا کرنے کیلئے ایک سیاسی نظام کو بھی لازمی قرار دے رہیں ہیں اس کے بر عکس غامدی صاحب اس کو اسلامی اصطلاح ماننا تو بہت دور اس کو افسانہ قرار دے رہے ہیں۔

مولانا سید ابواعلی مودودی خلافت کی تعریف بیان کرتے ہوئے’’ خلافت وملوکیت‘‘ میں لکھتے ہیں، ’’ انسانی حکومت کی صحیح صورت قرآن کی رو سے صرف یہ ہے کہ ریاست خدا اور رسول کے قانونی بالا دستی تسلیم کریں اس کے حق حاکمیت سے دستبردار ہو جائے۔ اور حاکم حقیقی کے تحت خلافت(نیابت) کی حیثیت قبول کرے۔ اس حیثیت میں اسکے اختیارات خواہ و تشریعی ہوں یا عدالتی یا انتظامی لازماً ان حدود سے محدود ہونگے جو اوپر بیان ہوئے ہیں۔ اس خلافت کا جو تصور قرآن میں دیا گیا ہے وہ یہ کہ زمین میں انسان کو جو قدرتیں بھی حاصل ہیں خدا کی عطا اور بخشش سے حاصل ہیں۔ خدا نے خود انسان کو اس حیثیت میں رکھا ہے کہ وہ اسکی بخشی ہوئی طاقتوں کو اسکے دیے گئے اختیار سے اسکی زمین میں استعمال کریں۔ اس لئے انسان یہاں خود مختار مالک نہیں بلکہ اصل مالک کا خلیفہ ہے۔

قدیم مفسرین لفظ خلیفہ سے کیا مراد لیتے تھے اسکے لئے آیت ،’’ اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک نائب بنانے والا ہوں‘‘ (سورہ بقرہ:۳۰) کی تشریح کرتے ہوئے مولانا عروج احمد قادری صاحب نے امت مسلمہ کا نصب العین میں جو حوالہ دیے ہیں وہیںہم یہاں نقل کررہے ہیں۔

امام بغوی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں، ’’اس میں خلیفہ سے مراد آدم ہیں اور انکو خلیفہ اس لئے کہا گیا کہ وہ اللہ کی زمین میں اسکے احکام کی اقامت اور اسکے فیصلوں کی تنفیذ کیلئے اللہ کے خلیفہ تھے‘‘۔ تفسیر خازن میں ہے، ’’ اور صحیح قول یہ ہے کہ حضرت آدم خلیفہ سے اس لئے موسوم ہوئے کہ وہ اللہ کی زمین میں اس کے حدود کی اقامت اور اس کے فیصلوں کو نافذ کرنے کیلئے اللہ کے خلیفہ تھے ‘‘۔ تفسیر جلالین میں ہے، ’’ وہ میری زمین پر میرے احکام کو نافذ کرنے میں میری نیابت کریگا اور وہ آدم ہیں۔ ‘‘  بیضاوی میں یہ ہے، ’’خلیفہ اس کو کہتے ہیں جو دوسرے کا قائم مقام اور اس کا نائب ہو اور اس سے مراد آدم ہیں اسلئے کہ کہ وہ زمین میں اللہ کے خلیفہ تھے اور اسی طرح ہر نبی اللہ کا خلیفہ تھے۔ اللہ نے تمام انبیاء کو زمین کی آبادی لوگوں کے امور کی تدبیر ،ان کے نفوس کی تکمیل اور ان پر احکام الہی کی تنفیذ کیلئے اپنا خلیفہ بنایا تھا ۔‘‘ اسی طرح کی عبارت روح المعانی میں ہے، ’’ آدم زمین میں اللہ کے خلیفہ تھے اور اسی طرح تمام انبیاء اللہ کے خلیفہ تھے۔ ‘‘ تفسیر کبیر میں یہ عبارت ہے، ’’ خلیفہ کے معنی ہیں وہ شخص جو اللہ کا نائب ہو حکومت اور فیصلے میں اور حاکم اور قاضی کی ضرورت اس وقت ہوتی ہے جب تنازع اور جور اور ظلم موجود ہو۔‘‘

قرآن مجید زمین کی وراثت کو خلافت سے تعبیر کرتا ہے۔’وہی پروردگار ہے جس نے تم کو زمین میں خلافت دی۔‘(انعام۔۱۶۵)۔

اللہ تعالی نے مختلف قوموںکو زمین میں اقتدار بخشا اور انکی حیثیت وہاں اللہ کے خلیفہ کی تھی۔ دراصل یہ خلافت بھی آزمائش کی بنیاد پر دی جاتی ہے کہ یہ اقتدار ملنے کے بعد وہ خدا کی قانون کی پابندی کرتے،اسکی حدود کو قائم کرتے ہیں یا باغیوں کی روش اختیار کرتے ہیں ۔ جو قومیں باغیانہ رویہ اختیار کرتی ہیں وہ مہلت عمل ختم ہونے بعد فنا کر دی جاتی ہیں۔

اے( قوم عاد )یاد کرو جب کہ اللہ نے تم کو قوم نوح کے بعد خلیفہ بنایا (اعراف۔۶۹)

اے (قوم ثمود)  یاد کرو جب کہ اس نے تمہیں کو عاد کے بعد خلیفہ بنایا (اعراف۔۷۴)

بنی اسرائیل کو انکی خلافت یاد دلاتے ہوئے کہا :’(اے بنی اسرائیل )قریب ہے وہ وقت کہ تمہارا رب تمہارے دشمن کو ہلاک کردے اور زمین میں تم کو خلیفہ بنائے اور پھر دیکھے کی تم کیسے عمل کرتے ہو۔‘(یونس۔۱۴)

لیکن جب ان قوموں نے بغاوت اور سرکشی کا کا رویہ روا رکھا تو خدا کے عذاب نے انکو دبوچ لیا

’’کیا تونے دیکھا نہیں کہ تیرے رب نے کیا کیا عاد کے ساتھ ۔ اونچے ستونون والے عاد ارم کے ساتھ ۔ جن کے مانند کوئی قوم دنیا میں پیدا نہیں کی گئی تھی۔ اور ثمود جنہوں نے وادی میں چٹانیں تراشیں تھی۔ اور میخوں والے فرعون کے ساتھ ۔‘‘ (فجر:۶۔۱۱)  اسی سنت کو سورہ ٔیونس میں یوں بیان کیا ہے۔ ’’لوگوں تم سے پہلے کی قوموں کو ہم نے ہلاک کر دیا جب انہوں نے ظلم کی روش اختیار کی اور انکے رسول ان کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے اور انہوں نے ایمان لا کر ہی نہیں دیا اس طرح ہم مجرموں کو ان کے جرائم کا بدلہ دیتے ہیں ۔ اب انکے بعد ہم نے زمین میں تم انکی جگہ خلیفہ بنا یا تاکہ دیکھے تم کیسے عمل کرتے ہو۔(یونس:۱۱۔۱۲)

قران خلا فت کا بنیادی مقصد عدل و قسط کا قیام قرار دیتا  ہے۔ ـ’’ اے دائود ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے ۔لہذا تو لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ حکومت کر اور خواہش نفس کی پیروی نہ کر کہ وہ تجھے اللہ کی راہ سے بھٹکا دیگی جو لوگ اللہ کی راہ سے بھٹکتے ہیں یقینا انکے لیے سخت سزا ہے کہ وہ یوم الحساب کو بھول گئے ہیں(ص :۲۵۔۲۶)‘‘۔اس خلا فت کے جائز حقدار وہی ہونگے جو خدا کی خلافت کے حق کو وفاداری کے ساتھ نبھائے ’’ تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے ہیں اللہ نے ان سے وعدہ کیا ہے وہ انہیں زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح اس نے ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا‘‘(نور:۵۵)

اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے مولانا ابوالکلام آزاد ’’ مسئلہ خلافت ‘‘میں لکھتے ہیں ’’ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب ہجرت کے بعد مدینہ میں مسلمانوں کی زندگی دشمنوں سے گھری ہوئی تھی اور قلت تعداد و بے سرو سامانی کی حالت کے ساتھ دشمنوں کے پے درپے حملوں کی وجہ سے یہ حال تھا کہ کسی وقت ہتھیار اپنے سے دور نہیں رکھ سکتے تھے اس وقت بعض مسلمانوں کی زبان سے بے اختیار یہ جملہ نکل گیا ’ایک بھی دن ہم پر ایسا نہیں گزرا کہ امن اور بے خوفی کے ساتھ صبح و شام بسر کرتے اور ہتھیار اپنے جسم سے الگ کر سکتے‘ ابولعالیہ راوی ہیں کہ مندرجہ صدر آیت نازل ہوئی اور اللہ نے مسلمانوں کو بشارت دی کہ مضطرب نہ ہو ایمان اور عمل صالح کا پھل جلد ہی ملنے والا ہے جب خوف کی امن اور بیچارگی کی جگہ فرماروائی اور کامرانی ہوگی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ زمین کی خلافت انہی کے قبضہ اقتدار میں ہوگی۔ (تفسیر طبری جلد ۱۸ صفحہ ۶۲۲)  اس آیت سے یہ بات بھی ثابت ہو گئی کہ قرآن حکیم کہ نزدیک جو چیز خلافت ہے وہ خلافت فی الارض ہے۔یعنی زمین کی حکومت و تسلط پس اسلام کا خلیفہ ہو نہیں سکتا جب تک بموجب اس آیت کے زمین پر کامل اختیار اسے حاصل نہ ہو ۔ وہ مسیحیت کے پوپ کی طرح محض ایک آسمانی اور دینی اقتدار نہیں ہے جس کیلئے دلوں کا اعتقاد اور پیشانیوں کا سجدہ کافی ہو وہ کامل معنوں میں سلطنت و فرما روائی ہیں ۔ اللہ کے تمام وعدوں کی طرح یہ وعدہ بھی پورا ہوا آٹھ نو سال بعد جب داعی اسلام دنیا سے تشریف لے گئے تو تمام جزیرہ عرب مسلمانوں کے قبضہ میں آ چکا تھا اور رومیوں سے مقابلہ کیلئے اسلامی فوجیں مدینہ سے نکل رہی تھیں۔اس سلسلۂ خلافت اسلامیہ کا پہلا خلیفۃاللہ خود داعی اسلام (ﷺ)کا وجود مقدس تھا اور آپ ﷺ نے اپنے بعد کے جانشینوں کو خود لفظ خلفاء سے تعبیر فرما کرواضح کر دیا تھا کہ وہ آپ کے نائب اور قائم مقام ہونگے ـ’’میری اور میرے خلفاء راشدین کی سنت‘‘(ابن ماجہ) آ پﷺ کے بعد حضرت ابوبکر جانشین ہوئے تو وہ خلیفہ رسول اللہ تھے‘‘۔

یہ ہے اس لفظ خلیفہ اور خلافت کی حیثیت قرآن حکیم کی محکم آیات،رسول کریمﷺ کی احادیث مبارکہ،صحابہ کے آثار،خلفاء راشدین کا عمل اور ائمہ سلف  وخلف کی عظیم اکثریت اس لفظ کو اصطلاح ہی کے طور پر استعمال کرتے ہیں جس کو کہ غامدی صاحب افسانہ قرار دےرہے ہیں۔

از: شبیع الزماں

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights