طلبہ یونین الیکشن کا جائزہ :چند مخصوص یونیورسٹیوں کے تناطر میں

0

زہیر احمد

ادھر چند ماہ سے پورے ہندوستان کے تعلیمی مراکز میں طلبہ یونین الیکشن کا دور جاری ہے ہماچل پردیش سے لے کر کیرلا تک اور گجرات سے آسام تک اکثر یونیورسٹیوں میں نئی طلبہ یونین کا انعقاد عمل میں آچکا ہے اور ابھی حال میں علی گڑ ھ مسلم یونیورسٹی کی طلبہ یونین کا انتخاب اختام پزیر ہوا ہے غالبا یہ اس سال کا آخری الیکشن ہوگا ۔

علاوہ ازیں بہت سی ریاست اور یونیورسٹی کے اندر یا تو یونین الیکشن پر کلی پابندی عائد ہے یاوہ بالواسطہ طریقے سے انجام پاتا ہے حید رآبا د یونیورسٹی سے لے کر پونے تک اور کلکتہ یونیورسٹی سے دہلی یونیورسٹی تک کیمپس میں الیکشن کے تئیں ایک غیر معمولی دباو کی وجہ سے کچھ اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں کے تناظر میں طلبہ یونین الیکشن کا جائزہ مندرجہ ذیل سطور میں پیش کیا جارہا ہے ۔
دہلی:۱۔دہلی یونیورسٹی ،
۲۔جواہر لعل نہرو یونیورسٹی ،
۳۔جامعہ ملیہ اسلامیہ

دہلی یونیورسٹی میں اسٹوڈنٹس یونین میں عہدے اے بی وی پی اور این ایس یو آئی کے درمیان گردش میں رہے گزشتہ دو سالوں سے چاروں عہدے اے بی وی پی کے ہاتھوں میں رہے لیکن 2017کے یونین الیکشن میں دو دو سیٹ دونوں کے حصے میں آئی ،این ایس یو آئی نے صدر اور نائب صدر کی سیٹ پر قبضہ کیا تو وہیں جنرل سکریٹری اور جوائنٹ سکریٹری پر اے بی وی پی کے امیدوار کامیاب ہوئے ،یہاں الیکشن مہم میں خطیر پیسوں کا ستعمال اور الیکشن کو ڈ کی نافرمانی بارہا خبروں کی زینت بن چکی ہے ۔

جے این یواسٹوڈنٹس یونین پر 2008سے 2011تک پابندی عائد تھی سپریم کورٹ کی ہدایت کے بعد مارچ 2012میں دوبارہ الیکشن عمل میں آیا اور یونین بحال ہوئی ۔2016کا الیکشن 9نومبر کو عمل میں آیا جس میں اے آئی ایس اے کے کنہیا کمار اسٹوڈنٹس یونین کے صدرمنتخب ہوئے اے آئی ایس اے کے دو اور بھی عہدیدار منتخب ہوئے،کنہیا کمار اور ان کے حامی عمر خالد، انر بان بھٹہ چاریہ اور شہلا راشد کو بغاوتی ہنگامہ کے بعد ملکی پیمانہ پر کافی شہرت حاصل ہوئی ۔2017کے الیکشن میں اے آئی ایس اے کی ہی امیدوار گیتا کماری صدراور سیمون زویا خان نائب صدر منتخب ہوئیں اور ایس ایف آئی کے دگی لالہ جنرل سکریٹری اور ڈی ایس ایف کے شبھانشو سنگھ جوائنٹ سکریٹری منتخب ہوئے ہیں ۔جے این یو اسٹوڈنٹس یونین پوری طرح طلبہ ہی کے ذریعہ انجام پاتی ہے۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ کے یونین الیکشن پر طلبہ کا انتظامیہ کے معاملات میں دخل اندازی کرنے کی وجہ سے 2006 سے پابندی عائد ہے۔حالیہ دنوں طلبہ نے یونین کا معاملہ ایک بار پھر زور شور سے اٹھایااور انتظامیہ سے یونین کی بحالی کا مطالبہ کیا لیکن کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوا ۔

راجستھان:یونیورسٹی آف راجستھان ،جے پور

2005میں ہائی کورٹ نے پوری ریاست میں الیکشن پر پابندی لگا دی تھی لیکن اشوک گہلوت کی حکومت نے اس کو بحال کیا جو کہ خود 2001سے 2010تک این ایس یو آئی کے لیڈر رہ چکے ہیں ۔2014میں ہائی کورٹ نے راجستھان یونیورسٹی میں اسٹوڈنٹس یونین الیکشن کو ختم کردیا تھا اس کے پیچھے جو وجہ بتائی وہ یہ تھی کہ 2013کے الیکشن میں لنگدوہ کمیٹی کے ذریعہ پیش کردہ سفارشات کی کافی نافرمانی ہوئی تھی 31اگست2016 کے الیکشن میں ایک آزاد ممبر نے ایک ،اوراے بی وی پی کے ممبران نے تین سیٹیں حاصل کیں ۔حالیہ الیکشن جو کہ28اگست 2017کو ہوا تھا اس میں اے بی وی پی کو صرف ایک سیٹ پر جیت حاصل ہوئی اور این ایس یو آئی نے دو سیٹوں پر جیت درج کی جبکہ عہدہ صدارت پر ایک آزاد امیدوار کو جیت حاصل ہوئی ۔

گجرات : گجرات یونیورسٹی ،احمد آباد ، مہاراجہ سیاجی راو یونیورسٹی ،بڑودرہ

گجرات یونیورسٹی کے اندر اسٹوڈنٹس یونین نہیں ہے بلکہ یہاں ایک ایسا نظام ہے جو طلبہ کے دس نمائندوں کو اور سینٹ کے اٹھارہ ممبران کو منتخب کرتا ہے این ایس یو آئی نے جنوری 2015 کے الیکشن میں زیادہ تر سیٹوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ اے بی وی پی نے دس میں سے چھ سیٹیں جیتیں ،2016میں انتخاب نہیں ہوپایا ۔حال ہی میں ہونے والے انتخاب میں اے بی وی پی نے دس میں سے سات سیٹیں حاصل کیں ۔ مہاراجہ سیاجی راو یونیورسٹی کے اندر2014اور 2015 میں کوئی الیکشن نہیں ہوا کیونکہ 2013 میں ایک عرضی داخل کی گئی تھی جس میں لنگدوہ کمیٹی کی سفارشات کی کھلی نافرمانی بتائی گئی تھی ۔ ستمبر 2016میں الیکشن عمل میں آیا جس میں این ایس یو آئی نے سکریٹری اور نائب صد ر کے اہم منصب پر کامیابی حاصل کی ۔جبکہ 2017کے الیکشن میں این ایس یو آئی کو ایک بھی سیٹ حاصل نہیں ہوئی ،آزاد امیدوارپرینکا پٹیل نے ایک سیٹ پر جیت درج کی اور ایک سیٹ اے بی وی پی کے حصے میں آئی ۔

پنجاب :پنجاب یونیورسٹی

اسٹوڈنٹس یونین کے چار ممبران پر مشتمل پنجاب یونیورسٹی میں مسلسل الیکشن ہوتا ہے۔چاروں ممبران طلبہ کے درمیان ہی کے ہوتے ہیں ،2015میں چاروں ممبر اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن آف انڈیا کے شرمالی اکالی دل سے تھے ۔این ایس یوآئی کو 2014,2013دونوں میں جیت حاصل ہوئی تھی ۔2016کے الیکشن میں کئی پارٹیوں نے مل کرایک متحدہ محاذبنایا اور چاروں سیٹوں پر جیت درج کی۔2017میں این ایس یو آئی نے تین سیٹوںپر جیت حاصل کی۔

ہریانہ :کروک چھیتر یونیورسٹی ، کروک چھیتر

یہاں 1996سے اب تک کوئی الیکشن نہیں ہوا ہے ،جبکہ 2016میں بی جے پی حکومت کا کہنا تھاکہ وہ اسے دوبارہ شروع کرائے گی اس کے لیے لائحہ عمل تیار کرلیا گیا ہے اور ایک کمیٹی بھی بنادی گئی ہے لیکن 2017کے اختتام تک الیکشن کا یہ وعدہ پورا نہیں ہوسکا ۔

مدھیہ پردیش : برکت اللہ یونیورسٹی ،بھوپال

حکومت ریاست کے اندر اسٹوڈنٹس یونین الیکشن کے خلاف ہے ،اس کے پیچھے وجہ یہ بتا رہی ہے کہ طلبہ کے اندر اس کی وجہ سے فساد کا خطرہ ہے آخری الیکشن 1980میں ہوا تھا ۔جب سے اب تک کوئی الیکشن نہیں ہوپایا ۔جب کہ بالواسطہ الیکشن بھی 2011 سے بالکل بند ہے۔

مہاراشٹر : یونیورسٹی آف ممبئی ،ممبئی ،

یونیورسٹی آف پونے ،پونے

1994 کے بعد یونیورسٹی کیمپس میں کافی ہنگامہ اور فساد ہوا جس کی وجہ سے بلاواسطہ یونین الیکشن پر پابندی اب تک عائد ہے ۔سب سے اہم تشدد این ایس یو آئی کے لیڈر آن ڈی سوزا کی طرف سے 1989میں ہوا جب بالواسطہ اور میرٹ کی بنیاد پر انتخاب کا طریقہ رائج تھا ،مہاراشٹر یونیورسٹی کا نیا ایکٹ پھر سے اسٹوڈنٹس یونین الیکشن کی اجازت دے رہا ہے ،لیکن ابھی اس سلسلے میں کوئی ٹھوس قدم نہیں دکھائی دے رہا ہے ۔

کیرلا:

یونیورسٹی آف کالی کٹ ،کوڑھی کوڈ ،
یونیورسٹی آف کیرلا ،تریوننتھ پورم

یہاں طلبہ سیاست کا ایک متحرک اور فعال کلچر نمایاں ہے ۔یونین کی طرف سے تیوہار اور احتجاج وغیرہ ہوتے ہیں ،سالانہ الیکشن ایس یو ،ایس ایف آئی ،اے بی وی پی ،ایم ایس ایف کے ذریعہ بالترتیب جیتاگیا ،حالیہ یونین کے زیادہ تر عہدوں پر ایس ایف آئی حکومت کر رہی ہے ۔

ہماچل پردیش : ہماچل پردیش یونیورسٹی ،شملہ

یہاں1970سے کیمپس کے قیام کے بعد یکے بعد دیگرے تشدد کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں یہ تشدد خاص طور سے اے بی ایس ایف آئی اور اے بی وی پی کے مابین ہوتے رہے ہیں بالواسطہ الیکشن 2011سے اب تک انہیں وجوہات سے نہیں ہو سکا اور اس وقت سے نامزدگی کا طریقہ ہی رائج ہے ۔

اترپردیش :علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ،علی گڑھ

بنارس ہندو یونیورسٹی ،بنارس
یونیورسٹی آف الٰہ آباد،الٰہ آباد

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اسٹوڈنٹس یونین الیکشن کا عمل شروع ہی سے جاری وساری رہا جبکہ 2015-16میں لاء اینڈ آرڈر کے تحت یہ نہیں ہوسکا ۔لیکن اس کے بعد سے مسلسل جاری ہے۔حالیہ الیکشن دسمبر 2017میں منعقدہوا یہ یونیورسٹی اس لحاظ سے دوسری یونیورسٹیوں سے ممتاز اور نمایاں ہے کہ یہاں کی طلبہ یونین کے امیدوار کسی سیا سی پارٹی کی طرف سے الیکشن نہیں لڑتے بلکہ یہاں طلبہ برادری کااپنا ہی ممبر ہوا کرتا ہے ۔ یہاں کی یونین صدر ،نائب صدر اور معتمداعزازی (سکریٹری) کے علاوہ دس اراکین کابینہ پر مشتمل ہوتی ہے ۔

بنارس ہندو یونیورسٹی میں 1997سے الیکشن نہیں ہوا ہے یونیورسٹی کے ذمہ داران کا کہنا ہے کہ وہ ان تمام مسائل کو حل کر رہے ہیں جو طلبہ کو درپیش ہیں لہٰذا اسٹوڈنٹس یونین کی کوئی ضرورت نہیں ہے ،جبکہ اے بی وی پی اور سماج وادی چھاتر سبھا کیمپس کے اندر کافی فعال ہے ۔

الٰہ آباد یونیورسٹی کی طلبہ یونین کے سابق ذمہ داران کے مطابق الٰہ آبادیونیورسٹی میں یونین الیکشن پابندی سے ہورہا ہے ۔گزشتہ سال سماج وادی پارٹی کی طلبہ تنظیم کی رہنما ریچا سنگھ الٰہ آباد یونیورسٹی کی پہلی خاتون صدر بنیں ۔انہوں نے اس وقت بی جے پی ایم پی یوگی آدتیہ ناتھ کا کیمپس میں آنے کے خلا ف احتجاج کیا جس کی وجہ سے کافی تنازعہ پیدا ہوا۔2017کے طلبہ یونین الیکشن میں بھی سماج وادی پارٹی کی طلبہ تنظیم ایس سی ایس نے پانچ میں سے چار سیٹوں پر جیت درج کی۔جبکہ ایک سیٹ اے بی وی پی کے حصے میں آئی ۔

بہار : یونیورسٹی آف پٹنہ

دسمبر 2012میں پٹنہ یونیورسٹی کے اندر 28سال بعد اسٹوڈنٹس یونین الیکشن عمل میں آیا ،اس کے بعد کوئی الیکشن نہیں ہوا 2012 کے الیکشن میں سی پی آئی سے ملحق آل انڈیا اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن فیڈریشن نے پانچ میں سے دو سیٹیں جیتیں جبکہ بی جے پی اور جے ڈی نے ایک ایک سیٹ حاصل کیں ۔

آندھراپردیش : آندھرایونیورسٹی ،وشاکھاپٹنم ،

یہ آندھرا پردیش کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہے ۔یہاں 1988سے اب تک کوئی یونین الیکشن نہیں ہو اہے لیکن سیاسی پارٹیاں آندھرا یونیورسٹی میں کافی فعال اور متحرک ہیں ۔

تلنگانہ : یونیورسٹی اٖ ٓف حیدرآباد ،حیدرآباد
عثمانیہ یونیورسٹی ،حیدرآباد

حیدرآباد سینٹرل یونیورسٹی میں ہر سال اسٹوڈنٹس یونین الیکشن عمل میں آتا ہے ،یہاں اہم لڑائی ایس ایف آئی اور اے بی وی پی کے درمیان ہی ہوتی ہے جبکہ 2008سے اے بی وی پی کو فتح حاصل نہیں ہوئی ،ایس ایف آئی ،ٹی ایس ایف ،ڈی ایس یو اور ٹی وی وی نے ایک ساتھ مل کر2015کا الیکشن پوری طرح جیتا ،ریسرچ اسکالرروہت ویمولہ ،جس نے جنوری 2016 میں خودکشی کرلی تھی وہ ڈی ایس یو اورایس ایف آئی کا نمایاں حامی تھا ۔2017کے الیکشن میں بھی مختلف طلبہ تنظیموں نے مل کر ایک متحدہ محاذ اے ایس جے بنایا اور اسٹوڈنٹس یونین کی تمام سیٹوں پر جیت درج کی ۔یہاں اے بی وی پی اور این ایس یو آئی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔

عثمانیہ یونیورسٹی میں1984سے اب تک کوئی الیکشن نہیں ہوا ہے ۔1988میں آر ایس یو اور اے بی وی پی کے درمیان جھڑپ ہوئی تھی جس میں ایک طالب علم کی جان چلی گئی تھی جس کے بعد سے اسٹوڈنٹس یونین الیکشن پر کلی پابندی عائد ہے ۔

اڑیسہ : اتکل یونیورسٹی ،بھونیشور

اتکل یونیورسٹی کو حا ل ہی میں اسٹوڈنٹس یونین ملی ہے۔ الیکشن کے بعد،بیجو چھاتر جنتادل اور بی جے ڈی کی اسٹوڈنٹس ونگ کو جیتملی ہے پچھلے دو دہائی سے تشدد اور نافرمانی اسٹوڈنٹس یونین کی خاصیت رہی ہے غالبا اسی وجہ 2012-13-15 میں اسٹوڈنٹس یونین الیکشن نہیں ہوئے ۔2017میں یونیورسٹی نے الیکشن سے پہلے ہونے والے پرتشدد واقعات کے بعد اسٹوڈنٹس یونین الیکشن کینسل کردیا۔

آسام : گوہاٹی یونیورسٹی ،گوہاٹی

حال ہی میں آسام کی گوہاٹی یونیورسٹی کے کیمپس میں پوسٹ گریجویٹ اسٹوڈینٹس یونین کا انعقاد ہوا ایک بارپھر الیکشن میںآل آسام اسٹوڈنٹس یونین کو جیت حاصل ہو ئی۔آل آسام اسٹوڈنٹس یو نین طلبہ کے بہت سے گروہوں کا مجموعہ ہے ۔گوہاٹی یونیورسٹی کو آسام کی سیاست میں کافی اہمیت حاصل ہے ۔اس طور سے کہ یہ لیڈر وں اور سیاست دانوں کے لیے نرسری ہے ۔

مغربی بنگال : یونیورسٹی آف کلکتہ
پریسیڈنسی یونیورسٹی ،کلکتہ
جادو پور یونیورسٹی

کلکتہ یونیورسٹی میں ہرسال اسٹوڈنٹس یونین رہی ہے سوائے2014-15کے ،ترنمول کانگریس کا بزوریونیورسٹی کی صدارت کے عہدے پر جولائی 2010تک غلبہ رہا ہے ۔

پریڈینسی یونیورسٹی میں 2011سے 2013کے بیچ الیکشن نہیں ہوئے جبکہ اینٹی اسٹبلشمنٹ گروپ جس کو آئی سی کہاجاتا ہے وہ حکومت کرتا رہا ہے ۔
جادوپور یونیورسٹی ہر اسٹریم کے لیے الگ الگ یونین رکھتی ہے یعنی آرٹ کے لیے الگ ،سائنس کے لیے الگ اور انجینئرنگ کے لیے الگ یونین ہے ۔ بائیںبازو سے وابستہ گروپ پچھلے دہائی سے جیت حاصلکرتا رہا ہے ۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights