صحابہ کرام کا جذبہ دعوت اور ہمارے کرنے کے کام

0

محمد اقبال ملا،
سکریٹری جماعت اسلامی ہند
قرآن مجید کی تعلیمات ،رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اوراسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی کا نتیجہ تھا کہ صحابہ کرامؓ گہرا شعوررکھتے تھے کہ ایمان لانے کے بعد ان کی ذمہ داری اپنی ذات اوراہل وعیال تک محدودنہیں ہے۔ بلکہ اسلام سے محروم بھٹکی ہوئی انسانیت تک اسلام کی دعوت پیش کرنا اورانہیں جہنم کی آگ سے بچانا ایمان کا بنیادی تقاضا ہے۔ دعوت ان کی زندگیوں کا مشن تھا۔ دعوت وتبلیغ کے لیے ان کے اندر الگ سے کسی کمیٹی ،انجمن، ادارے یا تنظیم کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ دعوت دین کا جذبہ ان کی رگ وپے میں اس طرح دوڑتاتھا جیسے خون انسان کی رگوں میں دوڑتاہے۔ایمان اورعمل صالح کے بعد ان کی مبارک زندگیوں میں دعوت دین ، جہاد فی سبیل اللہ اور جان ومال کی قربانی کو نمایاں طورپر دیکھا جاسکتاہے۔دعوت اور جہاد کے ذریعہ وہ اس دنیا میں اللہ کے بندوں کوظالمانہ اوراستحصالی نظاموں سے بچانے اوراخروی زندگی میں عذابِ جہنم سے بچانے کے لیے کوشاں ہوتے تھے۔
صحابہ کرامؓ نے تجارت،زراعت ،مختلف ہنر وصنعت ، پیشوں اورملازمتوں کو اختیار فرمایاتھالیکن اپنی داعیانہ حیثیت اور فریض�ۂ دعوت کی ادائیگی سے وہ کبھی غافل نہیں رہے۔ ان کے دماغوں میں ہمیشہ یہی دھن سواررہتی تھی کہ خداکے بندوں کو اللہ کی خالص اورکامل بندگی کی راہ پر کیسے لے آئیں۔ دعوت کی راہ میں ایک بہت قیمتی کردار ان کا یہ تھا کہ ان کی پاکیزہ زندگیاں اسلام کا عملی نمونہ تھیں۔روزمرہ کی زندگی میں وہ اسلام پر عمل پیراتھے اورفطری اندازمیں ان کی زندگیاں لوگوں کواسلام کی طرف کھینچتی تھیں۔ فریضہ دعوت کی ادائیگی کے بغیر وہ اپنے ایمان کو نامکمل سمجھتے تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی پیروی میں انسانوں کی اخروی نجات اوردنیوی فلاح کے وہ اس قدرحریص تھے کہ قرآنی آیات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جونقشہ بیان کیاگیاہے وہ ان پر بھی صادق آتاہے، مثلاً
’’اے پیغمبرآپ ؐ خود کو اس غم میں ہلاک کیے دے رہے ہیں کہ بستی کے لوگ ایمان لانے سے انکار کر رہے ہیں۔‘‘
دوسری جگہ ارشادہے : ’’ان لوگوں کے غم میں آپ اپنی جان کو نہ گھلائیں۔‘‘
ان کی دعوتی جدوجہد کی خصوصیت یہ بھی تھی کہ دعوت کے ذریعے وہ غلب�ۂ دین اوراسلامی نظام کے برپاہونے کا واضح تصوررکھتے تھے۔ ان کی دعوتی جدوجہد میں جہاں انسانوں کو اللہ کی بندگی کے دائرے میں لانا ،اور جھوٹی وخودساختہ بندگیوں سے نجات دلانا شامل تھا۔ وہیں اسلام کے نظام کو قائم کرنا بھی تھا۔ ان کی دعوتی جدوجہد عرب سامراجیت یا کسی قومیت اورشہنشاہیت کے لیے نہیں تھی وہ تواسلام کے عالمگیر اورآفاقی پیغام کے داعی اورعلمبردار تھے اورعالمی اسلامی برادری کے اولین قائد تھے۔
یہی وہ جذبہ دعوت تھا کہ جس نے اسلام کو عرب سے باہر نکلنے کا موقع فراہم کیا اورمحض پندرہ بیس برسوں میں یہ دین براعظم افریقہ،یورپ اورایشیا کے مختلف ممالک میں پھیلتاچلاگیا۔ اسی مشن کے تحت پچیس صحابہ کرامؓ اوراسی (80)تابعین بھارت بھی تشریف لائے، حالانکہ یہاں جن آبادیوں میں اسلام کی دعوت انہوں نے پیش فرمائی ،وہ ان کے لیے بالکل ہی اجنبی آبادیاں تھیں، جن کی زبان اجنبی اورتہذیب وثقافت مکمل طور سے مشرکانہ تھی۔
صحابہ کرامؓ کے اندرفریضہ دعوت کی ادائیگی اور بندوں کو جہنم کی آگ سے بچانے کا بے پناہ جذبہ پایا جاتا تھا۔ انھوں نے دعوت اورجہاد کے راستے پر چل کر بہت بڑی بڑی قربانیاں دیں جن کا ہم آج تصور بھی نہیں کرسکتے۔ وہ مکہ اورمدینہ جیسے مقدس اوربابرکت مقامات سے نکل کر دنیا کے دور دراز ممالک تک گئے، اور پھر دوبارہ انہیں اپنے وطن واپس جانا نصیب نہیں ہوا۔ دعوت دین کا فریضہ ادا کرتے ہوئے وہ دنیا سے گزرگئے۔ ان کی بے مثال قربانیوں اورعظیم دعوتی کوششوں کے نتیجے میں توحید اور دین اسلام کے نورسے کفر ،شرک اور الحادکی گھٹا ٹوپ ظلمتیں مٹ گئیں۔
صحابہ کرامؓ اورصحابیاتؓ کی مبارک اورپاکیزہ زندگیوں کے بارے میں بہت ساری تفصیلات سیرت کی کتابوں میں ہمیں ملتی ہیں، لیکن ان کی دعوتی سرگرمیوں، ان کے ایثار، قربانیوں اوردعوت کے جواب میں مدعوقوموں کا طرز عمل کیاتھا اس کی زیادہ تفصیلات نہیں ملتیں۔ دعوتی تاریخ پر جتنا بھی تحقیقی کام کیاگیا ہے وہ قابل قدرضرور ہے مگرناکافی ہے۔ چند صحابہ کرامؓ اورصحابیات کے دعوتی واقعات درج ذیل ہیں:
چند اہم واقعات
n حضرت ابوبکرؓ کی قبول اسلام سے پہلے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دوستی تھی ۔ نبوت کے بارے میں معلوم ہونے کے بعد انھوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی اوراسلام کے بارے میں جاننا چاہا ،رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کے پیغام کو پیش فرمایا۔ حضرت ابوبکر کی طبیعت اتنی پاکیزہ اورصالح فطرت کی حامل تھی کہ ایک لمحہ بھی تاخیر قبول اسلام میں نہیں کی۔ ان کے قبول اسلام سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بے حد خوشی ہوئی۔ قبول اسلام کے بعد حضرت ابوبکرؓ کا رویہ بھی دیکھنے کے لائق ہے، وہ وہاں سے اپنے گھر نہیں گئے بلکہ اپنے دوستوں میں دعوتِ دین کا کام شروع کردیا۔ پہلے دن چاردوستوں نے اسلام قبول کیا۔ دوسرے روزپانچ دوستوں نے اسلام قبول کیا۔صرف دو دنوں میں نودوستوں نے اسلام قبول کرلیا۔ ان میں سے چھ آگے چل کر عشرہ مبشرہ میں شامل کرلیے گئے۔ ظاہر ہے دعوت کا یہ سلسلہ صرف دودنوں کے لیے نہیں تھا بلکہ دعوت کا کام برابرجاری رہا۔اپنے ماں باپ کے قبول اسلام کے لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کی درخواست کی، اورخود اپنی کوششوں کو جاری رکھا، یہاں تک کہ والدین نے اسلام قبول کرلیا۔
n حضرت طفیل بن عمرالدوسیؓ مشہورشاعر تھے، مکہ میں ان کے قبول اسلام کا واقعہ نہایت ایمان افروز ہے۔ لیکن خاص بات یہ ہے کہ انھوں نے اپنے قبیلے میں دعوت کا زبردست کام کیا، جس کے نتیجے میں مختلف مراحل میں ان کے پورے قبیلے نے اسلام قبول کرلیا۔
n مکہ ہی میں حضرت ضمادبن ثعلبہؓ نے اسلام قبول کیا۔ وہ اپنے قبیلہ کے رئیس تھے ،قبول اسلام کے ساتھ ہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اپنے پورے قبیلے کی طرف سے بیعت کرلو،چنانچہ انھوں نے پورے قبیلے کی طرف سے بیعت کرلی اوراپنے قبیلے میں مسلسل دعوت کا کام کرتے رہے، چنانچہ ایک وقت آیا کہ ان کاپورا قبیلہ مسلمان ہوگیا۔
n حضرت ابوذرؓ نے مکہ میں اسلام قبول کیا۔ مکہ سے واپس جاکر اپنے قبیلے بنوغفارکودعوت دی توآدھا قبیلہ اسی وقت مسلمان ہوگیا ،قبیلے کے باقی افرادنے کہا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائیں گے تو اسلا م کا اظہار کریں گے۔چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے توباقی قبیلہ بھی مشرف بہ اسلام ہوگیا۔
n مدینہ سے پہلے ہجرتِ حبشہ کے موقع پر شاہِ حبشہ نجاشی کے دربار میں حضرت جعفر بن ابی طالبؓ نے نجاشی اور اس کے درباریوں کے سامنے اسلام کی دعوت کو بے حدمؤثراورنہایت ہی جامع اندازمیں پیش فرمایا۔ جاہلیت کی زندگی کی خرابیوں کو بتاتے ہوئے اسلام کے عقائد، اصلاحی اوراخلاقی تعلیمات اور اسلامی احکام کو اس انداز سے پیش فرمایاکہ سب متأثرہوئے، اورنجاشی نے قرآن سننے کی خواہش کی ۔ حضرت جعفرؓ نے سورہ مریم کے ابتدائی حصے کی تلاوت فرمائی۔ اس سے شاہ نجاشی بے حد متأثر ہوا، چنانچہ اس کے اسلام قبول کرنے کی روایت بھی ملتی ہے۔
n ہجرت سے قبل حضرت مصعب بن عمیرؓ کو داعی اسلام بناکر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ روانہ کیا۔ حضرت مصعب بن عمیرؓ کو زبردست کامیابی ملی، اوس اورجزرج دونوں قبائل کے سرداروں اوراہم شخصیتوں نے اسلام قبول کرلیا۔ اس کے بعد تقریباً وہاں کے سبھی قبیلوں نے اسلام قبول کرلیا۔
دعوت کی فضیلت
حضرت سہل بن سعدؓ سے روایت ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے حصرت علیؓ سے فرمایاکہ خداکی قسم اگراللہ تیرے ذریعے ایک آدمی کو بھی ہدایت فرمادے تویہ تیرے لیے سرخ اونٹوں سے بہترہے۔(بخاری،مسلم)(عرب میں سرخ اونٹ سب سے قیمتی مال سمجھا جاتاتھا۔)
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول خداؐنے فرمایاکہ جس نے لوگوں کوہدایت کی طرف بلایا ،اس کے لیے اتناہی اجرہے جتنا ان لوگوں کے لیے جنہوں نے اس ہدایت کی پیروی کی، بغیراس کے کہ پیروی کرنے والوں کے اجرمیں سے کچھ کم کیاجائے اورجس نے گمراہی کی طرف دعوت دی اس کے لیے اتناہی گناہ ہے جتنا ان لوگوں پر جنہوں نے اس گمراہی کی پیروی کی بغیر اس کے کہ گمراہی کی پیروی کرنے والوں کے گناہوں میں سے کچھ کم کیاجائے۔ (مسلم)
حجۃ الوداع کے موقع پر آپ نے فرمایا: ’’جو یہاں موجودہے وہ اسے ان لوگوں تک پہنچادے جوموجودنہیں ہیں۔‘‘
حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہ اپنی امت کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت تھی۔
حضرت ربیع بن انسؓ تابعی فرماتے ہیں، جوشخص رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع کرے اس پر یہ حق عائد ہوتاہے کہ جس طرح رسول ؐ نے دین کی دعوت دی اس طرح وہ بھی دعوت دے، جس کتاب کے ذریعہ رسول نے لوگوں کوڈرایاتھا ،اس کتاب کے ذریعے وہ بھی لوگوں کو خداکے عذاب سے ڈرائے۔
دعوت کے متعلق مسلمانوں کی غلط فہمیاں
دعوت جیسے اہم ترین فریضے اوراس کی ادائیگی کے تعلق سے قرآن وحدیث کے روشن دلائل اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوتی اسوہ کی موجودگی میں مسلمانوں کے اندر مختلف غلط فہمیوں کا پایاجانا نہایت افسوس ناک ہے۔دعوت دین جسے کار رسالت اورکارنبوت بھی کہا جاتاہے۔ افسوس ہے کہ مسلمانوں کے اندراس عظیم فریضہ کے سلسلے میں بڑی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ ان کو دورکرنا ضروری ہے۔ اس کے نتیجے میں ہی فریضہ دعوت کی ادائیگی کے لیے مسلمان اٹھ کھڑے ہوں گے۔ عبرت کا مقام تو یہ بھی ہے کہ کچھ پڑھے لکھے مسلمانوں میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ مختلف مذاہب خداتک پہنچنے کے لیے الگ الگ راستے ہیں۔ کسی ایک مذہب حتی کہ اسلام کوتنہا حق کہنا درست نہیں ہے۔ اسی طرح کچھ حضرات کے نزدیک حضرت عیسیؑ نے عیسائیت اور حضرت موسیؑ ؑ نے یہودیت کی بنیاد ڈالی جو کہ آسمانی مذاہب ہیں۔ ان غلط فہمیوں کو دور کرنا بھی ضروری ہے۔ خداکے تمام نبیوں اور پیغمبروں نے اسلام ہی کی دعوت کو پیش فرمایاتھا۔ مختلف زمانے اورحالات کی بنا پر شریعت میں کچھ فرق پایاجاتاہے لیکن دین اوراس کے بنیادی اصول ہمیشہ ایک ہی رہے ہیں۔کوئی نبی یا پیغمبر کسی مذہب کے بانی ہرگز نہیں تھے۔ مثلا یہودیت اور عیسائیت کوحضرت موسی ؑ اورعیسی ؑ کے بعد ان کے پیرووں نے خود وضع کرکے بالترتیب ان پیغمبر وں کی طرف منسوب کردیا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری رسول ہیں، جن پراللہ تعالی نے دین وشریعت کو مکمل کیاہے۔ اب رہتی دنیا تک دین اسلام اورپیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ہی سے اللہ کی رضا مندی اور اس کی خوشنودی کا حصول ممکن ہے۔
دعوت سے متعلق چند غلط فہمیاں اوران کا ازالہ
۱) دعوت دینے سے پہلے مسلمانوں کو اپنی اصلاح کرنی چاہیے ،اصلاح کے کام کو مقدم رکھا جائے ۔اس کے بعد وطنی بھائیوں میں دعوت کا کام کیاجائے۔
اس غلط فہمی کے سلسلے میں غورکرنے کی ضرورت ہے ۔یہ خواہش کہ پہلے مسلمانوں کی اصلاح ہوجائے، یقیناًبہت اچھی بات ہے۔لیکن قرآن وحدیث اوراسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی کوئی دلیل نہیں ملتی کہ مسلمانوں کی اصلاح ہونے تک دعوت کے کام کا آغاز نہیں ہونا چاہیے۔ مسلمانوں کی اصلاح کب تک ہوگی ،اس کوکوئی نہیں جانتا کیوں کہ اصلاح کا عمل تاحیات جاری رہنے والا ہے۔ جس وقت مسلمان یہ سمجھیں گے کہ اب ان کی اصلاح ہوچکی ہے وہی مرحلہ ہوگا جب وہ اصلاح کے محتاج ہوں گے۔
ایک اہم پہلویہ بھی ہے کہ قرآن وسنت اوراسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بہت بڑا حصہ دعوت ہی سے متعلق ہے۔ ایسی صورت میں دعوت سے غفلت برت کر مسلمان اپنی اصلاح کیسے کرپائیں گے۔ نیز کیا وہ قرآن کے ایک بڑے حصے پر عمل سے محرومی کے مجرم نہیں ہوں گے۔ چنانچہ اب تک مسلمانوں کی اپنی اصلاح میں ناکامی کے اسباب میں ایک بڑا سبب فریضہ دعوت کی ادائیگی سے غفلت ہی ہے۔ غرض یہ کہ مسلمانوں کی ہمہ جہت اصلاح کاکام مسلسل جاری رہنا چاہیے اس کے ساتھ ہی ساتھ وطنی بھائیوں میں دعوت کا کام بھی جاری رکھنا ضروری ہے۔
۲)دعوت کے کام کی کوئی خاص ضرورت ہی نہیں ہے، اگرمسلمان کی اصلاح کا کام ہوجائے تو ان کی زندگیوں کو دیکھ کر خودہی لوگ اسلام قبول کرنے لگیں گے۔
یہ دوسری بڑی غلط فہمی ہے، جو عام طورپر مسلمانوں میں پائی جاتی ہے۔اس حقیقت کوسامنے رکھ کر ہم غورکریں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرامؓ کی پاکیزہ اورمبارک زندگیاں مکہ اورمدینہ میں سب کے سامنے نمایاں تھیں، کتنے بدقسمت اورمحروم انسان ایسے گزرے ہیں ،جنہوں نے ایسی روشن اورتابناک زندگیوں کو قریب سے دیکھا لیکن پھربھی ایمان نہیں لائے بلکہ ان عظیم ہستیوں کی جانب سے دعوت بھی پیش کی گئی اس کے باوجودوہ کفروشرک پر قائم رہ کر اسی حالت میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔قابل غوربات یہ بھی ہے کہ دعوت کا فریضہ تواللہ تعالی کی جانب سے مسلمانوں پر عائد کردہ ہے ۔ کیا اللہ تعالی کو یہ بات معلوم نہیں تھی (نعوذ باللہ) کہ دعوت پیش کرنے کے بجائے مسلمانوں کی اصلاح یافتہ زندگی اورنمونہ کی اسلامی زندگی کو دیکھ کر منکرین ومشرکین ایمان لے آئیں گے، لیکن اس کے باوجود اس نے حکم دیاکہ دعوت کو پیش کیاجائے۔ قرآن مجید کی آیات کا ترجمہ درج ذیل ہے:
’’اس شخص سے بہتر کس کی بات ہوسکتی ہے جو اللہ کی طرف بلائے اورنیک عمل کرے اورکہے کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں۔‘‘(حم سجدہ:33)
دوسری جگہ فرمایا: ’’اللہ کے راستے کی طرف بلاؤ حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اوراحسن طریقے سے ان کے ساتھ بحث ومباحثہ کرو۔‘‘(النحل:۱۲۵)
اگرچہ یہ بات صحیح ہے کہ دعوت جب پیش کی جاتی ہے تومدعوئین کہتے ہیں کہ اسلام پر چلنے والے لوگ کہاں ہیں؟ نیز مدعوئین یہ بھی کہتے ہیں کہ داعی پہلے مسلمانوں کو سدھارے اوران کو اسلام پر چلائے۔ مدعوئین کو سمجھایاجاسکتاہے ۔آخرت کی نجات اور عذاب جہنم سے چھٹکارا پانا ہرفرد کا ذاتی اورانفرادی طور پر سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ کسی دوسرے کے بگاڑ اور خرابی کو دلیل بنا کر حق کا انکار اور حق سے محروم رہ جانا دراصل خوداپنے آپ کو عذاب جہنم میں مبتلاکرنا ہے۔ اس لیے ہر فرد اس دعوت پر غورکرے۔پھر قبول یا انکار کا آخری فیصلہ اپنی ذمہ داری سے کرے۔
۳)دعوت کا کوئی فائدہ نہیں۔ کفار ومشرکین اسلام قبول نہیں کریں گے۔
ایک عام غلط فہمی یہ ہے کہ دعوت دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اس لیے کہ ملک کے باشندے کافر ومشرک ہیں ،اللہ تعالی نے آخرجہنم کو بھی پیدا ہے۔ کچھ لوگوں کو جہنم میں بھی توجلنا ہے۔
اس سلسلے میں غورفرمائیے کہ وطنی بھائیوں اور خواتین کو دعوت پیش کرنے سے پہلے ہی کافرومشرک قراردے کر گویاجہنم میں پہنچادیاگیاہے۔ وطنی بھائیوں کو اسلام کی بنیادی تعلیمات کے بارے میں صحیح جانکاری بالکل نہیں ہے۔ ان کے اندربے شمار سعید روحیں حق کی تلاش میں ہیں۔ مسلمانوں کا مجموعی طرز عمل اورطرز زندگی اسلامی ہوتا تو بڑی حد تک وہ اسلام سے متعارف ہوسکتے تھے۔ مسلمانوں میں ہر جگہ صالح اور باکردار افراد موجودہونے کے باوجود ان کا مجموعی طرز عمل غیراسلامی رہاہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ وطنی بھائیوں کو اسلام کی دعوت دی جائے ،غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کو دورکیاجائے۔ چنانچہ اب تک جتنی کوششیں اس ضمن میں ہوئی ہیں۔ وہ نتیجہ خیز اورحوصلہ افزارہی ہیں۔ وطنی بھائیوں کے سامنے اسلام کا تعارف اوراس کی دعوت پیش ہونے کے بعد قبول یا عدم قبول کا جو وہ فیصلہ کریں گے، اس کے نتیجے کی ذمہ داری بھی ان ہی پر ہوگی۔ خلاصہ یہ کہ اس ملک میں قبول اسلام کی راہ میں کوئی حقیقی رکاوٹ نہیں ہے۔اسلام کا جیسے جیسے تعارف ہوگا،ان شاء اللہ ویسے ہی قبول حق کا سلسلہ درازہوتاچلاجائے گا۔ ویسے بھی دعوت کا کام ایک ایسا فریضہ ہے جس میں ذرہ برابرناکامی اور نقصان کا اندیشہ نہیں ہے۔ داعی خلوص وللہیت کے ساتھ حکمت وسلیقہ سے داعیانہ دردوسوز کے ساتھ دعوت پیش کرتارہے ۔ ہرحال میں کامیاب ہوگا۔ خواہ مدعو دعوت حق قبول کرے یا انکار کرے یا مخالفت پر اترآئے ۔
۴)ہندوستان جیسے ملک میں دعوت دینا ،مخالفت اورشدیددشمنی کو دعوت دیناہے۔
یہ غلط فہمی کہ ہندوستان جیسے ملک میں دعوت دینے سے مدعوئین میں مخالفانہ جذبے اور اس کے نتیجے میں فرقہ وارنہ کشیدگی میں اضافہ ہو گا ، یہ دراصل دعوت اسلامی کی تاریخ سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔ ہمارے ملک میں ماضی سے لے کر آج تک کی تاریخ گواہ ہے کہ دعوت کا ہمیشہ استقبال کیاگیا۔ ماضی میں اوراس کے بعد بھی جب کبھی دعوت پیش کی گئی،کوئی قابل ذکر مخالفت کبھی نہیں ہوئی۔ قبول حق کے واقعات پیش آئے تھے۔آج بھی تجربہ بتاتاہے کہ دعوت پیش کرنے کے بعد وطنی بھائی داعی کی بڑی عزت اور قدرواحترام کرتے ہیں اور اس کا شکریہ اداکرتے ہیں۔ ان کی شکایت ہوتی ہے کہ انھیں اس پیغام سے اب تک کیوں محروم رکھا گیا۔ جبکہ مسلمان اس پیغام کو پہنچانے کی ذمہ داری سے پہلے ہی سے واقف ہیں۔
آج ملک میں پائی جانے والی اوروقتاً فوقتاً بھڑکائی جانے والی فرقہ وارانہ کشیدگی ،منافرت اوراس کے نتیجے میں مسلمانوں کے اوپر ظلم وزیادتی اور فرقہ وارانہ فسادات کا علاج بھی دعوت دین ہی ہے۔ دعوت دین مسلمانوں کے بہت سارے مسائل کا حل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ داعی (فرد ہو یا جماعت) کی حفاظت فرمائے گا۔
جب تک وطنی بھائیوں کے سامنے دعوت پیش نہیں ہوتی وہ غلط فہمیوں ، اور شکوک وشبہات کے ماحول میں گھرے ہوتے ہیں، جیسے ہی دعوت پیش ہوتی ہے، ان کی غلط فہمیاں دورہوجاتی ہیں اورشکوک وشبہات کا ماحول ختم ہوجاتاہے۔ آپس میں خوشگوار تعلقات قائم ہونے لگتے ہیں۔ برادران وطن کے اندراسلام ،مسلمانوں اور احیائے اسلام کی تحریکات کے تعلق سے پائی جانے والی غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کا ایک اہم اورقابل غورپہلویہ بھی ہے۔ وہ اپنی غلط فہمیوں پراصرارنہیں کرتے ہیں۔ ان کے سامنے داعی اسلام کا صحیح تعارف جب پیش کرتاہے، تو وہ اپنی غلط معلومات کو ترک کردیتے ہیں، اور داعی کی بات کی پر یقین کرلیتے ہیں۔ غلط فہمیوں کے پھیلائے جانے کے اسباب ،مقاصد ومحرکات پر یہاں روشنی نہیں ڈالی جارہی ہے، کیوں کہ یہ ایک الگ موضوع ہے۔
اس لیے مسلمانوں کوچاہیے کہ خداپر بھروسہ واعتماد کے ساتھ آگے بڑھیں اور پورے اعتمادکے ساتھ دعوتی کام میں لگ جائیں۔ وطنی بھائی، خواہ مرد ہوں یا عورت،وہ اسلام کے صحیح تعارف اور قرآنی تعلیمات سے ہرگزبیزاری اورنفرت کا اظہار نہیں کریں گے، بلکہ وہ ان باتوں کو بہت پسند کرتے ہیں۔
جذبہ دعوت کے لیے عملی تدابیر
جذبہ دعوت پروان چڑھانے کے لیے عملی تدابیر کے سلسلے میں بنیادی بات مسلمانوں کی ذہن سازی ہے۔ اس سلسلے میں مسلمانوں کے اندرشعوری ایمان اورایمان کے انقلابی تصور اوراس کے تقاضوں کو واضح کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ اللہ تعالی سے گہری محبت اوراس سے تعلق،بندوں سے محبت اوران کو جہنم کی آگ سے بچانے کی تڑپ پیدا کرنا چاہیے۔ مسلمانوں کے اندراس حقیقت کو بھی واضح کرنا ضروری ہے کہ اسلام ، قرآن اورحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی قومی حیثیت نہیں بلکہ اسلام سب کے لیے ہے،قرآن سب کے لیے ہے اورپیغمبراسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم سب کے لیے ہیں۔ اس طرح یہ عالمگیر اورآفاقی حیثیت رکھتے ہیں۔مسلمانوں کے لیے یہ ضروری ہوجاتاہے کہ پہلے ہی قدم پر وطنی بھائیوں کو کافراورمشرک کہہ کر اپنی طرف سے ان کا ٹھکانہ جہنم نہ بنالیں۔ بلکہ وطنی بھائیو ں کو حضرت آدم ؑ کی اولادہونے کی بناپر اپنا بھائی سمجھ کر ان کے سامنے دعوت دین پیش کرنے اور دین حق کی ان پر حجت پوری کرنے کی اپنی منصبی ذمہ داری اداکریں۔
دعوت کاکام کرتے ہوئے ایک مرحلہ میں داعی کو چاہیے کہ وہ اپنے وطنی بھائیوں پر واضح کریں کہ اسلام ہی موجب فلاح ونجات ہے۔ یعنی ہر فرداور اجتماعی گروہ کی دنیوی کامیابی، مادی خوشحالی، امن وسلامتی اورعدل وانصاف کا حصول اوراخروی زندگی میں جہنم کے عذاب سے نجات کی ضمانت اسلام اورصرف اسلام ہی دیتاہے۔ دعوت کو پیش کرتے ہوئے داعی ایک مرحلے میں وطنی بھائیوں کومحبت، حکمت اور داعیانہ دردوسوزکے ساتھ قبول حق کے لیے کہے، اور اللہ تعالی سے ان کی ہدایت کے لیے دعا کرے۔
ایک پہلویہ بھی ہے کہ اسلام اور قرآن اور پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک شخصیت اورپاکیزہ تعلیمات ہمارے پاس وطنی بھائیوں کی ایک قیمتی امانت ہے، جو اللہ تعالی نے ہمارے پاس رکھی ہے، ہمیں جلدسے جلد اپنے قول وعمل اورکردارسے اس امانت کو ان تک پہنچاناہے۔ امانت میں خیانت بہت بڑا گناہ ہے۔ دین حق اورقرآن جیسی عظیم امانت وطنی بھائیوں تک پہنچانے میں ٹال مٹول ،حیلے بہانے اورغفلت وکوتاہی کے بھیانک انجام کو آج اس دنیا میں مسلمان بھگت ہی رہے ہیں، اخروی انجام تواللہ ہی بہترجانتاہے۔
اتباع رسول اس کے بغیر ناممکن ہے
اتباع رسول کے حوالے سے غورکیاجائے تو سورہ یوسف آیت:108؍بتاتی ہے : ’’تم ان سے صاف کہہ دو کہ میرا راستہ تویہ ہے ،میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اورمیرے ساتھی بھی، اوراللہ پاک ہے اورشرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں۔‘‘(سورہ یوسف آیت:108)
معلوم ہوا کہ دعوت کے بغیر اتباع رسول ناقص ہے۔ ایک حدیث میں ہے: میری امت کے تمام لوگ جنت میں جائیں گے سوائے ان لوگوں کے جو میرا انکار کرنے والے ہوں گے۔ صحابہؓ نے پوچھا کہ آپ ؐکا انکارکرنے والا کون ہے؟ارشادفرمایا:جس نے میری اطاعت اورپیروی کی وہ جنت میں جائے گا اورجس نے میری اطاعت نہیں کی وہ میراانکارکرنے والا ہے، میرا انکارکرنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔
کرنے کے کام
l جذبہ دعوت کو پروان چڑھانے کے لیے رضائے الٰہی اورفلاح آخر ت کے حصول کی یاد ہمیشہ ذہن وقلب میں تازہ رہنی چاہیے۔ دعوت کا یہ بہت طاقتورمحرک ہے۔رضائے الٰہی اورفلاح آخرت کا راستہ فرائض اسلام نماز،روزہ ،حج اورزکوۃ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ دعوت دین کی عملی جدوجہد اوراس راہ میں ایثاروقربانی سے گزرتاہے۔
l ایک تدبیر یہ ہے کہ ترجمہ وتفاسیرکی مددسے قرآن کا بغورمطالعہ روزانہ کیاجائے، قرآن ایک پہلوسے دعوت اور تاریخِ دعوت کی کتاب ہے۔ انبیاء ؑ خصوصاً آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتی جدوجہد، اس کے مختلف مراحل اورقوموں کی دعوت کے سلسلے میں قبول یا انکاراورعروج وزوال کی رودادتفصیل سے قرآن میں ملتی ہے۔اسی طرح سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اوراحادیث کا مطالعہ اورسیرت صحابہؓ وتابعین ؒ کا دعوتی پہلوسے مطالعہ نہایت ضروری ہے۔ ان موضوعات پر بہترین کتب مختلف زبانوں میں دستیاب ہیں۔ اس کے علاوہ کمپیوٹراورانٹرنیٹ کی مدد سے کافی موادحاصل کیاجاسکتاہے۔
l ایک عملی تدبیر یہ ہوسکتی ہے کہ دویاتین افرادپر مشتمل وفودبناکر دعوتی کتابچوں اورفولڈرس کے ساتھ منتخب وطنی بھائیوں کے ساتھ ملاقات اور بات چیت کریں۔ اس کے بہت سے فائدے ہیں ۔ اکیلے کام کرنے میں جھجھک ہوسکتی ہے۔ وفدمیں دویا زائد افرادمل کر جانے سے جھجھک دورہوگی۔
l دعوتی تجربات کو خصوصی نشستوں میں بیان کرنا تاکہ اس کے ذریعے دعوتی جذبے اورحوصلے کو مضبوط بنایاجاسکے۔
l ایک تدبیر مساجد میں کام سے متعلق ہے۔ یعنی مساجد میں دعوت کی اہمیت وضرورت ،داعی کے اوصاف ،دعوت سے غفلت اوراس کے نتائج وغیرہ موضوعات پر درس قرآن ، درس حدیث ، تقاریر اور خطبات جمعہ کے پروگرام عام مسلمانوں کے لیے رکھے جائیں۔
دعوت کے جذبے کو بڑھانے اوردعوتی کام پر ابھارنے کے لیے اسلام کی اس بنیادی تعلیم پر عمل کرنا مسلمانوں کے لیے نہایت ضروری ہے۔ عام انسانوں کے حقوق کی ادائیگی اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا اوران کی بے لوث خدمت کرنا۔ اس سلسلے میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی سے چند واقعات درج ذیل ہیں:
2 ایک مرتبہ ایک عورت مکہ کی ایک گلی سے گزررہی تھی۔ اس کے سرپر اتنابھاری بوجھ تھا کہ وہ بمشکل قدم اٹھا سکتی تھی۔ لوگ اس کا مذاق اڑانے لگے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کہیں قریب ہی تھے۔ آپ اس عورت کو مشکل میں دیکھ کر فوراً آگے بڑھے اوراس کا بوجھ اٹھاکر اس کی منزل پر پہنچادیا۔
2 ایک دن حضورپرنورؐ ایک گلی سے گزررہے تھے کہ ایک اندھی عورت ٹھوکر کھاکرگرپڑی ۔لوگ اسے گرتے دیکھ کرہنسنے لگے ،لیکن آپ کی آنکھوں میں آنسوبھرآئے۔ آپ نے اس عورت کو اٹھایا اوراس کے گھرپہنچادیا۔ اس کے بعد حضورؐ روزانہ اس عورت کے گھرکھانالے کر جاتے تھے۔
2 ایک دفعہ مکہ میں سخت قحط پڑا۔ لوگوں نے ہڈیاں اورمرداربھی کھانے شروع کردئیے۔ ابوسفیان جواس زمانے میں مشرف بہ اسلام نہیں ہوئے تھے، آپ کی خدمت میں آئے اورکہا: ’’محمد!تم لوگوں کو صل�ۂ رحمی کی تعلیم دیتے ہو،تمہاری قوم ہلاک ہورہی ہے، اپنے خداسے دعاکیوں نہیں کرتے ‘‘۔ گومشرکین قریش کی ایذارسانی اورشرارتیں انسانیت کی حدود کو بھی پھلانگ گئی تھیں، لیکن ابوسفیان کی بات سن کر آپ کے دست مبارک فوراً دعاکے لیے اٹھ گئے۔ اپنے محبوب کی دعااللہ تعالی نے قبول فرمائی اوراس قدر مینہ برسایاکہ سب جل تھل ہوگیا اورسارا قحط دور ہوگیا۔
2 ایک مرتبہ ایک کافرحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں مہمان ٹھہرا۔رات کوسوتے ہوئے اس کا پیٹ کچھ گڑبڑہوگیا، اوربسترہی پر اس کا پاخانہ نکل گیا۔ صبح کوشرمندگی کے باعث حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے سے پہلے ہی اٹھ کر چلاگیا۔ راستے میں یادآیاکہ جلدی میں تلواروہیں بھول آیاہوں۔تلوارلینے کے لیے واپس آیاتوکیادیکھتاہے کہ سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم خودبسترکودھورہے ہیں۔صحابہؓ عرض کرتے ہیں کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم یہ کام کیے دیتے ہیں،لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’نہیں نہیں،وہ شخص میرامہمان تھا اورمجھے ہی یہ کام کرناچاہیے‘‘۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اخلاق کریمانہ کودیکھ کراس شخص کے دل سے کفروشرک کا زنگ دورہوگیااوروہ اسی وقت مشرف بہ اسلام ہوگیا۔
2 قرآن اس سلسلے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ مبارکہ اس طرح پیش کرتاہے:
’’لوگو!تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک رسول آیا ہے ،تمہاراگمراہی میں پڑنا اس پرانتہائی شاق ہے۔ تمہاری ہدایت کا وہ انتہائی حریص ہے اور مومنوں کے لیے انتہائی شفیق ومہربان ہے‘‘ (سورہ توبہ :128)
2n2

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights