خود کشی سماجی اور نفسیاتی مباحث کی روشنی میں

0

شمس الضحیٰ

خود کشی مایوسی، احساس کمتری اور بزدلی کا انجام ہوتی ہے۔ یہ ساری منفی صفات انسانی ذہن کو ماؤف کردیتی ہیں۔ تب انسان راہِ فرار اختیار کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت عظمیٰ کو اپنی حماقت سے ضائع کردیتا ہے۔ خودکشی نہ صرف کفرانِ نعمت ہے بلکہ خیانت بھی ہے۔ کیونکہ یہ زندگی اللہ تعالیٰ کی امانت ہے، اس پر کسی کو بھی مالکانہ حق حاصل نہیں ہے۔ مالک تو اس کا خالق ہی ہے، جس نے پیدا کیا، جس نے اس میں روح پھونکی۔ خود کشی نہ صرف کفران نعمت ہے بلکہ اخلاقی اور معاشرتی جرم بھی ہے۔ یہ وہ ناپسندیدہ عمل ہے کہ کسی بھی مذہب میں اس کی اجازت نہیں ہے۔ حتیٰ کہ انسانوں کے خود ساختہ قوانین میں بھی اقدام خود کشی قابل سزا جرم ہے۔ تعزیراتِ ہند کی دفعہ ۳۰۹ میں اقدامِ خود کشی کی سزا ایک سال کی قید یا جرمانہ یا دونوں ہوسکتی ہے۔ دفعہ ۳۰۵ میں بچوں یا فاتر العقل کو خود کشی کی ترغیب دینے یا کسی بھی طرح سے ان کی خود کشی میں تعاون کرنے پر سزائے موت یا قید کی سزا ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ وہ جرمانے کا بھی مستوجب بھی ہوگا۔ دفعہ ۳۰۶ میں عام لوگوں کو ارتکاب خود کشی میں کسی بھی طرح کا تعاون کرنے پر دس سال کی قید یا جرمانہ یا دونوں سزائیں دینے کا اختیار عدالت کو حاصل ہے۔

خود کشی کے حق میں دلائل:

خود کشی کو عام طور سے غلط غیر اخلاقی اور ناپسندیدہ جرم مانا جاتا ہے۔ تمام مذاہب اور تہذیبوں میں اس کی مذمت کی گئی ہے۔ لیکن کچھ ظلام الدین روشن خیال اور کج فہم دانشور خود کشی کو جرم، ناپسندیدہ عمل یا غیر اخلاقی نہیں مانتے۔ مثال کے طور پر اپنے زمانے کے معروف وکیل Minoo Masaniاپنے ایک انٹرویو میں کہتے ہیں: ’’میں سمجھتا ہوں کہ ہر انسان ایک بااختیار شخصیت کا مالک ہے۔ لہٰذا اس کو یہ طے کرنے کا تنہا اس کو حق بھی حاصل ہے کہ وہ زندہ رہنا چاہتا ہے یا نہیں۔ اس کے بارے میں سماج ، ریاست کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا۔‘‘
Minoo Masaniنے ایسا اس لیے کہا کہ انہیں صراط مستقیم نہیں ملا۔ ان کی نظر میں انسانی جانوں کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ منومسانی کو بمبئی ہائی کورٹ کے اس فیصلے نے بھی قوت گویائی بخش دی، جس میں کہا گیا ہے کہ انسان کو آئینی طور پر زندہ رہنے کا حق ملا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس کا مالک ہے۔ وہ جب چاہے اپنے اس حق سے دست بردار ہوجائے۔ وہ اپنی زندگی ختم کرلے۔ فاضل جج نے یہ بھی لکھا کہ’’ جو شخص معاشی وسائل سے محروم ہونے کی وجہ سے اپنی زندگی کو ختم کررہا ہے وہ کسی جرم کا ارتکاب نہیں کررہا ہے۔ ریاست جب کفالت نہیں کرسکتی تو خود کشی سے روکنے کا بھی اس کو حق نہیں ہونا چاہیے۔‘‘

خود کشی کو جائز قرار دینے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ دنیا کے تمام آئین و قوانین یہ تسلیم کرتے ہیں کہ زندگی انسان کی ملکیت ہے۔اور جب یہ اس کی ملکیت ہے تو اسے یہ حق حاصل ہے کہ خواہ وہ اسے رکھے یا ختم کردے۔ یہ اس کا ذاتی معاملہ ہے۔ اپنے حق سے رضا کارانہ طور پر دستبردار ہوجانا جرم نہیں ہے۔ اس کو اس کے اس ’’حق‘‘ سے ریاست یا سماج محروم نہیں کرسکتا۔ یہ نظریہ محدود اور مادہ پرستانہ ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔ انسان ایک سماجی جاندار ہے۔ افراد کے اجتماع سے ہی سماج بنتا ہے۔ فرد اور سماج لازم و ملزوم ہیں، دونوں کا ایک دوسرے پر انحصار ہے۔ خود کشی کی حمایت بے حسی کی انتہا ہے، جو اتنی عظیم نعمت کے تلف ہونے کا بھی احساس نہیں ہونے دیتی۔
۲۶؍اکتوبر ۱۹۸۶ء کو انڈین ایکسپریس میں معروف وکیل فیروز صاحب کا تبصرہ قابل قدر ہے۔ فرماتے ہیں: ’’زندگی ریاست کے لیے بھی اتنی ہی قیمتی ہے جتنی اس کے حامل فرد کے لیے۔ لہٰذا کوئی بھی شخص اپنے آپ کو ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو ریاست اس کو نظر انداز نہیں کرسکتی۔‘‘ چونکہ خالی الذہن دانشوروں کو صراطِ مستقیم کی نعمت حاصل نہیں ہے۔ اس لیے وہ متضاد باتیں کرتے ہیں۔ ایک طرف وہ کہتے ہیںکہ انسان ایک سماجی حیوان ہے۔ ایڈلر (Edler)کہتا ہے کہ چونکہ انسان ایک سماجی حیوان ہے۔ اس لیے اس کی زندگی میں ایک بنیادی شئے سماجی دلچسپی ہے۔ اس کے کردار کا تعین لاشعوری اور فطری قوتیں کرتی ہیں۔ دوسری طرف ان حقائق کا انکار کرتے ہوئے کچھ دانشور خود کشی کو فرد کا ذاتی معاملہ بتاتے ہوئے اس میں سماج یا ریاست کی مداخلت کے مخالف ہیں۔
خود کشی کی وجوہات:
خود کشی کے اسباب ذہنی دباؤ، مایوسی، تشویش، احساسِ محرومی، احساس عدم تحفظ، اندیشے، عدم اعتماد، جارحانہ و معاندانہ جذبات، احساس ناکامی، حرص و ہوس، احساسِ کمتری اور بزدلی ہوتے ہیں۔ اس میں ذاتی شناخت کے مسئلے کا اضافہ بھی ضروری ہے۔ کیونکہ مذکورہ بالا حالات میں Self Concept(اپنی ذات کا تصور) بھی منتشر ہوجاتا ہے۔ یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ کشف خیالات اور شخصی اختلال کے نتیجے میں پیدا ہونے والے کردار نے اکثر انسانیت کو بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ معاشرے کا جانبدرانہ رویہ، نسلی تناؤ، معاشرے کے مسائل بھی ذہنوں کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔
تین قوتوں کا باہمی تصادم:
انسانی کردار کو ہم سطح سمندر پر تیرتی برف کی چٹان (Ice Berg)سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔ جس طرح اس چٹان کا آٹھواں حصہ سطح سمندر پر نظر آتا ہے۔ باقی ماندہ پانی کے اندر ڈوبا ہوا ہوتا ہے۔ اسی طرح کردار کو وجود میں لانے والی قوتوں کا بیشتر حصہ ہمارے لاشعور میں پنہاں ہوتا ہے۔ لاشعور میں پڑی ہوئی نامکمل خواہشات اپنے بالواسطہ یا بلاواسطہ اظہار کے لیے بے تاب ہوتی ہیں۔ ان لاشعوری محرکات کا علم خود صاحب کردار کو بھی نہیں ہوتا۔
شخصیت کو تین قوتیں متحرک کرتی ہیں۔ ایڈ(Id)، انا (Ego)اور فوق الانا(Super Ego)۔ یہ تینوں قوتیں مسلسل متصادم رہتی ہیں۔ اور کردار پر دباؤ ڈال کر اس کے ظہور پذیر ہونے کا سبب بنتی ہیں۔ اپنے ماحول سے موافقت یا عدم موافقت پیدا کرنے والا کردار انہی قوتوں کی کارفرمائی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ یہ تینوں قوتیں لاشعور میں باہم نبرد آزما ہوتی ہیں۔ ان کے باہمی ٹکراؤ سے جو کشمکش (Conflict)پیدا ہوتی ہے۔ اس کا حل بھی عموماً لاشعور میں ہی پایا جاتا ہے۔ سگمنڈ فرائڈ کردار کی تعمیر میں طفولیت کے ماحول، حالات اور برتاؤ کو بہت اہمیت دیتا ہے۔
ایڈ، انا اور فوق الانا یہ تینوں قوتیں فرد سے باہم متضاد مطالبات کرتی ہیں۔ اس میں بنیادی تال میل کا فقدان ہوتا ہے۔ ایڈفرد کی بنیادی قوت ہوتی ہے۔ یہ بچے کے اندر ارتقاء کی پہلی سیڑھی پر ہی موجود ہوتی ہے۔ ایڈ بنیادی طور پر خواہشات کو پورا کرکے راحت حاصل کرنا اور ہرطرح کی اذیت سے دور رہنا چاہتی ہے اور فوری طور پر خواہشات کو پورا کرنا چاہتی ہے۔ حقیقت کا تقاضا کیا ہے اور اخلاقی تقاضے کیا ہیں اس سے اس کو کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ اس لیے ایڈ(Id)کی اضطراری تحریک (Impulses)خواہشات کی تکمیل کے گرد گھومتی ہیں۔ وہ محل و موقع اور گردوپیش کے حالات و کوائف کی پرواہ نہیں کرتا۔ وہ انجام سے بے بہرہ ہوجاتا ہے۔ ایڈ حیوانی خواہشات کا ذخیرہ ہے۔ اس میں تشدد کی ایسی شدید خواہش بھی ہوسکتی ہے جو فرد کے قابو سے باہر ہو۔ ایڈ کی اضطراری تحریک ذہنی اختلال پیدا کرنے کا باعث ہوتی ہے۔ تشدد، دوسروں پر حملے، ناپسندیدہ و اضطراری حرکتیں ان کی علامتوں میں شامل ہیں۔ اگر اس کو لگام نہ دی جائے تو انسان کے اندر چھپی ہوئی حیوانی خواہشات کو آزاد کردے گا۔ اور دنیا میں انتشار اور لاقانونیت پھیلانے کا سبب بنے گا۔
دوسری قوت انا(Ego)ہے۔ جو آگہی کے حصول کے ساتھ شخصیت کا خاصہ بنتی ہے۔ ماحول سے مطابقت پیدا کرنے والی یہ سب سے اہم قوت ہے۔ یہ حقیقت پسند ہوتی ہے۔ اس کی رہنمائی دنیاوی حقائق کرتے ہیں۔ یہ ایڈ کے لیے لگام کا کام کرتی ہے۔ لیکن Egoکردار کو قابو میں تو رکھتی ہے مگر انسانی کردار کے اخلاقی پہلو سے اس کو کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ اس لیے شخصیت میں ایک تیسری قوت سرا بھارتی ہے۔ جس کو فوق الانا یا Super Egoکہتے ہیں۔ یہ معاشرے، خاندان، والدین اور مذہب سے ملنے والے اخلاقی ضابطوں سے پیدا ہوتی ہے۔ شخصیت کا یہ حصہ Egoکا ہی ایک حصہ ہے۔ جو اس سے الگ ہوکر مثالی انا (Ideal Ego)کے طور پر ابھرتا ہے۔ اس کی ایک اخلاقی قوت کی حیثیت ہے۔ یہ شخصیت کی رہنمائی کرتی ہے۔ اور فرد کے کردار کو اخلاقی قدروں اور صحت مند مقاصد کے حصول کی طرف گامزن کرتی ہے۔ اس کی نوعیت تعمیری ہوتی ہے۔ اور یہ صحت مند سماجی و تہذیبی نشوونما کا سبب بنتی ہے۔
اس طرح ایڈ اور Super Egoمتضاد قوتیں ہیں، جو دو انتہا پر ہوتی ہیں۔ انا ان دونوں کے درمیان رہ کر تطبیق (Adjustment)کا کام کرتی ہے۔ یہ ایک ایسا واسطہ ہے جو دو مخالف قوتوں کے درمیان مفاہمت کراتا ہے۔ Super Egoاور Idدو انتہائی قوتیں ہیں۔ ایک بے لگام ہے تو دوسری ضابطوں اور اخلاق کی اس قدر پابند کے ماحول کے مطالبات کے مطابق اپنے اندر لچک نہیں لاسکتی۔ یعنی ایک متشدد ہے تو دوسری اس قدر سنجیدہ کے انسان کو بے عمل بنادے۔ یہ دونوں ہی انتہائی صورتیں ہیں۔ اور صحت و رجحان کی حامل نہیں ہیں۔ ان سے حقائق کی چشم پوشی ہوتی ہے اور زندگی نارمل نہیں رہ جاتی۔ جیسے کسی پر ایڈ حاوی ہو تو وہ بھی ابنارمل کہلائے گا اور جس پر Super Egoحاوی ہو وہ بھی ابنارمل ہے۔ Egoدونوں کے بیچ سمجھوتا کراتی ہے اور فرد اور اس کے ماحول کے درمیان ایسی مطابقت پیدا کرتی ہے جو مبنی بر حقیقت ہو۔
سن کلائن (Klein)کے مطابق جبلت مرگ اور جبلت حیات کے درمیان جب کشمکش ہوتی ہے اور جبلت حیات پر جبلت مرگ غالب آجاتی ہے۔ تو خود کشی اس کا انجام ہوتی ہے۔ کلائن کے مطابق، نارمل انسان وہ ہے جس کی جبلت حیات، جبلت مرگ کو مغلوب کرچکی ہو۔ فرائڈ کہتا ہے کہ موت و حیات کی کشمکش میں جب جبلت مرگ کو شکست ہوتی ہے تو اس کا رخ باہر کی طرف ہوجاتا ہے۔ پھر وہ انعکاس Projectionپیدا کرتی ہے۔ جبلت مرگ جب تک نامیہ کے اندر عمل پیرا رہے تو وہ بالکل گونگی اور خاموش ہوتی ہے۔ مگر جب اس کا رخ باہر کی طرف ہوجائے تو اس میں شدت پیدا ہوجاتی ہے۔ اور وہ غصیلی ہوجاتی ہے۔ کلائن اس سے اختلاف کرتے ہوئے کہتی ہے کہ نامیہ کے اندر بھی جبلت مرگ گونگی نہیں ہوتی۔ وہ تخریب ذات کا عمل شروع کردیتی ہے۔ چنانچہ حادثے،بے ہنگم ، خود کشی یا طبیعی بیماری یا صحت یاب نہ ہوسکنا وغیرہ اس کا نتیجہ ہوتا ہے۔ کلائن کے نزدیک یہ تخریبی واقعات اس وجہ سے نہیں ہوتے کہ تشدد کا رخ الیفو کی طرف ہوجاتا ہے۔ بلکہ یہ وہ قوت ہے جو نامیہ کے اندر تخریبی عناصر پیدا کرتی رہتی ہے۔
رائخ کہتا ہے کہ موت کی خواہش اس وقت شدید ہوجاتی ہے جب تخیل نفسی کا دوران ختم ہورہا ہو، اس سے پہلے اس میں اتنی شدت نہیں ہوتی۔ فرائڈ کہتا ہے موت اور تولد ایک وقت میں تولید ہوتی ہے۔ وہ جذبات کے دوگونیت یعنی Ambecelenceکا بھی قائل ہے۔ کلائن کو بھی اس سے اتفاق ہے۔ ان کے مطابق انسان کے اندر متضاد جبلتیں موجود ہیں۔
معاشرے پر اس کے اثرات اور اس کی ذمہ داری:
خود کشی یا کسی بھی طرح کے جرائم جہاں معاشرے پر اثرات مرتب کرتے ہیں وہیں اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جرائم معاشرے کی دین ہیں۔ اگر معاشرے میں احساس ذمہ داری ہو، امربالمعروف اور نہی عن المنکر پر لوگ عمل پیرا ہوں اور اللہ پر یقین رکھتے ہوں، معاشرہ منصف مزاج ہو تو جرائم میں خاطر خواہ کمی لائی جاسکتی ہے۔ خود کشی سے جو معاشرے پر اثرات مرتب ہوتے ہیں ، اس کو سوز سکندرپوری نے ان الفاظ میں کہا ہے:
مانگ کر موت کی میں دعائیں دل ہی دل میں ہوں بے حد پشیماں
میں تو آرام سے سو رہوں گا لوگ مصروف ماتم ملیں گے
خود کشی سے معاشرے پر صرف اخلاقی اثر نہیں پڑتا بلکہ معاشرتی، معاشی اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔ جہاں ماں باپ بحر یاس و غم میں غوطہ زن ہوجاتے ہیں وہیں بچوں پر یتیمی اور بیوی پر بیوگی سایہ فگن ہوجاتی ہے۔ معاشرے پر ایک معاشی بوجھ پڑجاتا ہے۔ نفسیاتی طور پر اہل خانہ ٹوٹ جاتے ہیں۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights