تکثیری معاشرہ اور ہمارا مطلوبہ رویہ

0

امت مسلمہ کا دعوتی تناظر: ایک ایسی امت کے لیے کردار کی یہی وہ مطلوبہ تبدیلی ہے جس کا نصب العین، تمام چیزوں سے یکسو کرکے، اللہ نے صرف یہ متعین کیا ہے کہ وہ لوگوں پر اللہ کی شہادت قائم کریں، صراطِ مستقیم کی دعوت دیں، یعنی اپنے خود ساختہ خداؤں اور دیوتاؤں کے استبداد اور انھیں جیسے انسانوں کے جبر سے نجات دلائیں جو دولت و قوت کے زور پر انسانوں پر ظلم کرتے ہیں، اور ایک نظام عدل و قسط قائم کریں۔ اس منصب کی خاطر ہمیں پھر سے قرآن و سنت سے رہنمائی حاصل کرنا ہوگی۔ ابدی ہدایت کے سرچشمہ سے روشنی کا یہ اکتساب دور آئند اور دعوت کے حرکی تناظر میں ہونا چاہیے۔ اور اس چیز کے احساس کے ساتھ کہ ہم بنی نوع انسان کا حصہ ہیں اور اس کی اخروی فلاح کا درد رکھتے ہیں۔
تاہم یہ ملحوظ رہے کہ قرآن و سنت کی طرف اس رجوع کا مقصد قدیم فقہ و علماء کا انکار یا تردید ہرگز نہیں ہے۔ اس نظری سفر میں،ابدی و زمانی عناصر کے امتیاز کے ساتھ، ہم ان کی بیش قیمت آراء سے بھی اپنی صواب دید سے استفادہ کریں گے۔
اسلامی رویے کی حامل اقدار: توحید الوہیت کے بعد اسلام کی اہم ترین قدر وحدت بنی آدم ہے۔ قرآن سختی سے متعدد خداؤں اور دیوتاؤں کی تردید کرتا ہے۔ اس تصور کی تردید کہ کارِ خدائی میں چھوٹے بڑے، ادنیٰ اوراعلیٰ خداؤں کی شرکت ہے۔ قرآن اس تصور کو بھی رد کرتا ہے کہ قوت اور اقتدار عالمِ ظہور میں مختلف خداؤں کے درمیان منقسم ہے۔ مثلاً زندگی اور موت کے خدا، دولت اور تحفظ کے خدا، حسن اور بدصورتی کے خدا وغیرہ۔ تعدد الوہیت کی اس اسلامی تردید کی اساس وحدت الوہیت پر ہی نہیں بلکہ وحدت بنی آدم پر بھی قائم ہے۔ قرآن اس حقیقت کو بڑے پرزور انداز میں بیان کرتا ہے کہ تمام انسان، مرد و زن ایک ہی خدا کی تخلیق ہیں، اس لیے اپنی اصل میں یکساں ہیں:
’’لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اْسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دئیے اْس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو، اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے‘‘۔(النساء: ۱)
تمام انسان ایک خدا کے بندے ہیں اس تصور کو مزید تقویت دینے کے لیے خدا کے لیے پالنہار، یا قرآنی اصطلاح میں ’رب‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ یعنی تمام انسانوں کا ایک ہی رب، پالنہار اور محافظ ہے۔ خواہ وہ مسلمان ہوں، عیسائی، یہودی یا اور ہوں۔ وہ رحم مادر میں ہوں، ماں کی گود میں یا زندگی کے کسی بھی مرحلے میں انھیں پیدا کرنے والا اور ان کی سانسیں تھامنے والا ایک ہی خالق اور کریم رب ہے۔ تاہم انسان اس حقیقت کے اعتراف اور فرماں برداری میں بٹے ہوئے ہیں۔
’’اللہ میرا رب بھی ہے او ر تمہارا رب بھی، لہٰذا تم اْسی کی بندگی اختیار کرو، یہی سیدھا راستہ ہے‘‘۔( آل عمران: ۵۱)
اسلام کا بنیادی نظریہ ہی اس خیال کی تردید کرتا ہے کہ انسان بوجوہ پیدائش یا نسل ادنیٰ اور اعلیٰ ہوتا ہے۔ یہ تصور کہ بنی نوع انسانی ایک آفاقی برادری ہے کوئی خارجی نظریہ نہیں بلکہ اسلام کا اصول اصلی ہے۔ یہ اسلامی نظریہ کا ایک جزو ہے جسے اس سے الگ کیا ہی نہیں جاسکتا۔قرآن کی متعدد آیات انسانی برادری کی آفاقیت پر زور دیتی ہیں مثال کے طور پر یہ آیت ملاحظہ کیجیے:
’’ابتداء میں سارے انسان ایک ہی امّت تھے، بعد میں انہوں نے مختلف عقیدے اور مسلک بنا لیے، اور اگر تیرے رب کی طرف سے پہلے ہی ایک بات طے نہ کر لی گئی ہوتی تو جس چیز میں وہ باہم اختلاف کر رہے ہیں اس کا فیصلہ کر دیا جاتا‘‘۔( یونس:۱۹)
ذات پات، رنگ، نسل، علاقہ معاش یا معاشرتی رتبہ کی تمام تفریقات اسلامی نظریہ انسانی کے لیے بے معنی ہیں۔ صنفی عدم مساوات کی بھی کوئی حیثیت نہیں۔ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اکرمؐ کا خطبہ اس کی روشن دلیل ہے:
’’اے لوگو! آگاہ ہو جاؤ کہ تمہارا رب ایک ہے اور بے شک تمہارا باپ (آدم علیہ السلام) ایک ہے۔ کسی عربی کو غیر عرب پر اور کسی غیر عرب کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں اور کسی سفید فام کو سیاہ فام پر اور نہ سیاہ فام کو سفید فام پر فضیلت حاصل ہے۔ سوائے تقویٰ کے‘‘۔( بیہقی)
اسلام انسانوں کے بیچ جس واحد امتیاز کو مانتا ہے اس کی بنیاد ہے انسانوں کا اپنے خالق کو شعوری طور پر پہچاننا اور اس کے تعلق سے ان میں گہرے احساس شکر اور اس کی فرماں داری کا پایا جانا۔
دوہرے مناصب کا تکملہ
نوع انسان کی مساوات کی مذکورہ بالا اساسیات سے انسانی رویوں کے چند اصول اخذ کیے ہیں۔ ایک مسلمان جسے اللہ پر ایمان اور روز حشر کی جواب دہی کا گہرا احساس ہے اسے حقوق اللہ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اللہ کی مخلوق کے تعلق سے بھی اپنے فریضہ یعنی حقوق العباد کو نبھانا ہے۔ اسلام میں یہ دونوں فریضے ایک دوسرے کا تکملہ ہیں۔ آخر الذکر میں سستی کا نتیجہ حساب کے دن اول الذکر کی قدر و قیمت میں تخفیف کی صورت میں ظاہر ہوگا۔ ایک ارشادنبویؐ میں ان دونوں فرائض کی باہمی تکملیت کو یوں پیش فرمایا گیا ہے:
’’میری امت میں سے مفلس وہ ہے جو قیامت کے روز نماز اور روزے اور زکوۃ لے کر آئے گا(یعنی اس نے نمازیں بھی پڑھی ہوں گی اور روزے بھی رکھے ہوں گے اور زکوۃ بھی ادا کی ہوگی اور ان سب کے باوجود اس حال میں (میدانِ حشر) آئے گا کہ کسی کوگالی دی ہوگی اور کسی کو تہمت لگائی ہوگی اور کسی کا ناحق مال کھایا ہوگا اور کسی کا خون بہایا ہوگا اور کسی کو بیجا اور ناحق مارا ہوگا۔ چونکہ قیامت کا دن انصاف اور صحیح فیصلوں کا دن ہوگا،اس لیے اس شخص کا فیصلہ اس طرح کیا جائے گا کہ جس جس کی حق تلفی کی تھی سب کو اس کی نیکیاں بانٹ دی جائیں گی۔ کچھ نیکیاں اس حقدار کو دیدی جائیں گی اور کچھ نیکیاں اس حق دار کو دیدی جائیں گی۔ پھر اگر حقوق پورے نہ ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہوجائیں گی تو حق داروں کے گناہ اس کے سر پر ڈال دئیے جائیں گے،پھر اس کو دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔(مسلم)
فطری وسائل بھی تخلیق کا حصہ ہونے کے سبب ایک مسلمان کے دستور العمل میں بے جا ضیاع اور مسرفانہ استعمال سے حفاظت کے متقاضی و مستحق ہیں۔ فساد اور اسراف کو اللہ نے ناپسند کیا ہے۔ ان اصطلاحات کا استعمال قرآن اور حدیث میں مختلف سیاق میں ہوا ہے۔ یہ اہم انسانی و سماجی مضرات کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی توازن کے بگاڑ اور فطری وسائل کے مسرفانہ استعمال کی طرف بھی اشارہ کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر ہم ان حدیثوں کی طرف رجوع کرسکتے ہیں جو پانی کے بے جا استعمال اور مادی وسائل (المال) کی بربادی اور ضیاع سے منع کرتی ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بے فائدہ بہت سوال کرنے سے منع کرتے تھے اور مال ضائع کرنے سے۔(مسلم)
تمام انسان اللہ کی نظر میں برابر ہیں اس لیے عدل اور مساوات جو اسلامی رویے کا سب سے اہم حصہ ہیں، اس کے لیے یکساں طور پر حق دیتا ہے۔ دنیا کو ایک مبنی برعدل اور مساوی فطری نظام کے طور پر تخلیق کیا گیا ہے۔ اس امر کی شاہد یہ حقیقت ہے کہ فطرت کے وسائل تمام انسانوں کو بلاتفریقِ مذہب و رنگ و نسل یکساں طور پر حاصل ہیں۔ سورج کی روشنی، بارش، پھولوں کا کھلنا، پھلوں کی مٹھاس، ستاروں کا چمکنا، سورج اور چاند کی تمازت وحدت، اور فطرت کا حسن سب کے فائدہ کے لیے یکساں طور پر موجود ہے۔ جو بھی فطرت کے اس خزانے سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے اپنی سعی و کاوش کے بقدر پاتا ہے۔ فطرت اپنے انعامات کی بارش، رنگ، نسل، زبان دیکھ کر نہیں کرتی۔ قرآن واضح طور پر کہتا ہے :
’’اِن کو بھی اور اْن کو بھی، دونوں فریقوں کو ہم (دنیا میں) سامان زیست دیے جا رہے ہیں، یہ تیرے رب کا عطیہ ہے، اور تیرے رب کی عطا کو روکنے والا کوئی نہیں ہے‘‘۔( الاسری:۲۰)
اور ایک دوسرے سیاق میں فرمایا گیا ہے:
’’اس نے زمین اور آسمانوں کی ساری ہی چیزوں کو تمہارے لیے مسخر کر دیا، سب کچھ اپنے پاس سے اِس میں بڑی نشانیاں ہیں اْن لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرنے والے ہیں‘‘۔( الجاثیہ: ۱۳)
اب فیصلہ انسان کا ہے چاہے تووہ دنیوی مفادات کے حصول کے پیچھے بھاگے یا آخرت کے لیے تگ و دو کرے۔ معاشی و معاشرتی نظام میں عدم مساوات انسان کی اپنی پیدا کردہ صورت ہے۔ فطری نظام کے ساتھ ہم آہنگ، اسلام معاشی نظام کی تاسیس مساوات اور عدل پر رکھتا ہے۔ قرآن کے مطابق تمام آسمانی الہامات نازل کرنے کا مقصد قیام عدل ہے:
’’ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا، اور اْن کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں، اور لوہا اتارا جس میں بڑا زور ہے اور لوگوں کے لیے منافع ہیں، یہ اس لیے کیا گیا ہے کہ اللہ کو معلوم ہو جائے کہ کون اْس کو دیکھے بغیر اس کی اور اْس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے، یقیناً اللہ بڑی قوت والا اور زبردست ہے۔‘‘ (الحدید: ۲۵)
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام عدل کی بنیاد پر تمام انسانی تعلقات کی تنظیم نو کی وکالت کرتاہے۔ اور عدل کو انسانیت نوازی اور رحم دلی کے امتزاج کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ عدل کا ظالمانہ اور مجرد تصور اس کے معاشرتی نظام سے ہم آہنگ نہیں ہے جیساکہ قرآن و سنت کا پیش کردہ جزا و سزا کا نظام اس کا شاہد ہے۔ الٰہی احکامات کے مقاصد سے ایک واضح بیان میں قرآن عدل کے انسانیت نواز تصور پر زور دیتا ہے:
’’اللہ عدل اور احسان اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے اور بدی و بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق لو‘‘۔( النحل: ۹۰)
عدل و احسان کے تصور کا سب سے اہم پہلو اس آفاقی حقیقت پر مبنی ہے کہ تمام انسان عدل و احسان کے مساوی حق دار ہیں۔ قرآن فرماتا ہے:
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جاؤ، عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اْس سے پوری طرح باخبر ہے‘‘۔( المائدہ: ۸)
یعنی عدل محض مسلم معاشرے کے افراد کا ہی حصہ نہیں۔ بین مذہبی اور بین معاشرتی تعلقات کی عدل گسترانہ تقسیم میں کھلی دشمنی بھی عدل و احسان کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننی چاہیے۔
غیر مسلموں کے تئیں رویے کی بنیاد
عالمی برادری کے ارکان کی حیثیت سے تمام مرد و خواتین یکساں احترام و اکرام کے حق دار ہیں۔ بنیادی انسانی حقوق مثلاً حق زندگی، حق انفرادی شرف، حق جائداد اور حق آزادیِ مذہب سب کے لیے یکساں ہیں۔ قرآن و سنت کے اخلاق ان حقوق میں امتیاز برتنے سے پامال ہوتے ہیں۔
خصوصاً مذہبی آزادی کے حق کے تحفظ کا انتہائی خیال رکھا گیا ہے۔ اسلام کے تصوّ ر عدل کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ایساہی ہونا بھی چاہیے تھا۔ اسلام کے اس تصور انسانیت کی روشنی میں ایک مسلمان کے اپنے دیگر انسانی رشتوں سے، اس کے اپنے ہم سائے سے، معاشرہ جس میں وہ رہتا ہو اور اپنے ہم وطن بھائیوں سے سلوک اور رویّے کے مثبت اثرات کیا ہیں؟
احترام و اکرام، رحم دلی، فیاضی، ایمانداری اور تمام معاملات میں خوش خلقی، حاجت مندوں اور غربا کی اعانت وہ چند بنیادی اقدار ہیں جو ایک مسلمان کی روز مرہ زندگی کے معمول کو شامل ہیں۔ قرآن اور سنت ان اقدار کی تنفیذ میں مسلمانوں اور غیر مسلموں میں کوئی امتیاز نہیں کرتے۔
حرمت جان: اسلام تمام ایمان والوں کو سارے انسانوں کی جان کے احترام و تحفظ کی تعلیم دیتا ہے کیونکہ یہ اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ قرآن حرمت جان کو مقدم ترین ٹھہرانے میں بالکل واضح اور دو ٹوک ہے۔ اس کی بے حرمتی نہیں ہوسکتی الاّ یہ کہ اس سے حق اور عدل کے تقاضے زد میں آتے ہوں۔ اس صورت میں بھی بالکلیہ کم از کم حرج کے ساتھ۔
جو اللہ کے سوا کسی اور معبود کو نہیں پکارتے، اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق ہلاک نہیں کرتے، اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں یہ کام جو کوئی کرے وہ اپنے گناہ کا بدلہ پائے گا۔( الفرقان: ۶۸)
بہتر سلوک، سب کے ساتھ: قرآن خبردار کرتا ہے کہ اللہ دین کے معاملوں میں تم سے برسر پیکار لوگوں سے بھی اچھے سلوک سے منع نہیں کرتا کیونکہ بھلا طریقہ، رواداری، اور وسعتِ ظرفی اسلام کی اہم بنیاد یں ہیں۔ جنگی حالات میں بھی اسلام سخت ترین شرائط عائد کرتا ہے تاکہ ان بنیادی اقدارکی پامالی نہ ہونے پائے۔
خوش گوار انسانی تعلقات کی استواری اور بہتری کے سلسلے میں قرآن بہت مثبت ہے اس کی مثال یہ آیت ہے:
’’اللہ تمہیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتاؤ کرو جنہوں نے دین کے معاملہ میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا ہے اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔( الممتحنہ: ۸)
اپنی آفاقیت اور جوش میں رسولِ خداکی یہ حدیث بھی بے نظیر ہے:
’’مخلوق اللہ کا کنبہ ہے، پس اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ شخص بہت محبوب ہے جو حق تعالیٰ کے کنبہ کے ساتھ حسن سلوک کرے‘‘۔ (مشکوٰۃ)
قرآن حکیم عبادت کے ساتھ ساتھ ایمان کے اہم لوازمات میں تمام انسانوں کے ساتھ اچھے تعلقات (اس میں ہمسائیگی کے تعلقات بھی شامل ہیں)
’’ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو، قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ، اور پڑوسی رشتہ دار سے، اجنبی ہمسایہ سے، پہلو کے ساتھی اور مسافر سے، اور اْن لونڈی غلاموں سے جو تمہارے قبضہ میں ہوں، احسان کا معاملہ رکھو، یقین جانو اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اپنے پندار میں مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کر ے‘‘۔ ( النساء: ۳۶)
ہمسائے کے ساتھ اچھے سلوک کے سلسلے میں متعدد ارشادات رسولؐ وارد ہیں۔ مثال کے طور پر چند یہ ہیں:
ایک موقع پر آپؐ نے ارشاد فرمایا : ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے ، اس وقت تک بندہ مومن نہیں ہوسکتا ، جب تک اپنے بھائی اورپڑوسی کے لیے وہی چیزیں پسند نہ کرے جو اپنی ذات کے لیے پسند کرتا ہے‘‘۔ ( مسند احمد)
’’جس کے شر سے اس کا پڑوسی امن میں نہ ہو وہ جنت میں داخل نہ ہو گا‘‘۔( مسلم)
حضورؐ نے فرمایا: ’’وہ بندہ جنت میں داخل نہیں ہو گا۔ جس کا پڑوسی اس کی ایذاؤں سے امن میں نہ ہو‘‘۔( مسند احمد)
رسول اکرم نے فرمایا کہ ’’وہ کامل مومن نہیں جو خود آسو دہ حال ہو اور اس کا پڑوسی بھوکا ہو‘‘۔( طبرانی)
اسی طرح تجارت میں معاملات کو جائز اور ایماندارانہ طریقے سے نبھانا بھی مسلمان کے بنیادی فریضوں میں شامل ہے۔ یہ بھی آفاقیت سے مملوء ہیں یعنی مسلم اور غیر مسلم میں کوئی تفریق نہیں۔ دھوکہ اور بے ایمانی کے کام ہر حال میں قابلِ ملامت ہیں خواہ اس کے متأثرین کوئی بھی ہوں اور اسے کرنے والے کیسے ہی مذہبی خیالات کے حامل ہوں۔
اس طرح معاشی معاملات میں، بلاتفریق مذہب اور سماجی و معاشی رتبے کے، کسی کی کمزوری سے فائدہ اٹھانا ممنوع ہے۔ تجارت اور معاشی معاملات کے سلسلے میں عام ہدایات قرآن کی متعدد آیات میں ملتی ہیں۔ ایک اہم آیت اس بنیادی قاعدہ کو ان الفاظ میں بیان کرتی ہے:
’’اور تم لوگ نہ تو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناروا طریقہ سے کھاؤ اور نہ حاکموں کے آگے ان کو اس غرض کے لیے پیش کرو کہ تمہیں دوسروں کے مال کا کوئی حصہ قصداً ظالمانہ طریقے سے کھانے کا موقع مل جائے‘‘۔( البقرہ: ۱۸۸)
اس سلسلہ کی چند متعلقہ احادیث یہ ہیں:
’’اپنی امانتوں کو بحسن و خوبی ادا کرو اور جنہوں نے تمہیں دھوکہ دیا ہے کہیں ایسا نہ ہوکہ تم بھی انہیں بدلے میں دھوکہ دو‘‘۔(ترمذی)
’’(قول و فعل میں) نہایت سچائی اور نہایت دیانت داری کے ساتھ کاروبار کرنے والا شخص نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوگا‘‘۔( ترمذی، دارمی، دارقطنی، بحوالہ مشکوٰۃ)
’’اللہ اس شخص پر رحم کرے جو بیچتے وقت ، خریدتے وقت اور تقاضا کرتے وقت نرمی اختیارکرے۔ تنگ دست کو ادائے قرض سے معاف کرے اور مالدار سے تقاضا کرنے میں نرمی اختیار کرے۔‘‘(بخاری)
مسلمان کے اہم فرائض میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ غریبوں، حاجت مندوں ،کمزوروں اورمحروموں کی دست گیری اور اعانت کریں۔ غریبوں اور حق داروں کو کھلانے اور نبھانے کی اس ذمہ داری کے حوالے سے اللہ کے رسولؐ نے فرمایا کہ’’ اللہ کسی قوم کو اس کے غربا اور مساکین کی بنا پر اپنی نعمتوں سے نوازتا ہے‘‘۔اس سلسلے کی روایات اسلام کی اسی فکرمندی وہمدردی کی غماز ہیں:
’’جو بیوا ؤں اور ناداروں کی مدد کے لیے کوشاں رہتا ہے اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا‘‘، یا شاید اللہ کے رسولؐ نے یوں فرمایا:’’جو ساری رات نماز میں اللہ کے حضور قیام کرے یا جیسے کوئی مسلسل روزے رکھے‘‘۔ (بخاری)
اللہ جل شانہ فرماتا ہے: ’’مجھے غرباء و مساکین کے ذریعے تلاش کرو کہ تمہیں ان ہی کی بدولت رزق دیا جاتا ہے۔‘‘ (ترمذی)
نا انصافی اور ظلم کا خاتمہ: عدل و انصاف کے قیام اور تمام انسانوں سے کھلے تعلقات کے لازمہ کے طور پر جبر و ظلم اور انسانوں کے استحصال کے سد باب کو تمام مذاہب نے اور خصوصاً اسلام نے بنیادی مقصد قرار دیا ہے۔ اسلام کا مقصد مسلمانوں کی سماجی زندگی میں جبر و ظلم پر پابندی عائد کرنا ہے۔ مسلمان کی زندگی کا محور جبر و ظلم کو تمام شکلوں میں خواہ وہ سیاسی ہوں معاشی یا سماجی، ان کا خاتمہ چاہتا ہے۔ اسلام کے نزدیک ناانصافی اور ظلم کا خاتمہ تبھی ممکن ہے جب انسان اپنے خالق کو پہچانے اور اپنی زندگی کے تمام شعبوں کو اس کے احکامات کا پابند بنائے۔ اسلام کے نزدیک سب سے بڑا ظلم تو خود یہی ہے کہ انسان اپنے خالق اور مالک کے احسانات کے بدلے میں اپنی زندگی کو اس کا تابع کرنے سے انکار کردے۔ انسانی رویوں میں انصاف کی بہترین تنفیذ اسی وقت ممکن ہے جب اسے انسانوں کے پیدا کرنے والے کی مرضی پر قائم کیا جائے۔
ظلم اور نا انصافی اسلام کے سماجی تصور میں سب سے گھناؤنا فعل ہے۔ مسلمان کا منصب ظلم اور ناانصافی کی ہر شکل کے خاتمے کے لیے انتھک جدو جہد قرار دیا گیا ہے یہ منصب اس کی روح کو جلا بخشتا ہے اور اس کی تمام تگ و دو کو اللہ کی نظر میں قبولیت کا شرف دلاتا ہے۔ اس کے برعکس ظلم یعنی ناانصافی انکارِ ایمان کے مماثل ہے جو اللہ کے غصہ اور ناراضی کا سبب اور انسان کے تمام اچھے اعمال کے ضیاع کا باعث ہے۔ انصاف کا قیام اور ظلم کا سد باب مسلمان کی زندگی میں رنگ بھرتے ہیں۔ یہ دونوں عناصر مل کر ایک اہم مرکب کی تعمیر کرتے ہیں۔
ظلم کی اصطلاح قرآن میں دو وسیع معنوں میں استعمال کی گئی ہے۔ پہلا اور بنیادی معنی تو اللہ کی ناشکری اور اس کے ساتھ خدائی میں دوسروں کو شریک ٹھہرانا ہے۔ دوسرا معنی جو اپنی شناخت میں کم نہیں ہے اور اللہ کے غضب کو دعوت دینے والا ہے وہ ہے انسانوں کے ساتھ ظلم اور استبداد۔ موجودہ سیاق میں ہم سماجی تعلقات میں ظلم کی سنگینی کی بات کر رہے ہیں۔ قرآن کی ذیلی آیات اسی کا اظہار ہیں :
’’ خوب جان لو کہ ظالموں سے اللہ ہرگز محبت نہیں کرتا‘‘۔( آل عمران: ۵۷)
قرآن تاکید کرتا ہے کہ کسی قوم پر اللہ کا عذاب تبھی آتا ہے جب وہ ظلم کے راستے کو اپناتے ہیں:
’’اور ہم بستیوں کو ہلاک کرنے والے نہ تھے جب تک کہ ان کے رہنے والے ظالم نہ ہو جاتے‘‘۔( القصص: ۵۹)
’’جو لوگ جبر اور ظلم کی روش اپناتے ہیں وہ سخت ترین عذاب کے سزاوار ہیں۔ اور جو لوگ ظلم ہونے کے بعد بدلہ لیں اْن کو ملامت نہیں کی جا سکتی۔ملامت کے مستحق تو وہ ہیں جو دوسروں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق زیادتیاں کرتے ہیں ایسے لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہے‘‘۔( الشوری: ۴۱۔۴۲)
فرعون کا قصہ انسانوں پر ظلم کے رویّے کی ہی مثال تھا۔ جس کے لیے اسے سزا ملی۔
’’واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کر دیا ان میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا، اس کے لڑکوں کو قتل کرتا اور اس کی لڑکیوں کو جیتا رہنے دیتا تھا فی الواقع وہ مفسد لوگوں میں سے تھا۔(القصص: ۵)151 آخر کار ہم نے اسے اور اس کے لشکروں کو پکڑا اور سمندر میں پھینک دیا اب دیکھ لو کہ ان ظالموں کا کیسا انجام ہوا۔(القصص: ۴۰)
بعض روایات جبر اور ظلم کو بروزِ حساب اللہ کے نزدیک سب سے گھناؤنے جرائم قرار دیتی ہیں:
’’ظلم قیامت کے دن ظالم کے لیے تاریکیوں کا سبب بنے گا‘‘۔( متفق علیہ)
حضرت ابوذرؓ سے مروی ایک حدیث قدسی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا (کہ)اللہ فرماتا ہے: ’’اے میرے بندو ! میں نے ظلم کو اپنے اوپر حرام کیا ہے اور تم پر بھی حرام کیا ، تو تم آپس میں ایک دوسرے پر ظلم مت کرو‘‘۔(مسلم)
’’جو شخص ظالم کی مدد کرے یہ جانتے ہوئے کہ وہ ظالم ہے وہ اسلام کے دائرے سے خارج ہو گیا‘‘۔( مشکوٰۃ)
’’مظلوم کی آہ سے بچو کہ اس کے اور اللہ کے بیچ کوئی آڑ نہیں ہوتی‘‘۔( متفق علیہ)
مزید اللہ کے رسولؐ نے خادم پر تشدد اور ظلم کو ایسا گناہ قرار دیا ہے جس کی سزا بروز حشر ضرور دی جائے گی۔ (طبرانی، ترغیب و ترہیب)
قرآن ظلم کو انسانی رویّے کا سب سے قابل نفرت پہلو قرار دینے کے بعد اسے یوں ہی چھوڑ نہیں دیتا بلکہ یہ مسلمانوں کو ایک ایسے سماجی نظام کو برپا کرنے کے لیے مہمیز کرتا ہے جو ظلم و جبر کی تمام شکلوں سے پاک ہو۔ اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان رکھنے والوں کے لیے اپنے نجی اور انفرادی معاملات میں ظلم سے باز رہنے کی تلقین ہے۔ لیکن وہ اس پر ہی بس نہیں کرتے اور نہ انھیں کرنا چاہیے۔ ان کے اوپر انصاف اور عدل کے قیام کی ذمہ داری بھی ہے کہ وہ دنیا کے معاملات سے باخبر رہیں اور ظلم و جبر کا شائبہ دور کرنے کی تگ و دو میں جٹے رہیں۔
یہی وہ عظیم جدو جہد ہے جو اللہ کی نظر میں قبول ہے۔ مجبوروں اور مظلوموں کو بے دست و پا نہ چھوڑدینے کی ایک دلدوز تلقین میں قرآن مسلمانوں کو حکم دیتاہے کہ وہ ان کی خاطر لڑیں اور ضرورت پڑے تو اپنی جان تک نچھاور کردیں:
’’آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اْن بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مدد گار پیدا کر دے‘‘۔(النساء: ۷۵)
امتیازی اوصاف: مذکورہ بالا مباحث سے اسلامی اقدار کے امتیازی اوصاف واضح ہوجاتے ہیں جو اپنے مقتضیٰ میں ارفع و اعلیٰ ہیں:
اولاً: انسانی کی اپنے خالق اور اس کے بندوں کے تئیں ذمہ داری کو دینی اور اخلاقی رویوں کے ایک متوازن مرکب میں ڈھال دیا گیا ہے۔ یہ دونوں ایک ہی رویّے کے دو لاینفک پہلو ہیں: اس کی انسانی جیت اس کے روحانی پہلو کا حصہ ہے۔ انصاف اور انسانوں کے محبت اللہ اور اس کی صفتِ رحیمی پر ایمان کا حصہ ہے۔ اللہ کے راستے میں جدو جہد مظلوموں اور مجبوروں کی حمایت اور ان کی نصرت سے عبارت ہے۔ دین کے ان پہلوؤں میں سے کسی ایک میں بھی ناکامی اللہ کی ناراضی کا سبب ہے۔ بالفاظِ دیگر اسلامی دستور العمل کی انسانی جہت محض دوست بنانے اور لوگوں کو متاثر کرنے کا لائحہ عمل نہیں ہے۔
ثانیاً، اسلامی اقدار تمام انسانی برادری کے لیے ہیں۔ یہ آفاقی ہیں۔ اسلام اس عملی رویے کو ناپسند کرتاہے جس کی رو سے بھلائی کسی خاص طبقہ انسانی تک محدود ہو۔
عدل ہر انسانی رویے کی اہم شرط ہے جو تمام انسانوں کے لیے بلاتفریق سماجی، معاشی یا تمدنی امتیازات کے یکساں طور پر عاید ہوتی ہے۔
ہندو ہوں یا مسلم ، عیسائی اور یہودی بنیادی انسانی اقدار کے لیے تمام یکساں طور پر حق دار ہیں۔ مظلوم سے صرف اس وجہ سے چشم پوشی کرنا کہ وہ غیر قوم سے تعلق رکھتا ہے، اسلامی رویے کے یکسر مغائر ہے۔
2n2

 

تحریر: ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی
ترجمانی: عرفان وحید

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights