’’اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا‘‘

0

وہ ایک نہایت خوبصورت اور صحت مند نوجوان تھا۔ نہایت قوی اور حوصلہ مند۔ ایک امیر کا بیٹا۔ اپنی ماں کا دلارا۔ عیش و عشرت کا پروردہ۔ گاؤں کے جس کوچے اور گلی سے نکلتا تھا، نگاہیں سلام کرتی تھیں۔ چاہنے والوں کا ایک گروپ اس کے ساتھ ہوتا، چاپلوسوں کا ٹولہ اس کی خوشی کے حصول کے لئے لن ترانی کرتا پھرتا تھا۔
جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے سے قبل جو اس کو تعلیم ملی وہ مکمل نہ ہوئی، اور علم سے جو بھی ورثہ اس کو ملا اس نے اس کو دنیا داری زیادہ سکھائی تھی، لیکن دینداری و حق گوئی، اور سچائی پر فداکاری کا جذبہ اس کے اندر سے ناپید کردیا تھا۔ یہ تو سچ تھا کہ بڑے اور چھوٹے کا امتیاز اس کو تھا لیکن وہ بھی گروہ بندیوں کی نذر تھا۔ اس کی محبت میں عصبیت تھی۔ اس کے خلوص میں مکاری کے عناصر تھے۔ شرانگیزیاں تھیں۔ لیکن اثر انداز ہونے اور متأثر کرنے والا اس کے پہلو میں ایک دل بھی تھا۔ چونکہ حلقہ احباب کافی وسیع تھا۔ اس کے چاہنے والوں کا دائرہ کافی عریض تھا۔ اور وہ خود بھی اپنے کثیر دوستوں کے حلقے اور چاہنے والوں کی کثرت پر نازش بے جا کا اکثر شکار ہوجاتا تھا۔ جب کبھی وہ گاؤں کی گلیوں میں چلتا۔ اس کے کچھ نہ کچھ دوست و احباب اس سے مل جاتے اور ہربات میں اس کا دم بھرتے رہتے ۔ اس کی چال میں ایک خاص انداز کافخر، اور اس کی گفتگو سے اکثربے اعتنائی ٹپکتی تھی۔
زمانے نے پھر کروٹ لی۔ وقت کی دھاراؤں نے اپنا رخ بدل لیا تھا۔ اب گاؤں کی وہ پرانی اقدار گھائل ہورہی تھیں۔ اور پرانے درخت جن کے پھل اکثر کڑوے بھی تھے۔ لیکن ان میں فیاضی کے عناصر تھے۔ اب ایک ایک کر کے اس چمن سے رخصت ہورہے تھے۔ وہ سیدھے سادھے لوگ جن کے پیار سے دانشمندی و عقلمندی کا ظہور ہوتا تھا۔ اور جن کی دشمنی اور بغاوت میں بھی اپنے بھائی کے لیے یک گونہ جگہ تھی۔ اب ایک ایک کرکے موت کے تھپیڑے کھا کر اپنی عظمتوں اور شجاعتوں کی داستانیں زمین کی گرد کے ساتھ چھوڑ کر رخصت ہورہے تھے۔ اور گاؤں سے الگ تھلگ ایک سنسان اور غیر ذی زرع میدان میں ابدی نیند سورہے تھے۔
زمانہ ہمیشہ بدلتا ہے۔ جہاں فلک بوس عمارت ہے کبھی اس جگہ کسی غریب کی کٹیا ہوتی تھی۔ آج جہاں جھونپڑا ہے کل وہاں عالی شان عمارت ہوگی۔ آج جس کی حویلی کے دام لگنے والے ہیں کل وہی صبح و شام کے مالک تھے۔ آج جو سراپا بے بسی اور لاچارگی کی تصویر دِکھتا ہے کل اس کی شجاعت وامارت کے قصے رائج تھے۔ اور کتنے حوصلہ مندوں کی پیشانیاں اس کے سامنے ماتھے ٹیکنے پر مجبور تھیں۔ اس کے ہلکے سے اشارے سے فضا میں خاموشی چھا جاتی تھی۔ ’’یہ زندگی ایک صحرا کے سائے کے مشابہ ہے۔ نہ یہاں کی عظمت وطاقت، دولت وشہرت کو ثبات ہے۔ نہ غربت، پریشانی اور غم ہی کو زندگی جاوداں حاصل ہے۔ وقت تیزی سے گزرتا ہے، انسانوں کے لبوں پہ مسکراہٹ اور ان کی آنکھوں کی نازک پلکوں پر آنسو کی بوند سجا دیتا ہے۔ پھر کوئی صبح کسی اور تبدیلی کا پیغام لاتی ہے، جن لبوں پر جاں لیوا مسکراہٹ تھی، اُن ہی آنکھوں میں پھر درد ناک آنسو بھر دیتی ہے ۔سچ کہا تھا شاعر نے ؂
کل جس نے بہتوں کے آشیاں خریدے تھے
آج اس کی حویلی کے دام لگنے والے ہیں
موسم بہار کے آثار ظاہر تھے۔ جمہوریت اور اس کے نظام کے متوالے اپنی ہمدردی، غریب نوازی، انسانی خدمت وترقی اور گاؤں وشہر کو چمکانے اور سنوارنے کی قسمیں کھا کھا کر عوام سے پھر ووٹ لینے کے لئے ایسے ان کے دروں کے چکر لگارہے تھے جیسے گداگر گھروں کی زنجیر پکڑ کر بھیک مانگتا ہے اور اس وقت تک جدا نہیں ہوتا جب تک ایک لقمہ نہ مل جائے۔ جمہوری نظام کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس میں صاحب عہدہ ہی خود اپنی عظمت و ایثار اور انسانوں کی خدمت کے کبھی وعدے کرتا ہے۔ اور جب عہدہ حاصل کرلیتا ہے تو غریب اور حقدار کو ایسے بھلا دیتا ہے جیسے درخت سے گرنے والی پتیاں جو ہمیشہ کے لئے اپنے اصل سے جداہولیتی ہیں۔
یہ نوجوان بہت خوش قسمت تھا۔ دنیاوی لحاظ سے اس کا نصیب نہایت درخشاں تھا۔ وہ نہایت عمدہ گھوڑے کی پیٹھ پر سواری کرتا تھا۔ اور اس کے یہاں عیش و عشرت کے سامان فراواں تھے۔
اس بار کچھ گاؤں کے سچے مخلصوں نے سوچا کہ اس فرسودہ نظام کو بدل دیا جائے۔ اور کسی اور کے ہاتھ گاؤں کی زمام دے دی جائے۔بڑا زور و شور کا مقابلہ تھا۔ جیسے جیسے دن اپنی متعینہ تاریخ سے قریب ہوتا جاتا تھا۔ ہر ایک کے دیوانوں کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوجاتی تھیں۔ ان کو کچھ زیادہ ہی غم تھا۔ اور ان کا بلڈ پریشر زیادہ ہی ہائی تھا جن کو دسترخوان کے نوع بنوع کے طعام کا مزہ مل چکا تھا۔ ان کے اپنے امیدوار کی ناکامی میں ان کو اپنی بھی ’’موت‘‘ نظر آرہی تھی۔’’انسان جب بغیر محنت کا پھل ایک بار کھالیتا ہے تو اس کی زبان کا ذائقہ اتنا بگڑجاتا ہے کہ بہت خوش نصیب ہی اس بیماری سے شفا یاب ہوپاتے ہیں‘‘۔
مقابلہ چونکہ موت وزیست کا تھا۔ اور عہدے کی چاٹ بری طرح لگ چکی تھی۔اور صداقت اور عہدوں کی ذمے داریوں کا احساس مفقود تھا۔ اب تو ’’ہمیں قورمہ ہمیں ثواب‘‘ کے دن قریب تھے۔ ’’قدرت‘‘ اس دنیا میں جو عارضی اور بہت ہی دھوکہ باز ہے اکثر ایسوں کو عہدہ پر فائزہونے کا موقع نصیب کردیتی ہے جن کو’’عہدے‘‘ کی ذمے داریوں کا ادنی شعور نہیں ہوتا۔ اور ایسے بے شعور انسانوں کی موت اس وقت اور ہوتی ہے جب حلقہ دوست و احباب اور اس کے مشیر بھی اس کے شیطانی اور غلط کام کے سچ اور حق ہونے کا فتوی صادر کردیتے ہیں۔ پھر نتیجہ وہی سامنے آتا ہے جسکو رب نے اپنی کتاب میں کھولا ہے۔’’شیطان نے اس کے شرکو دل کش بنادیا ہے‘‘ اور ستم بالائے ستم اس وقت ہوتا ہے جب اس کے دوست واحباب کا وہ حلقہ جو علم کی روشنی سے آراستہ ہو اور اپنے بے لوث اور بے لاگ مشورے میں مفاد یا دوستی یا کسی مصلحت کا شکا ہوجائے تو قوم کی ابدی موت لازم ہے۔
اس بار کی کامیابی نے اسے دیوانہ بنادیا۔ دوستوں کے فلک بوس نعرے اور تعریفی کلمات نے اس سے بچی کچھی انسانیت اور شعور کو بھی چھین لیا۔ اب اس کے ہر فیصلہ میں مفاد سامنے ہوتا۔ اس کے انصاف سے بھی مکراور اپنائیت کی بو آتی، جن میں کچھ خیر تھا انہوں نے دامن جھاڑ لیا۔ اور زندگی کی اس گہماگہمی سے خود کو الگ کرلیا۔
اب ان کے گھونسلوں کی ٹہنیوں پہ کیا ہورہا ہے۔ اس سے وہ بے خبر تھے اور ہونا بھی چاہتے تھے۔ کبر ونخوت، طاقت وقوت آزاد تھی۔ اور بلا کسی تردد اور ادنیٰ شائبہ خوف کے رنگ رلیاں منانے اور گل کھلانے کا خوب موقع ملا۔ سب چپ تھے اور جمہوریت کے نظام کو چلانے والوں کے سامنے کوئی مخالف نہ تھا۔ اور ناقص نظام جس سے کچھ تو خیر کی حزب مخالف سے امید تھی آزاد تھا۔
زندگی کے دن ایسے ہی گزرتے رہے، گاؤں میں ایک سناٹے کا عالم طاری رہا۔ اگر کبھی کبھی کوئی کسک اٹھتی تو طاقت اس کو دبا دیتی یا مکر کی چال اس کو اپنے جال میں پھنسالیتی۔
اب چاپلو سوں کا حلقہ اس کے نزدیک پھیل رہا تھا۔ اور بلا کسی ادنی اشارہ کے وہ اس کے فرمان پر مرجانے کو تیار تھے۔
’’طاقت‘‘ایک خیر ہے اگر مومنانہ وصف کی مالک ہے۔ جب اور جہاں طاقت اس وصف سے عاری ہوگی تو گھائل ہوگی اور گھائل کرے گی۔ یہ ایک ابدی صداقت ہے تاریخ اس کا بیّن ثبوت ہے۔‘‘
وہ بے چارا جس کو’’ستیہ‘‘کے مارگ پر ہونا چاہیے تھا۔ جس کی ماں کی دعائیں ہمیشہ اس کے لئے ابدی اور اخروی ترقی ونجات کے لئے ہوتی تھیں۔ اور جن کے آخری جدائی کے ہاتھ اس کے سر پر اس پیار کے ساتھ پہنچتے تھے کہ بیٹا’’ستیہ‘‘کے مارگ پر مرنا ہی تیری کامیابی اور میری آخری تمنا ہے۔
وہ بری طرح اب اپنوں کی اندھی محبت میں گھر گیا۔ اس کے اندر حق اور ناحق کا امتیاز غائب تھا۔ کیونکہ اس کے غلط کو صحیح بتانے والے بہت تھے۔ بلکہ اس کے لیے اپنے پائینچے بھی اٹھانے کو تیار اگر کسی کی جرأت اس کے غلط کام کوسلام کرتی۔ اپنا من اپنی جنت تھی۔ اور ہر طرح کے گل کھلانے کی آزادی اور مال ومتاع لوٹنے کی کھلی فرصت، حقوق غصب کرنے کی کھلی چھوٹ۔
اب اس کی جوانی جاچکی تھی۔ طاقت کا نشہ کا فور ہوگیا تھا۔ نہ اب پہلے جیسی طاقت تھی، نہ آواز میں گھن گرج، وہ تنہا اپنے کمرے میں پڑا تھا۔ مہینوں سے بیمار تھا۔ شدت بخارنے اس کو نحیف وناتواں بنادیا تھا۔ اس کی بیوی دنیا سے کئی سال قبل جاچکی تھی۔ اس کی مضطرب روح کبھی بھی اس کے رشتہ محبت کے بندھن سے خوش نہیں تھی۔ کیونکہ حرام وحلال کا گہرا شعور اور ان کے خوشگوار اور ناگوار انجام کا علم اس کی رگ وپے میں سرایت کیے ہوا تھا۔
اس کے آخر کی دوبیٹیاں تھیں جو اب جوانی کی دہلیز پر کھڑی تھیں۔ بیٹے اپنی بیویوں کے ساتھ کسی شہر میں مقیم تھے۔ اور باپ سے رشتہ کاٹ لیا تھا۔ ’’ناجائز محبت اور اندھی دوستی کا انجام ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے۔‘‘
اب وہ زندگی کی دوڑ کو ہار رہا تھا۔ جس کو کوئی نہ ہراسکا، اس کو خودوقت نے ہرادیا۔ اس کی امیری اب غریبی میں بدل چکی تھی۔ اس کے اندھے دیوانوں کا پتہ نہ تھا۔ ان میں اگر کوئی کبھی درشن کرتا دنیا کے لاج کی وجہ سے، تو اپنی کم عقلی کی وجہ سے کوئی دل جلانے والا واقعہ ہی کہہ جاتا۔’’لالچ انسان کو صرف کمزورہی نہیں کرتی ہے۔بلکہ اس کو دانشمندی اور مومنانہ بصیرت سے بھی محروم کردیتی ہے۔‘‘
آج اس کی بیماری کا حملہ کچھ زیادہ شدید تھا۔ موت کی گردش اس کے ذہن و خیال میں بار بار آتی تھی۔ وہ موت سے بھاگنا چاہتا۔ لیکن بے سود۔ کیونکہ وہ موت سے قریب تر اور زندگی سے کافی دور تھا۔ اس کی دونوں بیٹیاں اس کے قریب کھڑی تھیں۔ مثل گلاب لیکن حزن و غم کی تصویر۔ ان کی عزت و آبرو کے لیے وہ تڑپ رہا تھا۔ کیونکہ اس کو وہ جرائم یاد آرہے تھے جن کا ارتکاب اس نے دولت وطاقت کے نشے میں نہ جانے کتنی ناشگفتہ کلیوں کو توڑکرکیا تھا۔ اب اس کو اپنا ماضی ناسور لگتا تھا۔ اپنے دوستوں کو وہ کبھی گالیاں دیتا۔کبھی ان’’باشعوروں‘‘کو جن کی فتوے بازیوں کی لغزش سے وہ ابدی حق کو کبھی سمجھ نہ سکا۔توکبھی وہ لفظ’’محبت‘‘ کو گالی دیتا اور کہتا ہائے رے محبت تو کتنی ستم گر ہے۔ تیرے دامِ فریب میں، میں نے بری طرح پھنس کر زندگی کا ساتھ چھوڑدیا۔اپنے مخلص اور فریبی دوستوں میں امتیاز نہ کر سکا۔ اب اس کی آواز بھرارہی تھی۔سانس اُلٹ چکی تھی اور ڈوبتا سورج اپنی ہلکی کرنوں کو روشن دان سے کمرے کے اندر بھیج رہا تھا۔ اور اس کی آخری لالی کے ساتھ اپنی ماں کا لال اپنے کالے کرتو توں کے ساتھ رات کے کالے اندھیرے میں ابدی نیند اپنے لبوں پر یہ درد بھرا ٹکڑا دہراتے ہوئے سوگیا کہ ؂
اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا
ماسٹر شاہ عالم فلاحی،
سابق استاذ انگریزی لٹریچر، شعبۂ اعلی، جامعۃ الفلاح

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights