آزاد ہندوستان کے چند مسلم سائنس داں

0

سید عمر

سائنس و ٹیکنالوجی سے مسلم امت کا تعلق کافی قدیم ہے ، یہ اتنا ہی پرانا تعلق ہے جتنی اس امت کی تاریخ۔ ابتداء سے ہی اس امت نے جہاں فقہ، حدیث ، قرآن کے ماہرین تیار کئے ہیں وہیں طب، طبیعات، جیومیٹری، الجبراء، فلکیات، کیمیا جیسے سائنسی علوم کے بے حساب اعلیٰ پائے کے ماہرین بھی پیدا کئے۔ اندلس جسے آج اسپین کہا جاتا ہے کسی دور میں مسلم تہذیب کا ایک اہم مرکز تھا اور ساتھ ہی اسے تقریباً ہر علم کے میدان میں یوروپ کا استاد بھی مانا جاتا تھا۔
ہندوستان کی آزادی کے بعد یہ کہا جاتا ہے کہ بالعموم مسلمانوں کی معاشی، سیاسی، تہذیبی، سماجی ونیز علمی و سائنسی ترقی کا سلسلہ تھم گیا ہے۔ مسلمانو ں میں کوئی قابل ذکر افراد پیدا نہیں ہوئے جنھوں نے اپنے اپنے شعبہ ہائے حیات میں کارہائے نمایاں انجام دئے ہوں۔ اگرچہ کہ یہ بات سچ ہے کہ تقسیم ہند کے بدولت مسلمانوں کے پڑھے لکھے اور ذی شعور طبقے کا ایک بڑا حصہ سرحد کے دوسرے پار سدھار گیا تھا جس نے اس قوم کو ہندوستا ن میں ایک بڑا دھکا پہنچایا وہیں یہ بات بھی درست ہے کہ مسلمانوں نے ان نامساعد حالات میں بھی اپنے قابلیتوں اور ذہانتوں کا لوہا منوایا ہے۔ یہ کہنا کہ ان میں کوئی قابل ذکر افراد پیدا نہیں ہوئے ، یقینا سچ نہیں ہے۔ درج ذیل سطروں میں آزاد ہندوستان میں سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں قابل ذکر کارنامے انجام دینے والے چند افراد کا مختصرتعارف پیش کیا جارہا ہے۔ یاد رہے کہ یہ فہرست اس قدر طویل ہے کہ رفیق کے صفحات ان تمام کے تعارف کے لئے ناکافی ہیں، اس لئے محض جند منتخبہ افراد کا نام ہی یہاں پر درج کئے جارہے ہیں۔

ڈاکٹر اے پی جے عبد الکلام :

آزاد ہندوستان کی ٹیکنالوجی کی تاریخ ڈاکٹر کلام کے تذکرے کے بغیر ادھوری رہے گی۔ تمل ناڈ کے ایک چھوٹے سے شہر رامیشورم میں پیدا ہوئے عبد الکلام کو ہندوستان کا میزائل مین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ڈی آر ڈی او اور پھر اسرو سے جڑے رہنے کے بعد ڈاکٹر کلام کا تعلق ہندوستان کے میزائل پروگرامس سے ہوگیا ۔ ہندوستان کے سبھی میزائل پروگرامس میں انھوں نے ایک اہم رول ادا کیا۔ ایک غریب گھرانے سے پل کر بڑھنے والے والے اے پی جے کی خدمات کے عوض انھیں ہندوستان کے اعلیٰ ترین اعزازات پدم وبھوشن اور بعدازاں بھارت رتن سے نوازا گیا۔
اٹل بہاری واجپئی حکومت کے دوران این ڈی اے نے ڈاکٹر کلام کو اپنا صدارتی امیدوار منتخب کیا اور وہ ملک کے گیارھویں صدر منتخب ہوگئے۔ بحیثیت صدر ڈاکٹر کلام نے اپنی پہچان ایک سادہ، ایماندار اور عوامی صدر کی حیثیت سے متعارف کروائی۔ بالخصوص ان کا ویژن اور ان کی تقاریر نوجوانوں میں کافی مقبول تھے۔ علاوہ ازیں ان کی تحریریں سائنسی دنیا میں نیز نوجوانوں میں کافی مقبول تھیں۔ ان کی مشہور سوانح حیات Wings of Fireایک مقبول کتاب ہے ۔ جولائی 2015میں اے پی جے انتقال کرگئے۔

ڈاکٹر سید ظہور قاسم :

ڈاکٹر ظہور قاسم کو ہندوستان کے انٹارٹیکا مشن کے لئے جانا جاتا ہے۔ 80کی دہائی میں ڈاکٹرقاسم نے ہندوستان کے اس طرح کے کئی مشنس کی قیادت کی۔ وہ ہندوستان کے 1981 انٹارٹیکا مشن کا حصہ تھے۔ پی وی نرسمہارائو کے دور میں آپ ہندوستانی پلاننگ کمیشن کے ممبر رہے۔ 89تا 91کے درمیان آپ نے ملک کی مشہور یونیورسٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ کی وائس چانسلر کے ذمہ داری بھی ادا کی۔ علم سمکیات (Fisheries) ، ماحولیات اور mari-cultureمیں آپ کی کافی خدمات رہیں۔ اپنی تحقیق کی بنیاد پر آپ نے زائد از 200تحقیقی مقالے قومی و بین الاقوامی ریسرچ جرائد میں شائع کروائے۔ آپ کی ان خدمات کے لئے ہندوستانی حکومت نے آپ کو اعلیٰ ترین قومی اعزازات پدم بھوشن اور پدم شری سے نوازا۔ انڈین سائنس کانگریس نے 2008میں آپ کو لائف ٹائم اچیومینٹ ایوارڈ سے نوازا۔ اکٹوبر 2015میں ڈاکٹر قاسم رحلت فرماگئے۔

ڈاکٹر سالم علی :

ہندوستان کے برڈ مین (Bird Man of India)کے لقب سے جانے والے سالم معزالدین علی ماہر طیوریات تھے جنھوں نے ہندوستان میں اپنی طرز کا پہلا پرندوں کا سروے کروایا اور پرندوں کے موضوع پر کئی کتابیں تصنیف کیں۔ Bharatpur bird sanctuary نیز Silent Valley National Park۔ کے قیام و تحفظ میں ان کا رول کافی اہم رہا۔ کئی پرندے اور پرندوں پر کام کرنے والے کچھ اداروں کو آپ کا نام دیا گیا ہے۔سالم علی کئی سائنسی اداروں کی ترقی اور مستحکم کرنے کے لئے بھی سرگرم رہے۔ اس سلسلے میں اپنی تجاویز کے ساتھ انھوں نے کئی مقالے بھی لکھے۔ ان کی خدمات کے لئے کئی اداروں اور یونیورسٹیز نے انھیں اعزازات اور ڈگریوں سے نوازا۔
ہندوستانی حکومت نے انھیں 1958میں پدم بھوشن اور 1976میں پدم وبھوشن سے نوازا۔ 1985میں وہ راجیہ سبھا کے لئے بھی نامزد کئے گئے۔

ڈاکٹر عبید صدیقی:

نیورو بیالوجی اور جینیٹکس کے ماہر ڈاکٹر عبید صدیقی ہندوستان کے مایہ ناز سائنسداں تھے جنھوں نے ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف فنڈامینٹل ریسرچ ۔ نیشنل سینٹر فار بیولوجیکل سائنس کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اپنی ابتدائی تعلیم کے بعد یونیورسٹی آف گلاسگو (امریکہ ) سے انھوں نے پی ایچ ڈی کی تکمیل کی ۔ University of Pennsylvania۔ میں اپنے ریسرچ کے دوران انھوں نے کافی اہم تحقیقاتی کام انجام دئیے۔ ہومی بھابھا کی دعوت پر 1962میں انھوں نے TIFRممبئی میں مولیکیولار بیالوجی یونٹ (Molecular Biology)قائم کیا۔ اس یونٹ کو ہندوستان میں جدید بیالوجی کی ریسرچ میں ایک انتہائی قدم مانا جاتا ہے جس نے تحقیق کے میدان میں ایک نئی جہت کا آغاز کیا۔ 1980کی دہائی میں ڈاکٹر صدیقی نے ذائقہ پر اپنا تحقیقی کام کیا جس نے جدید سائنس کو یہ سمجھنے میں مدد دی کہ ذائقہ اور سونگھنے کی حسیات دماغ میں کس طرح پہنچتی ہیں اور دماغ انھیں کس طرح سمجھ پاتا ہے۔ انھیں اپنے کام کے لئے کئی ایوارڈز سے نوازا گیا۔ ہندوستانی حکومت نے بھی انھیں پدما وبھوشن اور پدما بھوشن سے نوازا۔ جولائی 2013میں ایک سڑک حادثے کے نتیجے میں ان کا انتقال ہوگیا۔

پروفیسر ای اے صدیق :

ابراہیم علی ابوبکر صدیق ہندوستان کے مایہ ناز زرعی سائنس داں ہیں جنھوں نے اپنے کام کے ذریعے اعلیٰ معیار کی چاول کی کئی نئی اقسام کی پیداوار میں مدد دی۔ ہندوستانی حکومت نے انھیں ان کے کام کے لئے 2011میں پدم شری سے نوازا۔ انھوں نے مختلف سائنسی اور اکیڈمک میدانوں میں کام کیا ۔ ان کی تحقیق کا اصل میدان جینیٹک ریسرچ رہا جس کے ذریعے انھوں نے چاول کی کئی نئی اقسام ایجاد کی گئی۔ پوسا باسمتی 1، پوسا 2-21، پوسا 33، پوسا 4 اور پوسا 834جیسی اقسام آپ کے نام معنون کی جاتی ہیں۔ پروفیسر صدیق نے مصر، ویتنام ، بنگلہ دیش جیسے ممالک کے ساتھ ورلڈ بینک کے لئے بھی اپنی خدمات انجام دیں۔ ورلڈ بینک کے لئے بطور صلاح کار اپنی خدمات کے دوران انھوں نے کئی پراجکٹ پروپوزلز تیار کئے ۔

قدسیہ تحسین:

ڈاکٹرقدسیہ تحسین علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں زولوجی کی پروفیسر ہیں۔ آپ ہندوستان کی دو سائنس اکیڈمیز سے وابستہ ہیں۔ Nematology۔ کے میدان میں ان کی خدمات کے لئے انھیں ONTA (Organization of Nematologists of Tropical America) کی جانب سے 2005میں خصوصی اعزاز سے نوازا گیا۔ اس اعزاز کو حاصل کرنے والی وہ ایشیا سے پہلی خاتو ن ہیں۔اسی کے ساتھ وہ کئی موضوعات پر کئی ریسرچ مقالے بھی شائع کرواچکی ہیں۔ taxonomy, biodiversity, جیسے موضوعات آپ کے تحقیق کا میدان رہے ہیں۔ Nematodesکی کئی نئی اقسام اور ان کی تفصیلات پر بھی آپ نے کافی کام کیا ہے۔

ڈاکٹر شاہد جمیل:

ڈاکٹرشاہد جمیل Wellcome Trust DBT India Alliance۔ کے سی ای او اور مایہ ناز سائنسداں ہیں۔ آپ Hepatitis Eوائرس پر اپنے ریسرچ کے لئے جانے جاتے ہیں۔ 2000میں انھیں ہندوستان کے اعلیٰ ترین سائنسی ایوارڈ شانتی سوروپ بھٹناگر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ وہ ہندوستان کی اعلیٰ ترین سائنسی اداروں National Academy of Sciences, India, Indian Academy of Sciences, اور Indian National Science Academyکے رکن ہیں۔ وائرس پر آپ کی تحقیقات کی ابتدا آپ کے قیام امریکہ کے دوران ہوئی جہاں انھوں نے Hepatitis Bوائرس پر کام کیا ۔ اس کے بعد انھوں نے Hepatitis Eاور HIVوائرس پر تحقیق کی۔انھوں نے اس گروپ کی قیادت بھی کی جس نے HIV-1 Type Cکے لئے Vaccinesتیار کئے۔ ان موضوعات پر آپ کے کئی تحقیقی مقالے نیز کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔

ڈاکٹر احتشام حسنین

بہار کے ضلع گیا سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر سید احتشام حسنین ملک کے جانے مانے بیالوجیکل سائنس داں ہیں جو بیو ٹیک سے مربوط کئی اداروں سے جڑے ہیں اور ساتھ ہی ملک کی کئی ریاستو ں میں سائنسی مشیر کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ آئی آئی ٹی دہلی میں پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے ڈاکٹر حسنین اس سے قبل یونیورسٹی آف حیدرآباد جیسی باوقار یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہ چکے ہیں۔ وہ فی الوقت جامعہ ہمدرد نئی دہلی کے وائس چانسلر ہیں۔ حکومت ہند نے آپ کو بیوٹیک کے میدان میں آپ کی خڈمات کے لئے پدم شری سے نواز ا ۔اسی کے ساتھ جرمنی نے اپنے اعلیٰ ترین شہری اعزاز Order of Merit (ہندوستان کے بھارت رتن کے مماثل) سے بھی آپ کو نوازا۔ اس اعزاز کو حاصل کرنے والے آپ واحد ہندوستانی ہیں۔ ایک سائنس داں کے علاوہ آپ کی پہچان پالیسی ساز اور ایک قابل منتظم (ایڈمینسٹریٹر) کے طور پر بھی جانی جاتی ہے۔ ہندوستانی حکومت اور کئی ریاستی حکومتوں کی سائنسی پالیسیز کے تعین میں آپ کا اہم رول رہا ہے۔ بین الاقوامی طور پر آپ ٹی بی کے ذمہ دار بیکٹیریا پر اپنی ریسرچ کے لئے جانے جاتے ہیں۔ اس موضوع پر اور اسی کے ساتھ دیگر کئی موضوعات پر آپ کے سینکڑوں تحقیقی مقالے قومی اور بین الاقوامی ریسرچ جرنلزمیں شائع ہوچکے ہیں۔

ڈاکٹر شمیم جے راجپوری

ڈاکٹر شمیم جئے راجپوری ہندوستان کے ایک نمایاں بیالوجیکل سائنس داں ہیں جو nematologyکے میدان میں اپنی تحقیق اور کام کے لئے جانے جاتے ہیں۔ حکومت ہند کی وزارت ماحولیات کی جانب سے شروع کردہ Janaki Ammal National Award for Taxonomy سب سے پہلے آپ کو عطا کیا گیا۔ ڈاکٹرجئے راجپوری کا ایک بڑا کارنامہ ملک کی سب سے پہلی اردو یونیورسٹی (مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ۔ حیدرآباد) کا قیام اور اور اس کے پہلے وائس چانسلر کی ذمہ داری بھی ہے۔ ملک کے کئی سائنسی اداروں کی قیادت کا اعزاز بھی آپ کو حاصل ہوا ہے۔ آپ کی تحقیقات کا اصل میدان درختوں اور مٹی کے nematodes رہے ہیں۔ آپ نے زائد از 20 کتابیں اور سینکڑوں ریسرچ پیپرس ان موضوعات پر تحریر کئے ہیں۔ بطور وائس چانسلر مولانا آزاد یونیورسٹی آپ نے یونیورسٹی کے قیام اور اس کے ابتدائی ایام میں استحکام کے لئے انتھک کوششیں کیں۔

آفرین علام

ہندوستانی بنیادوں سے تعلق رکھنے والی آفرین علام کی پرورش اور ان کی تعلیم امریکہ میں ہوئیں۔ بیومیڈیکل کمپنی SiNON Therapeutics کی بانی اور سی ای او 28 سالہ علام نے میڈیکل میں باضابطہ کوئی ڈگری حاصل کی اور نہ ہی وہ پی ایچ ڈی ہیں، اس کے بائوجود ان کی اس میدان میں دلچسپی اور کچھ کر دکھانے کی جستجو نے ان سے وہ کام لے لیا جو کئی معمر سائنس دانوں سے ممکن نہ تھا۔ علام کی توجہ کا مرکز کاربن ڈاٹس رہے ہیں۔ کاربن ڈاٹس کافی چھوٹے ذرات ( Nano Particles)کو کہا جاتا ہے جو ادویات اور علاج کے دیگر ذرائع کو لے جانے والے ذریعہ کا کام انجام دیتے ہیں۔ آئی آئی ٹی میں اپنے ریسرچ کو انھوں نے آگے بڑھایا۔ اور 2014-15کے آس پاس انھوں نے اپنے کمپنی کی بناء ڈالی۔

ڈاکٹرسید محمود نقوی

جیولوجی کے مشہور سائنس داں سید محمود نقوی ہندوستان میں اس موضوع پر مہارت رکھنے والے چند لوگوں میں مانے جاتے تھے۔باوقار شانتی سوروپ بھٹناگر اوارڈ یافتہ ایس ایم نقوی نے اپنے چار دہائیوں پر مشتمل کیرئیر میں مختلف خدمات انجام دیں۔جنوبی ہند آپ کے تجربات کا مقام تھا جہاں کے مختلف مقامات پر آپ نے اپنی ریسرچ کے ذریعے کئی نئی چیزیں دریافت کیں۔ 1960کے بعد انھوں نے انتھک محنت کے ذریعے تمام وسائل سے مالامال جیو کمیسٹری لیبولیٹریز کے قیام کو ممکن بنایا جس نے اس میدان میں مختلف ریسیرچ کے لئے کئی ریسرچ اسکالرز کی مددکی۔ جیوکیمسٹری کے میدان میں کئی نئے لوگوں کی تیاری کا عظیم الشان کارنامہ بھی انھوں نے انجام دیا۔آپ نے اس میدان میں کئی ریسرچ پیپرز اور کتابیں بھی تصنیف کی ہیں۔ ایس ایم نقوی گولڈ میڈل آپ کے نام سے قائم کردہ اوارڈ ہے جو جیولوجی کے میدان میں قابل ذکر کارناموں کے لئے دیا جاتا ہے۔

انیس الرحمن

انیس الرحمن ہندوستانی شہر حیدرآباد میں پیدا ہوئے لیکن اپنی زندگی کا بڑا حصہ امریکہ میں صرف کیا اور وہیں 1987میں ان کا انتقال ہوا۔ انیس الرحمن کو کمپیوٹنگ اپلی کیشنس میں ان کی خدمات کے لئے جانا جاتا ہے۔ آج بھی کمپیوٹرز میں لکھے جانے والے کئی Codesکی بنیاد ان کے ذریعے دئے گئے الگورتھمس ہوتے ہیں۔ ابتدائی تعلیم حیدرآباد سے حاصل کرنے کے بعد انھوں نے کیمبرج یونیورسٹی سے گریجویشن کی تکمیل کی اور بلجیم سے فزکس میں پی ایچ ڈی مکمل کیا۔ ڈاکٹر انیس الرحمن کو Molecular Dynamicsکا باوا آدم کہا جاتا ہے جو کمپیوٹرز سے تعلق رکھنے والی فزکس کی ایک مخصوص شاخ ہے۔ American Physical Societyکی جانب سے ہر سال فزکس میں قابل ذکر کارنامے کے لئے ہر سال انیس الرحمن اوارڈ دیا جاتا ہے۔ Computational Physicsمیں امریکہ میں دیا جانے والا یہ اعلیٰ ترین اعزاز ہے۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights