اسلامک بینکنگ : ملک کی ایک اہم ضرورت

0

صلاح الدین ایوب،
ریسرچ اسکالر، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی

مذہبِ اسلام کی دوسرے مذاہب پر اس طور پر بھی بالادستی مانی جاتی ہے کہ دوسرے مذاہب انسانی زندگی کے محض بعض شعبوں میں ان کی رہنمائی کرتے ہیں، جبکہ بہت سے شعبوں میں ان کے یہاں مکمل طور سے خاموشی دیکھنے کو ملتی ہے۔ اسلام انسانی زندگی کے ہر پہلو اور ہر شعبے میں رہنمائی کرتا ہے اور اپنے متبعین کو دنیا وآخرت کی کامیابی کا یقین دلاتا ہے۔
بینک کاری کے شعبے میں بھی اسلام کی ہدایات موجود ہیں، جن کی بنیاد پر قائم ہونے والا نظام اسلامی بینک کاری یاغیر سودی بینک کاری نظام کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ نظام قرآن و حدیث کی روشنی میں تیار کیا گیا ہے۔ اس میں نفع و نقصان کی تقسیم کو فروغ دیا جاتا ہے، اور سود کے لین دین سے روکا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ اس نظام میں پیداواری عمل کو بڑھاوا دیا جاتا ہے، جیسے صنعت وتجارت، خریدوفروخت، مالی لین دین وغیرہ، اور غیر پیداواری عمل سے روکا جاتا ہے جیسے جوا کھیلنا، منشیات کی تجارت کرنا، اور مستقبل کا اندازہ لگا کر کم وقت کے لیے مالی تبادلہ(Speculation)وغیرہ۔
عالمی مالیاتی بحران کے بعد جبکہ رائج بینک کاری نظام کی ناکامی پوری طرح کھل کر سامنے آگئی، ماہرین مالیات بینک کاری کے دوسرے طریقوں پر غور کرنے پر مجبور ہوگئے اور اس موقع پر دنیا کے مختلف حصوں میں اسلامی بینک کاری کو منظر عام پر آنے کا خوب اچھا موقع ملا۔ باوجود اس کے کہ مشرقِ وسطیٰ، جنوب مشرقی ایشیا (خاص کر ملیشیا اور انڈونیشیا) اور یوروپ میں اسلامی بینک کاری نے غیر معمولی ترقی کی ہے، ہندوستان کی حکومت آج بھی اس نظام کو اجنبی اور ناقابل عمل نظام کے طور پر دیکھتی ہے۔
گزشتہ دہائی میں اسلامی بینکوں کے سرمایہ میں پندرہ فیصد کی اوسط در سے اضافہ ہوا ہے اور بہت سارے ترقی یافتہ ممالک نے اسلامی بینک کاری کی شروعات کی ہے جیسے جرمنی، برطانیہ، امریکہ، فرانس اور سنگاپور وغیرہ۔
دنیا کے بہت سے بڑے بنکوں نے اسلامی بنک کاری کے اصولوں کے مطابق اپنی شاخیں کھولی ہیں جیسے HSBCنے امانہ کے نام سے Standard Charteredنے صادق کے نام سے مزید Lloyds TSB Bankاور Citi Group نے بھی اپنے یہاں اس کی شاخیں کھولی ہیں۔
برطانیہ کے سابق وزیر اعظم گورڈن براؤن جن کے وزیرِ مالیات رہتے ہوئے وہاں اسلامی بینک کاری نظام کی شروعات ہوئی تھی، اس نظام سے اس قدر مطمئن اور اس کے سلسلے میں پراعتماد تھے کہ وہ یہاں تک کہہ بیٹھے کہ ’’مستقبل میں برطانیہ اس نظام کا سرچشمہ یا مرکز بن جائے گا۔‘‘ آج کے نتائج ان کی پیشین گوئی کی قدرے تصدیق کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت جبکہ دوسرے بینک ڈوب رہے ہیں، برطانیہ کا اسلامی بینک(Islamic Bank of Britain)ملک میں اپنا جال پھیلا رہا ہے اور دوسرے مغربی ممالک میں توسیع کا ارادہ رکھتا ہے۔
آج دنیا بھر میں تقریباً ۷۵؍ سے زائد ممالک میں اسلامی بینک کاری نظام پر عمل جاری ہے اور حالیہ اندازوں کے مطابق عالمی سطح پر اسلامی بینک کاری کا سرمایہ ۱۰۱؍ ٹریلین امریکی ڈالر سے زیادہ ہوگیا ہے جبکہ ۲۰۱۰ء میں یہ صرف ۸۲۶ بلین امریکی ڈالر تھا۔
۲۰۰۶ء سے ۲۰۱۰ء کے دوران خلیجی ممالک میں سب سے بڑے ۲۰؍اسلامی بینکوں کی اوسط سالانہ ترقی تقریباً ۲۰؍ فیصد تھی، جبکہ رسمی بنکوں کی ترقی صرف ۹؍ فیصد تھی۔
عالمی سطح پر اسلامی بینک کاری کے کامیاب تجربات اور اس کے تئیں حاصل ہونے والی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے ہندوستان کے مرکزی بینک(RBI) کے ڈائریکٹر، ڈی سبّا راؤ نے اسلامی بینک کاری کی ملک میں شروعات کرنے کی تجویز پیش کی ہے اور حکومت سے اس بات کا مطالبہ کیا ہے کہ قانون میں ترمیم کی جائے، جس کے نتیجے میں اس نظام بینک کاری کو عمل میں لایا جاسکے۔
۲۰۰۸ء میں ہندوستان کے پلاننگ کمیشن نے ڈاکٹر رگھورام راجن کی سرپرستی میں ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جس نے غیر سودی بنک کاری کو رسمی بینک کاری کے حصے کے طور پر عمل میں لانے کی تجویز پیش کی تھی اور اس نظام کو بلاتفریق سماجی ترقی کا ذریعہ بتایا تھا۔
چند سال قبل علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے اسلامی بینک کاری کے ماہر پروفیسر نجات اللہ صدیقی صاحب کی زیرِ نگرانی اسلامی بینک کاری اور مالیاتی نظام پر ایک پوسٹ گریجویٹ کورس کی شروعات کی ہے۔
فی الحال ہندوستان میں اسلامی بنک کاری، NBFCsاور بیت المال کی شکل میں موجود ہے لیکن ان کی تجارت انتہائی محدود ہے، یہ ادارے عموماً علاقائی سطح پر کام کرتے ہیں اور پچھڑے طبقات کی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ہندوستان کے مختلف حکومتی اور غیر حکومتی اداروں نے اس میدان میں دلچسپی دکھائی ہے۔ کیرلا حکومت کی زیرِ ملکیت KSIDCنے البرکۃ مالیاتی سروسیز (Albarakah Financial Services Ltd)قائم کیا۔ جنرل انشورنس کمپنی نے اسلامی ری انشورنس کی اسکیم چلائی۔ مزید یہ کہ بہت ساری میوچول فنڈ کی اسکیمیں صرف اسلامی شریعت کے مطابق تصرف کرتی ہیں۔ تاسیس(TASIS)ایک انڈیکس ہے جو کہBSEکی نیابت کرتا ہے اور اس میں صرف ان اسٹاکس کو رکھا گیا ہے، جو اسلامی شریعت کے مطابق ہیں۔
اگرچہ اسلامی مالیاتی نظام مذہبی اصولوں سے نکلتا ہے، یہ ایک قابلِ عمل نظام ہے جو کہ خطرے کو تقسیم کرنے کے اصول پر مبنی ہے، اور خطرات سے پُر سرمایہ دارانہ مالیاتی نظام کا متبادل ہونے کے ساتھ ساتھ یہ نظام قرض میں ڈوبے کسانوں، مزدوروں اورپچھڑے طبقے کے لوگوں کو امداد پہنچا کر ہندوستانی سماج کو بحال کرسکتا ہے۔ لہٰذا اسلامی بینک کاری نظام میں تمام لوگوں کو شامل کرکے اور ساتھ لے کر چلنے اور ترقی کرنے کی قابلیت موجود ہے۔
پیو ریسرچ سنٹر کے مطابق ہندوستان میں ۱۷۷؍ ملین سے زیادہ مسلمان رہتے ہیں جو کہ دنیا میں مسلمانوں کی تیسری سب سے بڑی آبادی ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد یا تو غیر سودی کھاتوں کے ذریعہ لین دین کرتی ہے یا پھر سودی کھاتوں سے ملنے والی رقم کو غریبوں کی مدد میں صرف کردیتی ہے۔ اسلامی بنک کاری کے پاس ان رقموں کو حاصل کرنے کے مواقع ہیں جبکہ رسمی بینک اسے نہیں حاصل کرسکتے۔
ہندوستان کی عوام نے مختلف طریقوں سے شراکت کی بینک کاری کو عمل میں لانے کی کوشش کی ہے، جیسے کوآپریٹیو بینک، غیربینکی مالیاتی ادارے، اور مائیکرو کریڈٹ وغیرہ کی وقتاً فوقتاً تشکیل دی۔ اسلامی بنک کاری کو ایسے ہی اداروں کی مدد سے عمل میں لایا جاسکتا ہے۔
ملیشیا، انڈونیشیا، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے ہندوستان اپنے تعمیراتی اور دیگر شعبوں میں درکار فنڈ کو اسلامی مالیاتی طریقوں جیسے سکوک (لمبی مدت کا بونڈ) کے ذریعہ حاصل کرسکتا ہے۔ خاص کر ہمارا ملک اسلامی بینک کاری نظام کے ذریعہ مشرق وسطی میں پڑا قابلِ تصرف اضافی سرمایہ کثرت سے ملک میں لاسکتا ہے۔
ہندوستانی بینک کاری کا نظام دراصل چند قوانین کے تحت زیرِ عمل ہے جو کہ اسلامی بینک کاری کو ملک میں داخل ہونے سے روکتے ہیں:
Banking Regulation Act – 1949
Reserve Bank of India Act – 1934
Cooperative Societies Act
Negotiable Instruments Act
ان قوانین کے متعدد پہلو اسلامی بینک کاری کے بنیادی اصولوں کے برعکس ہیں۔ مثال کے طور پر Banking Regulation Actکی شق ۲۱؍کے مطابق جمع کی گئی رقم پر سود دینا ضروری ہے۔ شق 5 (b)اور 5(c)خاص کرکے نفع اور نقصان میں شرکت کے اصول پر مبنی تصرف سے روکتے ہیں۔ اور شق 8کے مطابق کوئی بھی بینک کاری ادارہ بالواسطہ یا بلاواسطہ چیزوں کی خریدوفروخت یا لین دین میں شرکت نہیں کرسکتا جو کہ اسلامی بینک کاری کے تصور مرابحہ کے برعکس ہے جس کے مطابق بینک خریدوفروخت میں بلاواسطہ شریک ہوتے ہیں۔Income Tax Act – 1961کے مطابقFixed Depositپر کمائی گئی سود کی رقم پر TDSلگتا ہے۔ جبکہ اسلامی بینک کاری میں ڈپوزٹ پر ہونے والی آمدنی کے ساتھ مختلف برتاؤ کیا جاتا ہے۔
مزید یہ کہ ہندوستان کے تجارتی بینک دوسرے بینکوں سے یا مرکزی بینک سے اپنی وقتی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے قرض لیتے ہیں جبکہ اسلامی بینک ایسا نہیں کرسکتے کیوں کہ اس لین دین میں سود کا دخل ہوتا ہے۔
اپنے ملک میں عوامی سطح پر جب ہم اسلامی بینک کاری کے تصور کے سلسلے میں مطالعہ کرتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں اسلامی بینک کاری کے ماہرین اور تجربہ کار افراد کی سخت کمی ہے۔ اگرچہ چند تربیتی ادارے قائم کیے گئے ہیں، لیکن وہ تجربہ کار ماہرین کی کمی کو پورا کرنے سے قاصر ہیں۔
مزید یہ کہ عوام کا ایک بڑا طبقہ اسلامی بینک کاری کے تصور سے بے خبر ہے۔ بہت سے لوگوں کا یہ خیال ہے کہ یہ صرف مسلمانوں سے متعلق نظام ہے، جب کہ ملیشیا اور برطانیہ میں اسلامی بینکوں کے ۴۰؍ فیصد سے زیادہ گاہک غیر مسلم ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارا ملک برطانیہ کی قائم کردہ مثال پر عمل کرے اور اسلامی بینک کاری کی تجارت کو عمل میں لانے کے لیے مطلوبہ قانون سازی کرے جس سے کہ ملک کی ترقی کے ساتھ عوام کی خوشحالی ممکن ہوسکے۔
ہندوستانی مالیات کی ترقی آج دو چیزوں پر منحصر ہے، ملک کا داخلی سرمایہ اور ملک کے مالیاتی شعبہ کی عالمی سطح پر مقبولیت۔ اسلامی مالیاتی نظام کو عمل میں نہ لاکر ہمارا ملک مسلم آبادی کے بڑے طبقے سے سرمایہ حاصل کرنے کے موقع کو ٹھکرا رہا ہے اور مشرقِ وسطیٰ اور دیگر مسلم ممالک سے ممکنہ سرمایہ کو بھی نظر انداز کررہا ہے۔ حالانکہ صحیح بات یہ ہے کہ اسلامی مالیاتی نظام کی مقبولیت کا وقت آچکا ہے اور حکومت ہند کو اس کی اہمیت اور اہلیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights